پیر، 16 مئی، 2016

فلاح معاشرہ اور مساجد و آئمہ مساجد کا کردار

فلاح معاشرہ اور مساجد و آئمہ مساجد کا کردار 



ہمارا دین رحمت جس ضابطہ حیات کی دعوت دیتا ہے اس میں اجتماعی فوز و فلاح کا راز مضمر ہے اور ایک ایسے خدا پرست معاشرے کا داعی ہے جس کے افراد ایک خالق و مالک کے رشتے سے باہم اخوت و محبت رکھتے ہیں، ان کی پوری زندگی انتہائی نظم و ضبط اور کامل اطاعت کا مظہر ہو اور اس میں انتشار، افتراق، بے ترتیبی کا گذر نہ ہو، اس کے رکوع و سجود بھی انہی صفات کے حامل ہوں اور تمام شعبہئ ہائے حیات میں بھی یکجہتی کا مظاہرہ دکھائی دے۔ 
اسلام کے تصور مدنیت میں لوگوں کے شعور کی تربیت اسی اساس پر ہے کہ عبادت صرف دعا اور مناجات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی معنویت زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ اس تناظر میں سماج میں مسجد کے مقام کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض مقام صلوٰۃ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کا دارالامارت بھی ہے اور اس کا منبر مقام وعظ و تذکیر ہی نہیں بلکہ ریاستی پالیسی کے اعلانات کی سرکاری جگہ ہے۔ اسلام کا یہ امتیازی وصف ہے کہ اس نے مساجدکی تقدیس و حرمت کو وسیع معنویت عطا کی ہے اور انہیں اس نظام حیات کی تربیت گاہ قرار دیا ہے جو دین و دنیا دونوں پر محیط ہے۔ تھنکرز فورم کڑیانوالہ کے سماجی راہنما عاطف رزاق بٹ اور کیئرز پاکستان دہمتھل کے سرپرست پروفیسرتنویر احمد نوید سماج سدھار کے لیے ہر لمحہ متحرک رہتے ہیں اور اس کار خیر کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ علاقے میں اسلامی بھائی چارے کا فروغ ان کے مشن کی نمایاں ترجیح ہے انہوں نے بڑی جہاندیدگی سے ”فلاح معاشرہ میں مساجد اور آئمہ مساجد کا کردار“ کے موضوع پر چراغ اعظم ٹرسٹ بھنگرانوالہ کے اشتراک سے مکالمے کی فکر انگیز محفل کا اہتمام کیا اور خلوص نیت سے علاقہ کے ممتاز علمائے دین اور آئمہ مساجد جو مختلف مسالک سے تعلق رکھتے تھے ان کو مدعو کیا۔ مکالمے میں مجھ نا چیز سمیت، جامعہ گجرات کے پروفیسر ڈاکٹر غلام علی کو بھی شرکت کی دعوت دی۔ اتوار 15 مئی کے روز امریکہ میں مقیم دانشور جاوید اعظم چوہدری کی میزبانی میں مکالمے کی محفل میں شرکت خوشگوار حیرت کا موجب بنی۔میزبان چوہدری جاوید اعظم نے تعارفی کلمات میں واضح کیا کہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں مسجد کا رول کلیدی رہا ہے۔ رسول اللہ ؐاور اصحاب رسولؐ کی زندگی میں مسجد دینی، سماجی اور سیاسی تمام قسم کی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کا مرکز ہوتی تھی مگر آج کل محلوں میں مساجد جزیرے بن کر رہ گئی ہیں۔ ان کو آباد کرنا اور معاشرے سے جوڑنا لازمی ہے۔ میں نے عرض کیا ابتدائے اسلام میں نبی کریم ؐ امام بھی تھے اور خطیب بھی اور اسی طرح خلفائے راشدین، امراء و قائدین سب امامت و خطابت کے منصب پر فائز ہوا کرتے تھے۔ اس لیے کسی مسجد کے امام و خطیب کے لیے علم و اخلاق کے اعتبار سے مضبوط ہونا معاشرہ کی فلاح کے لیے ناگذیر ہے۔ چونکہ امام و خطیب ہی کے ذریعے مسجد اپنا روحانی، ثقافتی اور سماجی کردار ادا کرتی ہے اس لیے ان کی حیثیت مسجدوں کے ستون اور معمار کی سی ہوتی ہے۔ 
مسجد مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا ایسا مرکز و محور ہے جہاں سے ان کے تمام مذہبی، اخلاقی، اصلاحی، تعلیمی، تمدنی، ثقافتی، تہذیبی، سیاسی اور اجتماعی امور کی راہنمائی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ مسجد دین کی ہمہ گیر یت اور جامعیت کو مستحکم کرنے والے ادارے کی حیثیت کی حامل ہے۔ مسجد مسلمانوں کے درمیان اخوت و بھائی چارے کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ثمر آور کردار کی ضامن ہے۔ قرون اولیٰ میں مسجد کی حیثیت دارالخلافہ سے لے کر غرباء و مساکین کی قیام گاہ تک تھی۔ یہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوتی اور یہیں سے دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات کے اطوار طے ہوتے تھے۔ یہ خلیفہ کا مسکن اور معاہدات کی جگہ تھی۔ اجتماعی کاموں کی منصوبہ بندی اور مفاد عامہ کی فلاح کی پالیسیاں مسجد میں ہی تشکیل پاتی تھیں۔ جب تک سماج میں مسجد کو یہ مقام حاصل رہا، مسلمان امت واحدہ رہے لیکن جیسے جیسے سماج اور مسجد میں فاصلہ بڑھتا گیا، نظم ختم ہوتا گیا، انتشار، فرقہ واریت اور دین سے دوری بھی بڑھتی گئی۔ مساجد ہی تعلیم و تربیت کا مرکز ہوتی تھیں۔ جامعہ الازھر پہلے ایک مسجد ہی تھی اور اپنے کردار سے جامعہ میں تبدیل ہو گئی۔ اس سے مسلم سماج پر مسجد کے اثرات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس کے اثرات کم ہونے کی وجہ سے مسلم سماج کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ مسجد کا سب سے اہم کام مسلمانوں میں اجتماعیت کا قیام اور اسے پائیدار بنانا تھا مگر ہمارے ہاں مسجدیں مسلکی کش مکش کے مراکز بن کر رہ گئی ہیں۔ آج جب ہم ہر لحاظ سے نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھ رہے ہیں تو لازم ہے کہ مسجد کو مسلم سماج سے مطلوب سطح پر جوڑ دیا جائے۔ مسلمانوں کی فکر سازی اور سماجی اصلاح دونوں کام مسجد سے لیے جا سکتے ہیں مسجد کی انتظامیہ اور اس کا امام صحیح شعور سے بہر ہ ور ہو جائے تو مسجد امت مسلمہ کے لیے ایک فکر ساز ادارے یعنی تھنک ٹینک کا کام کر سکتی ہے۔ ایسے ہی جیسے شروع میں نبی کریم ؐ نے مسجد کو مقام و مرکزیت دی تھی۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے مسجد کو مرکز بنانے سے بہت سے تنازعے، فتنے اور فروعات ختم ہو جائیں گے۔ یقین مانیں مسجد کو اپنا حقیقی مقام مل جائے تو سماج سے بڑے مسائل ختم کیے جا سکتے ہیں۔ 
عصری منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو عیاں ہوتا ہے کہ غیر مسلم معاشروں میں موجود اقلیتی مسلمانوں کی مساجد مسلم اکثریتی معاشرے کی مساجد سے زیادہ فعال اور بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ مساجد اسلامک سنٹرز کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اپنی مساجد کو آباد اور فعال کرنے کے لیے ہمیں انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا تاکہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن سکیں۔ لوگ اس طرف دلچسپی لیں گے، اس طرف آئیں گے تو ہی اصلاح اور فلاح کی تربیت ممکن ہو گی۔ ہماری مساجد میں خواتین کا داخلہ بند کر کے 52 فیصد مسلمانوں کو ویسے ہی لا تعلق کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں مجتہدانہ فکر سے کام لینا ہو گا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مساجد کے ساتھ کمیونٹی سنٹرز ہونا ضروری ہے۔ تاکہ لوگ وہاں آئیں اپنی اپنی دلچسپی کے کاموں میں مشغول رہنے کے ساتھ ساتھ نماز پنجگانہ بھی خشوع و خضوع سے ادا کریں۔ مساجد میں کتب خانوں کی ثقافت متعارف کروانی پڑے گی۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ہم ایئر کنڈیشنر تو مساجد میں لگا لیتے ہیں، ڈیجیٹل لائبریری قائم نہیں کرتے۔ہمیں مساجد کے فلاحی کردار کو بحال کرنے کے لیے مختلف فلاحی تنظیموں کے تعاون سے مسجدوں میں رضا کار ڈاکٹر اور فرسٹ ایڈ کی فراہمی ممکن بنانی ہو گی۔ محلہ داروں میں آگاہی مہم متعارف کروانی ہو گی۔ مساجد میں ریفریشر کورسز شروع کروانے ہوں گے۔ نمازیوں اور مسجد آنے والوں میں باہمی بھائی چارگی سے ایک دوسرے سے تعاون اور امداد کو پروان چڑھانا ہو گا۔ صرف مسجد کے لیے چندہ مانگنے کی بجائے غریب اور مستحق اہل محلہ کی مدد کے لیے متحرک کردار ادا کرنا ہو گا۔ مسجد کے ساتھ ہم بزرگ شہریوں کے بیٹھنے، اخبار پڑھنے کی سہولت وغیرہ کا انتظام کردیں تو مسجد میں آنے کا رجحان بڑھ جائے گا۔ مسجدوں میں ان موضوعات پر گفتگو کو عام کرنا جن پر ملت اسلامیہ متحد ہے۔ مسلمان اللہ کے سپاہی ہیں جن کا مرکز اور چھاؤ نی مسجد ہے۔ آئمہ مساجد کو مل بیٹھ کر اپنی اپنی مسجد کو آباد کرنے کے لیے زمینی حقائق،عصری چیلنجوں اور مستقبل کی مشکلات کے ادراک کے پیش نظر باہمی اتفاق سے لائحہ عمل ترتیب دینا ہے اور امام و راہبر کا فریضہ ادا کرنا ہے۔مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علامہ رضا المصطفیٰ، قاری محمد عیسیٰ، قاری محمد نعیم، قاری غلام نبی، حافظ محمد الیاس، قاری ذوالفقار جلالی، قاری غلام محمد، قاری ساجد وٹو اور مذہبی سیاسی شخصیت فیاض شاہد بٹ سمیت شرکاء نے کمال محبت و شفقت سے میری گفتگو کو سنا اور مثبت انداز میں میری بات کو آگے بڑھایا۔ ڈاکٹر غلام علی نے جدید علوم کے تقاضوں اور دینی ہم آہنگی کے ثمرات سے آگاہ کیا اور برداشت، رواداری،تحمل اور تحرک کو نصب العین بنانے کی ترغیب دی اور خطبوں کو جوش کی بجائے ہوش سے ترتیب دینے کی استدعا کی۔ اس مکالمے میں شریک ہر فرد خلوص نیت سے اتفاق و اتحاد کا داعی نظر آرہا تھا۔ مکالمے کی ایسی کاوشیں ہی افہام و تفہیم سے اسلام کی حقیقی روح کے تعارف کے لیے نا گذیر ہیں۔ منتظمین و میزبان جزائے خیر کے حقدار ہیں۔ مکالمے میں شریک مختلف الخیال علماء کی شرکت اور تحمل و تدبر قابل تحسین تھا۔ ہر ایک نے ایک دوسرے محلے کی مساجد میں جانے کا اعادہ کیا۔  
مسلکی اور گروہی تضادات میں بٹے معاشرے میں مساجد اور آئمہ مساجد کے فعال کردار سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ مسجد کے کردار کو بحیثیت ادارہ فروغ دے کر مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مساجد کو امت مسلمہ کی یکجائی کا مرکز و محور بنا کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی مسیحا کا انتظار کرنے کی بجائے ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھنا ہے اور اپنی اپنی بساط کے مطابق علاقائی اور مقامی سطح پر اقدامات کرنے ہیں۔ سماج میں نیک لوگوں کی کمی نہیں،انہیں اعتماد دینے اور حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔مسجد کا سماجی کردار وسیع ہو گا تو امامت کے ادارے کی اہمیت بھی بڑھے گی اور مسجد کے امام کو ”دو رکعت کا امام“ سمجھنے کے رویے میں تبدیلی پیدا ہو گی اور پھر سماجی علوم کے حامل علوم دین سے بہرہ مند با صلاحیت اور زرخیز فکر علما وفضلا امامت کی طرف آئیں گے۔ جن سے عوام کی دینی و سماجی ذہن سازی ہو سکے گی۔ مساجد اور آئمہ کے کردار سے ہماری مدنی اور تہذیبی زندگی میں اسلام کی روح نظر آنے لگے گی۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں