ہفتہ، 8 نومبر، 2014

جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود

آہ! اے راز عیاں کے نہ سمجھنے والے  
حلقہ دام تمنا میں الجھنے والے 
ہائے غفلت! کہ تری آنکھ ہے پابند مجاز 
نازیبا تھا تجھے تو ہے مگر گرم نیاز
تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے 
نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے  

آج عالم اسلام میں فکر و عمل کی ہر سطح پر اضطراب اور ہلچل ہے۔ یہ اضطراب ایک طرف ملت اسلامیہ کی اجتماعی روح کی کروٹ کا آئینہ دار ہے تو دوسری طرف نئے شعور کی طلوع سحر کی نوید ہے۔ یہ وہی شعور ہے جو سفر تاریخ میں خود آگہی اور روح ِ عصر سے روبرو ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ آج علمی و تحقیقی اور فکری و تہذیبی دائروں میں جو شعور قومی اور عالمی سطح پر ابھر رہا ہے اسی کا پرتو فکر اقبالیات پر بھی دکھائی دینے لگا ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ آئن سٹائن نے کہیں کہا تھا کہ کائنات پر شعور کی حکومت ہے خواہ یہ شعور کسی ماہر ریاضیات کا سمجھا جائے یا کسی مصور یا شاعر کا۔ 
علامہ اقبال محض شاعرنہیں تھے بلکہ وہ برصغیر پاک و ہند کی سب سے بڑی نابغہ روزگار شخصیت تھے جنہوں نے اسلامی افکار اور اقدار کا بیسویں صدی کے افکار کی روشنی میں تجزیہ کیا  ان کی فکر و نظر قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ نہ وہ ایسے تجدد کو پسند کرتے تھے جو ہمارے سرمایہء ایمان کو اسلاف سے کاٹ دے اور نہ دین مُلا کے جمود کے حامی ہیں جس کی وجہ سے شریعت اسلامیہ کا تحرک رک جائے۔ اقبال جیسے خدا مست درویشوں ہی نے ہمیں زندگی کی حقیقی قدر و منزلت سے روشناس کرایا۔اقبال نے انسانیت کو سب سے بڑا پیغام دیا کہ سقراط کی سی فکر، عیسیٰؑ کا سا قلب اور قیصر کا سا ہاتھ پیدا کرو۔ جدید افکار اور فلسفہ عالم کی تاریخ میں علامہ کی شخصیت برگساں اور ڈیکارٹ کی شخصیات کی ہم پلہ ہے۔ 
علامہ اقبال کے دو نمایاں وصف تھے جنہیں ہم نے شعور ی طور پر نظر انداز کیا، ایک یہ کہ وہ ایک مجتہد تھے اور دوسرا یہ کہ وہ ایک مدبر سیاستدان ہیں۔ فکر اقبال کا بنیادی پیغام یہی ہے کہ جو مذہب جدید عہد کے سائنسی مذاق طبع کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل کی تشفی اور وحدت انسانیت کی پرورش نہیں کر سکتا بالآخر ختم ہو جائے گا۔  ان کا یقین تھا کہ اسلام عصر حاضر کے تقاضوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ صرف زندہ رہ سکتا ہے بلکہ مستقبل کا انسان اس مذہب کی آفاقی تعلیمات میں ایک ایسا جدید اور انقلابی معاشرتی نظام تلاش کر سکتا ہے جس کا مقصد ذات پات، مرتبہ و درجہ، رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مٹا دیتا ہے، اسلام کا مقصود انسان کی انسان پر خدائی اور فرد کی فرد پر حکومت کے تصورات کو پاش پاش کرنا اور انسانوں کو آزادی و حریت کا سبق پڑھانا ہے۔ یہ مذہب سرمایہ داروں، استحصال پسندوں اور پیشواؤں کی مدد نہیں کرتا۔ معاشرے کے احساسات کو مردہ نہیں کرتا اور یونانیوں کی طرح محض نظریوں پر زور دینے کی بجائے زندہ اور ٹھوس حقائق کا تجزیہ کرتا ہے۔ فکر اقبال سے آشنائی عیاں کرتی ہے کہ اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے انسانوں کی دنیاوی ضرورتوں کے مطابق قانون بنائے اور ان پر عمل کیا۔ دنیا کو یہ بتایا کہ حکومت عوام کی بہبود اور انتظامی سہولتوں کے مناسب اہتمام کا ذریعہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسلام کی اسی خوبی کی بنا پر کئی مفکرین و دانشور اس کے خاص مداح ہیں۔ گولڈ زئیر اپنے مشاہدے سے اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام نے مذہب کو سیکولر بنا دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ "Islam has secularized religion"۔
