جمعہ، 21 نومبر، 2014

فیضؔ کے شعری آہنگ کو عام کرنا ہے

فیضؔ کے شعری آہنگ کو عام کرنا ہے



فیض احمد فیضؔ ہماری ادبی و فکری تاریخ کا ایک منور استعارہ ہیں۔ دانشور، شاعر، استاد، نقاد، مدیر، مزدور انقلابی راہنما، یہ سب ان کی ہمہ پہلو شخصیت کی نمایاں جہتیں ہیں۔ دنیا انہیں ظلم و جبر، آمریت و سامراجیت اور استحصال و استعمار کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر جانتی ہے۔ 
پرصغیر پاک و ہند کے نوآبادیاتی عہد میں اُردو ادب میں ترقی پسندوں نے استعمار، سامراج اور بالا دست طبقوں کے خلاف بیداری اور فروغِ شعور کے لئے اہم کردار ادا کیا تھا۔ایسا کرنے والے ترقی پسند دانشوروں میں فیضؔ کا نام ہر اول دستے  میں شامل ہے۔ تقسیم ہند کے بعد بھی فیضؔ کی منفرد اور تواناء آواز سب سے نمایاں اور مؤثر رہی۔ انہوں نے شعر و فکر کے ذریعے جدوجہد، امید، اجتماعیت اور رجائیت کی بنیادوں پر ایسے عمرانی آئیڈیلز کو اُبھارا جنہوں نے سامراج اور استعمار دشمنی، انقلاب، ترقی، انسان دوستی، روشن خیالی اور خرد افروزی کی سوچ کو فروغ دیا۔ ہم وطنوں کی زبوں حالی اور شکستہ دلی کی ترجمانی کا حق ادا کرنے کے باوجود انہوں نے اپنے خیال و شعر میں مایوسی، نا امیدی اور شکست خوردگی کو کوئی جگہ نہ دی۔ ان کی شاعری کا آغاز رومان اور  وجدان میں لپٹا ہوا ہے مگر جلد ہی زندگی کے تلخ اور کڑوے حقائق اس خول کو چٹخا دیتے ہیں اور وہ ذاتی دُکھ کے ساتھ ہی عالم انسانیت پر مسلط دوسرے بے شمار دکھوں کی جلن بھی اپنے اندر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ فیض ؔ کی شاعری نے ہی اردو شاعری کا تیسری دنیا سے تعلق مضبوط کیا اور عالم انسانیت کو پیغام دیا کہ جب تک انسان کے جسدِ خاکی میں دل دھڑکتا ہے انسان کبھی ٹوٹ نہیں سکتا اور جب تک انسانوں کے مابین احساس کا رشتہ قائم ہے انسان اور انسانیت کبھی آزادی، امن اور ترقی کی آرزو سے محروم نہیں ہو سکتے۔ فیضؔ ایسے انسانی مناظر کے شاعر ہیں جن سے آگے بہتر سے بہتر دنیا آباد ہے۔ فیضؔ کی شعری فکر کے راستے پر چل کر ہی انسان ایک نئے زمانے میں داخل ہو سکتا ہے۔ یہ سفر رجائیت سے شروع ہو کر حالات کو بدلنے کے حوصلے تک لے آتا ہے۔ اس کا اظہار ان کی نظم ’سوچ‘ میں بھی ملتا ہے اور اس حوصلے سے نکلنے والی رجائیت ’چند روز مری جاں فقط چند ہی روز‘، اور ’اے دِلِ بے تاب ٹھہر!‘ دونوں نظموں میں عیاں ہے۔ جبکہ نظم ’سوچ‘ مارکسی تعبیر کے حوالے سے دُکھ، درد کا بڑا عمیق اور اچھا تجزیہ بھی ہے۔ 
فیضؔ چونکہ حساس دل کے ساتھ بیدار ذہن بھی رکھتے تھے اس لئے دنیاوی درد و غم کی طرف ان کا رویہ فراری نہیں رہا۔  ’مرے ہم دم مرے دوست‘ میں واضح اشارہ کرتے ہیں کہ وہ غم جس نے انسانوں کی اکثریت کو زندگی کو تمام حلاوتوں سے محروم رکھا ہے اس کا مداوا نہ تو ہمدردوں کے حرفِ تسلی میں پوشیدہ ہے اور نہ شعراء کے شیریں نغموں میں بلکہ عوام اپنے مصائب کے مسیحا خود ہی ہیں۔ ’سوچ‘ میں واشگاف کہتے ہیں کہ آج حیاتِ انسانی جن سرمایہ دارانہ لعنتوں میں گرفتار ہے ان سے نجات کی واحد صورت عالمگیر عوامی جدوجہد ہی ہے۔ عوامی طاقت پر انحصار اور اعتماد  ترقی پسند فکر کا جزو لانیفک رہا ہے چنانچہ فیضؔ کی شاعری بھی اسی یقین کی مبلغ ہے۔ 
فیضؔ کو استعمار سے نفرت ہے۔ سرمایہ داری، جاگیرداریت، طبقاتی کشمکش استحصالی قوتوں، سب سے نفرت ہے لیکن شدید نفرت کے باوجود ان کے شعروں میں نفرت کا بے ہنگم شور سنائی نہیں دیتا بلکہ ان کے مترنم لفظوں کے پیچھے ہمارے ماضی کی گونج سنائی دیتی ہے اور حال کا آہ و فغاں بول رہا ہوتا ہے اور ہمارا مستقبل جگمگا رہا ہوتا ہے۔ وہ روحِ عصر کی بلیغ و جمیل ترجمانی کرنے کے ساتھ مثبت سماجی انقلاب کے داعی بھی تھے۔ دنیا ہمیشہ ان دانشوروں اور مفکروں میں دلچسپی لیتی رہی ہے جو اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔  مگر جو اس کو بدلنے کی آرزو یا کوشش کرے اسکی پرستش کرتی ہے۔فیض احمد فیضؔ بھی باعمل دانشوروں یا شاعروں کی اسی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں جس میں کرسٹوفر کا ڈویل،  ہیمنگوے،  پیبلو نرودا،  لورکا،  ناظم حکمت،  اگستینونیتو نمایاں ہیں۔  آل احمد سرور نے بجا کہا تھا کہ ”فیض صاحب ِطرز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باشعور شاعر بھی ہیں اور ایسا کم از کم برصغیر کی حد تک کوئی دوسرا شاعر نہیں ہے“۔  
فیضؔ ایسے خوش بخت شاعر ہیں جو خواص و عام دونوں کو میں یکساں مقبول ہیں۔ عصرِ حاضر میں شاید ہی کوئی ذی فہم ہو جس کے شعور کی سطح ان کا کلام سننے یا پڑھنے کے بعد بلند نہ ہوئی ہو یا پھر شاید ہی کوئی شاعر یا ادیب ایسا ہو جو فیضؔ کی شاعری اور شخصیت سے متاثر نہ ہوا ہو۔ یہ فیضؔ ہی تھے جنہوں نے ظلم کو ظلم کہنے کا سلیقہ سکھایا، طرز کہن پر اڑے رہنے کی بجائے انکار کی جرات بخشی، رجز کی زبان دی اور ستم گری سے نبرد آزمائی میں ہماری ہمت بندھائی۔ انہوں نے ہی مشاہدۂ حق کی گفتگو میں حسن کی لطافتوں کا رنگ بھر کر گفتگو کو زیادہ بامعنی، دلکش اور پُر اثر بنا دیا۔ اسی لئے ان کے زیادہ تر اشعار ضرب المثل بن گئے۔ 
کہتے ہیں کہ ہر عہد اپنے ایک شاعر کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ فیضؔ کی شاعری بھی ان کی ذات اور ان کے زمانے دونوں کا پتہ دیتی ہے۔بلاشبہ عہد ساز شاعر تھے بلکہ آج بھی انہی کا دور ہے اور ہم ابھی تک عہدِ فیض میں ہی جی رہے ہیں۔ انہوں نے منفرد اصطلاحوں، تشبیہوں، ترکیبوں، اچھوتی علامتوں اور مؤثر فکر سے اردو ادب کے خزانے کو ایسے مالا مال کیا کہ ان کا طرز فغاں اوروں کا طرز بیاں ٹھہرا۔ 

بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے 
بول، زباں اب تک تیری ہے 

بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے 
فروغ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم 
یہ ان کے وجدان و بیان اور فکر و شاعری کی کرامت ہی ہے کہ وہ مرنے کے بعد آج بھی عصر رواں کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں، شاید اسی تسلسل کی کوکھ سے ہی وہ فکر و نظر پیدا ہو جو اپنے خیال و افکار سے ہمارے مستقبل کو روشن کر دے،کیونکہ افکار تازہ سے ہی جہانِ نو پیدا ہوتا ہے۔
مگردھیرے دھیرے فیضؔ اور نسل ِ نو کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہماری نسل کا فرض ہے کہ وقت کی خلیج پر فیضیات کا پُل بنا دے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ فیضؔ کے ہم خیال فیضیات کو نئی نسل تک پوری قوت کے ساتھ منتقل کیوں نہیں کر پا رہے حالانکہ فیضؔ سے محبت کے دعویداروں کو یہ کام دلجمعی اور لگن سے کرنا چاہئے تھا کیونکہ فیضؔ کے نظریاتی دوست اسکی فکر کے مبلغ ہیں مجاور نہیں۔ صد افسوس! ہم بڑے لوگوں کے مرنے کے بعد صرف ان کا بُت بنا لیتے ہیں۔اس قوم نے اقبالؔ کو بھی مجاوروں کے ہاتھوں ہی گنوایا، جنہوں نے فکر اقبال کو آگے بڑھانے کی بجائے اس کے مزار پر چادر چڑھانے کو ذریعہ معاش بنا کر اس مجاوری کو اقبالیات کہنا شروع کر دیا۔ اقبال کے بعد ہمارے پاس فیضؔ تھے اس لیے سلسلہ چلتا رہا مگر فیض ؔکے بعد تو ایسے، جیسے خُدا ہم سے روٹھ ہی گیا ہے۔ آج ہم بڑے آدمی، بڑے شاعر، بڑے دانشور کو ترس گئے ہیں۔ ہر طرف قحط الرجال ہے اور اگر نہیں ہے،  تو پھر قہر الرجال ضرور ہے۔ خدا نہ کرے کہ فیضؔ بھی مجاوروں کے ہاتھوں گم ہو جائیں۔ فیضؔ سے محبت کرنے والوں کا فریضہ ہے کہ فیضؔ کے افکار و سخُن کو آگے بڑھائیں ان کی فکر کا چراغ بجھنے نہ دیں۔ فیضؔ بطور نقاد جو کسوٹی پیش کرتے ہیں وہ خود بھی اس پر پورا اترتے تھے۔
چشمِ نم، جان شوریدہ کافی نہیں 
تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں 
آج بازار میں پابجولاں چلو 
او رپھر کہتے ہیں: 
رخت دل باندھ لو، دل فگارو چلو 
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو 
آج ہم میں سے کتنے اس کے لیے تیار ہیں …………؟ 
آج ہم صوبائیت، نسلیت، لسانیت، عالمگیریت، فرقہ واریت، دہشت گردی، انتہا پسندی کے جس عفریت و کینسر کا شکار ہیں اس نے قوم کو مایوس کر دیا ہے۔ کوئی نہیں ہے جو اس بکھرتے سماج کی ڈھارس بندھائے، اسے امید دے…… اگر کوئی ہے تو بس فیضؔ ہی ہے۔ فیض ؔ کی رجائیت، اسکا مثبت انقلاب ہی ہماری  بے بسی کا علاج ہے۔ ہمیں فیض کی رجائی فکر اور  اس کے شعری آہنگ کو عام کرنا ہو گا کیونکہ ہمیں اس قوم کو، اس وطن کو بچانا ہے۔

ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں 
ابھی گرانی شب میں کچھ کمی نہیں آئی 
نجاتِ دیدہ و دِل کی گھڑی نہیں آئی 
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں