پیر، 25 مارچ، 2019

قاسم علی شاہ کی اونچی اڑان


قاسم علی شاہ کی اونچی اڑان 


تعلیم ایک معاشرے کے اجتماعی شعور کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا ایک منظم عمل ہے۔یہ محض معلومات کے ابلاغ کا نام نہیں بلکہ متعلم کی چھپی ہوئی قابلیتوں کو تحریک دے کر ماضی کی دانش کو مستقبل کی تعمیر میں صرف کرنے کے قابل بنانے کا عمل بھی ہے۔بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام گوناگوں وجوہات کی بنیاد اپنے اس وظیفہ کی انجام دہی سے قاصر رہا ہے۔ دیگر وجوہات کے علاوہ اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ معلم کا کردار بھی ہے۔ہمارے ہاں سکول،مدرسے،کالجز، اور یونیورسٹیاں تو ہیں مگر تربیت نہیں ہے۔ان تعلیمی اداروں میں ٹیچرز و انسٹرکٹرز تو ہیں لیکن حقیقی استاد و معلم نہ ہونے کے برابر ہیں،ایسا نظام تعلیم تربیت و راہنماء کے تقاضے پورے کرنے کی اہلیت سے ہی عاری ہوتا ہے چناچہ تربیت کا فقدان بڑھتے بڑھتے قحط کی صورت اختیار کر گیا ہے۔اس گھمبیر صورتحال سے نبردآزماء ہونے کے لیے لازم ہے کہ تربیت و راہبری کے در وا کیے جائیں۔



قاسم علی شاہ جن کی اونچی اڑان سے اب ایک زمانہ واقف ہے،ایک ایسے معلم ہیں جو ہمارے عہد کے تدریسی مزدوری میں جکڑے اساتذہ کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔شاہ صاحب کی نہ صرف فکری اڑان بلند ہے بلکہ وہ دوسروں کو اڑنا سکھانے کا ملکہ بھی رکھتے ہیں۔وہ نہ صرف اپنی ماضی کی عظیم روایات کا گہرا شعور رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے جدت فکر اور قوتِ عمل کو مہمیز دینے کا کارنامہ بھی سرانجام دیا ہے۔ایک بڑا استاد اپنے شاگردوں کو معلومات کے سیلاب میں بہانے کی بجائے انہیں ذہنی رجحان دیتا ہے۔ نوبل انعام حاصل کرنے والے بڑے بڑے اساتذہ و محققین کے ایک بڑے گروپ کا جائزہ لینے کے بعد ایک مبصر نے لکھا تھا کہ کسی سائنسدان کو نوبل انعام پانے کے قابل بنانے والی چیز یہ نہیں ہے کہ اس کو کہیں سے سائنسی معلومات کا بڑا ذخیرہ مل گیا تھا بلکہ وہ چیز جس نے انہیں عالمی اعزاز کا مستحق بنایا وہ صرف اخذ و مطالعہ کا ایک ذہنی رجحان تھا جو کسی بڑے سائنسدان کی صحبت سے ہی اسے ملا تھا۔اسی چیز نے بالآخر اس کو ترقی کے اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔جناب قاسم علی شاہ بھی کوئی بڑے عالم یا محقق نہیں ہیں بلکہ اپنے ذوق و شوق کے سبب بڑے لوگوں کی صحبت سے فیضیاب صاحبِ فضل شخص ہیں۔وہ شخص جس نے طویل عرصہ علم و تجربہ میں اپنا حصہ ڈالا ہو، اس کی باتیں سادگی و پرکاری کا امتزاج ہو جاتی ہیں۔وہ جب بولتے ہیں تو علم حُسنِ ابلاغ کے پروں پر پرواز کرنے لگتا ہے۔جب تبصرہ کرتے ہیں تو ان کا تبصرہ مطالعہء کتب کا خلاصہ ہوتا ہے۔شاہ صاحب جب اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو وہ برسوں پر محیط سفر کو منٹوں میں سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔قاسم علی شاہ جب مشورہ دے رہے ہوتے ہیں تو اس کے پس منظر میں نشیب و فرازِ حیات کی جھلک نظر آتی ہے۔ان کا ہر لفظ کتاب ہوتا ہے اور ان کی ہر تقریر حاصلِ مطالعہ ہوتی ہے۔یہی فلسفہ صحبت ِ اکابرین کا حاصل ہے۔اشفاق احمد،واصف علی واصف،پروفیسر احمد رفیق اختر،بابا جی عرفان الحق و ایسے ہی دیگر بزرگوں کی صحبت کا خلاصہ قاسم علی شاہ ہیں۔شاہ صاحب نے مذکورہ بزرگوں کی صحبت سے علم نہیں زاویہ نظر کشید کیا،ان کی محفلوں میں مکالمے سے معلوماتِ محض جمع نہیں کیں بلکہ تڑپ اور لگن سمیٹی۔بلاشبہ صادقین کی صحبت نے ایک ٹیوٹر کو ٹرینر بنا دیا۔جناب قاسم علی شاہ کی پہلی اڑان ایک استاد کی اڑان تھی جس نے پاس آنے والے طالبعلموں کو نہ صرف تعلیم دی بلکہ خواب دیکھنے کا ہنر بھی سکھایا۔
قاسم علی شاہ کی دوسری اڑان جس میں وہ مسلسل بلندیوں کی طرف محوِ پرواز ہیں،ایک Inspirational اور Motivational Speaker کی ہے۔پاکستان کے طول و عرض میں متعدد جامعات،کاروباری اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ملنے والی دعوت میں جاتے ہیں اور اپنے علم اور فن کا جادو جگاتے ہیں۔ Motivational Speech اب ایک Genre کی حیثیت اختیار کر چکی ہے،اس کی ابتداء بیسویں صدی میں ڈیل کارنیگی سے ہوئی تھی۔امریکہ کا یہ نامور شخص بیسویں صدی کے افق پر موٹیویشنل سپیکر کے طور پر چھایا رہا۔ہزاروں لوگوں نے ڈیل کارنیگی سے اُمید کا درس لیا اور مایوسیوں کو چھوڑ کر کامیابی و کامرانی کے راستے کو اپنایا۔
پاکستان میں میری دانست میں اس اسلوب کو متعارف کروانے کا سہرا قاسم علی شاہ کے سر ہے جنہوں نے اس میدان میں نہ صرف لوہا منوایا بلکہ دنیا کا ایک منفرد اسلوب بھی متعارف کروایا۔ اس اسلوب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی جڑیں ہماری اعلیٰ تہذیب و اقدار میں ہیں۔اونچی اڑان کے دیباچے میں عرضِ مصنف کے عنوان کے تحت قاسم شاہ صاحب نے تین بنیادی اصول بیان کیے ہیں۔1- سچائی  2- دیانت 3- خوش اخلاقی،اور انہیں ہمارے آقا محسنِ انسانیت ؐ کی سُنت قرار دیا ہے۔میرے خیال میں یہ تینوں اصول ہر کامیاب انسان کی زندگی کا جزو لازم ہوتے ہیں۔انہیں سنت نبویؐ سے جوڑ کر قاسم علی شاہ نے ان اصولوں سے برکت بھی اخذ کی ہے جو ہماری تہذیبی زندگی کی اساس ہے۔
راست گوئی،دیانت داری اور خوش اخلاقی ایک پورا اسلوبِ زیست ہے جو کامیابیوں اور کامرانیوں کے دروازے کھولتا ہے۔حکمت و دانش کے اس سرچشمے کو اپنی روایت میں تلاش کرنا وہ خوبی ہے جس نے شاہ جی کے اسلوب کو بہت دل آویز بنا دیا ہے اور ان کی کتاب اونچی اڑان کا مطالعہ کرتے ہوئے علامہ اقبال کا شعر یاد آتا ہے کہ 
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہئ دانشِ فرنگ 
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف 
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اپنی روایت سے جڑا ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ نوعِ انسانی کی اجتماعی دانش سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ قاسم علی شاہ نے مشرق و مغرب کی قدیم و جدید دانش سے اکتسابِ فیض کیا ہے اور حکمت کو مومن کا گمشدہ سرمایہ تصور کرتے ہوئے عقل و دانش کی ہر بات کو اپنے سامعین تک پہنچانے کی کوشش ہے۔
اونچی اڑان میں 37 عنوانات کے تحت حکمت و دانش کے موتی بکھیرے گئے ہیں اور ہر عنوان کے نیچے موضوع کا احاطہ کرنے والے کسی قولِ زریں کا حوالہ دیا گیا ہے۔جہاں رومی،سعدی اور بایزید بسطامی کاحوالہ ہے وہیں مغرب و مشرق،ایشیاء،افریقہ،یورپ اور امریکہ اور دنیا کی اکثر تہذیبوں کے اہلِ فکر و دانش کے اقوال کا حوالہ بھی دیا گیا ہے،اسی تنوع سے قاسم علی شاہ کا وسعتِ مطالعہ کے ساتھ ان کے ظرف کی وسعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
جناب قاسم علی شاہ کی یہ خوشہ چینی اس اعتبار سے منفرد ہے کہ وہ کہیں بھی اپنی روایت،اپنی اقدار،اپنے تہذیبی اصولوں کو فراموش نہیں کرتے۔ دانائی کی ہر بات کو انہوں نے اپنی ثقافتی اور تہذیبی تناظر میں رکھ کر دیکھا ہے اور ان کی فکر میں مرعوبیت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ان کے اسلوب کی ایک اور خوبی ان کی فکر کا روحانی تناظر ہے۔قاسم علی شاہ اسلام کی صوفیانہ روایت سے مضبوط وابستگی رکھتے ہیں۔ ان کی فکر میں صوفیانہ طرزِ احساس کی بڑی بھرپور جھلک پائی جاتی ہے۔وہ بے مرشد،بے فیض،بے استاد ہونے کو ناکامی کا ایک اہم سبب سمجھتے ہیں۔ جناب شاہ جی نے اپنی تحریروں میں باربار ان روحانی اقدار کا حوالہ دیا ہے جو اسلامی تصوف کا جوہر ہے۔اونچی اڑان کا عمومی موضوع بھی کامیابی ہے اس حوالے سے قاسم شاہ صاحب نے کامیابی کا جو پیمانہ بیان کیا ہے وہ ان کی  تمام تحریروں کا جوہر ہے۔ان کے نزدیک کامیابی کسی بھی شعبے میں جو آپ کی افتادِ طبع اور آپ کی فطری صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہو،نکتہ کمال کو چھونا ہے۔یہ بڑی بنیادی بات ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ کی ربوبیت کا بیان کرتے ہوئے مفسرین نے تربیت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے '' تبلیغ الشئی الی کمالہ  بحسبِ استعدادہ الازلی شیاً فشیاً (سیماوی،اصفہانی) '' ترجمہ: کسی شے کا اپنی ازلی استعداد کے مطابق درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے اپنے کمال کو پالینا (ضیاء القرآن) 
قاسم علی شاہ نے اونچی اڑان میں اسی معیار کو مدِ نظر رکھا ہے۔علم دوستی نے انہیں ابلاغ کی قوت سے بھی مالا مال کیا ہے ان کی تحریریں اور تقریریں دیکھ اور سُن کر لگتا ہے کہ برطانوی دانشور شاعر لیم بٹلر ییٹس (W.B. Yeats)نے درست کہا تھا کہ 
''Think like a wise man but communicate in the language of the people.'' 
قاسم علی شاہ صاحب اپنے مطالعے اور فکر کی سنجیدگی کو قارئین و سامعین کی استعداد کے مطابق بیان کرتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں مسکراہٹ کی پڑیا میں لپیٹ کر دوسروں کے تحت الشعور کا حصہ بنا دیتے ہیں ڈیل کارنیگی کا کہناتھا کہ 
''Your smile is a message of your goodwill.'' 
قاسم علی شاہ صاحب کا اسلوب ان کے اندازِ فکر اور اطوارِ حیات کا امتزاج ہے اور یہی زاویہء نظر ان کی اونچی اڑان،ان  بلند منزلوں کی پرواز سکھاتی ہے جو انسان کو لازوال کامیابیوں اور کامرانیوں کی نوید دیتی ہیں۔ان کی کتاب پر بہترین تبصرہ مصحفی کا یہ شعر ہے 
میں کنگرعرش سے پر مار کے گزرا
اللہ رے رسائی میری پرواز تو دیکھو 
قاسم شاہ جی کی اونچی پرواز اب مستند ہو گئی ہے کہ اب تو یہ اڑان کئی دلوں میں کھٹکنے بھی لگی ہے۔کئی لوگوں کی حسرت حسد بن کر تنقید کے فیشن کا روپ دھار گئی ہے۔ان ناقدین شاہ جی کی رائے کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے صرف اتنا کہنے کی جسارت کروں گا کہ ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان جو فرق ہے وہ سُننے کا فرق ہے۔ایک آواز آتی ہے،تم اس کو دروازہ بند کرنے کی آواز سمجھتے ہو اور میں اسے دروازہ کھلنے کی آواز سمجھتا ہوں۔

تفاوت است میانِ شنیدن من و تو 
تو غِلق باب و منم فتحِ باب می شنوم

جمعرات، 21 مارچ، 2019

شاعری کا عالمی دن



ولیم ہیزلٹ نے خوب کہا ہے کہ "Poetry is all that is worth remembering in life".بے شک انسان فطرتاًحسن و جمال کا شیدائی ہے۔ اچھا شعر انسان کو تازگی اور جمالیات کو فرحت بخشتا ہے اور اس کے ذہن کا بوجھ ہلکا کر دیتا ہے۔ مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں کہ ”فنون لطیفہ کی سب سے زیادہ تربیت یافتہ اور سب سے زیادہ لطیف صورت ادب یعنی الفاظ کا فن ہے جو سنگ تراشی اور مصوری کے بعد وجود میں آیا اور ادب کی سب سے زیادہ قدیم، سب سے زیادہ فطری اور سب سے زیادہ مقبول شکل شاعری ہے“۔ شاعری کو انگریزی میں Poetryکہتے ہیں جو یونانی لفظ Poieoسے ماخوذ ہے جس کے دو معنی ہیں 'I create'شاعری کوعام طور پر دو معنوں میں لیا جاتا ہے، اول ایک نفسی کیفیت جس کا نتیجہ شعر گوئی ہوتا ہے، دوم اس کیفیت کی پیداوار۔ پہلے معنوں میں شاعری ایک شاعرانہ کیفیت کا نام ہے جو خودکو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ہمارے اندر اور ہمارے ذریعے ایک دنیا خلق کرتی ہے جو خود اس سے مشابہ ہوتی ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ ایک عمل ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں کے اندر ایسی کیفیت پیدا کرنا جو اس کی محرک تھیں۔ شاعری کی معراج یہ ہے کہ پڑھنے والے کو یہ محسوس ہو کہ جو اثر اس کے اوپر ہو اہے اس کے پیدا کرنے کیلئے اور کوئی الفاظ ممکن ہی نہ تھے۔ شاعری کی کسی فلسفیانہ بحث میں الجھنے کی بجائے لیو نارڈ کوہن کی یہ بات آسان فہم ہے کہ 
"Poetry is just the evidence of life. if your life is burning well, poetry is just the ash".
شاعری کا انسانی زندگی سے قدیم اور گہرا تعلق رہاہے لیکن دھیرے دھیرے اس تخلیقی عمل میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شعر، شاعری اور مشاعرے کی روایت نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے پیش نظر 1999ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے پیرس میں منعقدہ 30ویں اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ ہر سال 21مارچ کو شاعری کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔تا کہ شعری روایت کو مستحکم کیا جاسکے۔اور انسانیت کیلئے اس کے مثبت اثرات کو بروئے کار لایا جا سکے۔
افلاطون نے ”جمہوریہ“ میں شاعری پر پابندی لگائی تھی مگر اس کے شاگرد ارسطو نے فن شاعری کا انسانی ذہن کے خود مختار عمل کی حیثیت سے جائزہ لیا اور اسے صداقت پر مبنی سنجیدہ اور مفید پایا۔ اس کے خیال میں شاعر افراد کے افعال اور جذبات کا ایسے طور پر بیان کرتا ہے کہ وہ عمومی اور آفاقی بن جاتے ہیں۔ ارسطو کے خیال میں شاعری کو تاریخ پر فوقیت حاصل ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں Longinusنے نئے نقطہ نگاہ سے ادب کا جائزہ لیا اور ارسطو کی رائے کے تناظر میں تحقیق کی کہ شاعری کا نشاط بخش اثر مخاطب پر کیا ہوتا ہے۔ لانجائنس کا نظریہ افلاطون کے نظریے کی ضد تھا۔ پھر فلپ سڈنی کا مضمون 'The Defence of Poesie'بہت مقبول ہوا۔ اس کے نزدیک انسان کا کوئی فن ایسا نہیں جو فطرت کی بنائی ہوئی چیزوں پر مبنی نہ ہو۔ صرف شاعرایک ایسا فنکار ہے جو فطرت کی لکیر کی فقیری سے انکار کر کے اپنی قوت ایجاد کے بل بوتے پر ایک نئی فطرت تخلیق کرتا ہے۔ اور ایسی چیزیں ایجاد کرتا ہے جو یا تو فطرت کی چیزوں کی اصلاح یافتہ صورتیں ہوتی ہیں یا ان سے بالکل جداگانہ چیزیں۔ سڈنی کے بعد ڈرائیڈن شاعری کے متعلق یوں گویا ہوا کہ شاعری کاکام یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو ایک دلفریب اور پرلطف طریقے سے انسانی فطرت کے حقائق سے آشنا کرے، یعنی ڈرائیڈن شاعری کو علم نفسیات کے شاخ قرار دیتا ہے۔ ڈاکٹر جانسن کا خیال تھا کہ شاعر اصل زندگی کی آئینہ داری بھی کرے اور اس کے ذریعے تہذیب ِاخلاق بھی کرے۔ مشہور شاعر ورڈ زورتھ اپنے مجموعہ کلام Ballads Lyricalکے دوسرے ایڈیشن کے مقدمے میں سب سے پہلے یہ سوال کرتا ہے کہ شاعر کسے کہتے ہیں؟ اس کا روئے سخن کس طرف ہے؟ وغیرہ وغیرہ اور پھر لفظ شاعری کے دو معنی بیان کرتا ہے، شعر گوئی اورشعر۔ پھر صراحت سے بحث کرتا ہے کہ ایک طرف انسان کا نفسیاتی ڈھانچہ اور دوسری طرف نظامِ کائنات، یہ دونوں ایک دوسرے کے متوازی ہیں اور شاعر عمومی اور ہمہ گیر حقیقتوں کا اظہار اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ ایک ایسا انسان ہے جو اپنے جذبات و واردات سے حظ حاصل کرتا ہے جو دوسری لوگوں کے مقابلے میں اس روح زندگی سے جو اس کے اندر سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے زیادہ لذت اندوز ہوتا ہے۔ ورڈزورتھ مزید کہتا ہے کہ شاعری علم کی روح رواں اور سائنس کے چہرے پر جذبات کی رونق ہے۔ کولرج نے بھی' 'Biographia Literariaکے چودھویں باب میں شاعری کی اہمیت پرفلسفیانہ تحقیق کا اظہار کیا ہے۔
1820ء کے لگ بھگ Thomas Love Peacockنے شاعری کی مخالفت میں بھر پور مقالہ ”شاعری کے چار دور“ لکھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اب دنیا کو شاعری کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ایسے دور میں جو علم، عقل اور روشن خیالی کا دور ہے شاعری محض توہم پرستی کو اکساتی اور جہل وتیرہ دماغی کو فروغ دیتی ہے۔ اس کے جواب میں شیلے نے عصر انگیز مضمون "Defence of Poetry"لکھا او ر کہا کہ شاعری عمومی معنوں میں تخیل کا اظہار ہے اور ان معنوں میں نوع انسانی کی ہم عمر ہے۔ شیلے کہتا ہے کہ    شاعری فی الحقیقت ایک ملکوتی و جبروتی چیز ہے۔ وہ علم کا مرکز بھی ہے اور محیط بھی۔ شاعری سارے علوم انسانی پر حاوی ہے اور سارا علم انسانی اس سے سند اعتبار حاصل کرتا ہے۔ شاعر ایک بالاتر ازفہم الہام کے مفسر ہوتے ہیں۔ ان دور دراز سایوں کے آئینے ہوتے ہیں جو مستقبل حال پر ڈالتا ہے۔ وہ الفاظ ہوتے ہیں جو ایسی چیزوں کا اظہار کرتے ہیں جنہیں وہ خودنہیں سمجھتے، وہ جنگی نقارے ہوتے ہیں جو خود جنگ جوئی کے جذبے سے معرا ہوتے ہیں۔ وہ محرک ہوتے ہیں جو خود ہلے بغیر دنیا کو ہلا دیتے ہیں۔ شاعردنیا کے وہ قانون ساز ہیں جن کا عتراف نہیں کیا گیا۔“ کہتے ہیں کہ فن کے دربار میں شاعری کی تاج پوشی اس شان و شوکت آج تک نہیں کی گئی جیسی شیلے نے کی۔
مگر آج ادب و فن کے پر ستار بہت کم ہوتے جا رہے ہیں۔ شعر وسخن کا چراغ ٹمٹمانے لگا ہے، مشاعرے کی روایت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔ عام لوگ شاعری کو بذات خود کوئی اعلیٰ صنف کلام نہیں سمجھتے بلکہ دوسری علوم کی ایک حسین کنیز تصور کرتے ہیں۔ تاریخ میں معلم، مورئخ،فلسفی اورعالم کی حیثیت سے شاعر کا جودرجہ ہے وہ فراموش ہو چکا، ایسے وقت میں شاعری کا عالمی دن ہمیں جھنجھوڑ کر اس کی اہمیت یاددلا رہاہے۔ آج مشینی و سائنسی دنیا میں اکھڑ تی سانسوں کے انسان نما روبوٹ نے پھرسے جمالیات، فنون لطیفہ اور شعر و سخن کو یاد کرنا شروع کیا ہے تو مجھے ورڈزوتھ کے یہ الفاظ یاد آنے لگے ہیں کہ ”اگر کبھی ایسا وقت آیا کہ جب وہ چیز جسے ہم آج کل سائنس کہتے ہیں۔ عام لوگوں کیلئے آئے دن کی ایک آشناہستی بن کر گویا گوشت پوست کا جامہ پہن لے گی تو اس قلب ماہئیت کی تکمیل کی خاطر شاعر  اپنی ملکوتی روح اس کے اندر حلول کر دے گا اور پھر اس نئی ہستی کا خانمان انسانی کے ایک عزیز رکن کے طور پر خیر مقدم کرے گا“۔ بلاشبہ آج بھی کوئی با ذوق شخص جب کوئی خوبصورت شعر سنتا ہے تو پھڑک اٹھتا ہے۔ اس پر ایک وجدکی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کے منہ سے بے ساختہ واہ نکل جاتی ہے اور وہ دیر تک اس شعر سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کہا کرتے ہیں کہ شعر پڑھنا اور سمجھنا اور اس شعر سے لطف اندوز ہونا خود ایک تخلیقی عمل ہے“۔سائنس کی روبہ ترقی مادہ پرستی سے تہذیب انسانی کے روحانی پہلوؤں کو جو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اس کے سد باب کے لئے شاعری سے امید کی جاسکتی ہے کیونکہ شاعری واقعاتی صداقت سے بے نیاز ہوتی ہے میتھیو آرنلڈ نے لکھا تھا کہ۔”شاعری کی زبر دست قوت اس کی قوت تفسیرمیں مضمر ہے اس سے میری مراد راز کائنات کے معنی کا ایک لفظی مرقع پیش کرنے کی قوت نہیں بلکہ چیزوں سے ایسے طور پر تعرض کرنے کی قوت کہ ہمارے اندر ان کا اور ان کے ساتھ ہمارے تعلق کا ایک مکمل نیا اور گہرا احساس پیدا ہو جائے۔ جب اپنے ارد گرد کی چیزوں کے متعلق ہمارے دل میں ایسا احساس پیدا ہو جاتاہے ہے تو ہمیں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم ان چیزوں کی ماہئیت سے مس رکھتے ہیں اور وہ ہمارے لیے بار خاطر اور سوہان روح نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہم رازی اور ہم بازی کے رشتے میں مربوط ہیں۔ اس سے بڑھ کر تسکین اور تسلی بخشنے والا احساس کوئی نہیں ہو سکتا“۔ 21 مارچ کو عالمی یوم شاعری قرار دیتے ہوئے اس وقت کی ڈائریکٹر جنرل یونیسکو Irnia Bokovaنے جوپیغام دیاتھا اسی پر بات کو ختم کرنا چاہتا ہوں کہ"As a deep expression of the human mind and as a universal art, poetry is a tool for dialogue and rapprochemant. The dissemination of poetry helps to promote dialogue among cultures and understanding between peoples because it gives access to the authentic expression of a language".

پیر، 18 مارچ، 2019

قرآنی انسائیکلو پیڈیا: ایک جائزہ


علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا مجموعہ مضامین قرآن”قرآنی انسائیکلو پیڈیا“ شائع ہوا تو بارسلونا سپین میں مقیم منہاج القرآن کے راہنما اسد اقبال قادری نے یہ تحفہ مجھے بھجوایا۔میں اس بابرکت تحفہ پر ان کا شکر گذار ہوں۔ میرا یقین ہے کہ قرآن حکیم انسانوں کے لیے خدا کی ابدی راہنمائی اور تعارفِ خدا ہونے کے ساتھ انسانیت کا دستورِ حیات اور قانونِ فطرت ہے۔ آیات قرآنی کا اعجاز ہے کہ ان میں باربار تفکر و تدبر نئے نئے معنی و مفاہیم سامنے لے کر آتاہے۔ قرآن حکیم نے ہر دور میں لوگوں کے بند ذہنوں کو کھولا ہے۔ قرآن نے تقلید ی فکر کی بجائے اجتہادی فکر پیدا کی ہے۔ آج بھی عالمی فکر ی تحریک پر قرآن کی گہری چھاپ ہے۔ حقیقت میں قرآن کو شامل کیے بغیر انسانیت کے فکری سفر اور اسکے ارتقاء کی تاریخ کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ اس ضمن میں علامہ طاہر القادری ایسے خوش نصیب ہیں کہ مالک کائنات نے انہیں قرآن مجید سے عوام و خواص کو مستفید کرنے کے لیے چن لیا ہے۔ باشبہ ڈاکٹر طاہر القادری کا شمار عالم اسلام کی نمایاں ترین شخصیات میں ہوتا ہے اور ان کے علمی و قلمی کارنامے اہل علم سے ہرگز پوشیدہ نہیں۔ کم و بیش ساڑھے پانچ سو کتابو ں کا مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی تحریروں میں روایت اور جدت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ قدیم علماء کے علوم سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ ان میں ید ِ طولیٰ رکھتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ علومِ جدید سے آگاہی اور روح عصر کی آگہی میں بھی اپنے ہم عصروں سے کسی طور پیچھے نہیں۔ 
جناب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے علم حدیث، ترجمہ و تفسیرِ قرآن، اسلامی قانون، سماجیات، اسلام کے سیاسی اور معاشی نظام، تصوف اور تہذیبِ اخلاق پر شاندار کتابیں لکھیں ہیں تاہم انہوں نے اپنی تمام علمی وذہنی توانائیوں اور فکری و قلمی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایسا شاندار کام کیا ہے جس نے انہیں لازوال شہرت و احترام سے نوازا ہے۔ ان کا یہ تازہ کارنامہ ”قرآنی انسائیکلوپیڈیا“ کئی اعتبار سے ان کے سابقہ علمی کاموں کا تسلسل بھی ہے اور بعض حوالوں سے ان کے پہلے کاموں پر فائق بھی ہے۔ 
قرآن تمام انسانوں اور تمام قوموں کی کتاب ہے، خدا کا کامل پیغام اور ہدایت کی روشنی ہے۔ قرآن محض ایک آسمانی کتاب نہیں بلکہ یہ بیت سی آسمانی کتابوں کے درمیان واحد لاریب کتاب ہے۔ فرقان مجید سب کی طرف خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی کتاب ہے یہ آسمانی کتابوں کا مستند ترین ایڈیشن ہے۔ کسی بھی کتاب کی اہمیت اس کے موضوع اور اس سے متعلق بیان کردہ مضامین،مطالب اور مشمولات سے ہوتاہے۔ 

موضوعات قرآن پر کام اسلامی تاریخ کی اہم ترین سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔ امام جلال الدین سیوطی کی ”الاتقان فی علوم القرآن“ جو کہ خود مناہل العرفان کی تفصیل ہے۔ اس سے لے کر آج تک موضوعات قرآن کی فہرست بندی ایک اہم علمی سرگرمی رہی ہے۔ قرآن مجید چونکہ ایک کتاب زندہ ہے جو لازوال حکمتوں کا خزانہ ہے اس پر کام کرنا ایک وسیع علمی وفکری تناظر کا تقاضا کرتا ہے۔ معتقدمین نے قرآنی موضوعات پر کئی جہتوں سے کام کیا ہے، لیکن بنیادی حوالے اس اعتبار سے دو ہی ہیں۔ ایک حوالہ قرآن مجید کو      ” تبیان لکل شی ً ‘‘ یعنی ہر چیز کا بیان سمجھ کر قرآن کے موضوعات کی وسعت اور تنوع پر بات کرنا ہے اور دوسرا حوالہ ہے ”ھدی للناس“ یعنی نوع انسانی کے لیے ہدایت سمجھ کر اس کا اس جہت ہدایت کی روشنی میں مطالعہ کرنا ہے۔ 
حضرت شاہ ولی اللہ نے ھدی للناس کو بنیاد بناتے ہوئے قرآنی مضامین کو علوم پنجگانہ کی تقسیم کے تحت بیان کیا ہے۔ ان پانچ علوم میں پہلا۔ علم الاحکام یعنی قرآنی احکامات کی معرفت ہے۔ دوسرا۔ علم المخاصہ یعنی تقابل ادیان۔ تیسرا۔ علم التذکیر بالاا للہ یعنی اللہ کے تخلیقی و صف کے تناظر میں۔چوتھا۔ علم التذکیر بایام اللہ یعنی اقوام کے تاریخی احوال اور پانچواں۔ علم التذکیر بالموت و ما بعدہ یعنی موت اور اسکے مابعد کے حوالے سے جانچنا۔ 
اس اعتبار سے قرآن بنیادی طور پر کتاب ہدایت ہے اور باقی تمام علوم جس کی طرف قرآن پاک میں اشارے ملتے ہیں وہ ثانوی نوعیت کے ہیں۔ اس کے برعکس اگر قرآن کو تمام علوم کی جامع کتاب کے طور پر لیا جائے تو تمام علوم کی اصل قرآن حکیم میں پائی جاتی ہے۔ اس پہلوسے کام کرنے والوں نے قرآن کا موضوعاتی مطالعہ جدید و قدیم کی مناسبت سے کیا ہے۔ اس تناظر میں سے بہت ساری تفاسیر میں موضوعاتی انڈیکس دیے گئے ہیں۔مثال کے طور پر پیر محمد کرم شاہ الازھری صاحب کی تفسیر ”ضیاء القرآن“  کی ہر جلد کے اختتام پر ایک موضوعاتی انڈیکس دیا گیا ہے جو جدید و قدیم متنوع موضوعات پر آیات کی نشاندہی کرتا ہے۔ 
ایک اور سلوب جو قرآنی موضوعات کی تفصیل کا مطالعہ کرتا ہے معجم کی شکل میں موجود ہے۔ جرمن مستشرق فلو جل اور بعد ازاں فواد عبدالباقی کی ”معجم المفہرس“۔ ایک بہت بڑا اور وقیع کام ہے۔ اسی طرح عربی زبان میں ماضی قریب میں صبحی عبدالرؤف عصر کی کتاب ”المعجم الموضوعی الایآت القرآن الکریم۔“ جو832صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ایک عمدہ علمی کام ہے۔ یہ کتاب 2008میں شائع ہوئی۔ 
جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا قرآنی انسائیکلو پیڈیا اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں فواد الباقی اور صبحی عبدالروف عصر کے اسلوب کا امتزاج ہے۔ پہلی پانچ جلدیں صُبحی عبدالروف کے اسلوب میں قرآن کا موضوعاتی انڈیکس ہیں جن میں آیات بمعہ ترجمہ دی گئی ہیں۔ صبحی عبدالروف کا کام عربی میں ہے اس لیے ان کے ساتھ ترجمہ نہیں ہے۔ قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی آخری تین جلدوں میں فواد الباقی کی معجم المفہرس کے اسلوب میں قرآنی الفاظ کا جامع اشاریہ پیش کیا گیاہے۔ اس میں اضافہ یہ ہے کہ الفاظ اور آیات کا ترجمہ بھی دیا گیا ہے جس سے یہ قرآنی انسائیکلو پیڈیا اردو پڑھنے والے طبقہ کے لیے ایک عظیم علمی اثاثہ بن گیا ہے۔ 
قرآن انسائیکلو پیڈیا کے عنوان سے جو کتابیں انگریزی زبان میں لکھی گئی ہیں ان میں ادیان کی ممتاز سکالر محترمہJ.D McAuliffe(جے ڈی میکالف) کا مدون کردہ قرآن انسائیکلو پیڈیا3956صفحات پر مشتمل ہے جسے دنیا کے قدیم اور مستند پبلشر برل لیڈن نے شائع کیا ہے۔ اس انگریزی انسائیکلو پیڈیا آف قرآن میں قرآن مجید سے متعلق لاتعداد مباحث ہیں لیکن یہ قرآنی مضامین و موضوعات کا انسائیکلو پیڈیانہیں ہے۔
محترم علامہ طاہر القادری کا ترتیب دیا ہوا قرآنی انسائیکلو پیڈیا موضوعات کے تنوع، تفصیل و تقسیم کے اعتبار سے منفرد ہے۔ اس کا مختصر تقابلی مطالعہ صبحی عبدالروف عصر کے المعجم الموضوعی سے کیا جائے تو اس کی تفصیل اور تنوع کی انفرادیت اور نمایاں ہو جاتی ہے۔ صبحی عبدالروف نے اپنے موضوعات کو تین بنیادی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔ اورکان ایمان و اسلام کے تحت9ذیلی موضوعات ہیں۔    تقویٰ کے تحت 101ذیلی موضوعات، کفر وفجور کے تحت126ذیلی عنوانات ہیں۔ گویا صبحی عبدالروف نے اپنے موضوعات کو ”ھدی للناس“ کے تناظر میں ترتیب دیا ہے۔ 
جبکہ جناب علامہ طاہر القادری کے قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی جلد اوّل۔ ایمان بالاللہ کے متعلقات پر مشتمل ہے۔ جلد دوئم میں شرکت اور ایمان بالکتب، ملائکہ، تقدیر اور آخرت پر ایمان کے موضوعات ہیں۔ جلد سوئم احوال ِقیامت، عبادتِ و معاملات، حقوق و فرائض اور سائنس و ٹیکنالوجی کے موضوعات پر مشتمل ہے۔ جلد چہارم میں امن، محبت، عدم تشدد، غیر مسلموں سے حُسن سلوک اور انبیاء کے واقعات کے عنوانات ہیں۔ پانچویں جلد میں حکومت و سیاسی نظام، نظام عدل، معاشیات اور جہاد جیسے موضوعات کی تفصیل ہے۔اگرتفصیل اور تنوع کے نقطہئ نظر سے دیکھا جائے تو ایمان بالاللہ کے291ذیلی موضوعات ہیں۔ ایمان بالرسالت کے 135ذیلی موضوعات ہیں اور ایمان بالاکتب کے252ذیلی موضوعات ہیں۔ مکمل تفصیل قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی فہرست میں دیکھی جا سکتی ہے جو مجموعی طور پر پانچ ہزار عنوانات پر مشتمل ہے۔ صرف موضوعاتی فہرست 400صفحات پر مشتمل ہے۔ اسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے جدید و قدیم، مذہبی، سیاسی، اقتصادی، فکری، علمی، سائنسی، فلسفیانہ تمام پہلوؤں کے حوالے سے قرآنی آیات کی ترتیب موضوعی بیان کی ہے۔ گویا علامہ صاحب اسے ” تبیان لکل شی ً “ کے اعتبار سے دیکھ ر ہے ہیں۔ موضوعات کی وسعت اور تفصیل ڈاکٹر صاحب کے وسیع علمی وفکری پھیلاؤ کی نشاندہی کرتی ہے اور قرآن پاک کا مطالعہ اور اس حوالے سے تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ قرآنی انسائیکلو پیڈیا ایک انتہائی مفید ذریعہ معلومات ہے۔ 
بعض اوقات کہیں کہیں تکرار کا گمان ہوتا ہے لیکن متن قرآن کا تکرار باعث برکت بھی ہے اور فکر و نظر کے دریچے وا کرتا ہے۔بعض مقامات پر سائنسی و سیاسی موضوعات اور کئی دیگر عنوانات میں تبصرے کی گنجائش ہو سکتی ہے اور اہل علم و نظر اس پر تبصرہ کرتے رہیں گے لیکن بلاشبہ یہ ایک قابل تحسین علمی سرگرمی ہے جو اس میدان میں نئے امکانات ی نشاندہی کرے گی۔ لیکن کوئی بھی تبصرہ اور تنقید اس عظیم علمی کاوش کی اہمیت کا انکار نہیں کر سکے گی۔ اس کارِخیر پر جناب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب قلبی تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے روح عصر کے تقاضوں سے ہم آہنگ قرآن کے علوم کی یہ خدمت سرانجام دی ہے۔اللہ کریم ان کا علمی سفر جاری و ساری کھے اور انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔۔۔آمین

پیر، 15 جنوری، 2018

زمیندار کالج کا روشن نصاب


زمیندار کالج کا روشن نصاب

شیخ عبدالرشید
سخنوروں کی بستی اور خطہئ یونان کی شہرت رکھنے والے گجرات کی حقیقی شناخت زمیندار کالج ہے۔ جس طرح تحریک پاکستان کا ذکر ایم اے او کالج علی گڑھ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اسی طرح گجرات کا ذکر بھی اس تاریخی اور تاریخ ساز کالج کے بغیر ممکن نہیں ہوپاتا۔ گجرات کی جدید تاریخ کی تخلیق اس درسگاہ میں ہوئی، اسی نے گذشتہ پون صدی سے گجرات کے شعور کو جلا بخشی ہے۔ اسی لیے علم دوست حلقے گجرات اور زمیندار کالج کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں علم پرور، کتاب دوست اور شفیق و خلیق استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال بٹ کی دعوت پر برادرم ڈاکٹر غلام علی کے ہمراہ زمیندار کالج جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ درسگاہ میری مادر علمی بھی ہے اور یہیں سے میں نے اپنے کیرئیر کا آغاز بھی کیا، چنانچہ اس کے درودیوار اور سحر انگیز فضا میرے لیے ہمیشہ ذہنی وفکری جلاء اور قلبی طمانیت کا سبب بنتی ہے۔ ڈاکٹر اقبال بٹ کی پر تکلف چائے کی میزپر جواں عزم پرنسپل پروفیسر عبید اللہ سے ملاقات ہوئی تو بے ساختہ ان کے مختصر دور کی ادارہ سازی کی کاوشوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ سرکاری تعلیمی ادراوں کی اصلاح پاکستان کا اہم مسئلہ ہے۔ بد انتظامی اور بدعنوانی ہمارے قومی مسائل ہیں۔ زمیندار کالج گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے قیادت کے تناظر میں قحط الرجال کا شکار رہا اور اپنی ادبی روایات، علمی مزاج اور انتظامی حسن سے محروم ہوتا چلا گیا تھا اور دھیرے دھیرے ایسا دکھائی دینے لگا کہ میرے ایک دوست اس کالج پر”زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشمین“ کی پھبتی کسنے لگے تھے۔ لیکن آخر کب تک یہ جاری رہتا۔ قدرت کو اس ادارے پر رحم آ گیا اور12اپریل2016ء کو اسی کالج کے شعبہ اکنامکس کے ایک فعال استاد پروفیسر عبید اللہ جو اپنی شرافت، دیانتداری اور دھیمی مسکراہٹ کی بدولت طالب علموں اور اساتذہ میں مقبول تھے انہوں نے بطور پرنسپل چارج لیا تو ایسے لگا جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آ گئی ہو۔ انہوں نے کامل دیانت و صداقت سے ہمہ جہت تدریسی و انتظامی اصلاحات کا علم بلند کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے صرف دو سال سے کم عرصے میں کالج کی قابل فخر تاریخ، عظیم روایات اورعلمی و ادبی ماحول کو ایسے مثبت تبدیلی کے عمل سے گزارا کہ سول سوسائٹی ان کے عہد کو ”نشاۃ ثانیہ“ کا دور کہنے لگی ہے۔ انہوں نے تھوڑے وقت میں زیادہ کام کیا اور اپنے مخلص ساتھیوں کے ہمراہ شب و روز تعمیر و ترقی کا نیا عہد تخلیق کیا۔ تعلیم، تدریس، تربیت کا امتزاج متعارف کروایا۔ آزادی کو نظم وضبط میں پرویا اور سہولتوں کی فراہمی کا کھلے دل سے اہتمام کیا۔ کالج کی علمی وادبی رونق کو بحال کرکے عظمت رفتہ کی بازیافت کا کارہائے نمایاں سرانجام دیا۔ کالج کی بدلتی فضا اور آگے قدم بڑھاتی تاریخ پر گفتگو جاری تھی کہ پروفیسر عبید اللہ نے کمال محبت سے کالج کے تاریخی مجلے ”شاہین“ کا تازہ شمارہ پیش کیا۔ شاہین2017-18بذات خود ان کے ذوق سلیم،جمالیات اور وژن کا مرقع تھا۔ لگ بھگ اڑھائی سو صفحات پر مشتمل شاہین اپنے سرورق سے لے کر آخر تک پکار پکار کر کہہ رہا تھ اکہ ”وہ ایک پیکر کہ تو بھی رشک کرے۔“ مدیر اعلیٰ پروفیسر سید وقار افضل کا اداریہ کھولا تو تسلی ہوئی کہ وہ بھی میرے ہم خیال تھے۔ رقم طراز ہیں کہ ”اداروں کی بقا کا عمل جہاں ہر فرد کے احساس ذمہ داری سے منسلک ہے، وہاں اعلیٰ قیادت بھی اس کا اوّلین جزو ہے۔ گورنمنٹ زمیندار کالج اس حوالے سے ہمیشہ خوش قسمت رہا ہے کہ اس ادارے کو ایسے سربراہان (پرنسپلز) ملے جو اپنے کام اور ادارے کے ساتھ مخلص تھے۔ زمیندار کالج کے موجودہ پرنسپل پروفیسر عبید اللہ جس لگن اور دیانتداری کے ساتھ کالج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے عمل میں مصروف ہیں وہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ قابل تقلید بھی۔ انہوں نے مجلس ادرات کو”شاہین“ کی اشاعت یقینی بنانے کے لیے ممکنہ سہولیات فراہم کیں۔ اس لیے، اس سال کے شمارے میں طلبہ کی تحریروں کی تعداد اس بات کی غماز ہے کہ پہلے کی طرح اب بھی زمیندار کالج کے شاہینوں کو اس ادارے کے اندر ایک ایسی نئی تخلیقی فضا میسر ہے جو انہیں قلم اور کتاب کی طرف مائل کر رہی ہے“۔مجھے بر ادرم وقار افضل کے بارے میں یقین ہے کہ وہ بلا جواز تعریف کرنے کے عادی نہیں، اس اداریے کا حرف حرف کالج میں ”احیائے نو“ کی کہانی کا گواہ ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ پروفیسر عبید اللہ نے اصلاحات کا یہ عمل کرتے ہوئے بطور منتظم خود کو غیر جانبدار اور ذاتی مفادات سے بالا تر رکھا۔یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
تعلیمی ادارں کے مجلے عمومی طور پر طلبہ اور اساتذہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کے عکاس ہوتے ہیں لیکن ہماری تعلیمی روایت میں یہ طالب علموں کی علمی زندگی، تہذیبی تربیت اور مذاق لطیف کی پرورش کا ناگذیر جزو سمجھتے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلمان شاہجہاں پوری ان کے مقصد تصنیف و تالیف میں طلبہ کی تربیت اور تنقید و تحقیق میں ان کی رہنمائی بتاتے ہیں۔ بلاشبہ کسی کالج کا میگزین اس ادارے سے وابستہ طلبہ و اساتذہ کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ مجلے نئے لکھنے والوں کے لیے گہوارے کا کام دیتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں۔ یہ میگزین ایسی تجربہ گاہ ثابت ہوتے ہیں جن میں نوخیز تصورات پرورش پاتے ہیں اوربعض اوقات تو ادب کی نئی روایات کا نقطہ آغاز ثابت ہوتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس روایت کو علی گڑھ میگزین اور پنجاب یونیورسٹی نے پروان چڑھانے میں سرگرم حصہ لیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے”روای“ اور اسلامیہ کالج کے”کریسنٹ“کے ساتھ ساتھ زمیندار کالج کا مجلہ”شاہین“بھی قیام پاکستان سے قبل ہی شہرت عام حاصل کر چکا تھا۔ یہ مجلہ اس پُر شکوہ کالج کی عظیم الشان روایت ہے۔ اس کی مجلس ادرات میں سرپرست پروفیسر عبید اللہ پرنسپل، نگران پروفیسرغلام عباس وائس پرنسپل ہیں جبکہ اس کے روح رواں پروفیسر سید وقار افضل مدیر اعلیٰ، کالج کے ہر دلعزیز استاد پروفیسر راشد اللہ بٹ مدیر حصہ انگریزی جبکہ کتاب دوست ڈاکٹر سید وسیم رضا گردیزی مدیر حصہ پنجابی ہیں۔ معاون مدیران میں محمد جاوید ساغر، محمد مہدی خاور اور سید عامر علی اور طالب علم مدیران میں محسن شہزاد، روا ناز، صفورا مریم، سید محمد احسن، فائزہ صابر چوہدری کے نام درج ہیں۔ ٹائٹل پر کالج کی پُر کشش تصویر کو رنگوں کے امتزاج سے دلکش روپ دیا گیا ہے۔ یہ سہ زبانی مجلہ ہے۔ صفحہ چار اور پانچ پر اداریہ، سید وقار افضل کی نثری تحریر اور فکر ی اسلوب کا مظہر ہے اور اس پر نگاہ ڈالنے کے بعد ممکن نہیں کہ قاری اس مجلے کو صفحہ در صفحہ نہ کھولے۔ آغاز میں پرنسپل پروفیسر عبید اللہ کا چھ صفحات پر مشتمل مختصر مگر جامع انٹرویو ہے۔ نقد و نظر کے حصے میں ایم خالد فیاض کا مضمون ”نائن الیون اور اردو افسانہ“، حافظ محمود اختر کا ”مجید امجد کی نظم حسین کا تجزیاتی مطالعہ“، پروفیسر راشد اللہ بٹ کا مضمون”ادب ایک تعارف، ایک تاثر“ سنجیدہ اور فکر انگیز مضامین ہیں۔ حسن نوشاہی، صبا ارشد، عنبرین فاطمہ، سونیا افتخار اور سمیرا عباس نے حالی، انتطارحسین، انور مسعود، اکبر الٰہ آبادی کے حوالے سے خوب لکھا ہے۔ اس کے بعد بزم خیال میں کالج اور کالج کی زندگی کا رنگ غالب ہے۔ افسانہ نامہ ہے۔ سفر نامے ہیں، خاکے ہیں اور مضامین بھی ہیں۔ صفحہ 132سے152تک رنگ سخن ہے جس میں غزل و نظم ہے۔ صفحہ153سے182تک پنجاب رنگ ہے۔ پنجابی میں مضامین اور غزلیں و نظمیں ہیں۔ انگریزی حصہ میں ادب اور ادبی تقاضوں کے حوالے سے ترجمہ کا موضوع نمایاں ہے۔ راشد اللہ بٹ اور انور حسین سید کے شاندار تراجم ہیں۔ پروفیسر محمد اقبال بٹ کا آرٹیکل ترجمہ! وسعت اور چیلنجز خاص مضمون ہے اور پڑھنے اور سراہنے کے لائق بھی ہے۔ انگریزی حصہ بھی پچاس سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ جگہ جگہ کالج کی کار گزاری اور تقریبات کی تصاویرمجلے کے حُسن کو دوبالا کر رہی ہیں۔اس مجلے کی ورق گردانی سے ہم اس ادارے کی علمی و ادبی اورتعلیمی و تحقیقی زندگی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہاں طالب علموں کو مختلف موضوعات اور مسائل پر غوروفکر کی عادت بھی ہے اوران میں اظہار خیال کی قوت بھی دکھائی دیتی ہے۔ شاہین نے ہمیشہ اس کالج کے طلبہ کی ادبی تربیت اور مزاج سازی میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس کے لیے اس کالج کے اساتذہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ شاہین کا حالیہ شمارہ دیکھنے اور پڑھنے کے بعد یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس کی ادبی خدمات کا دائرہ مزید وسیع ہوا ہے جو نہ صرف زمیندار کالج کے ماحول کے ساتھ ساتھ ہمارے قومی ادبی منظرنامے کو منور کر رہا ہے۔ اسی حوالے سے اسے تعلیمی مجلے سے بڑھ کر ادبی مجلوں کو صف میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ شاہین کا یہ شمارہ اپنے عہد کے تخلیقی و ادبی سفر کی اہم دستاویز ہے جس پر مدیر اعلیٰ و مدیران مبارکبا د کے حقدار ہیں۔
پروفیسر عبید اللہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر انسان صحیح سمت میں خلوص نیت سے کوشش کرے تو ہمت مرداں، مدد خدا کاقول سچ ثابت ہو جاتا ہے۔ انہوں نے قدیم روایت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے کالج کے تن مردہ میں نئی جان ڈالی ہے۔ صلاحیت، معاملات کی شفافیت، میرٹ و انصاف، تعلیمی نظم و ضبط اور بالخصوص طالب علموں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا انتظام انکے مختصر دور کے دُوررس اثرات کے حامل اقدامات ہیں۔ انہوں نے اللہ کے فضل سے چیلنج قبول کیے اور محنت و دیانت سے معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھایا اور آج ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ پروفیسر عبید اللہ نے دو سالہ دور میں دو عشروں کا کام کیا ہے۔اتنا کام صمیم قلب اور شب و روز محنت سے ہی ممکن ہے۔ کالج کے درودیوار، مسحور کن فضا، صاف و شفاف ماحول، تعمیر و ترقی، طالب علم اور اساتذہ بجا طور پرگواہی دے رہے ہیں کہ
؎ معجزہئ فن کی ہے خون جگر سے نمود

فروغِ قومی زبان اور جامعات کا کردار

فروغِ قومی زبان اور جامعات کا کردار

دنیا کے ہر آزاد ملک کی ایک مشترک زبان ہوتی ہے جسے قومی زبان کہا جاتا ہے۔ یہ زبان اس ملک کے مختلف حصوں، علاقوں، خطوں اور طبقات کے مابین اتحاد و یگانگت و قومی تشخص، کاروبار مملکت و ملکی نظم و نسق اورعلوم و فنون کی نسل نو کو منتقلی کے عمل میں معاون اور دیگر قوموں کی صف میں برابری دلانے جیسے امور میں نشان امتیاز کا کردار ادا کرتی ہے۔ گویا قوم کی پہچان اس کی قومی زبان کے بغیرممکن نہیں اور قوم کے بغیر زبان ناپید ہو جاتی ہے۔ تاریخ ِانسانی گواہ ہے کہ قومیت کی تشکیل میں جہاں قومی نشوونما میں قومی شعور کا ادراک مرحلہ وار ہوتا رہا ہے وہیں متوازی طور پر قوم کی زبان بھی بتدریج نشوونما اور ارتقاء پاتی رہی ہے۔ آج کے اس گلوبل ویلج میں بھی کسی آزاد ملک کو اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے جن بنیاد ی تقاضوں کو پورا کرنا پڑتا ہے اس میں قومی زبان کی نشاندہی کرنا لازم ہے تاکہ بوقت ضرورت ملک کی زبان کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبان قرار دیا جا سکے۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جملہ انسانی حقوق میں قومی زبان کسی ملک کے انسانوں کا بنیادی حق ہے جو اسے ملنا چاہیے۔ہر ملک اپنی آزادی کے ساتھ ہی اپنی مخصوص قومی زبان کا اعلان کر دیتا ہے اور بعد ازاں تیاری کے عمل میں اسے آئینی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہر قوم آئین سازی کے مراحل میں جن جملہ امور کو ملحوظ رکھتی ہے ان میں سے قومی زبان سب سے پہلے آتی ہے۔ برطانیہ کا غیر تحریری آئین ہو یا امریکہ کا تحریری آئین۔ سری لنکا جیسے لسانی خلفشار زدہ مگر متحد ملک کا دستور ہو یا فرانس جیسے لسانی قد رو منزلت کے امین ملک کا آئین۔بھارت جیسے لگ بھگ ساڑھے سا ت سو زبانوں والے ملک کا آئین ہو یا اپنی زبان کو حیاتِ نو بخشنے والے اسرائیل کا آئین۔ ہر ایک نے اپنی قومی زبان کے تحفظ کا آئینی حلف اٹھا رکھا ہے۔ اسی تناظر میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا کیونکہ و ہ جانتے تھے کہ یہ ہماری قومی شناخت کا معتبر حوالہ ہے پھر اسے ملک کے 1956ء،1962ء اور1973ء کے آئین میں بھی تسلیم کیا گیا۔ تاہم اسے قومی بد قسمتی کے سوا کیا کہیے کہ قومی زبان اردو کو پاکستان کے تعلیمی نظام، قانونی و انتظامی ڈھانچے اور ہیئت ِ مقتدرہ کا حصہ نہ بنایا جا سکا۔ سپریم کورٹ میں جسٹس جواد خواجہ کے فیصلے کے بعد سے ایک با ر پھر ملک میں قومی زبان کا حال و احوال زیر بحث ہے۔
اسی تناظر میں وطن عزیز کی ایک ممتاز دانش گاہ یونیورسٹی آف گجرات کی محب وطن قیادت نے اس قومی تقاضے کو قومی بیانیے کا حصہ بنانے کے لیے اگواکاری کا فریضہ انجام دیا اور اس کے مرکز السنہ و علوم ترجمہ کے زیر اہتمام10جنوری کو ”قومی زبان کا فروغ“ کے موضوع پر فکر انگیز سیمینار کی میزبانی کی گئی۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب اور ادارہ فروغ قومی زبان کے سربراہ جناب افتخار عارف مہمان خصوصی تھے۔ جواں فکر قلمکار ڈاکٹر صفدر رشیدا ورسربراہ شعبہ علوم ترجمہ جامعہ گجرات ڈاکٹر غلام علی مہمان مقررین میں شامل تھے۔ مہمانوں کے تعارفی سیشن میں وائس چانسلر جامعہ گجرات پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم نے میزبانی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے مہمانوں کا والہانہ استقبال کیا اور کہا کہ تہذیبوں کے ارتقاء میں زبان کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ انسانی ذہن کے ارتقاء اور معاشروں کو باہم مربوط بنانے میں زبان نے ہمیشہ موثر کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان ایک کیثر للسانی خطہ ہے۔ اس تنوع کو باہم مربوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان بنیادوں پر قومی زبان کی ترویج اور فروغ ممکن ہو پائے۔ قومی زبان اردوکے فروغ کے عظیم تر مقصد کے حصول کے لیے ہمیں ایک دیرپا اور پائیدار لسانی پالیسی تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسی لسانی پالیسی جو ہماری قومی ضرورتوں اور تقاضوں کو بخوبی پورا کرتے ہوئے ہماری شرح خواندگی کو بھی بڑھائے اور ہماری اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی، علمی و قانونی ا ورانتظامی ضروریات کو بھی پوار کر سکے۔ اس کے لیے یونیورسٹی آف گجرات نے قومی دانش گاہ کی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے پنجاب کے تمام قوانین کااردو ترجمہ کرنے کا قومی فریضہ بحسن خوبی پورا کیا ہے اور قومی زبان کے فروغ میں فعال کردار ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر رشید نے اس موقع پر کہا کہ فروغ قومی زبان کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ادارہ جاتی منصوبے ہمیشہ ٹیم ورک کے مرہون منت ہوتے ہیں۔جامعہ گجرات کا دارالترجمہ تراجم کے مراحل کو جدید تکنیکی سہولیات سے فیض یاب کر رہا ہے۔ اس کے مرکز السنہ و علوم ترجمہ کی تکنیک عالمی معیار سے ہم آہنگ ہے۔ علوم ترجمہ کے ممتاز ماہر ڈاکٹر غلام علی کا کہنا تھا کہ قومی زبان اردو کے فروغ کے لیے اخلاص اور نیک نیتی سے پائیدار لائحہ عمل تیار کرنا ضروری ہے۔ قومی زبان کا فروغ و نفاذ ایک تہذیبی و ثقافتی مسئلہ ہے۔ قومی زبان در حقیقت قوم کے اجتماعی شعور کانام ہے۔ اردو پاکستان کے قومی تشخص کا اظہار یہ بن بن چکی ہے۔ قومی زبان اردو کے نفاذ کے لیے جامعات کی کارکردگی و کار گذاری کو معتبر حیثیت حاصل ہے۔جامعہ گجرات میں ہمیں اپنے وثرنری قائد پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم کی راہنمائی مدد اور سب سے بڑھ کر ”تھپکی“ حاصل ہے جس کی بدولت ہم نے یہاں حکومت پنجاب کے شعبہ قانون، پنجاب پبلک سروس کمیشن اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین کے ترجمے کے کام کا آغاز کر رکھا ہے۔ ہماری جامعات کو اس قومی فریضے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ مہمان خصوصی جناب افتخار عارف نے اس موقع پر فکر انگیز گفتگو کی اور کہا کہ قومی زبان اردو پاکستانی تشخص کی زندہ علامت ہے۔ قومی تشخص کے اظہار و شناخت میں زبان و کلام کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ قومی زبان اردو کا فروغ و نقاد یکجہتی پاکستان کی نوید ہے۔ اردو کا فروغ پاکستان کے مختلف خطوں کے باسیوں میں باہمی افہام و تفہیم کا روشن کردار ادا کرتے ہوئے ملکی سالمیت و بقا کے تحفظ کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ فروغ قومی زبان کے لیے سماجی و سرکاری سطح پر اجتماعی کاوشیں درکار ہیں۔ افتخار عارف کا مزید کہنا تھا کہ قیام پاکستان سے طویل عرصہ قبل ہی اردو کو مسلمانان ہند کی ملی زبان کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ مگر قیام پاکستان کے بعد کچھ مخالفین نے اردو کے بطور قومی زبان نفاذ کو لسانی تنازعہ بنا کر کھڑا کر دیا۔ بانیانِ پاکستان بھی اردو کا بطور قومی زبان نفاذ چاہتے تھے۔لسانی استعمار نے ہمارے اندر ایک مستقبل غلامانہ کیفیت کو جنم دیتے ہوئے اردو کو اس کے جائز حق سے محروم کر دیا۔ اردوکے ساتھ ساتھ مقامی و علاقائی زبانوں کو بھی ان کا جائز حق ملنا چاہیے۔ قومی زبان اردو کے نفاذ و فروغ میں علوم جدید ہ عالمی ادب کے معیاری تراجم بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں۔ قومی زبان اردو کا حقیقی معنوں میں نفاذ و فروغ نسل نو کو بہتر اظہار کا موقع فراہم کرنے کا ضامن ہو گا۔ اس موقع پر شرکاء نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پرنسپل گورنمنٹ زمیندار پوسٹ گریجوایٹ کالج پروفیسر عبید اللہ نے کہا کہ کسی بھی خود مختار ملک کے قیام کا بنیادی تقاضا اصل صورت میں قومی زبان کا نفاذ ہے قومی زبان کا دفاع اصلاً قوم کا نظریاتی تحفظ ہے اس لیے قومی زبان میں مکالمہ فروغ قومی زبان میں قومی زبان کا نفاذ ہے۔
انگریزی ادب کے ممتاز استاد پروفیسر محمد اقبال بٹ کا کہنا تھا کہ قومی زبان کے احیاء کا اہم ترین ذریعہ ترجمہ ہے۔ ترجمے کے ذریعے زبان مختلف جہان میں بالحاظ گہرائی و گیرائی آگے بڑھتی ہے۔ ڈاکٹر کنول زہرا نے کہا کہ یہ ترجمے کی ہی افادیت ہے کہ عالمی سطح پر رابطوں کی بحالی اور مضبوطی کے لیے ترقی یافتہ اقوام میں بڑے پیمانے پر ٹرانسلیشن پراجیکٹ نہایت تیزی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ شعبہ ابلاغیات کے ڈاکٹر ارشد علی کا کہنا تھا کہ ہمیں جدید علوم و فنون کو قومی زبان اردو میں منتقل کرنے کے سلسلہ میں قابلیت و صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج وہی زبان کا میاب ہو سکتی ہے جس کا علمی و تحقیقی اثاثہ بیش بہا ہو گا۔ اس موقع پر طلبہ و طالبات و اساتذہ کے حکمت افروز سوالوں نے سیمینار کی رونق کو دوبالا کیا۔
بلاشبہ قومی زبان قوم کے تشخص و امتیاز کی ہمہ پہلو بنیادی قومی علامات میں ایک علامت ہے۔تاریخ میں ترقی اور عزت اسی قوم کو ملی ہے جس نے اپنی قومی زبان کو اپنایا۔ گویا قومی زبان قوم کی روح کو زندہ رکھنے کی بنیادی اکائی ہے۔ قومی زبان کے نفاذ اور فروغ سے قوم کی خدا داد صلاحیتیں سو فیصد کام کرتی ہیں بلکہ خوابیدہ قوتیں بھی بیدار ہو جاتی ہیں جو مجموعی طور پر تیز رفتارترقی کا سبب بنتی ہیں۔ اردو کے فروغ کے لیے جامعات کو اردو زبان کی تدریس میں جدت آشنائی کو اپنانا ہو گا اور نسل نو کو لسانی احساس کمتری سے نکالنے کے لیے مکالمے کو رواج دینا ہو گا۔ آئین پاکستان اردو کے نفاذ کے حوالہ سے ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ اعلیٰ عدالت کا فیصلہ آ جانے کے بعد اردو کے قومی زبان کے طور پرنفاذ میں کوئی رکاوٹ نہیں ماسوائے ہماری نیت کے۔ اس کے فروغ کے لیے یونیورسٹیوں، ان کے شعبہ جات اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو کو علمی زبان بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کریں۔مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ میری لسانی عصبیت، دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس طرح اقبال زبان کو انسان کے اعصابی نظام کا قوی فعل قرار دیتا ہے جبکہ ممتاز ماہر لسانیات ایڈورڈ ساچر اور بنجمن لی روف نے کہا تھا کہ زبان لوگوں کے سوچنے کا انداز بتاتی ہے۔ہمیں اپنے سوچنے کا انداز بدلنا ہو گا اورقومی زبان کے فروغ کے ذریعے قومی تخلیقی فکر کو اپنانا ہو گا تاکہ قومی زبان ہمارے اجتماعی شعور کی عکاس بنکر قومی ترقی کاذریعہ بن سکے۔ 

پیر، 20 نومبر، 2017

سویا وہ زیر خاک تو اک عہد سو گیا


ارنسٹ ہیمنگوے نے کہا تھا کہ ہر آدمی کی زندگی کا انت ایک جیسا ہو تا ہے، صرف ایک چیز اسے دوسروں سے منفرد بناتی ہے اور وہ یہ کہ اس نے زندگی کیسے گذاری اور اسے موت کیسے آئی؟۔ یہ بات اتوار کی دوپہر مجھے اس وقت یا دآئی جب خاموش طبع دانشور استاد پروفیسر طارق محمود طارقؔ کی وفات کی اطلاع بذریعہ وٹس ایپ برادرم پروفیسرکلیم احسان بٹ نے دی۔ موت انسان کا مقدر ہے۔ موت کی فاتحانہ یلغار ہر چھوٹے، بڑے آدمی کو اَن جانے ماضی سے اس مستقبل تک لے جاتی ہے جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ ان کے انتقال پُرملال کی خبرسنتے ہی ان کی یادوں نے اردگرد ڈیرا آ لگایا۔ معصوم شکل، سنجیدہ مزاج اور دبلے جسم کے طارق محمود طارقؔ دھیمے مزاج کے پورے آدمی تھے۔ نزاکت ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔ وہ چلتے بھی اتنی آہستگی سے تھے کہ کہیں زمین پر پاؤں رکھنے سے زمین کو درد نہ ہو۔ 
درحقیقت وہ اتنے نفیس انسان تھے کہ کسی قسم کی سختی ان کے مزاج کا حصہ ہی نہیں تھی۔ زمنیدار کالج کے اساتذہ کی کثیر تعداد کے باوجود وہ اپنے نرم مزاج اور پُر وقار اندا زکی بنا پر الگ ہی نظر آتے تھے۔ جس متانت و وقار سے زندہ رہے تھے اسی خاموشی اور باوقار انداز میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ 
کاروانِ زندگی پیہم رواں  ہے  صبح  و  شام 
اس فنا کے دیس میں،  حاصل ہوا کس کو  قیام
پھول جو کھلتا ہے، وہ اک دن یہاں مرجھائے گا 
یہ سرائے فانی ہے، جو آئے گا ،  وہ  جائے  گا 
پروفیسر طارق محمود طارق ؔ15جولائی1950ء کو گجرات شہر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد پبلک ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ حالات نے مزید تعلیم سے بہت روکا لیکن انہوں نے انٹرمیڈیٹ سے ایم اے تک تعلیم کے تمام درجات لگن اور محنت سے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پاس کیے۔ وہ اپنے علمی و ادبی ذوق کی بدولت شعر و ادب سے وابستہ ہوئے اور گجرات کی علمی و ادبی محفلوں کا حصہ بنے۔ گجرات میں مبارک احمد کے متحرک حلقے اور حلقہ ارباب ذوق کی ادبی بیٹھکوں کے فعال ممبر رہے۔ انہیں ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے اس زمانے کے نیشنل سنٹر کی لائبریری میں ملازمت کا موقع ملا تو انہوں نے گجرات کے نیشنل سنٹر کو ادبی تقریبات کا مرکز بنانے میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ نیشنل سنٹر کی کتابوں کے محافظ بھی تھے،انہوں نے لائبریری میں بیٹھ کر کتب بینی کوہی اپنا مشغلہ بنا لیا۔ ہر وقت کتاب پڑھنا ان کی عادت بن گئی۔ اپنے مطالعے اور ادب دوستی کی بدولت وہ 1987ء میں گورنمنٹ زمیندار کالج کے شعبہ اُردو سے وابستہ ہو گئے۔ وہ شریف النفس انسان، کتاب دوست استاد اور صاحب مطالعہ دانشور تھے، اس لیے صرف طالبعلموں کے پسندیدہ استاد ہی نہیں تھے بلکہ اساتذہ بھی ان کی علمی وجاہت اور تنقیدی فکر کے دلدادہ تھے۔ وہ مزاجاً محفل باز نہیں تھے، تفکر و تدبرکی عادت کے حامل ہونے کے ناطے اکیلے بیٹھ کر غور وفکر کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن کیا کیجئے جہاں روشنی ہو گی پروانے تو جمع ہو ہی جاتے ہیں۔ لہذا طارق صاحب جہاں بیٹھتے ان کے چاہنے والے وہیں علمی مکالمے کی محفل جما لیتے تھے۔ علی گڑھ کی روحانی میراث کا حامل زمیندار کالج اس زمانے میں حقیقی معنوں میں علم و ادب کا گہوراہ تھا اس کا تدریسی ماحول علمی شناخت کا حامل تھا۔ طارق محمو دطارقؔ اس کالج کے شعبہ اردو کا مان تھے۔ فرض شناس تدریسی مہارتوں کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پختہ تنقیدی وفکری دانش کے علمبردار تھے۔وہ ادب شناس ہی نہیں سراپائے ادب و تہذیب بھی تھے، کسی بھی علمی محفل میں انکی موجودگی بڑی با برکت سمجھی جاتی تھی۔ وہ کم گو تھے اور اکثر ہلکی اور میٹھی مسکراہٹ سے ہی کام چلا لیا کرتے تھے لیکن جب کسی بھی موضوع پر بولتے تو سامعین کے پا س ہمہ تن گوش ہونے کے علاوہ چارہ نہ ہوتا تھا۔ دانش و تفکر سے لبریز گفتگو ادبی اسلوب اور فلفسیانہ پیرائے میں شروع کرتے تو سننے والے سر ُدھنتے رہ جاتے تھے۔ شعبہ اردو کے نوجوان اساتذہ اپنی کلاسیں پڑھانے کے لیے لیکچر کی تیاری کے لیے ان کے گھٹنے پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے اور کئی تو ان سے سنی باتوں کو بیان کرکے دانشوری ظاہر کرتے تھے۔ وہ بھی بڑے انہماک سے جواں عزم اساتذہ کی راہنمائی کرتے اور انہیں کتاب دوستی کا درس بھی دیتے۔ برادرم پروفیسر کلیم احسان بٹ کی دوستی کی بدولت شعبہ اردو کے اساتذہ سے میرا محبت اور احترام کا خاص رشتہ تھا۔ کلیم صاحب محفل باز آدمی تھے اور حاضر جوابی سے محفلوں کو کشت زعفران بنانے کا گُر خوب جانتے تھے۔ وہ طارق صاحب کے شاگرد بھی تھے اور اب ان کے ساتھی تھے۔ وہ طارق صاحب کو اکثر لے کر کنٹین پر آ جاتے اورپھر محفل جم جاتی۔ زمیندار کالج کی کنٹین ان دنوں کالج کا   ”پاک ٹی ہاؤس“ ہوا کرتی تھی۔ اساتذہ وہیں بیٹھ کر دل کی بھڑاس نکالتے تھے۔ پروفیسر عبدالواحد، سیف الرحمان سیفی، بہاء الحق عارف، سید مظہر علی شاہ، سید محفوظ علی شاہ، محمد اسلم اعوان، مینر الحق کعبی، حکیم سید صابر علی، ظفر اقبال ہاشمی ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ وہاں اپنی اپنی محفل جما کر بیٹھا ہوتا تھا۔ نوجوان اساتذہ میں سے میاں انعام الرحمان، راشد اللہ بٹ، کلیم احسان بٹ، سید وقا ر افضل، ڈاکٹر وسیم گردیزی، سید فیاض حسین شاہ، راجہ خالد، ملک شفیق، ناصر وڑائچ سمیت بہت سے دوست محفل جماتے اور وہاں ہلکی پھلکی گفتگوکے ساتھ دنیا بھر کے ادبی نظریوں، فکری زاویوں، حالات حاضرہ اور شعر و نقد کا محاکمہ کرتے۔ طارق صاحب ان محفلوں کا حصہ ہی نہیں جانِ محفل ہوا کرتے تھے۔ 
میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ایک روز عرض کیا کہ طارق صاحب تمام تر سخنوری کے باوجود ہم اعلیٰ ادب کیوں تخلیق نہیں کر پا رہے؟ طارق صاحب کے الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں کہ   ”دولت کی زیادتی، اخلاقی و سیاسی زوال اعلیٰ خیالات کی موت ہے۔ جب اعلیٰ فکر نہ ہو توا علیٰ ادب کیسے پیدا ہو سکتا ہے“۔ میں چھٹی کے بعد اکثر ان کے ہمراہ کچہر ی چوک تک پیدل جاتا تھا تاکہ راستے میں گفتگو کے ذریعے ان سے استفادہ کرتا رہوں۔ مجھے لکھنے کا شوق تھا میں نے اس حوالے سے بات کی تو کہنے لگے شیخ صاحب! ”بڑی کتاب لکھنے کے لیے موضوع بڑا ہونا چاہیے“۔ زمیندار کالج کی کینٹین کی علمی مباحثوں اور فکری مکالموں کی روایت بڑی شاندار تھی۔ طارق محمود طارق ان میں باقاعدگی سے شریک ہوتے اور اکثر اس متانت و سنجیدگی کے ساتھ شریک ہوتے کہ انکی خاموشی بھی کلام کرتی تھی، ان کی سادگی، نفاست اور احترام ِانسانیت کے جذبے کی وجہ سے ہر کوئی ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ 
تہذیب و آگہی کے سبق اس کے نطق میں 
دل کی صداقتوں سے منور تھی اس کی ذات 
طارق محمود طارق فطرتاً شاعر تھے۔ ان کی اردو شاعری کا اکلوتا مجموعہ1984ء میں ”شہرہجر“ کے نام سے شائع ہوا۔ شاعری سے حقیقی معنوں میں لطف اندوزی ایک ایسی استغراقی کیفیت کا تقاضا کرتی ہے جس میں حس، فکر اور جذبے کے عناصر باہم آمیز ہو کر ایک طبعی سکون پیدا کرتے ہیں۔ شاعری اپنی تخلیق سے پہلے اور بعد بھی، انسان کے تمام وکمال تجربے سے تعلق رکھتی ہے۔ انسانی تجربے کے سارے عناصر، فکر اور جذبے کی ہر کاروائی اس پر اثر انداز بھی ہوتی ہے اور اس سے اثر اندوز بھی ہوتی ہے۔ طارق صاحب شعر پسندی میں استغراق شعر کے درجے پر فائز تھے یعنی شعری فہمی میں بھی انہیں کمال حاصل تھا۔ شعر کے مرکزی تجربے میں اخل ہونا، عقلی و عملی سیاق و سباق سے جداگانہ چیز ہے۔ اپنی خالص ترین صورت میں شاعری کو فکر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، کیونکہ فکر و عمل دونوں اس کے استغراق کے موضوع بن جاتے ہیں۔  طارق صاحب شاعرانہ تجربے کے اس درجے کی بنیاد پر ہی و نقد و نظر کے رموز سے آشنا ہوتے تھے اور انہوں نے میرؔ اورمجید امجد جیسے شعراء پرلکھتے ہوئے اسی تجربے سے رس کشیدکیا۔ ان کے نثری و تنقیدی مضامین”ماہ نو“، ”اوراق“ اورزمیندار کالج کے مجلے ”شاہین“ کی زینت بنتے رہے ہیں۔ موصوف تنقیدی نثر میں بھی منفر د اسلوب کے مالک تھے۔ نفسیاتی اور فلسفیانہ حوالوں سے فن پاروں کا ماہرانہ تجزیہ کرتے تھے۔ شعروں کا تنقیدی جائزہ لیتے اور فن پاروں میں خوبصوریتوں کے متلاشی رہتے تھے۔ ان کی تحریریں خاص خوشبو کی حامل ہیں۔ 
برادرم طارق محمود طارق ؔجیسے فہم و ادراک والے افراد کی محفلوں کا ہی اثر ہے کہ محبت نے میرے آنسوؤں کو اُداس کیفیت میں بہنے کا ہنر سکھایا ہے اور میرے دل کو ماتمی گیتوں سے روشناس کرایا ہے۔ طارق صاحب کی وفات کی خبر ملی توا ن کے چاہنے والے سید وقار افضل کوفون کیا کہ تدفین کہا ں ہو گی؟ معلوم ہوا کہ انہوں نے گڑھی کے علاقے سے رہائش قمر سیالوی روڈ پر منتقل کر لی تھی، تاہم تدفین آبائی علاقے میں ہی ہو گی۔ میں نے اپنی ساری مصروفیات ترک کیں اور سخن شناس دوست ڈاکٹر غلام علی سربراہ شعبہ علوم ترجمہ جامعہ گجرات کو ساتھ لیا اور شاہدولہ روڈ پر چاہ بیری والا قبرستان میں حقیقی دانشور استاد کی تدفین میں شرکت کے لیے نمناک آنکھوں اور بوجھل دل سے پہنچا۔ طارق محمو دطارقؔ کافی عرصے سے شوگر جیسے مرض اور اسکے اثرات کا شکار تھے اور چند دنوں سے لاہور میں زیر علاج تھے۔18نومبر کی رات راہِ حق کے مسافر ہو گئے، تاہم ان کے بیٹے کے کی امریکہ سے آمد پر 19نومبر بروز اتوار دن دو بجے ان کی نماز جنازہ مولوی امین مدنی نے پڑھائی۔ اور پھر اہل خانہ اوردوست احباب کی سسکیوں و آہوں کے سایے تلے، نمناک آنکھوں اور ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ مسجد حاجی حسن سے ملحق قبرستان چاہ بیری ولا میں اس علمی چراغ کو سپرد خاک دیا گیا تاکہ زیر زمین بھی روشنی ہو۔ وہ اتنے شریف النفس اور پاکباز تھے کہ ان کے لیے مغفرت کی دعا اور جنازہ میں شرکت مجھ سمیت حاضرین کے لیے باعث بخشش ثابت ہو گی۔ بلاشہ وہ گجرات کے ان اساتذہ میں شامل تھے جنہیں اسلاف کی عظمت کی نشانی قرار دیا جا سکتا ہے اورمطالعہ و کتب بینی جن کی آخری سانسوں تک جاری رہی۔ طارق صاحب مطمئن آدمی تھے لیکن یہ سچ ہے کہ آدمی اس وقت تک خوش نہیں ہوتا جب تک اس کا آخری دن نہ آ جائے اور وہ سرحد پار نہ کر جائے جو زندگی کو موت سے الگ کرتی ہے۔  اللہ کریم انہیں جوار ِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین 

کس منہ سے کہیں کہ وہ ہم میں نہیں رہا 
کیسے کہیں کہ ہم کومیسر تھی اس کی ذات