پیر، 20 نومبر، 2017

سویا وہ زیر خاک تو اک عہد سو گیا


ارنسٹ ہیمنگوے نے کہا تھا کہ ہر آدمی کی زندگی کا انت ایک جیسا ہو تا ہے، صرف ایک چیز اسے دوسروں سے منفرد بناتی ہے اور وہ یہ کہ اس نے زندگی کیسے گذاری اور اسے موت کیسے آئی؟۔ یہ بات اتوار کی دوپہر مجھے اس وقت یا دآئی جب خاموش طبع دانشور استاد پروفیسر طارق محمود طارقؔ کی وفات کی اطلاع بذریعہ وٹس ایپ برادرم پروفیسرکلیم احسان بٹ نے دی۔ موت انسان کا مقدر ہے۔ موت کی فاتحانہ یلغار ہر چھوٹے، بڑے آدمی کو اَن جانے ماضی سے اس مستقبل تک لے جاتی ہے جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ ان کے انتقال پُرملال کی خبرسنتے ہی ان کی یادوں نے اردگرد ڈیرا آ لگایا۔ معصوم شکل، سنجیدہ مزاج اور دبلے جسم کے طارق محمود طارقؔ دھیمے مزاج کے پورے آدمی تھے۔ نزاکت ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔ وہ چلتے بھی اتنی آہستگی سے تھے کہ کہیں زمین پر پاؤں رکھنے سے زمین کو درد نہ ہو۔ 
درحقیقت وہ اتنے نفیس انسان تھے کہ کسی قسم کی سختی ان کے مزاج کا حصہ ہی نہیں تھی۔ زمنیدار کالج کے اساتذہ کی کثیر تعداد کے باوجود وہ اپنے نرم مزاج اور پُر وقار اندا زکی بنا پر الگ ہی نظر آتے تھے۔ جس متانت و وقار سے زندہ رہے تھے اسی خاموشی اور باوقار انداز میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ 
کاروانِ زندگی پیہم رواں  ہے  صبح  و  شام 
اس فنا کے دیس میں،  حاصل ہوا کس کو  قیام
پھول جو کھلتا ہے، وہ اک دن یہاں مرجھائے گا 
یہ سرائے فانی ہے، جو آئے گا ،  وہ  جائے  گا 
پروفیسر طارق محمود طارق ؔ15جولائی1950ء کو گجرات شہر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد پبلک ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ حالات نے مزید تعلیم سے بہت روکا لیکن انہوں نے انٹرمیڈیٹ سے ایم اے تک تعلیم کے تمام درجات لگن اور محنت سے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پاس کیے۔ وہ اپنے علمی و ادبی ذوق کی بدولت شعر و ادب سے وابستہ ہوئے اور گجرات کی علمی و ادبی محفلوں کا حصہ بنے۔ گجرات میں مبارک احمد کے متحرک حلقے اور حلقہ ارباب ذوق کی ادبی بیٹھکوں کے فعال ممبر رہے۔ انہیں ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے اس زمانے کے نیشنل سنٹر کی لائبریری میں ملازمت کا موقع ملا تو انہوں نے گجرات کے نیشنل سنٹر کو ادبی تقریبات کا مرکز بنانے میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ نیشنل سنٹر کی کتابوں کے محافظ بھی تھے،انہوں نے لائبریری میں بیٹھ کر کتب بینی کوہی اپنا مشغلہ بنا لیا۔ ہر وقت کتاب پڑھنا ان کی عادت بن گئی۔ اپنے مطالعے اور ادب دوستی کی بدولت وہ 1987ء میں گورنمنٹ زمیندار کالج کے شعبہ اُردو سے وابستہ ہو گئے۔ وہ شریف النفس انسان، کتاب دوست استاد اور صاحب مطالعہ دانشور تھے، اس لیے صرف طالبعلموں کے پسندیدہ استاد ہی نہیں تھے بلکہ اساتذہ بھی ان کی علمی وجاہت اور تنقیدی فکر کے دلدادہ تھے۔ وہ مزاجاً محفل باز نہیں تھے، تفکر و تدبرکی عادت کے حامل ہونے کے ناطے اکیلے بیٹھ کر غور وفکر کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن کیا کیجئے جہاں روشنی ہو گی پروانے تو جمع ہو ہی جاتے ہیں۔ لہذا طارق صاحب جہاں بیٹھتے ان کے چاہنے والے وہیں علمی مکالمے کی محفل جما لیتے تھے۔ علی گڑھ کی روحانی میراث کا حامل زمیندار کالج اس زمانے میں حقیقی معنوں میں علم و ادب کا گہوراہ تھا اس کا تدریسی ماحول علمی شناخت کا حامل تھا۔ طارق محمو دطارقؔ اس کالج کے شعبہ اردو کا مان تھے۔ فرض شناس تدریسی مہارتوں کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پختہ تنقیدی وفکری دانش کے علمبردار تھے۔وہ ادب شناس ہی نہیں سراپائے ادب و تہذیب بھی تھے، کسی بھی علمی محفل میں انکی موجودگی بڑی با برکت سمجھی جاتی تھی۔ وہ کم گو تھے اور اکثر ہلکی اور میٹھی مسکراہٹ سے ہی کام چلا لیا کرتے تھے لیکن جب کسی بھی موضوع پر بولتے تو سامعین کے پا س ہمہ تن گوش ہونے کے علاوہ چارہ نہ ہوتا تھا۔ دانش و تفکر سے لبریز گفتگو ادبی اسلوب اور فلفسیانہ پیرائے میں شروع کرتے تو سننے والے سر ُدھنتے رہ جاتے تھے۔ شعبہ اردو کے نوجوان اساتذہ اپنی کلاسیں پڑھانے کے لیے لیکچر کی تیاری کے لیے ان کے گھٹنے پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے اور کئی تو ان سے سنی باتوں کو بیان کرکے دانشوری ظاہر کرتے تھے۔ وہ بھی بڑے انہماک سے جواں عزم اساتذہ کی راہنمائی کرتے اور انہیں کتاب دوستی کا درس بھی دیتے۔ برادرم پروفیسر کلیم احسان بٹ کی دوستی کی بدولت شعبہ اردو کے اساتذہ سے میرا محبت اور احترام کا خاص رشتہ تھا۔ کلیم صاحب محفل باز آدمی تھے اور حاضر جوابی سے محفلوں کو کشت زعفران بنانے کا گُر خوب جانتے تھے۔ وہ طارق صاحب کے شاگرد بھی تھے اور اب ان کے ساتھی تھے۔ وہ طارق صاحب کو اکثر لے کر کنٹین پر آ جاتے اورپھر محفل جم جاتی۔ زمیندار کالج کی کنٹین ان دنوں کالج کا   ”پاک ٹی ہاؤس“ ہوا کرتی تھی۔ اساتذہ وہیں بیٹھ کر دل کی بھڑاس نکالتے تھے۔ پروفیسر عبدالواحد، سیف الرحمان سیفی، بہاء الحق عارف، سید مظہر علی شاہ، سید محفوظ علی شاہ، محمد اسلم اعوان، مینر الحق کعبی، حکیم سید صابر علی، ظفر اقبال ہاشمی ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ وہاں اپنی اپنی محفل جما کر بیٹھا ہوتا تھا۔ نوجوان اساتذہ میں سے میاں انعام الرحمان، راشد اللہ بٹ، کلیم احسان بٹ، سید وقا ر افضل، ڈاکٹر وسیم گردیزی، سید فیاض حسین شاہ، راجہ خالد، ملک شفیق، ناصر وڑائچ سمیت بہت سے دوست محفل جماتے اور وہاں ہلکی پھلکی گفتگوکے ساتھ دنیا بھر کے ادبی نظریوں، فکری زاویوں، حالات حاضرہ اور شعر و نقد کا محاکمہ کرتے۔ طارق صاحب ان محفلوں کا حصہ ہی نہیں جانِ محفل ہوا کرتے تھے۔ 
میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ایک روز عرض کیا کہ طارق صاحب تمام تر سخنوری کے باوجود ہم اعلیٰ ادب کیوں تخلیق نہیں کر پا رہے؟ طارق صاحب کے الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ   ”دولت کی زیادتی، اخلاقی و سیاسی زوال اعلیٰ خیالات کی موت ہے۔ جب اعلیٰ فکر نہ ہو توا علیٰ ادب کیسے پیدا ہو سکتا ہے“۔ میں چھٹی کے بعد اکثر ان کے ہمراہ کچہر ی چوک تک پیدل جاتا تھا تاکہ راستے میں گفتگو کے ذریعے ان سے استفادہ کرتا رہوں۔ مجھے لکھنے کا شوق تھا میں نے اس حوالے سے بات کی تو کہنے لگے شیخ صاحب! ”بڑی کتاب لکھنے کے لیے موضوع بڑا ہونا چاہیے“۔ زمیندار کالج کی کینٹین کی علمی مباحثوں اور فکری مکالموں کی روایت بڑی شاندار تھی۔ طارق محمود طارق ان میں باقاعدگی سے شریک ہوتے اور اکثر اس متانت و سنجیدگی کے ساتھ شریک ہوتے کہ انکی خاموشی بھی کلام کرتی تھی، ان کی سادگی، نفاست اور احترام ِانسانیت کے جذبے کی وجہ سے ہر کوئی ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ 
تہذیب و آگہی کے سبق اس کے نطق میں 
دل کی صداقتوں سے منور تھی اس کی ذات 
طارق محمود طارق فطرتاً شاعر تھے۔ ان کی اردو شاعری کا اکلوتا مجموعہ1984ء میں ”شہرہجر“ کے نام سے شائع ہوا۔ شاعری سے حقیقی معنوں میں لطف اندوزی ایک ایسی استغراقی کیفیت کا تقاضا کرتی ہے جس میں حس، فکر اور جذبے کے عناصر باہم آمیز ہو کر ایک طبعی سکون پیدا کرتے ہیں۔ شاعری اپنی تخلیق سے پہلے اور بعد بھی، انسان کے تمام وکمال تجربے سے تعلق رکھتی ہے۔ انسانی تجربے کے سارے عناصر، فکر اور جذبے کی ہر کاروائی اس پر اثر انداز بھی ہوتی ہے اور اس سے اثر اندوز بھی ہوتی ہے۔ طارق صاحب شعر پسندی میں استغراق شعر کے درجے پر فائز تھے یعنی شعری فہمی میں بھی انہیں کمال حاصل تھا۔ شعر کے مرکزی تجربے میں اخل ہونا، عقلی و عملی سیاق و سباق سے جداگانہ چیز ہے۔ اپنی خالص ترین صورت میں شاعری کو فکر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، کیونکہ فکر و عمل دونوں اس کے استغراق کے موضوع بن جاتے ہیں۔  طارق صاحب شاعرانہ تجربے کے اس درجے کی بنیاد پر ہی و نقد و نظر کے رموز سے آشنا ہوتے تھے اور انہوں نے میرؔ اورمجید امجد جیسے شعراء پرلکھتے ہوئے اسی تجربے سے رس کشیدکیا۔ ان کے نثری و تنقیدی مضامین”ماہ نو“، ”اوراق“ اورزمیندار کالج کے مجلے ”شاہین“ کی زینت بنتے رہے ہیں۔ موصوف تنقیدی نثر میں بھی منفر د اسلوب کے مالک تھے۔ نفسیاتی اور فلسفیانہ حوالوں سے فن پاروں کا ماہرانہ تجزیہ کرتے تھے۔ شعروں کا تنقیدی جائزہ لیتے اور فن پاروں میں خوبصوریتوں کے متلاشی رہتے تھے۔ ان کی تحریریں خاص خوشبو کی حامل ہیں۔ 
برادرم طارق محمود طارق ؔجیسے فہم و ادراک والے افراد کی محفلوں کا ہی اثر ہے کہ محبت نے میرے آنسوؤں کو اُداس کیفیت میں بہنے کا ہنر سکھایا ہے اور میرے دل کو ماتمی گیتوں سے روشناس کرایا ہے۔ طارق صاحب کی وفات کی خبر ملی توا ن کے چاہنے والے سید وقار افضل کوفون کیا کہ تدفین کہا ں ہو گی؟ معلوم ہوا کہ انہوں نے گڑھی کے علاقے سے رہائش قمر سیالوی روڈ پر منتقل کر لی تھی، تاہم تدفین آبائی علاقے میں ہی ہو گی۔ میں نے اپنی ساری مصروفیات ترک کیں اور سخن شناس دوست ڈاکٹر غلام علی سربراہ شعبہ علوم ترجمہ جامعہ گجرات کو ساتھ لیا اور شاہدولہ روڈ پر چاہ بیری والا قبرستان میں حقیقی دانشور استاد کی تدفین میں شرکت کے لیے نمناک آنکھوں اور بوجھل دل سے پہنچا۔ طارق محمو دطارقؔ کافی عرصے سے شوگر جیسے مرض اور اسکے اثرات کا شکار تھے اور چند دنوں سے لاہور میں زیر علاج تھے۔18نومبر کی رات راہِ حق کے مسافر ہو گئے، تاہم ان کے بیٹے کے کی امریکہ سے آمد پر 19نومبر بروز اتوار دن دو بجے ان کی نماز جنازہ مولوی امین مدنی نے پڑھائی۔ اور پھر اہل خانہ اوردوست احباب کی سسکیوں و آہوں کے سایے تلے، نمناک آنکھوں اور ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ مسجد حاجی حسن سے ملحق قبرستان چاہ بیری ولا میں اس علمی چراغ کو سپرد خاک دیا گیا تاکہ زیر زمین بھی روشنی ہو۔ وہ اتنے شریف النفس اور پاکباز تھے کہ ان کے لیے مغفرت کی دعا اور جنازہ میں شرکت مجھ سمیت حاضرین کے لیے باعث بخشش ثابت ہو گی۔ بلاشہ وہ گجرات کے ان اساتذہ میں شامل تھے جنہیں اسلاف کی عظمت کی نشانی قرار دیا جا سکتا ہے اورمطالعہ و کتب بینی جن کی آخری سانسوں تک جاری رہی۔ طارق صاحب مطمئن آدمی تھے لیکن یہ سچ ہے کہ آدمی اس وقت تک خوش نہیں ہوتا جب تک اس کا آخری دن نہ آ جائے اور وہ سرحد پار نہ کر جائے جو زندگی کو موت سے الگ کرتی ہے۔  اللہ کریم انہیں جوار ِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین 

کس منہ سے کہیں کہ وہ ہم میں نہیں رہا 
کیسے کہیں کہ ہم کومیسر تھی اس کی ذات 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں