پیر، 17 اپریل، 2017

ترجمہ کاری کے فروغ میں میڈیا کاکردار

ترجمہ کاری انسانی مزاج، تاریخ اور تمدن کی دریافت اور شناخت کا اہم ذریعہ ہے۔ انسان رنگ و نسل،لسانی و جغرافیائی بندشوں اور سیاسی و سماجی تفرقات کی وجہ سے انسان ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہے، وہ ترجمہ کاری کے ذریعے ایک زبان کو اپنی زبان کے حروف تہجی میں ڈھالنے سے انسانی سطح پر ایک دوسرے سے تعارف و آگاہی حاصل کرتا ہے۔خود کو ذہنی و جذباتی سطح پرباخبر رکھنے اور دوسروں کے مسائل و وسائل اور خوشی و غم کو جاننے اور ان میں شریک ہونے کے لیے ترجمہ ہی ایک ایسا وسیلہ ہے جو خبر کا ذریعہ بنتا ہے۔ ترجمہ کاری درحقیقت انسانوں میں اشترا ک کا قرینہ پید اکرنے کا فن ہے۔ زبان کے فروغ، تمدن سے آشنائی، کائنات کی دریافت و بازیافت اور تاریخ کے وقوف کے لیے ایک سے زیادہ زبانوں سے رابطہ پید ا کرنا لازمی ہے۔ اسی تناظر میں آج عالمگیریت کے عہد شباب میں ترجمہ کاری کو علم کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ آج کی علمی معیشت کے دور میں بھی علوم کی وسعت اور فروغ میں ترجمہ کاری کا کردار نمایاں ترین ہے۔ جدید دنیا کے عالمی انکشافات، سائنسی تحقیقات اور ادبی سرگرمیاں ترجمے کے وسیلے سے اگلے ہی لمحے ساری دنیا تک پہنچ رہے ہیں۔ ترجمہ کاری وہ فن ہے جو زبانوں، تہذیوں، تاریخوں اور اقوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

نت نئے علوم کے اس عہد میں تراجم کی افادیت و اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ روح عصر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگی رکھنے والی پاکستان کی جدید جامعہ ”یونیورسٹی آف گجرات“ میں ایک عشرہ قبل ہی ”مرکز السنہ و علوم ترجمہ“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس مرکز کو رئیس الجامعہ ڈاکٹر ضیاء القیوم کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے، وہ خود کمپیوٹر سائنس کے استاد اور ”مشین ٹرانسلیشن“ میں تخصیصی مہارت کے حامل ہیں ان کی راہنمائی میں اس مرکز کے علم دوست سربراہ ڈاکٹر غلام علی نے شب و روزکی جہد ِمسلسل اور اصحابِ لگن پر مشتمل ٹیم کے تعاون سے اس مرکز علوم ترجمہ کو حقیقی معنوں میں مرکز ِفضیلت بنا دیا ہے۔ پاکستان بھر میں اس مرکز کی کارکردگی کو خوب سراہا جاتا ہے۔ اس مرکز کے زیر انتظام”دارالترجمہ“ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ جس میں علمی و ادبی تراجم کے ساتھ ساتھ حکومت پنجاب کے قوانین کے اردو تراجم کا قومی فریضہ بھی کامل تندہی سے انجام دیا جا رہا ہے۔ اس مرکز السنہ و علوم ترجمہ کا ایک قابل ذکر و تحسین کام علوم ترجمہ اور ترجمہ کاری کے فہم و ادراک کے لیے بیداری مہم کا آغاز اور اس کے لیے سیمینار،سپموزیم، کانفرنسوں اور مکالماتی نشستوں کا مسلسل اہتمام کرنا ہے اور ترجمہ کاری کوقومی بیانیے کی تشکیل میں معاون بنانے کے لیے مباحث ومکالمے کو فروغ دینا ہے۔ اسی حوالے سے13اپریل بروز جمعرات جامعہ گجرات کی مرکزی قائد اعظم لائبریری کے نمائش ہال میں ”ترجمہ کاری کے فروغ میں میڈیا کا کردار“کے موضوع پر خصوصی فکری نشست کا انعقاد ممکن بنایا گیا۔ یونیورسٹی آف گجرات کے رجسٹرار ڈاکٹر طاہرعقیل نے صدارت کی جبکہ ممتازدانشورتجزیہ کاراورصاحب اسلوب کالم نگاروسعت اللہ خاں مہمان خصوصی تھے۔ محفل کا آغازعطاء اللہ کی تلاوت قرآن حکیم سے ہوا۔ صدر شعبہ ڈاکٹر غلام علی نے کہا کہ ترجمے کا فن انسانیت کی تاریخ میں بین الاقوامی نقطہ نظر کی پیداوار ہے اور آفاقی انداز نظر پید اکرنے کا اہم وسیلہ بھی۔ آج ترجمہ کاری کے فروغ میں میڈیا کا کردار غیر معمولی اہمیت کاحامل ہے۔ صحافتی مقاصد کے لیے ترجمے اور طریقہ ہائے ترجمہ پر سب سے زیادہ اثر میڈیا کے بدلتے ہوئے کردار نے ہی ڈالا ہے۔ اب میڈیا کی ذمہ داری صرف آگاہ کرنا یا ابلاغ نہیں ہے بلکہ میڈیا معلومات کا طے شدہ پالیسیوں اور نظریاتی بنیادوں پر مخصوص معلومات یا تصویر کے کسی ایک ترجیحاتی رُخ کا سامعین وناظر تک ابلاغ ہے۔ آج ابلاغ کے مقصد سے موجود متن کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ چنانچہ میڈیا کا کردار محض خبر کا نہیں بلکہ طے شدہ اہداف و مقاصد کے لیے میڈیا اہم ہتھیار بن گیا ہے۔ ترجمہ اور ترجمہ کاری ایک فن اور معلومات کی منقلی کا عمل ہے۔ مگر صحافت کے میدان میں ترجمہ فعال کردار کا حامل ہے۔ اس لیے آج ترجمہ کاری کے فروغ کے لیے میڈیا کے کردار کا جائزہ ناگزیر ہے۔ مہمان خصوصی و کالم نگار وسعت اللہ خاں نے کہا کہ زبان کسی بھی معاشرے کی تہذیبی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ترجمہ کاری کا عمل زبان کو لسانی، ثقافتی اور تہذیبی حوالوں سے وسعت بخشتے ہوئے ذہنی رویوں کو کشادہ کرتا ہے۔ عصر حاضر میں میڈیا کو ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوئے سماج و معاشرہ کی مثبت تشکیل نو میں ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے۔ ترجمہ کا عمل کسی قوم، ملک یا تہذیب کی پہچان کا باعث بنتا ہے چنانچہ دنیا کے بہترین و ارفع ادب کو پاکستان کی مقامی و قومی زبانوں  میں منتقل کرتے ہوئے ہم بہتر سماجی تبدیلیوں سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ ترجمہ کاری ایک ذمہ دارانہ عمل ہے۔ میڈیا کو خبر کی عوام تک ترسیل کرتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو خبر کی عوام تک ترسیل کرتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا میں ترجمے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس قومی ضرورت کے حوالے سے صحافیوں کی تربیت کا کوئی نظام اور انتظام موجود نہیں۔ رجسٹرار ڈاکٹر طاہر عقیل نے کہا کہ مختلف مسائل کا دیانتدارانہ تجزیہ ہی ان کے حل میں معاون ہو سکتا ہے۔ وسعت اللہ خان ایک کامیاب اور حساس تجزیہ نگار ہیں، انہوں نے صحافیانہ ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی کھلے سچ کو بیان کیاہے۔ بلاشبہ لفظی ترجمہ کی ابلاغی اہمیت ا س کی تاریخی اہمیت میں ضم ہوجاتی ہیں۔ ترجمہ ایک ایسی مشقت ہے جو مترجم سے ہر ممکن قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔ جامعہ گجرات کا مرکز علوم ترجمہ اپنے سربراہ ڈاکٹر غلام علی قیادت میں قومی فرائض کی ادائیگی میں نئی تاریخ رقم کر رہا ہے اور اس یونیورسٹی کا سنٹر آف ایکسیلنس بن چکا ہے۔ تقریب میں شعبہ ابلاغیات کے استاد زاہد بلال،ثوبیہ عابد، ڈاکٹر ذکیہ بانو، ممتاز دانشور افتخار بھٹہ اور چیف لائبریرین کاظم علی سید نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ 
بلاشبہ میڈیا کی اپنی ضروریات اور تکنیکی مسائل ہیں اور برق رفتاری تراجم کی روح کو ملیا میٹ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ میڈیا کا مقصد فوری اور جلد ترسیل ہے معیار ترجمہ نہیں۔ اس میں ضرورت ابلاغ کی ہے لسانیات کی نہیں۔ صحافتی متن کا ترجمہ آزاد ترجمہ کہلاتا ہے۔میڈیا میں منتخب متن کے ترجمے کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے صحافت اور ترجمہ کا تعلق بہت اہم ہے لیکن ناظرین و سامعین کا ذہن ترجمے اور میڈیا کے تعلق کی طرف  جاتا ہی نہیں، حالانکہ صحافی ترجمان بھی ہوتا ہے۔ صحافی کے وظائف یعنی خبر کا انتخاب،تحقیق، تحریر اور اس کی ایڈیٹنگ کا عمل سمجھنے سے میڈیا میں ترجمے کے کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صحافت میدان عمل ہے اور بدلتے ہوئے حالات و تناظر میں کوئی صحافی خود کو جتنا زیادہ اچھا مترجم بنائے گا،اتنا ہی اچھا صحافی سمجھا جائے گا۔ اس سیمینار سے اس بات کی ضرورت بھی محسوس ہوئی کہ ترجمہ کاری کے فروغ میں میڈیا کے کردار کی خواہش کی تکمیل کے لیے لازم ہے کہ مرکز السنہ و علوم ترجمہ میڈیا کے لوگوں کے لیے تربیتی کورسز کا اہتمام کرے تاکہ میڈیا میں ایسے افراد پیدا کیے جا سکیں جو ترجمہ کاری کی اہمیت و افادیت سے آشنا ہوں۔ جامعات قوم کی کردا ر سازی میں اہمیت کی حامل ہیں۔ میڈیا عوامی رائے عامہ کی تشکیل میں نئی راہیں متعین کرنے میں سازگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ترجمہ کاری میں صحافتی ضروریات کے پیش نظر یقینا لفظ و معنی کے ذائقے میں کئی بار تبدیلی آ جاتی ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ ہمیں دونوں شعبوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ ایک یونانی مقولہ ہے کہ ”ترجمہ ہمیشہ ایک بھنی ہوئی سٹرابیری ہی رہے گا“ یعنی ترجمے کے دوران اصل چیز کے ذائقے میں فرق ضرور پڑتا ہے۔