پیر، 15 جنوری، 2018

زمیندار کالج کا روشن نصاب


زمیندار کالج کا روشن نصاب

شیخ عبدالرشید
سخنوروں کی بستی اور خطہئ یونان کی شہرت رکھنے والے گجرات کی حقیقی شناخت زمیندار کالج ہے۔ جس طرح تحریک پاکستان کا ذکر ایم اے او کالج علی گڑھ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اسی طرح گجرات کا ذکر بھی اس تاریخی اور تاریخ ساز کالج کے بغیر ممکن نہیں ہوپاتا۔ گجرات کی جدید تاریخ کی تخلیق اس درسگاہ میں ہوئی، اسی نے گذشتہ پون صدی سے گجرات کے شعور کو جلا بخشی ہے۔ اسی لیے علم دوست حلقے گجرات اور زمیندار کالج کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں علم پرور، کتاب دوست اور شفیق و خلیق استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال بٹ کی دعوت پر برادرم ڈاکٹر غلام علی کے ہمراہ زمیندار کالج جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ درسگاہ میری مادر علمی بھی ہے اور یہیں سے میں نے اپنے کیرئیر کا آغاز بھی کیا، چنانچہ اس کے درودیوار اور سحر انگیز فضا میرے لیے ہمیشہ ذہنی وفکری جلاء اور قلبی طمانیت کا سبب بنتی ہے۔ ڈاکٹر اقبال بٹ کی پر تکلف چائے کی میزپر جواں عزم پرنسپل پروفیسر عبید اللہ سے ملاقات ہوئی تو بے ساختہ ان کے مختصر دور کی ادارہ سازی کی کاوشوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ سرکاری تعلیمی ادراوں کی اصلاح پاکستان کا اہم مسئلہ ہے۔ بد انتظامی اور بدعنوانی ہمارے قومی مسائل ہیں۔ زمیندار کالج گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے قیادت کے تناظر میں قحط الرجال کا شکار رہا اور اپنی ادبی روایات، علمی مزاج اور انتظامی حسن سے محروم ہوتا چلا گیا تھا اور دھیرے دھیرے ایسا دکھائی دینے لگا کہ میرے ایک دوست اس کالج پر”زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشمین“ کی پھبتی کسنے لگے تھے۔ لیکن آخر کب تک یہ جاری رہتا۔ قدرت کو اس ادارے پر رحم آ گیا اور12اپریل2016ء کو اسی کالج کے شعبہ اکنامکس کے ایک فعال استاد پروفیسر عبید اللہ جو اپنی شرافت، دیانتداری اور دھیمی مسکراہٹ کی بدولت طالب علموں اور اساتذہ میں مقبول تھے انہوں نے بطور پرنسپل چارج لیا تو ایسے لگا جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آ گئی ہو۔ انہوں نے کامل دیانت و صداقت سے ہمہ جہت تدریسی و انتظامی اصلاحات کا علم بلند کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے صرف دو سال سے کم عرصے میں کالج کی قابل فخر تاریخ، عظیم روایات اورعلمی و ادبی ماحول کو ایسے مثبت تبدیلی کے عمل سے گزارا کہ سول سوسائٹی ان کے عہد کو ”نشاۃ ثانیہ“ کا دور کہنے لگی ہے۔ انہوں نے تھوڑے وقت میں زیادہ کام کیا اور اپنے مخلص ساتھیوں کے ہمراہ شب و روز تعمیر و ترقی کا نیا عہد تخلیق کیا۔ تعلیم، تدریس، تربیت کا امتزاج متعارف کروایا۔ آزادی کو نظم وضبط میں پرویا اور سہولتوں کی فراہمی کا کھلے دل سے اہتمام کیا۔ کالج کی علمی وادبی رونق کو بحال کرکے عظمت رفتہ کی بازیافت کا کارہائے نمایاں سرانجام دیا۔ کالج کی بدلتی فضا اور آگے قدم بڑھاتی تاریخ پر گفتگو جاری تھی کہ پروفیسر عبید اللہ نے کمال محبت سے کالج کے تاریخی مجلے ”شاہین“ کا تازہ شمارہ پیش کیا۔ شاہین2017-18بذات خود ان کے ذوق سلیم،جمالیات اور وژن کا مرقع تھا۔ لگ بھگ اڑھائی سو صفحات پر مشتمل شاہین اپنے سرورق سے لے کر آخر تک پکار پکار کر کہہ رہا تھ اکہ ”وہ ایک پیکر کہ تو بھی رشک کرے۔“ مدیر اعلیٰ پروفیسر سید وقار افضل کا اداریہ کھولا تو تسلی ہوئی کہ وہ بھی میرے ہم خیال تھے۔ رقم طراز ہیں کہ ”اداروں کی بقا کا عمل جہاں ہر فرد کے احساس ذمہ داری سے منسلک ہے، وہاں اعلیٰ قیادت بھی اس کا اوّلین جزو ہے۔ گورنمنٹ زمیندار کالج اس حوالے سے ہمیشہ خوش قسمت رہا ہے کہ اس ادارے کو ایسے سربراہان (پرنسپلز) ملے جو اپنے کام اور ادارے کے ساتھ مخلص تھے۔ زمیندار کالج کے موجودہ پرنسپل پروفیسر عبید اللہ جس لگن اور دیانتداری کے ساتھ کالج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے عمل میں مصروف ہیں وہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ قابل تقلید بھی۔ انہوں نے مجلس ادرات کو”شاہین“ کی اشاعت یقینی بنانے کے لیے ممکنہ سہولیات فراہم کیں۔ اس لیے، اس سال کے شمارے میں طلبہ کی تحریروں کی تعداد اس بات کی غماز ہے کہ پہلے کی طرح اب بھی زمیندار کالج کے شاہینوں کو اس ادارے کے اندر ایک ایسی نئی تخلیقی فضا میسر ہے جو انہیں قلم اور کتاب کی طرف مائل کر رہی ہے“۔مجھے بر ادرم وقار افضل کے بارے میں یقین ہے کہ وہ بلا جواز تعریف کرنے کے عادی نہیں، اس اداریے کا حرف حرف کالج میں ”احیائے نو“ کی کہانی کا گواہ ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ پروفیسر عبید اللہ نے اصلاحات کا یہ عمل کرتے ہوئے بطور منتظم خود کو غیر جانبدار اور ذاتی مفادات سے بالا تر رکھا۔یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
تعلیمی ادارں کے مجلے عمومی طور پر طلبہ اور اساتذہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کے عکاس ہوتے ہیں لیکن ہماری تعلیمی روایت میں یہ طالب علموں کی علمی زندگی، تہذیبی تربیت اور مذاق لطیف کی پرورش کا ناگذیر جزو سمجھتے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلمان شاہجہاں پوری ان کے مقصد تصنیف و تالیف میں طلبہ کی تربیت اور تنقید و تحقیق میں ان کی رہنمائی بتاتے ہیں۔ بلاشبہ کسی کالج کا میگزین اس ادارے سے وابستہ طلبہ و اساتذہ کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ مجلے نئے لکھنے والوں کے لیے گہوارے کا کام دیتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں۔ یہ میگزین ایسی تجربہ گاہ ثابت ہوتے ہیں جن میں نوخیز تصورات پرورش پاتے ہیں اوربعض اوقات تو ادب کی نئی روایات کا نقطہ آغاز ثابت ہوتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس روایت کو علی گڑھ میگزین اور پنجاب یونیورسٹی نے پروان چڑھانے میں سرگرم حصہ لیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے”روای“ اور اسلامیہ کالج کے”کریسنٹ“کے ساتھ ساتھ زمیندار کالج کا مجلہ”شاہین“بھی قیام پاکستان سے قبل ہی شہرت عام حاصل کر چکا تھا۔ یہ مجلہ اس پُر شکوہ کالج کی عظیم الشان روایت ہے۔ اس کی مجلس ادرات میں سرپرست پروفیسر عبید اللہ پرنسپل، نگران پروفیسرغلام عباس وائس پرنسپل ہیں جبکہ اس کے روح رواں پروفیسر سید وقار افضل مدیر اعلیٰ، کالج کے ہر دلعزیز استاد پروفیسر راشد اللہ بٹ مدیر حصہ انگریزی جبکہ کتاب دوست ڈاکٹر سید وسیم رضا گردیزی مدیر حصہ پنجابی ہیں۔ معاون مدیران میں محمد جاوید ساغر، محمد مہدی خاور اور سید عامر علی اور طالب علم مدیران میں محسن شہزاد، روا ناز، صفورا مریم، سید محمد احسن، فائزہ صابر چوہدری کے نام درج ہیں۔ ٹائٹل پر کالج کی پُر کشش تصویر کو رنگوں کے امتزاج سے دلکش روپ دیا گیا ہے۔ یہ سہ زبانی مجلہ ہے۔ صفحہ چار اور پانچ پر اداریہ، سید وقار افضل کی نثری تحریر اور فکر ی اسلوب کا مظہر ہے اور اس پر نگاہ ڈالنے کے بعد ممکن نہیں کہ قاری اس مجلے کو صفحہ در صفحہ نہ کھولے۔ آغاز میں پرنسپل پروفیسر عبید اللہ کا چھ صفحات پر مشتمل مختصر مگر جامع انٹرویو ہے۔ نقد و نظر کے حصے میں ایم خالد فیاض کا مضمون ”نائن الیون اور اردو افسانہ“، حافظ محمود اختر کا ”مجید امجد کی نظم حسین کا تجزیاتی مطالعہ“، پروفیسر راشد اللہ بٹ کا مضمون”ادب ایک تعارف، ایک تاثر“ سنجیدہ اور فکر انگیز مضامین ہیں۔ حسن نوشاہی، صبا ارشد، عنبرین فاطمہ، سونیا افتخار اور سمیرا عباس نے حالی، انتطارحسین، انور مسعود، اکبر الٰہ آبادی کے حوالے سے خوب لکھا ہے۔ اس کے بعد بزم خیال میں کالج اور کالج کی زندگی کا رنگ غالب ہے۔ افسانہ نامہ ہے۔ سفر نامے ہیں، خاکے ہیں اور مضامین بھی ہیں۔ صفحہ 132سے152تک رنگ سخن ہے جس میں غزل و نظم ہے۔ صفحہ153سے182تک پنجاب رنگ ہے۔ پنجابی میں مضامین اور غزلیں و نظمیں ہیں۔ انگریزی حصہ میں ادب اور ادبی تقاضوں کے حوالے سے ترجمہ کا موضوع نمایاں ہے۔ راشد اللہ بٹ اور انور حسین سید کے شاندار تراجم ہیں۔ پروفیسر محمد اقبال بٹ کا آرٹیکل ترجمہ! وسعت اور چیلنجز خاص مضمون ہے اور پڑھنے اور سراہنے کے لائق بھی ہے۔ انگریزی حصہ بھی پچاس سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ جگہ جگہ کالج کی کار گزاری اور تقریبات کی تصاویرمجلے کے حُسن کو دوبالا کر رہی ہیں۔اس مجلے کی ورق گردانی سے ہم اس ادارے کی علمی و ادبی اورتعلیمی و تحقیقی زندگی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہاں طالب علموں کو مختلف موضوعات اور مسائل پر غوروفکر کی عادت بھی ہے اوران میں اظہار خیال کی قوت بھی دکھائی دیتی ہے۔ شاہین نے ہمیشہ اس کالج کے طلبہ کی ادبی تربیت اور مزاج سازی میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس کے لیے اس کالج کے اساتذہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ شاہین کا حالیہ شمارہ دیکھنے اور پڑھنے کے بعد یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس کی ادبی خدمات کا دائرہ مزید وسیع ہوا ہے جو نہ صرف زمیندار کالج کے ماحول کے ساتھ ساتھ ہمارے قومی ادبی منظرنامے کو منور کر رہا ہے۔ اسی حوالے سے اسے تعلیمی مجلے سے بڑھ کر ادبی مجلوں کو صف میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ شاہین کا یہ شمارہ اپنے عہد کے تخلیقی و ادبی سفر کی اہم دستاویز ہے جس پر مدیر اعلیٰ و مدیران مبارکبا د کے حقدار ہیں۔
پروفیسر عبید اللہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر انسان صحیح سمت میں خلوص نیت سے کوشش کرے تو ہمت مرداں، مدد خدا کاقول سچ ثابت ہو جاتا ہے۔ انہوں نے قدیم روایت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے کالج کے تن مردہ میں نئی جان ڈالی ہے۔ صلاحیت، معاملات کی شفافیت، میرٹ و انصاف، تعلیمی نظم و ضبط اور بالخصوص طالب علموں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا انتظام انکے مختصر دور کے دُوررس اثرات کے حامل اقدامات ہیں۔ انہوں نے اللہ کے فضل سے چیلنج قبول کیے اور محنت و دیانت سے معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھایا اور آج ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ پروفیسر عبید اللہ نے دو سالہ دور میں دو عشروں کا کام کیا ہے۔اتنا کام صمیم قلب اور شب و روز محنت سے ہی ممکن ہے۔ کالج کے درودیوار، مسحور کن فضا، صاف و شفاف ماحول، تعمیر و ترقی، طالب علم اور اساتذہ بجا طور پرگواہی دے رہے ہیں کہ
؎ معجزہئ فن کی ہے خون جگر سے نمود

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں