پیر، 20 نومبر، 2017

سویا وہ زیر خاک تو اک عہد سو گیا


ارنسٹ ہیمنگوے نے کہا تھا کہ ہر آدمی کی زندگی کا انت ایک جیسا ہو تا ہے، صرف ایک چیز اسے دوسروں سے منفرد بناتی ہے اور وہ یہ کہ اس نے زندگی کیسے گذاری اور اسے موت کیسے آئی؟۔ یہ بات اتوار کی دوپہر مجھے اس وقت یا دآئی جب خاموش طبع دانشور استاد پروفیسر طارق محمود طارقؔ کی وفات کی اطلاع بذریعہ وٹس ایپ برادرم پروفیسرکلیم احسان بٹ نے دی۔ موت انسان کا مقدر ہے۔ موت کی فاتحانہ یلغار ہر چھوٹے، بڑے آدمی کو اَن جانے ماضی سے اس مستقبل تک لے جاتی ہے جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ ان کے انتقال پُرملال کی خبرسنتے ہی ان کی یادوں نے اردگرد ڈیرا آ لگایا۔ معصوم شکل، سنجیدہ مزاج اور دبلے جسم کے طارق محمود طارقؔ دھیمے مزاج کے پورے آدمی تھے۔ نزاکت ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔ وہ چلتے بھی اتنی آہستگی سے تھے کہ کہیں زمین پر پاؤں رکھنے سے زمین کو درد نہ ہو۔ 
درحقیقت وہ اتنے نفیس انسان تھے کہ کسی قسم کی سختی ان کے مزاج کا حصہ ہی نہیں تھی۔ زمنیدار کالج کے اساتذہ کی کثیر تعداد کے باوجود وہ اپنے نرم مزاج اور پُر وقار اندا زکی بنا پر الگ ہی نظر آتے تھے۔ جس متانت و وقار سے زندہ رہے تھے اسی خاموشی اور باوقار انداز میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ 
کاروانِ زندگی پیہم رواں  ہے  صبح  و  شام 
اس فنا کے دیس میں،  حاصل ہوا کس کو  قیام
پھول جو کھلتا ہے، وہ اک دن یہاں مرجھائے گا 
یہ سرائے فانی ہے، جو آئے گا ،  وہ  جائے  گا 
پروفیسر طارق محمود طارق ؔ15جولائی1950ء کو گجرات شہر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد پبلک ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ حالات نے مزید تعلیم سے بہت روکا لیکن انہوں نے انٹرمیڈیٹ سے ایم اے تک تعلیم کے تمام درجات لگن اور محنت سے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پاس کیے۔ وہ اپنے علمی و ادبی ذوق کی بدولت شعر و ادب سے وابستہ ہوئے اور گجرات کی علمی و ادبی محفلوں کا حصہ بنے۔ گجرات میں مبارک احمد کے متحرک حلقے اور حلقہ ارباب ذوق کی ادبی بیٹھکوں کے فعال ممبر رہے۔ انہیں ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے اس زمانے کے نیشنل سنٹر کی لائبریری میں ملازمت کا موقع ملا تو انہوں نے گجرات کے نیشنل سنٹر کو ادبی تقریبات کا مرکز بنانے میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ نیشنل سنٹر کی کتابوں کے محافظ بھی تھے،انہوں نے لائبریری میں بیٹھ کر کتب بینی کوہی اپنا مشغلہ بنا لیا۔ ہر وقت کتاب پڑھنا ان کی عادت بن گئی۔ اپنے مطالعے اور ادب دوستی کی بدولت وہ 1987ء میں گورنمنٹ زمیندار کالج کے شعبہ اُردو سے وابستہ ہو گئے۔ وہ شریف النفس انسان، کتاب دوست استاد اور صاحب مطالعہ دانشور تھے، اس لیے صرف طالبعلموں کے پسندیدہ استاد ہی نہیں تھے بلکہ اساتذہ بھی ان کی علمی وجاہت اور تنقیدی فکر کے دلدادہ تھے۔ وہ مزاجاً محفل باز نہیں تھے، تفکر و تدبرکی عادت کے حامل ہونے کے ناطے اکیلے بیٹھ کر غور وفکر کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن کیا کیجئے جہاں روشنی ہو گی پروانے تو جمع ہو ہی جاتے ہیں۔ لہذا طارق صاحب جہاں بیٹھتے ان کے چاہنے والے وہیں علمی مکالمے کی محفل جما لیتے تھے۔ علی گڑھ کی روحانی میراث کا حامل زمیندار کالج اس زمانے میں حقیقی معنوں میں علم و ادب کا گہوراہ تھا اس کا تدریسی ماحول علمی شناخت کا حامل تھا۔ طارق محمو دطارقؔ اس کالج کے شعبہ اردو کا مان تھے۔ فرض شناس تدریسی مہارتوں کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پختہ تنقیدی وفکری دانش کے علمبردار تھے۔وہ ادب شناس ہی نہیں سراپائے ادب و تہذیب بھی تھے، کسی بھی علمی محفل میں انکی موجودگی بڑی با برکت سمجھی جاتی تھی۔ وہ کم گو تھے اور اکثر ہلکی اور میٹھی مسکراہٹ سے ہی کام چلا لیا کرتے تھے لیکن جب کسی بھی موضوع پر بولتے تو سامعین کے پا س ہمہ تن گوش ہونے کے علاوہ چارہ نہ ہوتا تھا۔ دانش و تفکر سے لبریز گفتگو ادبی اسلوب اور فلفسیانہ پیرائے میں شروع کرتے تو سننے والے سر ُدھنتے رہ جاتے تھے۔ شعبہ اردو کے نوجوان اساتذہ اپنی کلاسیں پڑھانے کے لیے لیکچر کی تیاری کے لیے ان کے گھٹنے پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے اور کئی تو ان سے سنی باتوں کو بیان کرکے دانشوری ظاہر کرتے تھے۔ وہ بھی بڑے انہماک سے جواں عزم اساتذہ کی راہنمائی کرتے اور انہیں کتاب دوستی کا درس بھی دیتے۔ برادرم پروفیسر کلیم احسان بٹ کی دوستی کی بدولت شعبہ اردو کے اساتذہ سے میرا محبت اور احترام کا خاص رشتہ تھا۔ کلیم صاحب محفل باز آدمی تھے اور حاضر جوابی سے محفلوں کو کشت زعفران بنانے کا گُر خوب جانتے تھے۔ وہ طارق صاحب کے شاگرد بھی تھے اور اب ان کے ساتھی تھے۔ وہ طارق صاحب کو اکثر لے کر کنٹین پر آ جاتے اورپھر محفل جم جاتی۔ زمیندار کالج کی کنٹین ان دنوں کالج کا   ”پاک ٹی ہاؤس“ ہوا کرتی تھی۔ اساتذہ وہیں بیٹھ کر دل کی بھڑاس نکالتے تھے۔ پروفیسر عبدالواحد، سیف الرحمان سیفی، بہاء الحق عارف، سید مظہر علی شاہ، سید محفوظ علی شاہ، محمد اسلم اعوان، مینر الحق کعبی، حکیم سید صابر علی، ظفر اقبال ہاشمی ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ وہاں اپنی اپنی محفل جما کر بیٹھا ہوتا تھا۔ نوجوان اساتذہ میں سے میاں انعام الرحمان، راشد اللہ بٹ، کلیم احسان بٹ، سید وقا ر افضل، ڈاکٹر وسیم گردیزی، سید فیاض حسین شاہ، راجہ خالد، ملک شفیق، ناصر وڑائچ سمیت بہت سے دوست محفل جماتے اور وہاں ہلکی پھلکی گفتگوکے ساتھ دنیا بھر کے ادبی نظریوں، فکری زاویوں، حالات حاضرہ اور شعر و نقد کا محاکمہ کرتے۔ طارق صاحب ان محفلوں کا حصہ ہی نہیں جانِ محفل ہوا کرتے تھے۔ 
میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ایک روز عرض کیا کہ طارق صاحب تمام تر سخنوری کے باوجود ہم اعلیٰ ادب کیوں تخلیق نہیں کر پا رہے؟ طارق صاحب کے الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ   ”دولت کی زیادتی، اخلاقی و سیاسی زوال اعلیٰ خیالات کی موت ہے۔ جب اعلیٰ فکر نہ ہو توا علیٰ ادب کیسے پیدا ہو سکتا ہے“۔ میں چھٹی کے بعد اکثر ان کے ہمراہ کچہر ی چوک تک پیدل جاتا تھا تاکہ راستے میں گفتگو کے ذریعے ان سے استفادہ کرتا رہوں۔ مجھے لکھنے کا شوق تھا میں نے اس حوالے سے بات کی تو کہنے لگے شیخ صاحب! ”بڑی کتاب لکھنے کے لیے موضوع بڑا ہونا چاہیے“۔ زمیندار کالج کی کینٹین کی علمی مباحثوں اور فکری مکالموں کی روایت بڑی شاندار تھی۔ طارق محمود طارق ان میں باقاعدگی سے شریک ہوتے اور اکثر اس متانت و سنجیدگی کے ساتھ شریک ہوتے کہ انکی خاموشی بھی کلام کرتی تھی، ان کی سادگی، نفاست اور احترام ِانسانیت کے جذبے کی وجہ سے ہر کوئی ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ 
تہذیب و آگہی کے سبق اس کے نطق میں 
دل کی صداقتوں سے منور تھی اس کی ذات 
طارق محمود طارق فطرتاً شاعر تھے۔ ان کی اردو شاعری کا اکلوتا مجموعہ1984ء میں ”شہرہجر“ کے نام سے شائع ہوا۔ شاعری سے حقیقی معنوں میں لطف اندوزی ایک ایسی استغراقی کیفیت کا تقاضا کرتی ہے جس میں حس، فکر اور جذبے کے عناصر باہم آمیز ہو کر ایک طبعی سکون پیدا کرتے ہیں۔ شاعری اپنی تخلیق سے پہلے اور بعد بھی، انسان کے تمام وکمال تجربے سے تعلق رکھتی ہے۔ انسانی تجربے کے سارے عناصر، فکر اور جذبے کی ہر کاروائی اس پر اثر انداز بھی ہوتی ہے اور اس سے اثر اندوز بھی ہوتی ہے۔ طارق صاحب شعر پسندی میں استغراق شعر کے درجے پر فائز تھے یعنی شعری فہمی میں بھی انہیں کمال حاصل تھا۔ شعر کے مرکزی تجربے میں اخل ہونا، عقلی و عملی سیاق و سباق سے جداگانہ چیز ہے۔ اپنی خالص ترین صورت میں شاعری کو فکر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، کیونکہ فکر و عمل دونوں اس کے استغراق کے موضوع بن جاتے ہیں۔  طارق صاحب شاعرانہ تجربے کے اس درجے کی بنیاد پر ہی و نقد و نظر کے رموز سے آشنا ہوتے تھے اور انہوں نے میرؔ اورمجید امجد جیسے شعراء پرلکھتے ہوئے اسی تجربے سے رس کشیدکیا۔ ان کے نثری و تنقیدی مضامین”ماہ نو“، ”اوراق“ اورزمیندار کالج کے مجلے ”شاہین“ کی زینت بنتے رہے ہیں۔ موصوف تنقیدی نثر میں بھی منفر د اسلوب کے مالک تھے۔ نفسیاتی اور فلسفیانہ حوالوں سے فن پاروں کا ماہرانہ تجزیہ کرتے تھے۔ شعروں کا تنقیدی جائزہ لیتے اور فن پاروں میں خوبصوریتوں کے متلاشی رہتے تھے۔ ان کی تحریریں خاص خوشبو کی حامل ہیں۔ 
برادرم طارق محمود طارق ؔجیسے فہم و ادراک والے افراد کی محفلوں کا ہی اثر ہے کہ محبت نے میرے آنسوؤں کو اُداس کیفیت میں بہنے کا ہنر سکھایا ہے اور میرے دل کو ماتمی گیتوں سے روشناس کرایا ہے۔ طارق صاحب کی وفات کی خبر ملی توا ن کے چاہنے والے سید وقار افضل کوفون کیا کہ تدفین کہا ں ہو گی؟ معلوم ہوا کہ انہوں نے گڑھی کے علاقے سے رہائش قمر سیالوی روڈ پر منتقل کر لی تھی، تاہم تدفین آبائی علاقے میں ہی ہو گی۔ میں نے اپنی ساری مصروفیات ترک کیں اور سخن شناس دوست ڈاکٹر غلام علی سربراہ شعبہ علوم ترجمہ جامعہ گجرات کو ساتھ لیا اور شاہدولہ روڈ پر چاہ بیری والا قبرستان میں حقیقی دانشور استاد کی تدفین میں شرکت کے لیے نمناک آنکھوں اور بوجھل دل سے پہنچا۔ طارق محمو دطارقؔ کافی عرصے سے شوگر جیسے مرض اور اسکے اثرات کا شکار تھے اور چند دنوں سے لاہور میں زیر علاج تھے۔18نومبر کی رات راہِ حق کے مسافر ہو گئے، تاہم ان کے بیٹے کے کی امریکہ سے آمد پر 19نومبر بروز اتوار دن دو بجے ان کی نماز جنازہ مولوی امین مدنی نے پڑھائی۔ اور پھر اہل خانہ اوردوست احباب کی سسکیوں و آہوں کے سایے تلے، نمناک آنکھوں اور ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ مسجد حاجی حسن سے ملحق قبرستان چاہ بیری ولا میں اس علمی چراغ کو سپرد خاک دیا گیا تاکہ زیر زمین بھی روشنی ہو۔ وہ اتنے شریف النفس اور پاکباز تھے کہ ان کے لیے مغفرت کی دعا اور جنازہ میں شرکت مجھ سمیت حاضرین کے لیے باعث بخشش ثابت ہو گی۔ بلاشہ وہ گجرات کے ان اساتذہ میں شامل تھے جنہیں اسلاف کی عظمت کی نشانی قرار دیا جا سکتا ہے اورمطالعہ و کتب بینی جن کی آخری سانسوں تک جاری رہی۔ طارق صاحب مطمئن آدمی تھے لیکن یہ سچ ہے کہ آدمی اس وقت تک خوش نہیں ہوتا جب تک اس کا آخری دن نہ آ جائے اور وہ سرحد پار نہ کر جائے جو زندگی کو موت سے الگ کرتی ہے۔  اللہ کریم انہیں جوار ِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین 

کس منہ سے کہیں کہ وہ ہم میں نہیں رہا 
کیسے کہیں کہ ہم کومیسر تھی اس کی ذات 

جمعہ، 3 نومبر، 2017

تصو یرِ قائد کی وفات


عظیم باپ کی عظیم بیٹی، تصویر محمد علی جناح دینا واڈیا کی2نومبر2017ء بروز جمعرات نیویارک میں اپنے گھر میں ابدی نیند سو جانے کی خبر نے دل بوجھل کر دیا۔ دینا واڈیا برصغیر پاک و ہند کی دو عظیم شخصیات محمد علی جناح اور رتن بائی کی محبت کی نشانی تھیں۔ محمد علی جناح اور رتی جناح شادی کے بعد انگلستان کے سفر پر تھے کہ ان کی زندگی کا اہم واقعہ پیش آیا۔ یہ وسط اگست کی ایک شام تھی جب جناح، رتی کو تھیٹر دکھانے لے گئے۔ وہاں رتی کی طبیعت خراب ہونے پر انہیں تھیٹر سے اٹھ کر ہسپتال جانا پڑا۔ یہ14اور15اگست1919ء کی درمیانی شب تھی وہاں ان کی دنیا میں ایک ننھی منی جان نے قدم رکھا یہ ان کی اکلوتی بیٹی دینا تھی۔ ظاہر ہے محبت کرنے والے ماں باپ نے اس کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہو گا۔ دینا کے ایام طفولیت کا فی مشکل تھے کہ ان کے والدین کے ازدواجی تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے اور پھر علیحدگی پر جا کر رُکے۔ دینا دس سال کی تھی کہ اس کی والدہ انتقال کر گئیں۔ بلاشبہ محبت ابتلاء و آزمائش سے گزرتی ہے لیکن خود بہت شفیق ہوتی ہے۔ محمد علی جناح کی لخت جگر کا اصل نام صوفیہ تھا اور عرفیت دینا، اس لیے وہ دینا جناح کے نام سے جانی جانے لگیں۔ وہ قائد اعظم کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ ایک شفیق باپ کی طرح وہ اسے بہترین تعلیم دلانے کے آرزو مند تھے۔ 
جی الانہ کے مطابق دینا جب بارہ سال کی عمر کو پہنچیں تو انہیں انگلستان کے ایک بورڈنگ سکول میں داخل کر ا دیا گیا۔ قائد اعظم جب انگلستان جاتے تو دینا اپنی تعطیلات اپنے والد کے ساتھ گزراتی تھیں۔ اپنی محبوبہ بیوی کی وفات کے بعد دینا ہی اس کی واحدنشانی تھی۔ باپ اب اپنی ساری محبت اور شفقت اسی پر نچھاور کرنے لگا تھا۔تاہم والد کی سیاسی مصروفیات کے باعث دینا ننھیال کے زیادہ قریب رہنے لگی تھی۔ 1932ء میں جناح نے کمال اتاترک کی سوانح"Grey Wolf"پڑھی تو اس سے بہت متاثر ہوئے وہ اکثر گھر میں اس کتاب کا تذکرہ کرتے انہوں نے یہ کتاب دینا کو بھی دی۔ دینا اکثر اپنے بابا کو   ”گرے ولف“ کے نام سے ہی پکارتی تھی۔ 
محمد علی جناح کو اپنی بیٹی کی پارسی خاندان میں شادی کے فیصلے پراختلاف ہوا۔ انہوں نے مولانا شوکت علی کو بھی دینا کو سمجھانے کا کہا تاہم وہ اپنے فیصلے کی پکی تھیں، انہوں نے25نومبر1938ء کو پارسی نوجوان سے شادی کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر باپ بیٹی میں کچھ ناراضگی بھی ہوئی۔ قائد اعظم کے ڈرائیور محمد حنیف آزاد کے بقول ایک دفعہ وہ گاڑی چلا رہے تھے، قائد اعظم پچھلی نشست پر بیٹھے تھے۔ سامنے سے ان کی بیٹی دینا کی گاڑی آ گئی۔ میں نے خاص طور پر شیشے میں سے قائد اعظم کا رویہ دیکھناچاہا۔ جب دینا کی گاڑی قریب سے گزری تو قائد اعظم نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ بلاشبہ شادی کے مسئلے پر بیٹی سے ناراضگی تھی اور یہ ایک فطری امر ہے۔نیول واڈیا سے   ا ن کی شادی کامیاب نہ رہی اور پانچ سال بعد ہی1943ء میں علیحدگی ہو گئی۔ تاہم اس کو بنیاد پر کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ قائد اعظم نے بیٹی سے تعلق توڑلیا۔ ایسا بالکل نہیں تھا۔ دینا کی شادی کو ابھی چھ ماہ ہی گذرے تھے کہ قائد اعظم نے30مئی1939ء کو اپنی وصیت لکھی۔ ناراضگی یاقطع تعلقی تھی تو وہ دینا کو ترکے سے محروم کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی بیٹی کے لیے تاحیات دو لاکھ رروپے کی رقم کا منافع مختص کر دیا اور وصیت کی کہ دینا کی وفات کے بعد تمام رقم دینا کی اولاد کو منتقل کر دی جائے۔ کوئی والد اپنی عاق شدہ اولاد کے لیے ایسی وصیت نہیں لکھ سکتا۔ باپ بیٹی کی محبت کے رشتے کی کئی شہادتیں ہیں۔ خاص طور پر سالگرہ و دیگر مواقع پرقائد اعظم کو بھیجے جانے والے دینا واڈیا کے تہنیتی کارڈز اور ان کی تحریریں قائد اعظم اور دینا کے درمیان خط و کتابت باپ بیٹی کے پیا رکا عکس ہیں۔28اپریل1947ء کے ایک خط میں دینا لکھتی ہیں ”مائی ڈئیر پاپا! پہلے تو آپ کو مبارکباد دوں کہ ہمیں پاکستان مل گیا، یعنی اصولی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ میں اس پر کتنا فخر اور خوشی محسوس کر رہی ہوں۔ آپ نے اس کے لیے کتنی محنت کی ہے!۔“ ایک اور خط میں دینا نے باپ سے والہانہ لگاؤ کا اظہار کیا اور ان سے رشتے پر فخر کا اظہار کیا۔ لکھتی ہیں ”پیارے پاپا! آپ کے شفقت نامے کا بے حد شکریہ، میں جانتی ہوں آپ کس قدر مصروف ہیں۔ شاید اس لمحے آپ وائسرئے کے ساتھ ہوں گے۔ آپ نے پچھلے چند سالوں میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ حیرت انگیزہے اور میں آپ سے اپنی نسبت پر فخر اور انبساط محسوس کرتی ہوں۔ہندوستان بھر میں آپ وہ واحد شخص ہیں جو حقیقت پسند، راست باز، دانا اور بے مثال مدبر ہیں۔ شاید اب یہ کسی پرستار کا خط بن گیا ہے، ٹھیک کہہ رہی ہوں نا!میں نے آپ کی3جون کی تقریر سنی۔ میرے خیال میں آپ کی تقریر سب سے بہتر اور موضوع کے عین مطابق تھی۔ آپ جو چاہتے تھے وہ پورے طور پر نہ مل سکا لیکن پھر بھی آپ نے بہت کچھ حاصل کر لیا۔ کانگریس کا غرور کس طرح ٹوٹا۔ یہاں کے ہندو پاکستان کے تسلیم کیے جانے اوردو مملکتوں کے قیام پر خوش نہیں ہیں۔ اب آپ کے سامنے بڑا مسئلہ در پیش ہے یعنی پاکستان کو عملی جامہ پہنانا۔ میں جانتی ہوں کہ آپ اس میں بھی کامیاب ہوں گے۔“ ان خطوط میں دینا کو اپنے باپ سے نسبت پر بہت فخر تھا۔ قائد کو اپنی بیٹی سے ہی نہیں نواسوں سے بھی بہت پیا ر تھا۔ نسلے واڈیا نے ایک مرتبہ کہا کہ تھا ”بچپن میں ایک بار نانا ہمارے ہاں ملنے آئے تو میں ان کی ٹوپی سے کھیلنے لگا۔ نانانے یہ ٹوپی مجھے دے دی جسے میں نے ہمیشہ اپنی زندگی کی قیمتی متاع کے طور پر سنبھال رکھا ہے!
قیام پاکستان کے بعد قائدا عظم کی وفات پر وہ تدفین میں شریک ہوئیں۔ قائد اعظم کے اے ڈی سی کیپٹن این اے حسین کے مطابق بابائے قوم کی وفات پر ان کی بیٹی مسز واڈیا کو اسی رات بمبئی میں اطلاع دی گئی جس پر وہ اگلی صبح بروقت کراچی پہنچ گئیں۔ وہ سیاہ لباس پہنے ہوئے جنازے اور تدفین میں شریک ہوئیں۔ وہ اپنی پھوپھی فاطمہ جناح کے ہمراہ قائد کی پسندیدہ سیاہ کار ہمبرپل میں تشریف فرما تھیں۔تدفین کے بعد اگلے روز وہ فلیگ سٹاف ہاؤس گئیں تو اس میں بابا کی چیزیں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں۔ انہوں نے بہت سی اشیاء کو شناخت کر لیا، ان اشیاء کی خریداری کا سال اور جگہ بھی ان کو یاد تھی۔ انہیں ہر شے کے متعلق ہر وہ تعریفی جملہ بھی یاد آر ہا تھا جو قائد اعظم نے ان اشیاء کے بارے میں فرمایا تھا۔ قائد اعظم اور ان کی بیٹی کے درمیان ملاقاتیں اور خط و کتابت و رابطے ہمیشہ رہے۔ بابائے قوم کو اپنی تصویر دینا سے بہت لگاؤ تھا۔ نواب بہادر یار جنگ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ قائد اعظم کے ہاں گئے۔ قائد اعظم کسی دوسرے کمرے میں تھے۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد وہ بھی ادھر چل دیے۔ میں نے دیکھا قائد اعظم ایک صندوق پر جھکے ہوئے ہیں اور کوئی چیز دیکھ رہے ہیں اور آبدیدہ ہیں۔ نواب صاحب کہتے ہیں مجھے تعجب ہوا۔ اس پر قائد اعظم نے بتایا کہ یہ میری بیٹی کے بچپن کے کپڑے ہیں۔ آج اس کی سالگرہ ہے۔ وہ اسے یاد کر رہے ہیں۔ چاہنے والوں میں ایک خفیہ معاہدہ ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو محبتوں کے سرکش جذبے خامیوں کو خوبیاں بنا دیتے ہیں۔ 
1976ء میں قائد اعظم کی سویں سالگرہ کے حوالے سے ایک کتاب شائع ہوئی"Pakistan: Past & Present"اس میں دینا واڈیا نے اپنے والد کے حوالے سے"A Daughter's Memory"کے نام سے تاثرات رقم کیے۔
"My father was not a demonstrative man. But he was an affectionate father. My last meeting with him took place in Bombay in 1946....He phoned inviting me and my children to tea. He was very happy to see us. We mostly talked about the children and politics."
2004ء میں دینا واڈیا پاک بھار ت میچ دیکھنے کے لیے پاکستان آئیں۔یہاں انکا والہانہ خیر مقدم کیا گیا۔ انہوں نے بھی بڑے پُرتپاک جذبات کا اظہار کیا۔ وہ والد کی قبر پر بھی گئیں اور اپنے تاثرات رقم بھی کیے۔ انہوں نے اپنے جذبات کے غلبے کو چھپانے کے لیے والد کی قبر پر جاتے ہوئے کسی کو ساتھ نہیں آنے دیا۔ قائد اعظم اور ان کی بیٹی کی نسبت اور مراسم بڑے خوشگوار رہے۔2007ء میں دینا جناح نے بھارتی حکومت کو درخواست دی کہ بمبئی کے جناح ہاؤس کو ان کی ملکیت میں دیا جائے۔ جس گھر میں بچپن گزرا، اسی میں زندگی کے آخری سال گذارنا چاہتی ہیں تا ہم انہیں اس کا جواب نہیں ملا۔ انکے پاس برطانوی اور ہندوستانی شہریت تھی لیکن وہ گذشتہ کئی عشروں سے امریکہ کے شہر نیویارک میں رہائش پذیر تھیں۔ جہاں انہوں نے داعی اجل کولبیک کہا۔ 2نومبر کو جب ان کی وفات کی خبر سنی تو باپ بیٹی کی محبت و لگاؤ کے لازوال تاثرات خوب یاد آئے۔ وقت سے بے نیاز، زمانے کی آندھیوں کی گرد ایسے پختہ رشتوں پر نہیں جمتی۔دینا قائد اعظم کی تصویر دکھائی دیتی تھیں۔ انھے دیکھ کر قائد اعظم خوب یاد آ رہے ہیں۔ ان کی وفات سے ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔دعاہے کہ پروردگار ان کی اُخروی منزلیں آسان کرے۔