اقبال اپنے عہد کے واحد مدبر تھے جنہیں یہ خیال اور یقین تھا کہ یہ دور اسلامی تہذیب کے وسیع تر دائرہ بنانے کا دور بھی ہے بشرطیکہ مسلمان تین بنیادی تقاضوں کو پہچان سکے، ہنر مندی، زمان و مکان کی قوتوں کا ادراک او راجتہاد کی اہمیت۔ بد قسمتی سے یہ تاحال ممکن نہ ہو سکا۔ عظمت انسانی کے پیامبر اقبال آرزو مند تھے کہ مسلمان انسانیت کی معراج کو چھو لیں اور اس عمل میں وہ اپنی نئی زندگی ایسے خطوط پر استوار کرے جو روح اسلام کے مطابق اور روح عصر سے ہم آہنگ ہو۔ اسلامی افکار و اسلوب نئے تجربات اور علوم کی روشنی میں ترتیب دیئے جائیں تاکہ مسلمان ایک بار پھر کامران ہو۔ ندرت فکر و عمل میں ہی یہ راز پنہاں ہے اور جستجو کے بغیر یہ راز میسر نہیں آسکتا۔  
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود 
کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود
ہر اک منتظر تھی  تری یلغار کا 
ترقی شوخی فکر و کردار کا 
 معاشرہ مسلسل ترقی و تعمیر کا متقاضی ہوتا ہے۔ اگر کسی سماج کے ارکان تاریخ کے کسی اور دور سے اپنے آپ کو جکڑ لیں تو تغیر و ترقی کے اصول بھول جاتے ہیں۔ عظمت رفتہ کے ساتھ جھوٹا اور خیالی تقدس اور اسے بار بار دہرانے کا عمل معاشرے کے تنزل کا علاج نہیں۔تاریخ کا یہ سبق ہے کہ گھسے پٹے انداز فکر ان لوگوں کے ارتقاء و ترقی کی ضمانت نہیں بن سکتے جنہوں نے خود اس فکری انداز کو فرسودہ بنایا ہوتا ہے۔ فکر اقبال میں غوطہ زن ہو کر اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال سوال ”کافر“ کی طرح اور جواب کی تلاش ”قلب مومن“ سے کرتے ہیں۔ آج ملت ِ اسلامیہ کو اس روح کی اشد ضرورت ہے۔ علامہ اقبال اجتہاد پر اپنی کتاب تو مکمل نہ کر سکے لیکن سید سلیمان ندوی کو ارسال کیے گئے ان کے سوالات کا جنہیں ڈاکٹر جاوید اقبال نے ”زندہ رود“ میں بھی محفوظ کر دیا ہے کا مطالعہ کریں تو ”دماغش کا فراست“ والی بات سمجھ آجاتی ہے۔  
جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود 
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا  
خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے 
اس آبجو سے کئے بحر بیکراں پیدا!  
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے 
جوہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا  
میں نے شروع میں عرض کیا ہے کہ مسلم سماج کا اضطراب ایک طرح طلوع سحر کی نوید ہے۔ آج ہمیں آنے والے کل کی وارث نسلِ نو کو فکر اقبال سے متعارف کروانا ہے کہ اس فکر کی روشنی میں ہی وہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی اہل ہو سکتی ہے۔ یہی وہ نسل ہے جس سے علامہ اقبال کو بڑی امیدیں ہیں۔ 1937 میں فضل کریم کے نام خط میں علامہ اقبال نے لکھا کہ ”ذاتی طور پر میں پسند کروں گا کہ ہمارے نوجوان معلم اسکالرزریاضیات، فزکس، کیمسٹری، اور جورس پروڈنس کے مطالعہ پر اپنی توجہ مرتکز کریں۔ ان دنوں اسلام کے بہترین مفاد میں ہے کہ علم کی ان شاخوں کا مطالعہ کیا جائے۔ یہی ایک چیز ہے جو مسلمانوں کو جدید علوم کی جڑوں سے روشناس کرائے گی اور انہیں اس قابل بنائے گی کہ جدید دور کے مسائل کو سمجھ سکیں“۔ بے شک نوجوانوں اور مستقبل کی نئی نسل کی صلاحیتوں پر ان کا اعتماد ہی تھا جس کی بنیاد پر اقبال علامہ زرکشی کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ گزری ہوئی نسل کے مقابلے میں نئی نسل کے لیے اجتہاد زیادہ آسان ہے۔ اب قرآن و سنت کی اس قدر تفسیریں اور شرحیں لکھی جا چکی ہیں کہ ہمارے زمانے کے مجتہد کے پاس تعبیرات کے لیے کافی سے زیادہ مسالہ موجود ہے اور اسی لیے اجماع کے ذریعے اجتہاد کا جو حق پرانی نسل کو تھا وہی حق آج کے مسائل کے پیش نظر نئی نسلوں کو بھی ہے۔  
 میرا یقین ہے کہ اجتہاد کا دروازہ ہی ہمارے روشن مستقبل کا راستہ ہے۔ اس حوالے سے ہی میں سب سے فریاد کر رہا ہوں کہ طرز کہن کو ترک کر کے افکار تازہ کا دریچہ وا کر لیں اسی سے ہماری سماجی و ملی گھٹن کا خاتمہ ہو گا اور ہم صحت مند معاشرتی فضا میں ہی دنیا کی راہبری کے قابل ہو سکیں گے۔  فکر اقبال کو سمجھنے اور برتنے کی اشد ضرورت ہے۔

مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے سناؤں کس کو؟
تپشِ شوق کا نظارہ دکھاؤں کس کو؟ 
برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے  
دیکھنے والی ہے جو آنکھ کہاں سوتی ہے؟  
صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری  
آہ! اے رات بڑی دور ہے منزل میری  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں