جمعہ، 3 نومبر، 2017

تصو یرِ قائد کی وفات


عظیم باپ کی عظیم بیٹی، تصویر محمد علی جناح دینا واڈیا کی2نومبر2017ء بروز جمعرات نیویارک میں اپنے گھر میں ابدی نیند سو جانے کی خبر نے دل بوجھل کر دیا۔ دینا واڈیا برصغیر پاک و ہند کی دو عظیم شخصیات محمد علی جناح اور رتن بائی کی محبت کی نشانی تھیں۔ محمد علی جناح اور رتی جناح شادی کے بعد انگلستان کے سفر پر تھے کہ ان کی زندگی کا اہم واقعہ پیش آیا۔ یہ وسط اگست کی ایک شام تھی جب جناح، رتی کو تھیٹر دکھانے لے گئے۔ وہاں رتی کی طبیعت خراب ہونے پر انہیں تھیٹر سے اٹھ کر ہسپتال جانا پڑا۔ یہ14اور15اگست1919ء کی درمیانی شب تھی وہاں ان کی دنیا میں ایک ننھی منی جان نے قدم رکھا یہ ان کی اکلوتی بیٹی دینا تھی۔ ظاہر ہے محبت کرنے والے ماں باپ نے اس کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہو گا۔ دینا کے ایام طفولیت کا فی مشکل تھے کہ ان کے والدین کے ازدواجی تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے اور پھر علیحدگی پر جا کر رُکے۔ دینا دس سال کی تھی کہ اس کی والدہ انتقال کر گئیں۔ بلاشبہ محبت ابتلاء و آزمائش سے گزرتی ہے لیکن خود بہت شفیق ہوتی ہے۔ محمد علی جناح کی لخت جگر کا اصل نام صوفیہ تھا اور عرفیت دینا، اس لیے وہ دینا جناح کے نام سے جانی جانے لگیں۔ وہ قائد اعظم کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ ایک شفیق باپ کی طرح وہ اسے بہترین تعلیم دلانے کے آرزو مند تھے۔ 
جی الانہ کے مطابق دینا جب بارہ سال کی عمر کو پہنچیں تو انہیں انگلستان کے ایک بورڈنگ سکول میں داخل کر ا دیا گیا۔ قائد اعظم جب انگلستان جاتے تو دینا اپنی تعطیلات اپنے والد کے ساتھ گزراتی تھیں۔ اپنی محبوبہ بیوی کی وفات کے بعد دینا ہی اس کی واحدنشانی تھی۔ باپ اب اپنی ساری محبت اور شفقت اسی پر نچھاور کرنے لگا تھا۔تاہم والد کی سیاسی مصروفیات کے باعث دینا ننھیال کے زیادہ قریب رہنے لگی تھی۔ 1932ء میں جناح نے کمال اتاترک کی سوانح"Grey Wolf"پڑھی تو اس سے بہت متاثر ہوئے وہ اکثر گھر میں اس کتاب کا تذکرہ کرتے انہوں نے یہ کتاب دینا کو بھی دی۔ دینا اکثر اپنے بابا کو   ”گرے ولف“ کے نام سے ہی پکارتی تھی۔ 
محمد علی جناح کو اپنی بیٹی کی پارسی خاندان میں شادی کے فیصلے پراختلاف ہوا۔ انہوں نے مولانا شوکت علی کو بھی دینا کو سمجھانے کا کہا تاہم وہ اپنے فیصلے کی پکی تھیں، انہوں نے25نومبر1938ء کو پارسی نوجوان سے شادی کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر باپ بیٹی میں کچھ ناراضگی بھی ہوئی۔ قائد اعظم کے ڈرائیور محمد حنیف آزاد کے بقول ایک دفعہ وہ گاڑی چلا رہے تھے، قائد اعظم پچھلی نشست پر بیٹھے تھے۔ سامنے سے ان کی بیٹی دینا کی گاڑی آ گئی۔ میں نے خاص طور پر شیشے میں سے قائد اعظم کا رویہ دیکھناچاہا۔ جب دینا کی گاڑی قریب سے گزری تو قائد اعظم نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ بلاشبہ شادی کے مسئلے پر بیٹی سے ناراضگی تھی اور یہ ایک فطری امر ہے۔نیول واڈیا سے   ا ن کی شادی کامیاب نہ رہی اور پانچ سال بعد ہی1943ء میں علیحدگی ہو گئی۔ تاہم اس کو بنیاد پر کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ قائد اعظم نے بیٹی سے تعلق توڑلیا۔ ایسا بالکل نہیں تھا۔ دینا کی شادی کو ابھی چھ ماہ ہی گذرے تھے کہ قائد اعظم نے30مئی1939ء کو اپنی وصیت لکھی۔ ناراضگی یاقطع تعلقی تھی تو وہ دینا کو ترکے سے محروم کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی بیٹی کے لیے تاحیات دو لاکھ رروپے کی رقم کا منافع مختص کر دیا اور وصیت کی کہ دینا کی وفات کے بعد تمام رقم دینا کی اولاد کو منتقل کر دی جائے۔ کوئی والد اپنی عاق شدہ اولاد کے لیے ایسی وصیت نہیں لکھ سکتا۔ باپ بیٹی کی محبت کے رشتے کی کئی شہادتیں ہیں۔ خاص طور پر سالگرہ و دیگر مواقع پرقائد اعظم کو بھیجے جانے والے دینا واڈیا کے تہنیتی کارڈز اور ان کی تحریریں قائد اعظم اور دینا کے درمیان خط و کتابت باپ بیٹی کے پیا رکا عکس ہیں۔28اپریل1947ء کے ایک خط میں دینا لکھتی ہیں ”مائی ڈئیر پاپا! پہلے تو آپ کو مبارکباد دوں کہ ہمیں پاکستان مل گیا، یعنی اصولی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ میں اس پر کتنا فخر اور خوشی محسوس کر رہی ہوں۔ آپ نے اس کے لیے کتنی محنت کی ہے!۔“ ایک اور خط میں دینا نے باپ سے والہانہ لگاؤ کا اظہار کیا اور ان سے رشتے پر فخر کا اظہار کیا۔ لکھتی ہیں ”پیارے پاپا! آپ کے شفقت نامے کا بے حد شکریہ، میں جانتی ہوں آپ کس قدر مصروف ہیں۔ شاید اس لمحے آپ وائسرئے کے ساتھ ہوں گے۔ آپ نے پچھلے چند سالوں میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ حیرت انگیزہے اور میں آپ سے اپنی نسبت پر فخر اور انبساط محسوس کرتی ہوں۔ہندوستان بھر میں آپ وہ واحد شخص ہیں جو حقیقت پسند، راست باز، دانا اور بے مثال مدبر ہیں۔ شاید اب یہ کسی پرستار کا خط بن گیا ہے، ٹھیک کہہ رہی ہوں نا!میں نے آپ کی3جون کی تقریر سنی۔ میرے خیال میں آپ کی تقریر سب سے بہتر اور موضوع کے عین مطابق تھی۔ آپ جو چاہتے تھے وہ پورے طور پر نہ مل سکا لیکن پھر بھی آپ نے بہت کچھ حاصل کر لیا۔ کانگریس کا غرور کس طرح ٹوٹا۔ یہاں کے ہندو پاکستان کے تسلیم کیے جانے اوردو مملکتوں کے قیام پر خوش نہیں ہیں۔ اب آپ کے سامنے بڑا مسئلہ در پیش ہے یعنی پاکستان کو عملی جامہ پہنانا۔ میں جانتی ہوں کہ آپ اس میں بھی کامیاب ہوں گے۔“ ان خطوط میں دینا کو اپنے باپ سے نسبت پر بہت فخر تھا۔ قائد کو اپنی بیٹی سے ہی نہیں نواسوں سے بھی بہت پیا ر تھا۔ نسلے واڈیا نے ایک مرتبہ کہا کہ تھا ”بچپن میں ایک بار نانا ہمارے ہاں ملنے آئے تو میں ان کی ٹوپی سے کھیلنے لگا۔ نانانے یہ ٹوپی مجھے دے دی جسے میں نے ہمیشہ اپنی زندگی کی قیمتی متاع کے طور پر سنبھال رکھا ہے!
قیام پاکستان کے بعد قائدا عظم کی وفات پر وہ تدفین میں شریک ہوئیں۔ قائد اعظم کے اے ڈی سی کیپٹن این اے حسین کے مطابق بابائے قوم کی وفات پر ان کی بیٹی مسز واڈیا کو اسی رات بمبئی میں اطلاع دی گئی جس پر وہ اگلی صبح بروقت کراچی پہنچ گئیں۔ وہ سیاہ لباس پہنے ہوئے جنازے اور تدفین میں شریک ہوئیں۔ وہ اپنی پھوپھی فاطمہ جناح کے ہمراہ قائد کی پسندیدہ سیاہ کار ہمبرپل میں تشریف فرما تھیں۔تدفین کے بعد اگلے روز وہ فلیگ سٹاف ہاؤس گئیں تو اس میں بابا کی چیزیں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں۔ انہوں نے بہت سی اشیاء کو شناخت کر لیا، ان اشیاء کی خریداری کا سال اور جگہ بھی ان کو یاد تھی۔ انہیں ہر شے کے متعلق ہر وہ تعریفی جملہ بھی یاد آر ہا تھا جو قائد اعظم نے ان اشیاء کے بارے میں فرمایا تھا۔ قائد اعظم اور ان کی بیٹی کے درمیان ملاقاتیں اور خط و کتابت و رابطے ہمیشہ رہے۔ بابائے قوم کو اپنی تصویر دینا سے بہت لگاؤ تھا۔ نواب بہادر یار جنگ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ قائد اعظم کے ہاں گئے۔ قائد اعظم کسی دوسرے کمرے میں تھے۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد وہ بھی ادھر چل دیے۔ میں نے دیکھا قائد اعظم ایک صندوق پر جھکے ہوئے ہیں اور کوئی چیز دیکھ رہے ہیں اور آبدیدہ ہیں۔ نواب صاحب کہتے ہیں مجھے تعجب ہوا۔ اس پر قائد اعظم نے بتایا کہ یہ میری بیٹی کے بچپن کے کپڑے ہیں۔ آج اس کی سالگرہ ہے۔ وہ اسے یاد کر رہے ہیں۔ چاہنے والوں میں ایک خفیہ معاہدہ ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو محبتوں کے سرکش جذبے خامیوں کو خوبیاں بنا دیتے ہیں۔ 
1976ء میں قائد اعظم کی سویں سالگرہ کے حوالے سے ایک کتاب شائع ہوئی"Pakistan: Past & Present"اس میں دینا واڈیا نے اپنے والد کے حوالے سے"A Daughter's Memory"کے نام سے تاثرات رقم کیے۔
"My father was not a demonstrative man. But he was an affectionate father. My last meeting with him took place in Bombay in 1946....He phoned inviting me and my children to tea. He was very happy to see us. We mostly talked about the children and politics."
2004ء میں دینا واڈیا پاک بھار ت میچ دیکھنے کے لیے پاکستان آئیں۔یہاں انکا والہانہ خیر مقدم کیا گیا۔ انہوں نے بھی بڑے پُرتپاک جذبات کا اظہار کیا۔ وہ والد کی قبر پر بھی گئیں اور اپنے تاثرات رقم بھی کیے۔ انہوں نے اپنے جذبات کے غلبے کو چھپانے کے لیے والد کی قبر پر جاتے ہوئے کسی کو ساتھ نہیں آنے دیا۔ قائد اعظم اور ان کی بیٹی کی نسبت اور مراسم بڑے خوشگوار رہے۔2007ء میں دینا جناح نے بھارتی حکومت کو درخواست دی کہ بمبئی کے جناح ہاؤس کو ان کی ملکیت میں دیا جائے۔ جس گھر میں بچپن گزرا، اسی میں زندگی کے آخری سال گذارنا چاہتی ہیں تا ہم انہیں اس کا جواب نہیں ملا۔ انکے پاس برطانوی اور ہندوستانی شہریت تھی لیکن وہ گذشتہ کئی عشروں سے امریکہ کے شہر نیویارک میں رہائش پذیر تھیں۔ جہاں انہوں نے داعی اجل کولبیک کہا۔ 2نومبر کو جب ان کی وفات کی خبر سنی تو باپ بیٹی کی محبت و لگاؤ کے لازوال تاثرات خوب یاد آئے۔ وقت سے بے نیاز، زمانے کی آندھیوں کی گرد ایسے پختہ رشتوں پر نہیں جمتی۔دینا قائد اعظم کی تصویر دکھائی دیتی تھیں۔ انھے دیکھ کر قائد اعظم خوب یاد آ رہے ہیں۔ ان کی وفات سے ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔دعاہے کہ پروردگار ان کی اُخروی منزلیں آسان کرے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں