بدھ، 25 اکتوبر، 2017

درگاہ سے دعا تک



افلاطون نے کہا تھا کہ ”انسانی معاملات بمشکل ہی سنجیدگی سے غور کے مستحق ہوں گے، لیکن ہمیں ان کے متعلق سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا“ انسان سرکشی اور نا انصافی کا پتلا ہونے کے باوجود اس قدر قیمتی ہے کہ اس کے منہ موڑنے پر خدا، خالق ارض و سما بھی افسوس کرتا ہے چنانچہ اپنے چند دوستوں کو بے سکون اور ٹینشن میں دیکھ کر نرم دل استاد ڈاکٹر غلام علی نے تجویز دی کہ برادرم سائر انور ملہی اور محترم ایاز نورانی کی ناقابل بیاں بے قراری کو قرار بخشنے کے لیے کسی درگاہ پر حاضری دی جائے اور ان کی قلبی راحت کے لیے دعا کی جائے۔  یہ دونوں دوست آج تحیر زدہ دکھائی دیتے ہیں، میں نے اتفاق کرتے ہوئے عرض کیا حیرت زدہ ہونا، انسان ہونے کی ہی ایک روش ہے، البتہ یہ نری آوارگی، بے مقصد گھومنے، مٹر گشت اور سیر سپاٹوں کی ایک صورت بھی ہو سکتی ہے اپنی حیرت کو ایک سوال کا رخ دینا ذہن کو ایک طریقہ کار میں ڈھالنے کے ہی مترادف ہے۔ ذہنی کرب معنویت سے محروم وجود یا واقعات کے تجربے یا خوف سے زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ فلسفیانہ مزاج کے سائر انور ملہی نے کہا کہ ایسا ہی نہیں ہے، ایک رخ ناقابل بیاں ماورائے معنویت کا بھی ہے۔ اس کی آگہی اپنے ساتھ”نا قابل بیان“کا احساس لاتی ہے جس کا تجربہ ہمیں اپنی خواہش کے تحت نہیں ہوتا بلکہ ہمارے ششدر رہ جانے اور عظمت کا مقابلہ نہ کرسکنے کے باعث ہوتا ہے۔ حقیقت کے معروضی پہلو کا عالمگیر وجدان جس کی صلاحیت ہر شخص میں موجود ہوتی ہے،یہ جہالت کی جھاگ نہیں بلکہ فکر کا نقطعہ عروج ہے۔ یہ ایک شعوری وجدان ہے کیونکہ اس کی عطا کردہ آگہی علمِ دنیا کی گہرائی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ ایاز نوارانی نے گفتگو کی سنجیدگی پر ضرب لگاتے ہوئے کہا، شیخ صاحب! گھبرائیں نہیں، ملہی صاحب صوفی ہو گئے ہیں۔ ان کی روحانی تشنگی کا علاج ضروری ہے۔ میں نے عرض کیا، یہ کیسے ممکن ہے، ایک ایسا بینکار جس کے ہاتھ ہر وقت مادیت کے نشان روپے، پیسے سے رنگے ہوتے ہیں، صوفی ہو جائے……؟ تو نورانی صاحب نے فوراً جواب دیا، زمانہ بدل گیا ہے آج کا تقاضا ہے کہ ہر شخص کو تھوڑا بہت صوفی ہونا چاہیے اور ہر صوفی کو تھوڑا بہت انسان ہونا چاہیے۔ روحانی قوت کے لیے اسے کسی درگاہ پر لے چلتے ہیں تاکہ اس کی بے چین روح کو قرار ملے۔ میرا خیال تھا کہ صوفی ازل اور عوام کا باہمی رشتہ ہمیشہ سے الجھن کا شکار رہا ہے ہم صوفیاء کو ایسی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے وہ علاقہ غیر کی ہستیاں ہوں۔ صوفی کا نام سنتے ہی ہماری آنکھیں عروجی سفر کی جانب اٹھتی ہیں۔ عوامی خیال اور سماجی مقاصد اور ہیں، مقامات تصوف کی زبان اور ہے۔ ڈاکٹر غلام علی کہنے لگے،کہ عوام زمین پر زمین کا سفر طے کرتے ہیں اور صوفی زمین سے آسمان کی طرف راہ کھولتا ہے۔ بظاہر صوفی اور عوام دونوں کی منزلیں جدا جدا ہیں تاہم زمین دونوں میں مشترک ہے اور یہی صوفی اور عام انسان کے تعلق کی بنیاد ہے۔ بات چیت جاری تھی کہ گاڑی نے بریک لگائی اور غلام علی کہنے لگے ہم خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ سیدا شریف نزد پھالیہ پہنچ گئے ہیں۔ درگاہ پر پہنچے تو سفید رنگت، متوازن قد کے باریش لیکن جوان شخص نے متانت، وقار اور مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا۔ معلوم ہوا کہ یہ خلیق و شفیق اسلاف کے گدی نشین صاحبزادہ ابوبکر ہیں، وہ سجادہ نشینی کے ساتھ ساتھ والدین کی تعلیمی و تدریسی خدمات کے وارث اور انگریزی زبان و ادب کے ایک یونیورسٹی میں استاد بھی ہیں۔ درگاہ پر خوشدلانہ استقبال، محبت بھری میزبانی اور دسترخواں کی وسعت ان کے گھرانے و خانقاہ کی حُسنِ معاشرت کی آئینہ دار تھی۔ ہم نے سب سے پہلے خواجہ محبوب عالم ؒ و دیگر قبور کی زیارت کی، حاضری دی اور سلام پیش کیا۔ سادگی و شکوہ کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا۔ خاموشی و طمانیت کا دریا بہہ رہا تھا اور اطمینان و قرار کی بہار تھی۔ قلوب جیسے معطر ہو گئے اور بے وجہ قرار سا آگیا۔ اسی روح پرور مستی کی فضا میں ہمارے ہاتھ خود بخود دعا کے لیے اٹھ گئے، جھولیاں پھیلنے لگیں۔ بیدار ذہن، بند آنکھوں اور محسوس کرتے دل سے نکلنے والی دعا کا اپنا ایک سرور و خمار تھا۔ دعا محض خدا سے رحم کی پکار یا روحانی برجستگی نہیں۔ دعا روح کی تکثیف ہے۔ یہ ایک لحظے میں مکمل روح کو سمو دینے کا نام ہے اور ہمارے اعمال کا خلاصہ ہے۔ دعا کے انسان میں رچنے بسنے کے لیے انسان کا دعا میں رچنا بسنا ضروری ہے۔ دعا وہ لمحہ ہے جب عاجزی حقیقت بن جائے۔ اظہار ذات کے لیے ہمیں یہ سیکھنا ضروری ہے کہ طلب جاہ، تکبر اور حُب دنیا کے خولوں کو کس طرح اتار پھینکا جائے۔ کرب کی پکار جب رحمت خداوندی کا تصور بن جائے تو اسے دعا کہتے ہیں۔ دعا وہ لمحہ ہے جب کرب میں مبتلا انسان اپنا اضطراب بھول کر خدا اوراس کی رحمت کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ صرف اپنے نفس کا مشاہدہ کرنا نہیں، بلکہ مکمل انسان کا خدا کی جانب پھر جانا ہے یہ ایک مشکل صورتحال تو ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ شاید اس کا دورانیہ ایک ساعت ہی ہو لیکن اس میں ایک زمانہ حیات کا نچوڑ پایا جاتا ہے۔ درگاہ پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کیفیت بتا رہی تھی کہ ولی کامل کے پاس حاضری دے کر دعا مانگنا ایسے ہی ہے جیسے رومی نے کہا تھا 
گر تو سنگِ خارہ، مرمرشوی
چوں بصاحب دل رسی گوہر شوی 
یعنی اگر تو ناکار ہ و سخت پتھر ہے تو سنگ مر مر ہو جائے گا۔ جب کسی دل والے کے پاس جائے گا تو موتی ہو جائے گا 
دعا کے بعد حجرے میں پہنچے تو وہاں ہر طرف کتابیں ہی کتابیں بکھری ہوئی تھیں۔ اسی اثناء میں صاحبزادہ بلال صدیق ایڈووکیٹ جو سجادہ نشین کے چھوٹے بھائی ہیں وہ بھی آ پہنچے۔ ان کی آمد نے محفل کو مکالمے میں بدل دیا، بات صوفیاء کی زندگی کے محاسن سے شروع ہوئی اور خانقاہی نظام کی افراط و تفریط میں الجھ کر رہ گئی۔ انسانی تحریکیں خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں جب افراط و تفریط اور عمل و رد عمل کا بازیچہ بنتی ہیں تو ان کی شکل مسخ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ جیسے فقہ اسلامی کی تدوین نے مسلمانوں کی دینی و سماجی زندگی کو سنوارنے کا عظیم کام کیا لیکن جب اسے حیلہ بازیوں کا ذریعہ بنایا گیا تو مسلمانوں کی عملی زندگی بے روح ہوکر رہ گئی۔ایسا ہی حال تصوف کا بھی ہوا۔ شریعت و طریقت میں تفریق پیدا ہو گئی۔ مجاز پرستی، پیر پرستی، قبر پرستی نے درگاہوں کے فیض چھین لیے۔ تاہم یہ سب گمراہیاں اپنی جگہ لیکن کھرا سچ یہ ہے کہ صوفیہئ صافی نے ہمیشہ ان گمراہیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ حضرت شیخ ابو الحسن ؒ کا قول ہے کہ ”تصوف رسوم وعلوم کا نام نہیں بلکہ اخلاق کا نام ہے۔صوفیاء و درگاہوں نے اسلامی تاریخ میں ہمیشہ اخلاقی تحریک کے طور پر مسلمانوں کی راہبری کی۔ ہملٹن گب نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ”تاریخ اسلام میں بار ہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا ہے۔ لیکن بایں ہمہ،وہ مغلوب نہ ہو سکا۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تصوف یا صوفیہ کا انداز فکر فوراً اس کی مدد کو آجاتا تھا۔ اور اس کو اتنی قوت اور توانائی بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی“۔ گِب کی رائے بالکل درست ہے۔ اسلامی تاریخ میں صوفیاء کے کارنامے اسی نظر سے مطالعے کے مستحق ہیں۔ مسلمانوں کی ملی زندگی میں جب بھی کوئی مشکل مقام آیا تو ان ہی بزرگوں نے بصیرت و حکمت کے ساتھ نا مساعد حالات کا مقابلہ کیا۔ ان کا ہاتھ ملت کی نبض پر تھا اور ان کا دماغ تجدید و احیاء کی تدبیریں سوچنے میں مصروف رہتا تھا۔ آج بھی لوگ صوفیاء اور درگاہوں سے ایسے ہی راہبرانہ افعال وکردار کی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن مشائخ و خانقاہوں نے ملت کی بہتری و راہبری کی تدبیریں سوچنا کم کر دی ہیں۔ مکالمہ ابھی ادھورا ہی تھا کہ رخصت کا وقت آن پہنچا۔ علم دوست درگاہ سے واپسی پر تبرک کے طور پر تصوف کی اہم کتب کا تحفہ ملا، جسے بصد شکریہ قبول کیا،اور اجازت چاہی۔ 
معرفتِ حق کی جستجو ایک مادہ پرست بنک آفیسر کے دل کو بھی اسی طرح بے چین کر سکتی ہے جس طرح ایک عارف کے دل کو…… اسی انسانی جستجو کا نام تصوف ہے۔ حقیقی تصوف مذہب کی روح، اخلاق کی جان اور ایمان کا کمال ہے۔ اس کی اساس شریعت ہے اور سر چشمہ قرآن و حدیث۔ یہ شریعت کی نفی نہیں بلکہ اس کی توضیع ہے۔ صرف اقرار باللسان نہیں، اقرار بالقلب بھی ہے۔ لیکن اسی سفر کے دوران حاصل سفر یہ بات تھی کہ حضرت یحییٰ بن معاذ رازیؒ کا قول یاد رکھنے والا ہے کہ تین قسم کے آدمیوں کی صحبت سے بچنا چاہیے۔ ایک غافل عالم سے، دوسرے مکار فقیر سے اور تیسرے جاہل صوفی سے۔