پیر، 20 نومبر، 2017

سویا وہ زیر خاک تو اک عہد سو گیا


ارنسٹ ہیمنگوے نے کہا تھا کہ ہر آدمی کی زندگی کا انت ایک جیسا ہو تا ہے، صرف ایک چیز اسے دوسروں سے منفرد بناتی ہے اور وہ یہ کہ اس نے زندگی کیسے گذاری اور اسے موت کیسے آئی؟۔ یہ بات اتوار کی دوپہر مجھے اس وقت یا دآئی جب خاموش طبع دانشور استاد پروفیسر طارق محمود طارقؔ کی وفات کی اطلاع بذریعہ وٹس ایپ برادرم پروفیسرکلیم احسان بٹ نے دی۔ موت انسان کا مقدر ہے۔ موت کی فاتحانہ یلغار ہر چھوٹے، بڑے آدمی کو اَن جانے ماضی سے اس مستقبل تک لے جاتی ہے جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ ان کے انتقال پُرملال کی خبرسنتے ہی ان کی یادوں نے اردگرد ڈیرا آ لگایا۔ معصوم شکل، سنجیدہ مزاج اور دبلے جسم کے طارق محمود طارقؔ دھیمے مزاج کے پورے آدمی تھے۔ نزاکت ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔ وہ چلتے بھی اتنی آہستگی سے تھے کہ کہیں زمین پر پاؤں رکھنے سے زمین کو درد نہ ہو۔ 
درحقیقت وہ اتنے نفیس انسان تھے کہ کسی قسم کی سختی ان کے مزاج کا حصہ ہی نہیں تھی۔ زمنیدار کالج کے اساتذہ کی کثیر تعداد کے باوجود وہ اپنے نرم مزاج اور پُر وقار اندا زکی بنا پر الگ ہی نظر آتے تھے۔ جس متانت و وقار سے زندہ رہے تھے اسی خاموشی اور باوقار انداز میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ 
کاروانِ زندگی پیہم رواں  ہے  صبح  و  شام 
اس فنا کے دیس میں،  حاصل ہوا کس کو  قیام
پھول جو کھلتا ہے، وہ اک دن یہاں مرجھائے گا 
یہ سرائے فانی ہے، جو آئے گا ،  وہ  جائے  گا 
پروفیسر طارق محمود طارق ؔ15جولائی1950ء کو گجرات شہر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد پبلک ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ حالات نے مزید تعلیم سے بہت روکا لیکن انہوں نے انٹرمیڈیٹ سے ایم اے تک تعلیم کے تمام درجات لگن اور محنت سے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پاس کیے۔ وہ اپنے علمی و ادبی ذوق کی بدولت شعر و ادب سے وابستہ ہوئے اور گجرات کی علمی و ادبی محفلوں کا حصہ بنے۔ گجرات میں مبارک احمد کے متحرک حلقے اور حلقہ ارباب ذوق کی ادبی بیٹھکوں کے فعال ممبر رہے۔ انہیں ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے اس زمانے کے نیشنل سنٹر کی لائبریری میں ملازمت کا موقع ملا تو انہوں نے گجرات کے نیشنل سنٹر کو ادبی تقریبات کا مرکز بنانے میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ نیشنل سنٹر کی کتابوں کے محافظ بھی تھے،انہوں نے لائبریری میں بیٹھ کر کتب بینی کوہی اپنا مشغلہ بنا لیا۔ ہر وقت کتاب پڑھنا ان کی عادت بن گئی۔ اپنے مطالعے اور ادب دوستی کی بدولت وہ 1987ء میں گورنمنٹ زمیندار کالج کے شعبہ اُردو سے وابستہ ہو گئے۔ وہ شریف النفس انسان، کتاب دوست استاد اور صاحب مطالعہ دانشور تھے، اس لیے صرف طالبعلموں کے پسندیدہ استاد ہی نہیں تھے بلکہ اساتذہ بھی ان کی علمی وجاہت اور تنقیدی فکر کے دلدادہ تھے۔ وہ مزاجاً محفل باز نہیں تھے، تفکر و تدبرکی عادت کے حامل ہونے کے ناطے اکیلے بیٹھ کر غور وفکر کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن کیا کیجئے جہاں روشنی ہو گی پروانے تو جمع ہو ہی جاتے ہیں۔ لہذا طارق صاحب جہاں بیٹھتے ان کے چاہنے والے وہیں علمی مکالمے کی محفل جما لیتے تھے۔ علی گڑھ کی روحانی میراث کا حامل زمیندار کالج اس زمانے میں حقیقی معنوں میں علم و ادب کا گہوراہ تھا اس کا تدریسی ماحول علمی شناخت کا حامل تھا۔ طارق محمو دطارقؔ اس کالج کے شعبہ اردو کا مان تھے۔ فرض شناس تدریسی مہارتوں کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پختہ تنقیدی وفکری دانش کے علمبردار تھے۔وہ ادب شناس ہی نہیں سراپائے ادب و تہذیب بھی تھے، کسی بھی علمی محفل میں انکی موجودگی بڑی با برکت سمجھی جاتی تھی۔ وہ کم گو تھے اور اکثر ہلکی اور میٹھی مسکراہٹ سے ہی کام چلا لیا کرتے تھے لیکن جب کسی بھی موضوع پر بولتے تو سامعین کے پا س ہمہ تن گوش ہونے کے علاوہ چارہ نہ ہوتا تھا۔ دانش و تفکر سے لبریز گفتگو ادبی اسلوب اور فلفسیانہ پیرائے میں شروع کرتے تو سننے والے سر ُدھنتے رہ جاتے تھے۔ شعبہ اردو کے نوجوان اساتذہ اپنی کلاسیں پڑھانے کے لیے لیکچر کی تیاری کے لیے ان کے گھٹنے پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے اور کئی تو ان سے سنی باتوں کو بیان کرکے دانشوری ظاہر کرتے تھے۔ وہ بھی بڑے انہماک سے جواں عزم اساتذہ کی راہنمائی کرتے اور انہیں کتاب دوستی کا درس بھی دیتے۔ برادرم پروفیسر کلیم احسان بٹ کی دوستی کی بدولت شعبہ اردو کے اساتذہ سے میرا محبت اور احترام کا خاص رشتہ تھا۔ کلیم صاحب محفل باز آدمی تھے اور حاضر جوابی سے محفلوں کو کشت زعفران بنانے کا گُر خوب جانتے تھے۔ وہ طارق صاحب کے شاگرد بھی تھے اور اب ان کے ساتھی تھے۔ وہ طارق صاحب کو اکثر لے کر کنٹین پر آ جاتے اورپھر محفل جم جاتی۔ زمیندار کالج کی کنٹین ان دنوں کالج کا   ”پاک ٹی ہاؤس“ ہوا کرتی تھی۔ اساتذہ وہیں بیٹھ کر دل کی بھڑاس نکالتے تھے۔ پروفیسر عبدالواحد، سیف الرحمان سیفی، بہاء الحق عارف، سید مظہر علی شاہ، سید محفوظ علی شاہ، محمد اسلم اعوان، مینر الحق کعبی، حکیم سید صابر علی، ظفر اقبال ہاشمی ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ وہاں اپنی اپنی محفل جما کر بیٹھا ہوتا تھا۔ نوجوان اساتذہ میں سے میاں انعام الرحمان، راشد اللہ بٹ، کلیم احسان بٹ، سید وقا ر افضل، ڈاکٹر وسیم گردیزی، سید فیاض حسین شاہ، راجہ خالد، ملک شفیق، ناصر وڑائچ سمیت بہت سے دوست محفل جماتے اور وہاں ہلکی پھلکی گفتگوکے ساتھ دنیا بھر کے ادبی نظریوں، فکری زاویوں، حالات حاضرہ اور شعر و نقد کا محاکمہ کرتے۔ طارق صاحب ان محفلوں کا حصہ ہی نہیں جانِ محفل ہوا کرتے تھے۔ 
میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ایک روز عرض کیا کہ طارق صاحب تمام تر سخنوری کے باوجود ہم اعلیٰ ادب کیوں تخلیق نہیں کر پا رہے؟ طارق صاحب کے الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ   ”دولت کی زیادتی، اخلاقی و سیاسی زوال اعلیٰ خیالات کی موت ہے۔ جب اعلیٰ فکر نہ ہو توا علیٰ ادب کیسے پیدا ہو سکتا ہے“۔ میں چھٹی کے بعد اکثر ان کے ہمراہ کچہر ی چوک تک پیدل جاتا تھا تاکہ راستے میں گفتگو کے ذریعے ان سے استفادہ کرتا رہوں۔ مجھے لکھنے کا شوق تھا میں نے اس حوالے سے بات کی تو کہنے لگے شیخ صاحب! ”بڑی کتاب لکھنے کے لیے موضوع بڑا ہونا چاہیے“۔ زمیندار کالج کی کینٹین کی علمی مباحثوں اور فکری مکالموں کی روایت بڑی شاندار تھی۔ طارق محمود طارق ان میں باقاعدگی سے شریک ہوتے اور اکثر اس متانت و سنجیدگی کے ساتھ شریک ہوتے کہ انکی خاموشی بھی کلام کرتی تھی، ان کی سادگی، نفاست اور احترام ِانسانیت کے جذبے کی وجہ سے ہر کوئی ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ 
تہذیب و آگہی کے سبق اس کے نطق میں 
دل کی صداقتوں سے منور تھی اس کی ذات 
طارق محمود طارق فطرتاً شاعر تھے۔ ان کی اردو شاعری کا اکلوتا مجموعہ1984ء میں ”شہرہجر“ کے نام سے شائع ہوا۔ شاعری سے حقیقی معنوں میں لطف اندوزی ایک ایسی استغراقی کیفیت کا تقاضا کرتی ہے جس میں حس، فکر اور جذبے کے عناصر باہم آمیز ہو کر ایک طبعی سکون پیدا کرتے ہیں۔ شاعری اپنی تخلیق سے پہلے اور بعد بھی، انسان کے تمام وکمال تجربے سے تعلق رکھتی ہے۔ انسانی تجربے کے سارے عناصر، فکر اور جذبے کی ہر کاروائی اس پر اثر انداز بھی ہوتی ہے اور اس سے اثر اندوز بھی ہوتی ہے۔ طارق صاحب شعر پسندی میں استغراق شعر کے درجے پر فائز تھے یعنی شعری فہمی میں بھی انہیں کمال حاصل تھا۔ شعر کے مرکزی تجربے میں اخل ہونا، عقلی و عملی سیاق و سباق سے جداگانہ چیز ہے۔ اپنی خالص ترین صورت میں شاعری کو فکر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، کیونکہ فکر و عمل دونوں اس کے استغراق کے موضوع بن جاتے ہیں۔  طارق صاحب شاعرانہ تجربے کے اس درجے کی بنیاد پر ہی و نقد و نظر کے رموز سے آشنا ہوتے تھے اور انہوں نے میرؔ اورمجید امجد جیسے شعراء پرلکھتے ہوئے اسی تجربے سے رس کشیدکیا۔ ان کے نثری و تنقیدی مضامین”ماہ نو“، ”اوراق“ اورزمیندار کالج کے مجلے ”شاہین“ کی زینت بنتے رہے ہیں۔ موصوف تنقیدی نثر میں بھی منفر د اسلوب کے مالک تھے۔ نفسیاتی اور فلسفیانہ حوالوں سے فن پاروں کا ماہرانہ تجزیہ کرتے تھے۔ شعروں کا تنقیدی جائزہ لیتے اور فن پاروں میں خوبصوریتوں کے متلاشی رہتے تھے۔ ان کی تحریریں خاص خوشبو کی حامل ہیں۔ 
برادرم طارق محمود طارق ؔجیسے فہم و ادراک والے افراد کی محفلوں کا ہی اثر ہے کہ محبت نے میرے آنسوؤں کو اُداس کیفیت میں بہنے کا ہنر سکھایا ہے اور میرے دل کو ماتمی گیتوں سے روشناس کرایا ہے۔ طارق صاحب کی وفات کی خبر ملی توا ن کے چاہنے والے سید وقار افضل کوفون کیا کہ تدفین کہا ں ہو گی؟ معلوم ہوا کہ انہوں نے گڑھی کے علاقے سے رہائش قمر سیالوی روڈ پر منتقل کر لی تھی، تاہم تدفین آبائی علاقے میں ہی ہو گی۔ میں نے اپنی ساری مصروفیات ترک کیں اور سخن شناس دوست ڈاکٹر غلام علی سربراہ شعبہ علوم ترجمہ جامعہ گجرات کو ساتھ لیا اور شاہدولہ روڈ پر چاہ بیری والا قبرستان میں حقیقی دانشور استاد کی تدفین میں شرکت کے لیے نمناک آنکھوں اور بوجھل دل سے پہنچا۔ طارق محمو دطارقؔ کافی عرصے سے شوگر جیسے مرض اور اسکے اثرات کا شکار تھے اور چند دنوں سے لاہور میں زیر علاج تھے۔18نومبر کی رات راہِ حق کے مسافر ہو گئے، تاہم ان کے بیٹے کے کی امریکہ سے آمد پر 19نومبر بروز اتوار دن دو بجے ان کی نماز جنازہ مولوی امین مدنی نے پڑھائی۔ اور پھر اہل خانہ اوردوست احباب کی سسکیوں و آہوں کے سایے تلے، نمناک آنکھوں اور ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ مسجد حاجی حسن سے ملحق قبرستان چاہ بیری ولا میں اس علمی چراغ کو سپرد خاک دیا گیا تاکہ زیر زمین بھی روشنی ہو۔ وہ اتنے شریف النفس اور پاکباز تھے کہ ان کے لیے مغفرت کی دعا اور جنازہ میں شرکت مجھ سمیت حاضرین کے لیے باعث بخشش ثابت ہو گی۔ بلاشہ وہ گجرات کے ان اساتذہ میں شامل تھے جنہیں اسلاف کی عظمت کی نشانی قرار دیا جا سکتا ہے اورمطالعہ و کتب بینی جن کی آخری سانسوں تک جاری رہی۔ طارق صاحب مطمئن آدمی تھے لیکن یہ سچ ہے کہ آدمی اس وقت تک خوش نہیں ہوتا جب تک اس کا آخری دن نہ آ جائے اور وہ سرحد پار نہ کر جائے جو زندگی کو موت سے الگ کرتی ہے۔  اللہ کریم انہیں جوار ِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین 

کس منہ سے کہیں کہ وہ ہم میں نہیں رہا 
کیسے کہیں کہ ہم کومیسر تھی اس کی ذات 

جمعہ، 3 نومبر، 2017

تصو یرِ قائد کی وفات


عظیم باپ کی عظیم بیٹی، تصویر محمد علی جناح دینا واڈیا کی2نومبر2017ء بروز جمعرات نیویارک میں اپنے گھر میں ابدی نیند سو جانے کی خبر نے دل بوجھل کر دیا۔ دینا واڈیا برصغیر پاک و ہند کی دو عظیم شخصیات محمد علی جناح اور رتن بائی کی محبت کی نشانی تھیں۔ محمد علی جناح اور رتی جناح شادی کے بعد انگلستان کے سفر پر تھے کہ ان کی زندگی کا اہم واقعہ پیش آیا۔ یہ وسط اگست کی ایک شام تھی جب جناح، رتی کو تھیٹر دکھانے لے گئے۔ وہاں رتی کی طبیعت خراب ہونے پر انہیں تھیٹر سے اٹھ کر ہسپتال جانا پڑا۔ یہ14اور15اگست1919ء کی درمیانی شب تھی وہاں ان کی دنیا میں ایک ننھی منی جان نے قدم رکھا یہ ان کی اکلوتی بیٹی دینا تھی۔ ظاہر ہے محبت کرنے والے ماں باپ نے اس کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہو گا۔ دینا کے ایام طفولیت کا فی مشکل تھے کہ ان کے والدین کے ازدواجی تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے اور پھر علیحدگی پر جا کر رُکے۔ دینا دس سال کی تھی کہ اس کی والدہ انتقال کر گئیں۔ بلاشبہ محبت ابتلاء و آزمائش سے گزرتی ہے لیکن خود بہت شفیق ہوتی ہے۔ محمد علی جناح کی لخت جگر کا اصل نام صوفیہ تھا اور عرفیت دینا، اس لیے وہ دینا جناح کے نام سے جانی جانے لگیں۔ وہ قائد اعظم کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ ایک شفیق باپ کی طرح وہ اسے بہترین تعلیم دلانے کے آرزو مند تھے۔ 
جی الانہ کے مطابق دینا جب بارہ سال کی عمر کو پہنچیں تو انہیں انگلستان کے ایک بورڈنگ سکول میں داخل کر ا دیا گیا۔ قائد اعظم جب انگلستان جاتے تو دینا اپنی تعطیلات اپنے والد کے ساتھ گزراتی تھیں۔ اپنی محبوبہ بیوی کی وفات کے بعد دینا ہی اس کی واحدنشانی تھی۔ باپ اب اپنی ساری محبت اور شفقت اسی پر نچھاور کرنے لگا تھا۔تاہم والد کی سیاسی مصروفیات کے باعث دینا ننھیال کے زیادہ قریب رہنے لگی تھی۔ 1932ء میں جناح نے کمال اتاترک کی سوانح"Grey Wolf"پڑھی تو اس سے بہت متاثر ہوئے وہ اکثر گھر میں اس کتاب کا تذکرہ کرتے انہوں نے یہ کتاب دینا کو بھی دی۔ دینا اکثر اپنے بابا کو   ”گرے ولف“ کے نام سے ہی پکارتی تھی۔ 
محمد علی جناح کو اپنی بیٹی کی پارسی خاندان میں شادی کے فیصلے پراختلاف ہوا۔ انہوں نے مولانا شوکت علی کو بھی دینا کو سمجھانے کا کہا تاہم وہ اپنے فیصلے کی پکی تھیں، انہوں نے25نومبر1938ء کو پارسی نوجوان سے شادی کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر باپ بیٹی میں کچھ ناراضگی بھی ہوئی۔ قائد اعظم کے ڈرائیور محمد حنیف آزاد کے بقول ایک دفعہ وہ گاڑی چلا رہے تھے، قائد اعظم پچھلی نشست پر بیٹھے تھے۔ سامنے سے ان کی بیٹی دینا کی گاڑی آ گئی۔ میں نے خاص طور پر شیشے میں سے قائد اعظم کا رویہ دیکھناچاہا۔ جب دینا کی گاڑی قریب سے گزری تو قائد اعظم نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ بلاشبہ شادی کے مسئلے پر بیٹی سے ناراضگی تھی اور یہ ایک فطری امر ہے۔نیول واڈیا سے   ا ن کی شادی کامیاب نہ رہی اور پانچ سال بعد ہی1943ء میں علیحدگی ہو گئی۔ تاہم اس کو بنیاد پر کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ قائد اعظم نے بیٹی سے تعلق توڑلیا۔ ایسا بالکل نہیں تھا۔ دینا کی شادی کو ابھی چھ ماہ ہی گذرے تھے کہ قائد اعظم نے30مئی1939ء کو اپنی وصیت لکھی۔ ناراضگی یاقطع تعلقی تھی تو وہ دینا کو ترکے سے محروم کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی بیٹی کے لیے تاحیات دو لاکھ رروپے کی رقم کا منافع مختص کر دیا اور وصیت کی کہ دینا کی وفات کے بعد تمام رقم دینا کی اولاد کو منتقل کر دی جائے۔ کوئی والد اپنی عاق شدہ اولاد کے لیے ایسی وصیت نہیں لکھ سکتا۔ باپ بیٹی کی محبت کے رشتے کی کئی شہادتیں ہیں۔ خاص طور پر سالگرہ و دیگر مواقع پرقائد اعظم کو بھیجے جانے والے دینا واڈیا کے تہنیتی کارڈز اور ان کی تحریریں قائد اعظم اور دینا کے درمیان خط و کتابت باپ بیٹی کے پیا رکا عکس ہیں۔28اپریل1947ء کے ایک خط میں دینا لکھتی ہیں ”مائی ڈئیر پاپا! پہلے تو آپ کو مبارکباد دوں کہ ہمیں پاکستان مل گیا، یعنی اصولی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ میں اس پر کتنا فخر اور خوشی محسوس کر رہی ہوں۔ آپ نے اس کے لیے کتنی محنت کی ہے!۔“ ایک اور خط میں دینا نے باپ سے والہانہ لگاؤ کا اظہار کیا اور ان سے رشتے پر فخر کا اظہار کیا۔ لکھتی ہیں ”پیارے پاپا! آپ کے شفقت نامے کا بے حد شکریہ، میں جانتی ہوں آپ کس قدر مصروف ہیں۔ شاید اس لمحے آپ وائسرئے کے ساتھ ہوں گے۔ آپ نے پچھلے چند سالوں میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ حیرت انگیزہے اور میں آپ سے اپنی نسبت پر فخر اور انبساط محسوس کرتی ہوں۔ہندوستان بھر میں آپ وہ واحد شخص ہیں جو حقیقت پسند، راست باز، دانا اور بے مثال مدبر ہیں۔ شاید اب یہ کسی پرستار کا خط بن گیا ہے، ٹھیک کہہ رہی ہوں نا!میں نے آپ کی3جون کی تقریر سنی۔ میرے خیال میں آپ کی تقریر سب سے بہتر اور موضوع کے عین مطابق تھی۔ آپ جو چاہتے تھے وہ پورے طور پر نہ مل سکا لیکن پھر بھی آپ نے بہت کچھ حاصل کر لیا۔ کانگریس کا غرور کس طرح ٹوٹا۔ یہاں کے ہندو پاکستان کے تسلیم کیے جانے اوردو مملکتوں کے قیام پر خوش نہیں ہیں۔ اب آپ کے سامنے بڑا مسئلہ در پیش ہے یعنی پاکستان کو عملی جامہ پہنانا۔ میں جانتی ہوں کہ آپ اس میں بھی کامیاب ہوں گے۔“ ان خطوط میں دینا کو اپنے باپ سے نسبت پر بہت فخر تھا۔ قائد کو اپنی بیٹی سے ہی نہیں نواسوں سے بھی بہت پیا ر تھا۔ نسلے واڈیا نے ایک مرتبہ کہا کہ تھا ”بچپن میں ایک بار نانا ہمارے ہاں ملنے آئے تو میں ان کی ٹوپی سے کھیلنے لگا۔ نانانے یہ ٹوپی مجھے دے دی جسے میں نے ہمیشہ اپنی زندگی کی قیمتی متاع کے طور پر سنبھال رکھا ہے!
قیام پاکستان کے بعد قائدا عظم کی وفات پر وہ تدفین میں شریک ہوئیں۔ قائد اعظم کے اے ڈی سی کیپٹن این اے حسین کے مطابق بابائے قوم کی وفات پر ان کی بیٹی مسز واڈیا کو اسی رات بمبئی میں اطلاع دی گئی جس پر وہ اگلی صبح بروقت کراچی پہنچ گئیں۔ وہ سیاہ لباس پہنے ہوئے جنازے اور تدفین میں شریک ہوئیں۔ وہ اپنی پھوپھی فاطمہ جناح کے ہمراہ قائد کی پسندیدہ سیاہ کار ہمبرپل میں تشریف فرما تھیں۔تدفین کے بعد اگلے روز وہ فلیگ سٹاف ہاؤس گئیں تو اس میں بابا کی چیزیں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں۔ انہوں نے بہت سی اشیاء کو شناخت کر لیا، ان اشیاء کی خریداری کا سال اور جگہ بھی ان کو یاد تھی۔ انہیں ہر شے کے متعلق ہر وہ تعریفی جملہ بھی یاد آر ہا تھا جو قائد اعظم نے ان اشیاء کے بارے میں فرمایا تھا۔ قائد اعظم اور ان کی بیٹی کے درمیان ملاقاتیں اور خط و کتابت و رابطے ہمیشہ رہے۔ بابائے قوم کو اپنی تصویر دینا سے بہت لگاؤ تھا۔ نواب بہادر یار جنگ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ قائد اعظم کے ہاں گئے۔ قائد اعظم کسی دوسرے کمرے میں تھے۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد وہ بھی ادھر چل دیے۔ میں نے دیکھا قائد اعظم ایک صندوق پر جھکے ہوئے ہیں اور کوئی چیز دیکھ رہے ہیں اور آبدیدہ ہیں۔ نواب صاحب کہتے ہیں مجھے تعجب ہوا۔ اس پر قائد اعظم نے بتایا کہ یہ میری بیٹی کے بچپن کے کپڑے ہیں۔ آج اس کی سالگرہ ہے۔ وہ اسے یاد کر رہے ہیں۔ چاہنے والوں میں ایک خفیہ معاہدہ ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو محبتوں کے سرکش جذبے خامیوں کو خوبیاں بنا دیتے ہیں۔ 
1976ء میں قائد اعظم کی سویں سالگرہ کے حوالے سے ایک کتاب شائع ہوئی"Pakistan: Past & Present"اس میں دینا واڈیا نے اپنے والد کے حوالے سے"A Daughter's Memory"کے نام سے تاثرات رقم کیے۔
"My father was not a demonstrative man. But he was an affectionate father. My last meeting with him took place in Bombay in 1946....He phoned inviting me and my children to tea. He was very happy to see us. We mostly talked about the children and politics."
2004ء میں دینا واڈیا پاک بھار ت میچ دیکھنے کے لیے پاکستان آئیں۔یہاں انکا والہانہ خیر مقدم کیا گیا۔ انہوں نے بھی بڑے پُرتپاک جذبات کا اظہار کیا۔ وہ والد کی قبر پر بھی گئیں اور اپنے تاثرات رقم بھی کیے۔ انہوں نے اپنے جذبات کے غلبے کو چھپانے کے لیے والد کی قبر پر جاتے ہوئے کسی کو ساتھ نہیں آنے دیا۔ قائد اعظم اور ان کی بیٹی کی نسبت اور مراسم بڑے خوشگوار رہے۔2007ء میں دینا جناح نے بھارتی حکومت کو درخواست دی کہ بمبئی کے جناح ہاؤس کو ان کی ملکیت میں دیا جائے۔ جس گھر میں بچپن گزرا، اسی میں زندگی کے آخری سال گذارنا چاہتی ہیں تا ہم انہیں اس کا جواب نہیں ملا۔ انکے پاس برطانوی اور ہندوستانی شہریت تھی لیکن وہ گذشتہ کئی عشروں سے امریکہ کے شہر نیویارک میں رہائش پذیر تھیں۔ جہاں انہوں نے داعی اجل کولبیک کہا۔ 2نومبر کو جب ان کی وفات کی خبر سنی تو باپ بیٹی کی محبت و لگاؤ کے لازوال تاثرات خوب یاد آئے۔ وقت سے بے نیاز، زمانے کی آندھیوں کی گرد ایسے پختہ رشتوں پر نہیں جمتی۔دینا قائد اعظم کی تصویر دکھائی دیتی تھیں۔ انھے دیکھ کر قائد اعظم خوب یاد آ رہے ہیں۔ ان کی وفات سے ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔دعاہے کہ پروردگار ان کی اُخروی منزلیں آسان کرے۔

بدھ، 25 اکتوبر، 2017

درگاہ سے دعا تک



افلاطون نے کہا تھا کہ ”انسانی معاملات بمشکل ہی سنجیدگی سے غور کے مستحق ہوں گے، لیکن ہمیں ان کے متعلق سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا“ انسان سرکشی اور نا انصافی کا پتلا ہونے کے باوجود اس قدر قیمتی ہے کہ اس کے منہ موڑنے پر خدا، خالق ارض و سما بھی افسوس کرتا ہے چنانچہ اپنے چند دوستوں کو بے سکون اور ٹینشن میں دیکھ کر نرم دل استاد ڈاکٹر غلام علی نے تجویز دی کہ برادرم سائر انور ملہی اور محترم ایاز نورانی کی ناقابل بیاں بے قراری کو قرار بخشنے کے لیے کسی درگاہ پر حاضری دی جائے اور ان کی قلبی راحت کے لیے دعا کی جائے۔  یہ دونوں دوست آج تحیر زدہ دکھائی دیتے ہیں، میں نے اتفاق کرتے ہوئے عرض کیا حیرت زدہ ہونا، انسان ہونے کی ہی ایک روش ہے، البتہ یہ نری آوارگی، بے مقصد گھومنے، مٹر گشت اور سیر سپاٹوں کی ایک صورت بھی ہو سکتی ہے اپنی حیرت کو ایک سوال کا رخ دینا ذہن کو ایک طریقہ کار میں ڈھالنے کے ہی مترادف ہے۔ ذہنی کرب معنویت سے محروم وجود یا واقعات کے تجربے یا خوف سے زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ فلسفیانہ مزاج کے سائر انور ملہی نے کہا کہ ایسا ہی نہیں ہے، ایک رخ ناقابل بیاں ماورائے معنویت کا بھی ہے۔ اس کی آگہی اپنے ساتھ”نا قابل بیان“کا احساس لاتی ہے جس کا تجربہ ہمیں اپنی خواہش کے تحت نہیں ہوتا بلکہ ہمارے ششدر رہ جانے اور عظمت کا مقابلہ نہ کرسکنے کے باعث ہوتا ہے۔ حقیقت کے معروضی پہلو کا عالمگیر وجدان جس کی صلاحیت ہر شخص میں موجود ہوتی ہے،یہ جہالت کی جھاگ نہیں بلکہ فکر کا نقطعہ عروج ہے۔ یہ ایک شعوری وجدان ہے کیونکہ اس کی عطا کردہ آگہی علمِ دنیا کی گہرائی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ ایاز نوارانی نے گفتگو کی سنجیدگی پر ضرب لگاتے ہوئے کہا، شیخ صاحب! گھبرائیں نہیں، ملہی صاحب صوفی ہو گئے ہیں۔ ان کی روحانی تشنگی کا علاج ضروری ہے۔ میں نے عرض کیا، یہ کیسے ممکن ہے، ایک ایسا بینکار جس کے ہاتھ ہر وقت مادیت کے نشان روپے، پیسے سے رنگے ہوتے ہیں، صوفی ہو جائے……؟ تو نورانی صاحب نے فوراً جواب دیا، زمانہ بدل گیا ہے آج کا تقاضا ہے کہ ہر شخص کو تھوڑا بہت صوفی ہونا چاہیے اور ہر صوفی کو تھوڑا بہت انسان ہونا چاہیے۔ روحانی قوت کے لیے اسے کسی درگاہ پر لے چلتے ہیں تاکہ اس کی بے چین روح کو قرار ملے۔ میرا خیال تھا کہ صوفی ازل اور عوام کا باہمی رشتہ ہمیشہ سے الجھن کا شکار رہا ہے ہم صوفیاء کو ایسی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے وہ علاقہ غیر کی ہستیاں ہوں۔ صوفی کا نام سنتے ہی ہماری آنکھیں عروجی سفر کی جانب اٹھتی ہیں۔ عوامی خیال اور سماجی مقاصد اور ہیں، مقامات تصوف کی زبان اور ہے۔ ڈاکٹر غلام علی کہنے لگے،کہ عوام زمین پر زمین کا سفر طے کرتے ہیں اور صوفی زمین سے آسمان کی طرف راہ کھولتا ہے۔ بظاہر صوفی اور عوام دونوں کی منزلیں جدا جدا ہیں تاہم زمین دونوں میں مشترک ہے اور یہی صوفی اور عام انسان کے تعلق کی بنیاد ہے۔ بات چیت جاری تھی کہ گاڑی نے بریک لگائی اور غلام علی کہنے لگے ہم خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ سیدا شریف نزد پھالیہ پہنچ گئے ہیں۔ درگاہ پر پہنچے تو سفید رنگت، متوازن قد کے باریش لیکن جوان شخص نے متانت، وقار اور مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا۔ معلوم ہوا کہ یہ خلیق و شفیق اسلاف کے گدی نشین صاحبزادہ ابوبکر ہیں، وہ سجادہ نشینی کے ساتھ ساتھ والدین کی تعلیمی و تدریسی خدمات کے وارث اور انگریزی زبان و ادب کے ایک یونیورسٹی میں استاد بھی ہیں۔ درگاہ پر خوشدلانہ استقبال، محبت بھری میزبانی اور دسترخواں کی وسعت ان کے گھرانے و خانقاہ کی حُسنِ معاشرت کی آئینہ دار تھی۔ ہم نے سب سے پہلے خواجہ محبوب عالم ؒ و دیگر قبور کی زیارت کی، حاضری دی اور سلام پیش کیا۔ سادگی و شکوہ کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا۔ خاموشی و طمانیت کا دریا بہہ رہا تھا اور اطمینان و قرار کی بہار تھی۔ قلوب جیسے معطر ہو گئے اور بے وجہ قرار سا آگیا۔ اسی روح پرور مستی کی فضا میں ہمارے ہاتھ خود بخود دعا کے لیے اٹھ گئے، جھولیاں پھیلنے لگیں۔ بیدار ذہن، بند آنکھوں اور محسوس کرتے دل سے نکلنے والی دعا کا اپنا ایک سرور و خمار تھا۔ دعا محض خدا سے رحم کی پکار یا روحانی برجستگی نہیں۔ دعا روح کی تکثیف ہے۔ یہ ایک لحظے میں مکمل روح کو سمو دینے کا نام ہے اور ہمارے اعمال کا خلاصہ ہے۔ دعا کے انسان میں رچنے بسنے کے لیے انسان کا دعا میں رچنا بسنا ضروری ہے۔ دعا وہ لمحہ ہے جب عاجزی حقیقت بن جائے۔ اظہار ذات کے لیے ہمیں یہ سیکھنا ضروری ہے کہ طلب جاہ، تکبر اور حُب دنیا کے خولوں کو کس طرح اتار پھینکا جائے۔ کرب کی پکار جب رحمت خداوندی کا تصور بن جائے تو اسے دعا کہتے ہیں۔ دعا وہ لمحہ ہے جب کرب میں مبتلا انسان اپنا اضطراب بھول کر خدا اوراس کی رحمت کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ صرف اپنے نفس کا مشاہدہ کرنا نہیں، بلکہ مکمل انسان کا خدا کی جانب پھر جانا ہے یہ ایک مشکل صورتحال تو ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ شاید اس کا دورانیہ ایک ساعت ہی ہو لیکن اس میں ایک زمانہ حیات کا نچوڑ پایا جاتا ہے۔ درگاہ پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کیفیت بتا رہی تھی کہ ولی کامل کے پاس حاضری دے کر دعا مانگنا ایسے ہی ہے جیسے رومی نے کہا تھا 
گر تو سنگِ خارہ، مرمرشوی
چوں بصاحب دل رسی گوہر شوی 
یعنی اگر تو ناکار ہ و سخت پتھر ہے تو سنگ مر مر ہو جائے گا۔ جب کسی دل والے کے پاس جائے گا تو موتی ہو جائے گا 
دعا کے بعد حجرے میں پہنچے تو وہاں ہر طرف کتابیں ہی کتابیں بکھری ہوئی تھیں۔ اسی اثناء میں صاحبزادہ بلال صدیق ایڈووکیٹ جو سجادہ نشین کے چھوٹے بھائی ہیں وہ بھی آ پہنچے۔ ان کی آمد نے محفل کو مکالمے میں بدل دیا، بات صوفیاء کی زندگی کے محاسن سے شروع ہوئی اور خانقاہی نظام کی افراط و تفریط میں الجھ کر رہ گئی۔ انسانی تحریکیں خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں جب افراط و تفریط اور عمل و رد عمل کا بازیچہ بنتی ہیں تو ان کی شکل مسخ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ جیسے فقہ اسلامی کی تدوین نے مسلمانوں کی دینی و سماجی زندگی کو سنوارنے کا عظیم کام کیا لیکن جب اسے حیلہ بازیوں کا ذریعہ بنایا گیا تو مسلمانوں کی عملی زندگی بے روح ہوکر رہ گئی۔ایسا ہی حال تصوف کا بھی ہوا۔ شریعت و طریقت میں تفریق پیدا ہو گئی۔ مجاز پرستی، پیر پرستی، قبر پرستی نے درگاہوں کے فیض چھین لیے۔ تاہم یہ سب گمراہیاں اپنی جگہ لیکن کھرا سچ یہ ہے کہ صوفیہئ صافی نے ہمیشہ ان گمراہیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ حضرت شیخ ابو الحسن ؒ کا قول ہے کہ ”تصوف رسوم وعلوم کا نام نہیں بلکہ اخلاق کا نام ہے۔صوفیاء و درگاہوں نے اسلامی تاریخ میں ہمیشہ اخلاقی تحریک کے طور پر مسلمانوں کی راہبری کی۔ ہملٹن گب نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ”تاریخ اسلام میں بار ہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا ہے۔ لیکن بایں ہمہ،وہ مغلوب نہ ہو سکا۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تصوف یا صوفیہ کا انداز فکر فوراً اس کی مدد کو آجاتا تھا۔ اور اس کو اتنی قوت اور توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی“۔ گِب کی رائے بالکل درست ہے۔ اسلامی تاریخ میں صوفیاء کے کارنامے اسی نظر سے مطالعے کے مستحق ہیں۔ مسلمانوں کی ملی زندگی میں جب بھی کوئی مشکل مقام آیا تو ان ہی بزرگوں نے بصیرت و حکمت کے ساتھ نا مساعد حالات کا مقابلہ کیا۔ ان کا ہاتھ ملت کی نبض پر تھا اور ان کا دماغ تجدید و احیاء کی تدبیریں سوچنے میں مصروف رہتا تھا۔ آج بھی لوگ صوفیاء اور درگاہوں سے ایسے ہی راہبرانہ افعال وکردار کی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن مشائخ و خانقاہوں نے ملت کی بہتری و راہبری کی تدبیریں سوچنا کم کر دی ہیں۔ مکالمہ ابھی ادھورا ہی تھا کہ رخصت کا وقت آن پہنچا۔ علم دوست درگاہ سے واپسی پر تبرک کے طور پر تصوف کی اہم کتب کا تحفہ ملا، جسے بصد شکریہ قبول کیا،اور اجازت چاہی۔ 
معرفتِ حق کی جستجو ایک مادہ پرست بنک آفیسر کے دل کو بھی اسی طرح بے چین کر سکتی ہے جس طرح ایک عارف کے دل کو…… اسی انسانی جستجو کا نام تصوف ہے۔ حقیقی تصوف مذہب کی روح، اخلاق کی جان اور ایمان کا کمال ہے۔ اس کی اساس شریعت ہے اور سر چشمہ قرآن و حدیث۔ یہ شریعت کی نفی نہیں بلکہ اس کی توضیع ہے۔ صرف اقرار باللسان نہیں، اقرار بالقلب بھی ہے۔ لیکن اسی سفر کے دوران حاصل سفر یہ بات تھی کہ حضرت یحییٰ بن معاذ رازیؒ کا قول یاد رکھنے والا ہے کہ تین قسم کے آدمیوں کی صحبت سے بچنا چاہیے۔ ایک غافل عالم سے، دوسرے مکار فقیر سے اور تیسرے جاہل صوفی سے۔ 





پیر، 17 اپریل، 2017

ترجمہ کاری کے فروغ میں میڈیا کاکردار

ترجمہ کاری انسانی مزاج، تاریخ اور تمدن کی دریافت اور شناخت کا اہم ذریعہ ہے۔ انسان رنگ و نسل،لسانی و جغرافیائی بندشوں اور سیاسی و سماجی تفرقات کی وجہ سے انسان ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہے، وہ ترجمہ کاری کے ذریعے ایک زبان کو اپنی زبان کے حروف تہجی میں ڈھالنے سے انسانی سطح پر ایک دوسرے سے تعارف و آگاہی حاصل کرتا ہے۔خود کو ذہنی و جذباتی سطح پرباخبر رکھنے اور دوسروں کے مسائل و وسائل اور خوشی و غم کو جاننے اور ان میں شریک ہونے کے لیے ترجمہ ہی ایک ایسا وسیلہ ہے جو خبر کا ذریعہ بنتا ہے۔ ترجمہ کاری درحقیقت انسانوں میں اشترا ک کا قرینہ پید اکرنے کا فن ہے۔ زبان کے فروغ، تمدن سے آشنائی، کائنات کی دریافت و بازیافت اور تاریخ کے وقوف کے لیے ایک سے زیادہ زبانوں سے رابطہ پید ا کرنا لازمی ہے۔ اسی تناظر میں آج عالمگیریت کے عہد شباب میں ترجمہ کاری کو علم کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ آج کی علمی معیشت کے دور میں بھی علوم کی وسعت اور فروغ میں ترجمہ کاری کا کردار نمایاں ترین ہے۔ جدید دنیا کے عالمی انکشافات، سائنسی تحقیقات اور ادبی سرگرمیاں ترجمے کے وسیلے سے اگلے ہی لمحے ساری دنیا تک پہنچ رہے ہیں۔ ترجمہ کاری وہ فن ہے جو زبانوں، تہذیوں، تاریخوں اور اقوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

نت نئے علوم کے اس عہد میں تراجم کی افادیت و اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ روح عصر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگی رکھنے والی پاکستان کی جدید جامعہ ”یونیورسٹی آف گجرات“ میں ایک عشرہ قبل ہی ”مرکز السنہ و علوم ترجمہ“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس مرکز کو رئیس الجامعہ ڈاکٹر ضیاء القیوم کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے، وہ خود کمپیوٹر سائنس کے استاد اور ”مشین ٹرانسلیشن“ میں تخصیصی مہارت کے حامل ہیں ان کی راہنمائی میں اس مرکز کے علم دوست سربراہ ڈاکٹر غلام علی نے شب و روزکی جہد ِمسلسل اور اصحابِ لگن پر مشتمل ٹیم کے تعاون سے اس مرکز علوم ترجمہ کو حقیقی معنوں میں مرکز ِفضیلت بنا دیا ہے۔ پاکستان بھر میں اس مرکز کی کارکردگی کو خوب سراہا جاتا ہے۔ اس مرکز کے زیر انتظام”دارالترجمہ“ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ جس میں علمی و ادبی تراجم کے ساتھ ساتھ حکومت پنجاب کے قوانین کے اردو تراجم کا قومی فریضہ بھی کامل تندہی سے انجام دیا جا رہا ہے۔ اس مرکز السنہ و علوم ترجمہ کا ایک قابل ذکر و تحسین کام علوم ترجمہ اور ترجمہ کاری کے فہم و ادراک کے لیے بیداری مہم کا آغاز اور اس کے لیے سیمینار،سپموزیم، کانفرنسوں اور مکالماتی نشستوں کا مسلسل اہتمام کرنا ہے اور ترجمہ کاری کوقومی بیانیے کی تشکیل میں معاون بنانے کے لیے مباحث ومکالمے کو فروغ دینا ہے۔ اسی حوالے سے13اپریل بروز جمعرات جامعہ گجرات کی مرکزی قائد اعظم لائبریری کے نمائش ہال میں ”ترجمہ کاری کے فروغ میں میڈیا کا کردار“کے موضوع پر خصوصی فکری نشست کا انعقاد ممکن بنایا گیا۔ یونیورسٹی آف گجرات کے رجسٹرار ڈاکٹر طاہرعقیل نے صدارت کی جبکہ ممتازدانشورتجزیہ کاراورصاحب اسلوب کالم نگاروسعت اللہ خاں مہمان خصوصی تھے۔ محفل کا آغازعطاء اللہ کی تلاوت قرآن حکیم سے ہوا۔ صدر شعبہ ڈاکٹر غلام علی نے کہا کہ ترجمے کا فن انسانیت کی تاریخ میں بین الاقوامی نقطہ نظر کی پیداوار ہے اور آفاقی انداز نظر پید اکرنے کا اہم وسیلہ بھی۔ آج ترجمہ کاری کے فروغ میں میڈیا کا کردار غیر معمولی اہمیت کاحامل ہے۔ صحافتی مقاصد کے لیے ترجمے اور طریقہ ہائے ترجمہ پر سب سے زیادہ اثر میڈیا کے بدلتے ہوئے کردار نے ہی ڈالا ہے۔ اب میڈیا کی ذمہ داری صرف آگاہ کرنا یا ابلاغ نہیں ہے بلکہ میڈیا معلومات کا طے شدہ پالیسیوں اور نظریاتی بنیادوں پر مخصوص معلومات یا تصویر کے کسی ایک ترجیحاتی رُخ کا سامعین وناظر تک ابلاغ ہے۔ آج ابلاغ کے مقصد سے موجود متن کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ چنانچہ میڈیا کا کردار محض خبر کا نہیں بلکہ طے شدہ اہداف و مقاصد کے لیے میڈیا اہم ہتھیار بن گیا ہے۔ ترجمہ اور ترجمہ کاری ایک فن اور معلومات کی منقلی کا عمل ہے۔ مگر صحافت کے میدان میں ترجمہ فعال کردار کا حامل ہے۔ اس لیے آج ترجمہ کاری کے فروغ کے لیے میڈیا کے کردار کا جائزہ ناگزیر ہے۔ مہمان خصوصی و کالم نگار وسعت اللہ خاں نے کہا کہ زبان کسی بھی معاشرے کی تہذیبی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ترجمہ کاری کا عمل زبان کو لسانی، ثقافتی اور تہذیبی حوالوں سے وسعت بخشتے ہوئے ذہنی رویوں کو کشادہ کرتا ہے۔ عصر حاضر میں میڈیا کو ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے سماج و معاشرہ کی مثبت تشکیل نو میں ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے۔ ترجمہ کا عمل کسی قوم، ملک یا تہذیب کی پہچان کا باعث بنتا ہے چنانچہ دنیا کے بہترین و ارفع ادب کو پاکستان کی مقامی و قومی زبانوں  میں منتقل کرتے ہوئے ہم بہتر سماجی تبدیلیوں سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ ترجمہ کاری ایک ذمہ دارانہ عمل ہے۔ میڈیا کو خبر کی عوام تک ترسیل کرتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو خبر کی عوام تک ترسیل کرتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا میں ترجمے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس قومی ضرورت کے حوالے سے صحافیوں کی تربیت کا کوئی نظام اور انتظام موجود نہیں۔ رجسٹرار ڈاکٹر طاہر عقیل نے کہا کہ مختلف مسائل کا دیانتدارانہ تجزیہ ہی ان کے حل میں معاون ہو سکتا ہے۔ وسعت اللہ خان ایک کامیاب اور حساس تجزیہ نگار ہیں، انہوں نے صحافیانہ ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی کھلے سچ کو بیان کیاہے۔ بلاشبہ لفظی ترجمہ کی ابلاغی اہمیت ا س کی تاریخی اہمیت میں ضم ہوجاتی ہیں۔ ترجمہ ایک ایسی مشقت ہے جو مترجم سے ہر ممکن قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔ جامعہ گجرات کا مرکز علوم ترجمہ اپنے سربراہ ڈاکٹر غلام علی قیادت میں قومی فرائض کی ادائیگی میں نئی تاریخ رقم کر رہا ہے اور اس یونیورسٹی کا سنٹر آف ایکسیلنس بن چکا ہے۔ تقریب میں شعبہ ابلاغیات کے استاد زاہد بلال،ثوبیہ عابد، ڈاکٹر ذکیہ بانو، ممتاز دانشور افتخار بھٹہ اور چیف لائبریرین کاظم علی سید نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ 
بلاشبہ میڈیا کی اپنی ضروریات اور تکنیکی مسائل ہیں اور برق رفتاری تراجم کی روح کو ملیا میٹ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ میڈیا کا مقصد فوری اور جلد ترسیل ہے معیار ترجمہ نہیں۔ اس میں ضرورت ابلاغ کی ہے لسانیات کی نہیں۔ صحافتی متن کا ترجمہ آزاد ترجمہ کہلاتا ہے۔میڈیا میں منتخب متن کے ترجمے کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے صحافت اور ترجمہ کا تعلق بہت اہم ہے لیکن ناظرین و سامعین کا ذہن ترجمے اور میڈیا کے تعلق کی طرف  جاتا ہی نہیں، حالانکہ صحافی ترجمان بھی ہوتا ہے۔ صحافی کے وظائف یعنی خبر کا انتخاب،تحقیق، تحریر اور اس کی ایڈیٹنگ کا عمل سمجھنے سے میڈیا میں ترجمے کے کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صحافت میدان عمل ہے اور بدلتے ہوئے حالات و تناظر میں کوئی صحافی خود کو جتنا زیادہ اچھا مترجم بنائے گا،اتنا ہی اچھا صحافی سمجھا جائے گا۔ اس سیمینار سے اس بات کی ضرورت بھی محسوس ہوئی کہ ترجمہ کاری کے فروغ میں میڈیا کے کردار کی خواہش کی تکمیل کے لیے لازم ہے کہ مرکز السنہ و علوم ترجمہ میڈیا کے لوگوں کے لیے تربیتی کورسز کا اہتمام کرے تاکہ میڈیا میں ایسے افراد پیدا کیے جا سکیں جو ترجمہ کاری کی اہمیت و افادیت سے آشنا ہوں۔ جامعات قوم کی کردا ر سازی میں اہمیت کی حامل ہیں۔ میڈیا عوامی رائے عامہ کی تشکیل میں نئی راہیں متعین کرنے میں سازگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ترجمہ کاری میں صحافتی ضروریات کے پیش نظر یقینا لفظ و معنی کے ذائقے میں کئی بار تبدیلی آ جاتی ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ ہمیں دونوں شعبوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ ایک یونانی مقولہ ہے کہ ”ترجمہ ہمیشہ ایک بھنی ہوئی سٹرابیری ہی رہے گا“ یعنی ترجمے کے دوران اصل چیز کے ذائقے میں فرق ضرور پڑتا ہے۔ 


بدھ، 1 فروری، 2017

پہلا گجرات لٹریری فیسٹول

دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں جب نازیوں نے پیرس پر قبضہ کرکے اپنے مخالف ادیبوں، دانشوروں اور مفکروں کو گرفتار کر لیا تو ان کے لیے سزا یہ تجویز کی گئی کہ سب کو الگ الگ کوٹھڑیوں میں بند کرکے ہر کوٹھڑی میں ایک لاؤڈ سپیکر لگا دیا گیا جس پر ان کے لیے خاص پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ ایسے پروگرام جن سے انہیں ذہنی اذیت پہنچے۔ وہ سن سکتے تھے، بول نہیں سکتے تھے، جواب نہیں دے سکتے تھے۔ کچھ عرصہ تک یہ پروگرام نشر ہوتے رہے لیکن جلد ہی ان پروگراموں کے لکھنے والے تھک گئے اور انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ سننے والوں کا رد عمل معلوم ہوئے بغیر ان کا قلم جواب دے گیا ہے۔ آخر گونگوں کے لیے کب تک اور کیسے لکھا جا سکتا ہے؟ سوچ تو ردّعمل کی فضا میں آگے بڑھتی ہے۔ جب یہ رشتہ کمزور پڑ جائے تو فکر و خیال کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ ہمارے لکھنے اور پڑھنے والے کے درمیان ابلاغ کمزور ہونے سے ہم زندگی کی ہر سطح پر ایک تھکا دینے والے بحران سے گزر رہے ہیں۔ زندگی میں ہم نے نصب العین اور معنویت کو گم کر دیا ہے۔ ہماری نئی نسل سرگرداں و پریشان ہے اور سماج برسات کے پانی کی طرح،نالیاں نہ ہونے کے باعث سٹرکوں پر مارا مارا پھر رہا ہے اور جدھر راستہ ملتا ہے، بہہ نکلتا ہے۔ فکری بحران اوربے معنویت کے ابھارنے سب سے زیادہ نقصان ادب وفن کا کیا ہے۔ شعر و ادب اور فنون لطیفہ کی تخلیقی قوتیں اس سے بجھ سی گئی ہیں۔ تخلیق و تحریر جیسی قدریں بے معنی ہو گئی ہیں۔ آج ہمارا ادب و فن مستقبل کے عقیدے سے محروم ہے اور ہمارے لکھنے والے کے پاس نئی نسلوں کو دینے کے لیے آنے والے زمانے کا کوئی خواب نہیں ہے۔ ایسی گھمبیر صورتحال میں وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں آگے بڑھیں اور اہل قلم اور نسل نو کے درمیان ابلاغ کے فروغ کے لیے گفتگو اور مکالمے کا پلیٹ فارم فراہم کریں تاکہ اعلیٰ تعلیم کے مقاصد کا عملی سماجی اطلاق ممکن ہو سکے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سنجیدہ فکر قائد ڈاکٹر مختار احمد کی فکری کاوشیں رنگ لانے لگی ہیں اور ہماری جامعات کے جوا ں عزم وائس چانسلرز نے متحرک کردار ادا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اسکی ایک مثال عصری چیلنجوں سے ہم آہنگ جدید تعلیمی و فکری وژن کے حامل یونیورسٹی آف گجرات کے خوش خیال وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم کی ہے انہوں نے قائدانہ بصیرت سے جامعہ گجرات کو دانش گاہ کی شناخت فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک تاریخ ساز ادبی روایت کے آغاز کا فریضہ سرانجام دیا اور سنحنوروں کی بستی کہلانے والے گجرات کو ”پہلے گجرات ادبی میلہ“ کی روشنی سے منور کرکے گجرات کی قدیم شناخت کی ”نشاۃِ ثانیہ“ کا آغاز کیا۔ اس زرخیز ادبی سرزمین نے نامور اہل قلم کو جنم دیا۔ فارسی شاعر غنیمت کنجاہی سے پنجابی کے نامور شاعر و محقق شریف کنجاہی تک ممتا ز شعراء، ناول نگاروں، کہانی کاروں اور نثر نگاروں نے اس دھرتی کامان بڑھایا۔ حضرت نوشہ گنج سے ڈاکٹر شاہین مفتی تک شعرو ادب کے ایسے ایسے بطل جلیل گجرات کی سرزمین سے فیض یاب ہوئے کہ سرسید احمد خاں نے گجرات کی علمی وتعلیمی خدمات کے اعتراف میں اسے ”خطہئ یونان“ کے لقب سے نوازا۔ ایسے ہی اہل علم و ادب کی خدمات کے اعتراف اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شیخ الجامعہ نے نہ صرف محترمہ توشیبا سرور کی ادب دوستی کی معاونت سے یونیورسٹی آف گجرات میں بھرپور انداز میں پہلے گجرات لٹریری فیسٹیول کا اہتمام کیا بلکہ ببانگ دہل اسے سنحنوران گجرات کے نام بھی کیا۔ 

  

جامعہ گجرات کے ادب دوست کنسلٹنٹ حیدر معراج اور ڈائریکٹر سٹوڈنٹس سروسز سنٹر محمد یعقوب نے حیاتین لٹریری سوسائٹی کی ادبی روایات کو بخوبی آگے بڑھاتے ہوئے علامہ اقبال ہال کو ادبی جمالیات کے تقاضوں سے سجایا۔ ادیبوں اور فنکاروں کی آمد پر پُر جوش طالبعلموں نے والہانہ استقبال کیا۔ ڈاکٹر شیبا عالم نے میزبانی و نظامت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دئیے۔ پہلا سیشن ”انتظار حسین کی یاد میں“ تھا۔ خراج تحسین پیش کرنے والوں میں دانشور لکھاری محترمہ کشور ناہید اور ڈاکٹر اصغر ندیم سید تھے۔ کشور ناہید نے کہا کہ سیاسی، سماجی اور ثقافتی حقیقتوں کا بیانیہ ہماری فکشن کا خاصاہے۔ انتظار حسین نے اپنے ناولوں اور افسانوں کے ذریعے سماج کو انسان دوستی کے تصور سے روشناس کرایا۔ اصغر ندیم سید کا کہنا تھا کہ انتظار حسین اردو میں کہانی کی روایت کے عظیم نمائندہ ادیب تھے اور وضعداری اور تہذیبی شخصیت کے حامل تھے۔ دوسرا سیشن ”کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا“ فیض احمد فیض کی یادوں سے مہکا ہوا تھا۔ 


محترمہ سلیمہ ہاشمی نے اپنے خوشگوار انداز میں اپنے ”ابا“ فیض احمد فیض کی یادوں سے نوجوانوں کو متعارف کروایا۔ انہوں نے بیان کیا کہ فیض صاحب کو عوامی زندگی سے عشق تھا۔ وہ تیسری دنیا کے ادیبوں و شاعروں کو عوامی فلاح کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر عارفہ سیدہ کا کہنا تھا کہ فیض دھیمے مگر مضبوط لہجے کے شاعر تھے جنہوں نے عوامی موضوعات کو اپنے شعروں کا موضوع بناتے ہوئے غاصبوں کا مقابلہ کیا۔ اصغر ندیم سید کا کہنا تھا کہ فیض کی شاعری گہرے تاریخی شعور کی مظہر ہے وہ عوامی اقدار کے شاعر تھے۔ اگلا سیشن ”پاکستان میں تھیٹر اور ڈرامے کی روایت“ کے موضوع پر تھا۔ فن ڈرامہ سے وابستہ ممتاز فنکاروں نعیم طاہر اور سلمان شاہد نے فنی و تنقیدی جائزہ پیش کیا۔ نعیم طاہر نے واضح کیا کہ تھیٹراصلاً ایک طرز زندگی ہے جو ناظرین کو سماجی شعور و آگاہی بخشتاہے۔ سلمان شاہد نے ڈرامہ کے فن پرکمرشلائزیشن کے غلبے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ حقیقت میں ڈرامہ تخلیق کاری میں نمایاں مقام کا حامل ہے۔ پھر باری تھی مزاح نگار عطاء الحق قاسمی کی جنہوں نے ”بزبان قاسمی“ میں اپنے لطیف بیان سے حاضرین کو ادبی چاشنی سے لطف اندوز کیا۔ اپنی یادوں کے مزاحیہ چراغ جلائے اور تحریروں کے اقتباسات پڑھ کر محفل کو زعفران کر دیا۔ آخری سیشن ”پاکستانی میڈیا اور اخلاقی ذمہ داریاں“ کے موضوع پر تھا جس میں فعال علم دوست توشیبا سرور اور معروف اینکر عبدالرؤف نے سنجیدہ انداز میں گفتگو کی۔ عبدالرؤف کا کہنا تھا کہ میڈیا کی تمام اصناف اور ادب کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ادب سے رابطہ توڑ کر ہمارا میڈیا زوا ل پذیر ہے۔ پاکستانی میڈیا کو سماجی تشکیل کے لیے ہر صورت اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ ریٹنگ کے لیے سنسنی نے حدود کو متاثر کیا ہے۔ جامعہ گجرات کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء القیوم نے اختتامی خطاب میں تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ادب بنیاد ی طور پر ایک سماجی عمل ہے اور انسان کے سماجی رشتوں کا سب سے اہم مظہر بن کر قوم کی روح کے اظہار کا سب سے بڑا وسیلہ بن جاتا ہے۔ گجرات ادبی میلے کا مقصد ہی یہ تھا کہ سماج اور اس کے افراد کو ادب کی سطح پر ایک دوسرے کے تجربوں میں شمار ہونے کا موقع فراہم کرنے کی روایت کو مضبوط کیاجائے۔ تاکہ لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کے درمیان قربت کے ذریعے نئے فہم و شعور سے آشنائی ممکن ہو سکے۔ ادب و فن غیر معمولی قوت کے ذریعے ہماری ہستی کو بیدار کرکے اسے عام شعور کا حصہ بنا دیتا ہے اور اس کے ذریعے ہم زندگی کے نئے معنی تلاش کرتے ہیں۔ 

اس ادبی میلے میں شرکاء بجا طور مسرور تھے کہ عشروں بعد گجرات میں ایسی ادبی محفل سجی تھی جو سنحن فہمی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ سنحنوری کے فروغ کا علم بھی بلند کیے ہوئی تھی۔ منتظمین تحسین و مبارک کے حقدار ٹھہرے کہ انہوں نے ادب پروری کی شمع روشن کردی ہے جس کی روشنی میں نوجوان نیا شعور حاصل کریں گے۔ اسی شعور کے ذریعے قومیں بدلتی ہیں اور یہی نئی معنویت نوجوانوں میں قوت عمل اور خواہش عمل بیدار کرتی ہے۔ مارسل پر وست نے کہیں لکھا ہے کہ ”ہماری اصل زندگی ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ اسے ہمارے سامنے لائے اور اس طرح خود ہمیں ہم سے واقف کر دے۔“بلاشبہ اسی شعور کے ذریعے ہم ایک نیا جنم لیتے ہیں۔ گجرات لٹریری فیسٹیول کے مباحث نے عیاں کر دیا کہ ادبی رویے فکری رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور لکھنے والوں کی ذمہ داری، فکری رویوں کی پاسداری سے ثابت ہوتی ہے۔ اللہ کرے ہم لکھنے والوں کو اپنے رد عمل سے نواز سکیں تاکہ وہ لکھتے رہیں۔ سوچتے رہیں کیونکہ ہم سوچتے ہیں، اسی لیے تو ہم ہیں۔