پیر، 15 جنوری، 2018

زمیندار کالج کا روشن نصاب


زمیندار کالج کا روشن نصاب

شیخ عبدالرشید
سخنوروں کی بستی اور خطہئ یونان کی شہرت رکھنے والے گجرات کی حقیقی شناخت زمیندار کالج ہے۔ جس طرح تحریک پاکستان کا ذکر ایم اے او کالج علی گڑھ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اسی طرح گجرات کا ذکر بھی اس تاریخی اور تاریخ ساز کالج کے بغیر ممکن نہیں ہوپاتا۔ گجرات کی جدید تاریخ کی تخلیق اس درسگاہ میں ہوئی، اسی نے گذشتہ پون صدی سے گجرات کے شعور کو جلا بخشی ہے۔ اسی لیے علم دوست حلقے گجرات اور زمیندار کالج کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں علم پرور، کتاب دوست اور شفیق و خلیق استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال بٹ کی دعوت پر برادرم ڈاکٹر غلام علی کے ہمراہ زمیندار کالج جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ درسگاہ میری مادر علمی بھی ہے اور یہیں سے میں نے اپنے کیرئیر کا آغاز بھی کیا، چنانچہ اس کے درودیوار اور سحر انگیز فضا میرے لیے ہمیشہ ذہنی وفکری جلاء اور قلبی طمانیت کا سبب بنتی ہے۔ ڈاکٹر اقبال بٹ کی پر تکلف چائے کی میزپر جواں عزم پرنسپل پروفیسر عبید اللہ سے ملاقات ہوئی تو بے ساختہ ان کے مختصر دور کی ادارہ سازی کی کاوشوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ سرکاری تعلیمی ادراوں کی اصلاح پاکستان کا اہم مسئلہ ہے۔ بد انتظامی اور بدعنوانی ہمارے قومی مسائل ہیں۔ زمیندار کالج گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے قیادت کے تناظر میں قحط الرجال کا شکار رہا اور اپنی ادبی روایات، علمی مزاج اور انتظامی حسن سے محروم ہوتا چلا گیا تھا اور دھیرے دھیرے ایسا دکھائی دینے لگا کہ میرے ایک دوست اس کالج پر”زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشمین“ کی پھبتی کسنے لگے تھے۔ لیکن آخر کب تک یہ جاری رہتا۔ قدرت کو اس ادارے پر رحم آ گیا اور12اپریل2016ء کو اسی کالج کے شعبہ اکنامکس کے ایک فعال استاد پروفیسر عبید اللہ جو اپنی شرافت، دیانتداری اور دھیمی مسکراہٹ کی بدولت طالب علموں اور اساتذہ میں مقبول تھے انہوں نے بطور پرنسپل چارج لیا تو ایسے لگا جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آ گئی ہو۔ انہوں نے کامل دیانت و صداقت سے ہمہ جہت تدریسی و انتظامی اصلاحات کا علم بلند کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے صرف دو سال سے کم عرصے میں کالج کی قابل فخر تاریخ، عظیم روایات اورعلمی و ادبی ماحول کو ایسے مثبت تبدیلی کے عمل سے گزارا کہ سول سوسائٹی ان کے عہد کو ”نشاۃ ثانیہ“ کا دور کہنے لگی ہے۔ انہوں نے تھوڑے وقت میں زیادہ کام کیا اور اپنے مخلص ساتھیوں کے ہمراہ شب و روز تعمیر و ترقی کا نیا عہد تخلیق کیا۔ تعلیم، تدریس، تربیت کا امتزاج متعارف کروایا۔ آزادی کو نظم وضبط میں پرویا اور سہولتوں کی فراہمی کا کھلے دل سے اہتمام کیا۔ کالج کی علمی وادبی رونق کو بحال کرکے عظمت رفتہ کی بازیافت کا کارہائے نمایاں سرانجام دیا۔ کالج کی بدلتی فضا اور آگے قدم بڑھاتی تاریخ پر گفتگو جاری تھی کہ پروفیسر عبید اللہ نے کمال محبت سے کالج کے تاریخی مجلے ”شاہین“ کا تازہ شمارہ پیش کیا۔ شاہین2017-18بذات خود ان کے ذوق سلیم،جمالیات اور وژن کا مرقع تھا۔ لگ بھگ اڑھائی سو صفحات پر مشتمل شاہین اپنے سرورق سے لے کر آخر تک پکار پکار کر کہہ رہا تھ اکہ ”وہ ایک پیکر کہ تو بھی رشک کرے۔“ مدیر اعلیٰ پروفیسر سید وقار افضل کا اداریہ کھولا تو تسلی ہوئی کہ وہ بھی میرے ہم خیال تھے۔ رقم طراز ہیں کہ ”اداروں کی بقا کا عمل جہاں ہر فرد کے احساس ذمہ داری سے منسلک ہے، وہاں اعلیٰ قیادت بھی اس کا اوّلین جزو ہے۔ گورنمنٹ زمیندار کالج اس حوالے سے ہمیشہ خوش قسمت رہا ہے کہ اس ادارے کو ایسے سربراہان (پرنسپلز) ملے جو اپنے کام اور ادارے کے ساتھ مخلص تھے۔ زمیندار کالج کے موجودہ پرنسپل پروفیسر عبید اللہ جس لگن اور دیانتداری کے ساتھ کالج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے عمل میں مصروف ہیں وہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ قابل تقلید بھی۔ انہوں نے مجلس ادرات کو”شاہین“ کی اشاعت یقینی بنانے کے لیے ممکنہ سہولیات فراہم کیں۔ اس لیے، اس سال کے شمارے میں طلبہ کی تحریروں کی تعداد اس بات کی غماز ہے کہ پہلے کی طرح اب بھی زمیندار کالج کے شاہینوں کو اس ادارے کے اندر ایک ایسی نئی تخلیقی فضا میسر ہے جو انہیں قلم اور کتاب کی طرف مائل کر رہی ہے“۔مجھے بر ادرم وقار افضل کے بارے میں یقین ہے کہ وہ بلا جواز تعریف کرنے کے عادی نہیں، اس اداریے کا حرف حرف کالج میں ”احیائے نو“ کی کہانی کا گواہ ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ پروفیسر عبید اللہ نے اصلاحات کا یہ عمل کرتے ہوئے بطور منتظم خود کو غیر جانبدار اور ذاتی مفادات سے بالا تر رکھا۔یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
تعلیمی ادارں کے مجلے عمومی طور پر طلبہ اور اساتذہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کے عکاس ہوتے ہیں لیکن ہماری تعلیمی روایت میں یہ طالب علموں کی علمی زندگی، تہذیبی تربیت اور مذاق لطیف کی پرورش کا ناگذیر جزو سمجھتے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلمان شاہجہاں پوری ان کے مقصد تصنیف و تالیف میں طلبہ کی تربیت اور تنقید و تحقیق میں ان کی رہنمائی بتاتے ہیں۔ بلاشبہ کسی کالج کا میگزین اس ادارے سے وابستہ طلبہ و اساتذہ کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ مجلے نئے لکھنے والوں کے لیے گہوارے کا کام دیتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں۔ یہ میگزین ایسی تجربہ گاہ ثابت ہوتے ہیں جن میں نوخیز تصورات پرورش پاتے ہیں اوربعض اوقات تو ادب کی نئی روایات کا نقطہ آغاز ثابت ہوتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس روایت کو علی گڑھ میگزین اور پنجاب یونیورسٹی نے پروان چڑھانے میں سرگرم حصہ لیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے”روای“ اور اسلامیہ کالج کے”کریسنٹ“کے ساتھ ساتھ زمیندار کالج کا مجلہ”شاہین“بھی قیام پاکستان سے قبل ہی شہرت عام حاصل کر چکا تھا۔ یہ مجلہ اس پُر شکوہ کالج کی عظیم الشان روایت ہے۔ اس کی مجلس ادرات میں سرپرست پروفیسر عبید اللہ پرنسپل، نگران پروفیسرغلام عباس وائس پرنسپل ہیں جبکہ اس کے روح رواں پروفیسر سید وقار افضل مدیر اعلیٰ، کالج کے ہر دلعزیز استاد پروفیسر راشد اللہ بٹ مدیر حصہ انگریزی جبکہ کتاب دوست ڈاکٹر سید وسیم رضا گردیزی مدیر حصہ پنجابی ہیں۔ معاون مدیران میں محمد جاوید ساغر، محمد مہدی خاور اور سید عامر علی اور طالب علم مدیران میں محسن شہزاد، روا ناز، صفورا مریم، سید محمد احسن، فائزہ صابر چوہدری کے نام درج ہیں۔ ٹائٹل پر کالج کی پُر کشش تصویر کو رنگوں کے امتزاج سے دلکش روپ دیا گیا ہے۔ یہ سہ زبانی مجلہ ہے۔ صفحہ چار اور پانچ پر اداریہ، سید وقار افضل کی نثری تحریر اور فکر ی اسلوب کا مظہر ہے اور اس پر نگاہ ڈالنے کے بعد ممکن نہیں کہ قاری اس مجلے کو صفحہ در صفحہ نہ کھولے۔ آغاز میں پرنسپل پروفیسر عبید اللہ کا چھ صفحات پر مشتمل مختصر مگر جامع انٹرویو ہے۔ نقد و نظر کے حصے میں ایم خالد فیاض کا مضمون ”نائن الیون اور اردو افسانہ“، حافظ محمود اختر کا ”مجید امجد کی نظم حسین کا تجزیاتی مطالعہ“، پروفیسر راشد اللہ بٹ کا مضمون”ادب ایک تعارف، ایک تاثر“ سنجیدہ اور فکر انگیز مضامین ہیں۔ حسن نوشاہی، صبا ارشد، عنبرین فاطمہ، سونیا افتخار اور سمیرا عباس نے حالی، انتطارحسین، انور مسعود، اکبر الٰہ آبادی کے حوالے سے خوب لکھا ہے۔ اس کے بعد بزم خیال میں کالج اور کالج کی زندگی کا رنگ غالب ہے۔ افسانہ نامہ ہے۔ سفر نامے ہیں، خاکے ہیں اور مضامین بھی ہیں۔ صفحہ 132سے152تک رنگ سخن ہے جس میں غزل و نظم ہے۔ صفحہ153سے182تک پنجاب رنگ ہے۔ پنجابی میں مضامین اور غزلیں و نظمیں ہیں۔ انگریزی حصہ میں ادب اور ادبی تقاضوں کے حوالے سے ترجمہ کا موضوع نمایاں ہے۔ راشد اللہ بٹ اور انور حسین سید کے شاندار تراجم ہیں۔ پروفیسر محمد اقبال بٹ کا آرٹیکل ترجمہ! وسعت اور چیلنجز خاص مضمون ہے اور پڑھنے اور سراہنے کے لائق بھی ہے۔ انگریزی حصہ بھی پچاس سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ جگہ جگہ کالج کی کار گزاری اور تقریبات کی تصاویرمجلے کے حُسن کو دوبالا کر رہی ہیں۔اس مجلے کی ورق گردانی سے ہم اس ادارے کی علمی و ادبی اورتعلیمی و تحقیقی زندگی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہاں طالب علموں کو مختلف موضوعات اور مسائل پر غوروفکر کی عادت بھی ہے اوران میں اظہار خیال کی قوت بھی دکھائی دیتی ہے۔ شاہین نے ہمیشہ اس کالج کے طلبہ کی ادبی تربیت اور مزاج سازی میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس کے لیے اس کالج کے اساتذہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ شاہین کا حالیہ شمارہ دیکھنے اور پڑھنے کے بعد یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس کی ادبی خدمات کا دائرہ مزید وسیع ہوا ہے جو نہ صرف زمیندار کالج کے ماحول کے ساتھ ساتھ ہمارے قومی ادبی منظرنامے کو منور کر رہا ہے۔ اسی حوالے سے اسے تعلیمی مجلے سے بڑھ کر ادبی مجلوں کو صف میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ شاہین کا یہ شمارہ اپنے عہد کے تخلیقی و ادبی سفر کی اہم دستاویز ہے جس پر مدیر اعلیٰ و مدیران مبارکبا د کے حقدار ہیں۔
پروفیسر عبید اللہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر انسان صحیح سمت میں خلوص نیت سے کوشش کرے تو ہمت مرداں، مدد خدا کاقول سچ ثابت ہو جاتا ہے۔ انہوں نے قدیم روایت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے کالج کے تن مردہ میں نئی جان ڈالی ہے۔ صلاحیت، معاملات کی شفافیت، میرٹ و انصاف، تعلیمی نظم و ضبط اور بالخصوص طالب علموں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا انتظام انکے مختصر دور کے دُوررس اثرات کے حامل اقدامات ہیں۔ انہوں نے اللہ کے فضل سے چیلنج قبول کیے اور محنت و دیانت سے معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھایا اور آج ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ پروفیسر عبید اللہ نے دو سالہ دور میں دو عشروں کا کام کیا ہے۔اتنا کام صمیم قلب اور شب و روز محنت سے ہی ممکن ہے۔ کالج کے درودیوار، مسحور کن فضا، صاف و شفاف ماحول، تعمیر و ترقی، طالب علم اور اساتذہ بجا طور پرگواہی دے رہے ہیں کہ
؎ معجزہئ فن کی ہے خون جگر سے نمود

فروغِ قومی زبان اور جامعات کا کردار

فروغِ قومی زبان اور جامعات کا کردار

دنیا کے ہر آزاد ملک کی ایک مشترک زبان ہوتی ہے جسے قومی زبان کہا جاتا ہے۔ یہ زبان اس ملک کے مختلف حصوں، علاقوں، خطوں اور طبقات کے مابین اتحاد و یگانگت و قومی تشخص، کاروبار مملکت و ملکی نظم و نسق اورعلوم و فنون کی نسل نو کو منتقلی کے عمل میں معاون اور دیگر قوموں کی صف میں برابری دلانے جیسے امور میں نشان امتیاز کا کردار ادا کرتی ہے۔ گویا قوم کی پہچان اس کی قومی زبان کے بغیرممکن نہیں اور قوم کے بغیر زبان ناپید ہو جاتی ہے۔ تاریخ ِانسانی گواہ ہے کہ قومیت کی تشکیل میں جہاں قومی نشوونما میں قومی شعور کا ادراک مرحلہ وار ہوتا رہا ہے وہیں متوازی طور پر قوم کی زبان بھی بتدریج نشوونما اور ارتقاء پاتی رہی ہے۔ آج کے اس گلوبل ویلج میں بھی کسی آزاد ملک کو اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے جن بنیاد ی تقاضوں کو پورا کرنا پڑتا ہے اس میں قومی زبان کی نشاندہی کرنا لازم ہے تاکہ بوقت ضرورت ملک کی زبان کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبان قرار دیا جا سکے۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جملہ انسانی حقوق میں قومی زبان کسی ملک کے انسانوں کا بنیادی حق ہے جو اسے ملنا چاہیے۔ہر ملک اپنی آزادی کے ساتھ ہی اپنی مخصوص قومی زبان کا اعلان کر دیتا ہے اور بعد ازاں تیاری کے عمل میں اسے آئینی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہر قوم آئین سازی کے مراحل میں جن جملہ امور کو ملحوظ رکھتی ہے ان میں سے قومی زبان سب سے پہلے آتی ہے۔ برطانیہ کا غیر تحریری آئین ہو یا امریکہ کا تحریری آئین۔ سری لنکا جیسے لسانی خلفشار زدہ مگر متحد ملک کا دستور ہو یا فرانس جیسے لسانی قد رو منزلت کے امین ملک کا آئین۔بھارت جیسے لگ بھگ ساڑھے سا ت سو زبانوں والے ملک کا آئین ہو یا اپنی زبان کو حیاتِ نو بخشنے والے اسرائیل کا آئین۔ ہر ایک نے اپنی قومی زبان کے تحفظ کا آئینی حلف اٹھا رکھا ہے۔ اسی تناظر میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا کیونکہ و ہ جانتے تھے کہ یہ ہماری قومی شناخت کا معتبر حوالہ ہے پھر اسے ملک کے 1956ء،1962ء اور1973ء کے آئین میں بھی تسلیم کیا گیا۔ تاہم اسے قومی بد قسمتی کے سوا کیا کہیے کہ قومی زبان اردو کو پاکستان کے تعلیمی نظام، قانونی و انتظامی ڈھانچے اور ہیئت ِ مقتدرہ کا حصہ نہ بنایا جا سکا۔ سپریم کورٹ میں جسٹس جواد خواجہ کے فیصلے کے بعد سے ایک با ر پھر ملک میں قومی زبان کا حال و احوال زیر بحث ہے۔
اسی تناظر میں وطن عزیز کی ایک ممتاز دانش گاہ یونیورسٹی آف گجرات کی محب وطن قیادت نے اس قومی تقاضے کو قومی بیانیے کا حصہ بنانے کے لیے اگواکاری کا فریضہ انجام دیا اور اس کے مرکز السنہ و علوم ترجمہ کے زیر اہتمام10جنوری کو ”قومی زبان کا فروغ“ کے موضوع پر فکر انگیز سیمینار کی میزبانی کی گئی۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب اور ادارہ فروغ قومی زبان کے سربراہ جناب افتخار عارف مہمان خصوصی تھے۔ جواں فکر قلمکار ڈاکٹر صفدر رشیدا ورسربراہ شعبہ علوم ترجمہ جامعہ گجرات ڈاکٹر غلام علی مہمان مقررین میں شامل تھے۔ مہمانوں کے تعارفی سیشن میں وائس چانسلر جامعہ گجرات پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم نے میزبانی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے مہمانوں کا والہانہ استقبال کیا اور کہا کہ تہذیبوں کے ارتقاء میں زبان کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ انسانی ذہن کے ارتقاء اور معاشروں کو باہم مربوط بنانے میں زبان نے ہمیشہ موثر کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان ایک کیثر للسانی خطہ ہے۔ اس تنوع کو باہم مربوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان بنیادوں پر قومی زبان کی ترویج اور فروغ ممکن ہو پائے۔ قومی زبان اردوکے فروغ کے عظیم تر مقصد کے حصول کے لیے ہمیں ایک دیرپا اور پائیدار لسانی پالیسی تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسی لسانی پالیسی جو ہماری قومی ضرورتوں اور تقاضوں کو بخوبی پورا کرتے ہوئے ہماری شرح خواندگی کو بھی بڑھائے اور ہماری اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی، علمی و قانونی ا ورانتظامی ضروریات کو بھی پوار کر سکے۔ اس کے لیے یونیورسٹی آف گجرات نے قومی دانش گاہ کی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے پنجاب کے تمام قوانین کااردو ترجمہ کرنے کا قومی فریضہ بحسن خوبی پورا کیا ہے اور قومی زبان کے فروغ میں فعال کردار ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر رشید نے اس موقع پر کہا کہ فروغ قومی زبان کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ادارہ جاتی منصوبے ہمیشہ ٹیم ورک کے مرہون منت ہوتے ہیں۔جامعہ گجرات کا دارالترجمہ تراجم کے مراحل کو جدید تکنیکی سہولیات سے فیض یاب کر رہا ہے۔ اس کے مرکز السنہ و علوم ترجمہ کی تکنیک عالمی معیار سے ہم آہنگ ہے۔ علوم ترجمہ کے ممتاز ماہر ڈاکٹر غلام علی کا کہنا تھا کہ قومی زبان اردو کے فروغ کے لیے اخلاص اور نیک نیتی سے پائیدار لائحہ عمل تیار کرنا ضروری ہے۔ قومی زبان کا فروغ و نفاذ ایک تہذیبی و ثقافتی مسئلہ ہے۔ قومی زبان در حقیقت قوم کے اجتماعی شعور کانام ہے۔ اردو پاکستان کے قومی تشخص کا اظہار یہ بن بن چکی ہے۔ قومی زبان اردو کے نفاذ کے لیے جامعات کی کارکردگی و کار گذاری کو معتبر حیثیت حاصل ہے۔جامعہ گجرات میں ہمیں اپنے وثرنری قائد پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم کی راہنمائی مدد اور سب سے بڑھ کر ”تھپکی“ حاصل ہے جس کی بدولت ہم نے یہاں حکومت پنجاب کے شعبہ قانون، پنجاب پبلک سروس کمیشن اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین کے ترجمے کے کام کا آغاز کر رکھا ہے۔ ہماری جامعات کو اس قومی فریضے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ مہمان خصوصی جناب افتخار عارف نے اس موقع پر فکر انگیز گفتگو کی اور کہا کہ قومی زبان اردو پاکستانی تشخص کی زندہ علامت ہے۔ قومی تشخص کے اظہار و شناخت میں زبان و کلام کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ قومی زبان اردو کا فروغ و نقاد یکجہتی پاکستان کی نوید ہے۔ اردو کا فروغ پاکستان کے مختلف خطوں کے باسیوں میں باہمی افہام و تفہیم کا روشن کردار ادا کرتے ہوئے ملکی سالمیت و بقا کے تحفظ کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ فروغ قومی زبان کے لیے سماجی و سرکاری سطح پر اجتماعی کاوشیں درکار ہیں۔ افتخار عارف کا مزید کہنا تھا کہ قیام پاکستان سے طویل عرصہ قبل ہی اردو کو مسلمانان ہند کی ملی زبان کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ مگر قیام پاکستان کے بعد کچھ مخالفین نے اردو کے بطور قومی زبان نفاذ کو لسانی تنازعہ بنا کر کھڑا کر دیا۔ بانیانِ پاکستان بھی اردو کا بطور قومی زبان نفاذ چاہتے تھے۔لسانی استعمار نے ہمارے اندر ایک مستقبل غلامانہ کیفیت کو جنم دیتے ہوئے اردو کو اس کے جائز حق سے محروم کر دیا۔ اردوکے ساتھ ساتھ مقامی و علاقائی زبانوں کو بھی ان کا جائز حق ملنا چاہیے۔ قومی زبان اردو کے نفاذ و فروغ میں علوم جدید ہ عالمی ادب کے معیاری تراجم بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں۔ قومی زبان اردو کا حقیقی معنوں میں نفاذ و فروغ نسل نو کو بہتر اظہار کا موقع فراہم کرنے کا ضامن ہو گا۔ اس موقع پر شرکاء نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پرنسپل گورنمنٹ زمیندار پوسٹ گریجوایٹ کالج پروفیسر عبید اللہ نے کہا کہ کسی بھی خود مختار ملک کے قیام کا بنیادی تقاضا اصل صورت میں قومی زبان کا نفاذ ہے قومی زبان کا دفاع اصلاً قوم کا نظریاتی تحفظ ہے اس لیے قومی زبان میں مکالمہ فروغ قومی زبان میں قومی زبان کا نفاذ ہے۔
انگریزی ادب کے ممتاز استاد پروفیسر محمد اقبال بٹ کا کہنا تھا کہ قومی زبان کے احیاء کا اہم ترین ذریعہ ترجمہ ہے۔ ترجمے کے ذریعے زبان مختلف جہان میں بالحاظ گہرائی و گیرائی آگے بڑھتی ہے۔ ڈاکٹر کنول زہرا نے کہا کہ یہ ترجمے کی ہی افادیت ہے کہ عالمی سطح پر رابطوں کی بحالی اور مضبوطی کے لیے ترقی یافتہ اقوام میں بڑے پیمانے پر ٹرانسلیشن پراجیکٹ نہایت تیزی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ شعبہ ابلاغیات کے ڈاکٹر ارشد علی کا کہنا تھا کہ ہمیں جدید علوم و فنون کو قومی زبان اردو میں منتقل کرنے کے سلسلہ میں قابلیت و صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج وہی زبان کا میاب ہو سکتی ہے جس کا علمی و تحقیقی اثاثہ بیش بہا ہو گا۔ اس موقع پر طلبہ و طالبات و اساتذہ کے حکمت افروز سوالوں نے سیمینار کی رونق کو دوبالا کیا۔
بلاشبہ قومی زبان قوم کے تشخص و امتیاز کی ہمہ پہلو بنیادی قومی علامات میں ایک علامت ہے۔تاریخ میں ترقی اور عزت اسی قوم کو ملی ہے جس نے اپنی قومی زبان کو اپنایا۔ گویا قومی زبان قوم کی روح کو زندہ رکھنے کی بنیادی اکائی ہے۔ قومی زبان کے نفاذ اور فروغ سے قوم کی خدا داد صلاحیتیں سو فیصد کام کرتی ہیں بلکہ خوابیدہ قوتیں بھی بیدار ہو جاتی ہیں جو مجموعی طور پر تیز رفتارترقی کا سبب بنتی ہیں۔ اردو کے فروغ کے لیے جامعات کو اردو زبان کی تدریس میں جدت آشنائی کو اپنانا ہو گا اور نسل نو کو لسانی احساس کمتری سے نکالنے کے لیے مکالمے کو رواج دینا ہو گا۔ آئین پاکستان اردو کے نفاذ کے حوالہ سے ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ اعلیٰ عدالت کا فیصلہ آ جانے کے بعد اردو کے قومی زبان کے طور پرنفاذ میں کوئی رکاوٹ نہیں ماسوائے ہماری نیت کے۔ اس کے فروغ کے لیے یونیورسٹیوں، ان کے شعبہ جات اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو کو علمی زبان بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کریں۔مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ میری لسانی عصبیت، دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس طرح اقبال زبان کو انسان کے اعصابی نظام کا قوی فعل قرار دیتا ہے جبکہ ممتاز ماہر لسانیات ایڈورڈ ساچر اور بنجمن لی روف نے کہا تھا کہ زبان لوگوں کے سوچنے کا انداز بتاتی ہے۔ہمیں اپنے سوچنے کا انداز بدلنا ہو گا اورقومی زبان کے فروغ کے ذریعے قومی تخلیقی فکر کو اپنانا ہو گا تاکہ قومی زبان ہمارے اجتماعی شعور کی عکاس بنکر قومی ترقی کاذریعہ بن سکے۔