پیر، 25 مارچ، 2019

قاسم علی شاہ کی اونچی اڑان


قاسم علی شاہ کی اونچی اڑان 


تعلیم ایک معاشرے کے اجتماعی شعور کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا ایک منظم عمل ہے۔یہ محض معلومات کے ابلاغ کا نام نہیں بلکہ متعلم کی چھپی ہوئی قابلیتوں کو تحریک دے کر ماضی کی دانش کو مستقبل کی تعمیر میں صرف کرنے کے قابل بنانے کا عمل بھی ہے۔بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام گوناگوں وجوہات کی بنیاد اپنے اس وظیفہ کی انجام دہی سے قاصر رہا ہے۔ دیگر وجوہات کے علاوہ اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ معلم کا کردار بھی ہے۔ہمارے ہاں سکول،مدرسے،کالجز، اور یونیورسٹیاں تو ہیں مگر تربیت نہیں ہے۔ان تعلیمی اداروں میں ٹیچرز و انسٹرکٹرز تو ہیں لیکن حقیقی استاد و معلم نہ ہونے کے برابر ہیں،ایسا نظام تعلیم تربیت و راہنماء کے تقاضے پورے کرنے کی اہلیت سے ہی عاری ہوتا ہے چناچہ تربیت کا فقدان بڑھتے بڑھتے قحط کی صورت اختیار کر گیا ہے۔اس گھمبیر صورتحال سے نبردآزماء ہونے کے لیے لازم ہے کہ تربیت و راہبری کے در وا کیے جائیں۔



قاسم علی شاہ جن کی اونچی اڑان سے اب ایک زمانہ واقف ہے،ایک ایسے معلم ہیں جو ہمارے عہد کے تدریسی مزدوری میں جکڑے اساتذہ کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔شاہ صاحب کی نہ صرف فکری اڑان بلند ہے بلکہ وہ دوسروں کو اڑنا سکھانے کا ملکہ بھی رکھتے ہیں۔وہ نہ صرف اپنی ماضی کی عظیم روایات کا گہرا شعور رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے جدت فکر اور قوتِ عمل کو مہمیز دینے کا کارنامہ بھی سرانجام دیا ہے۔ایک بڑا استاد اپنے شاگردوں کو معلومات کے سیلاب میں بہانے کی بجائے انہیں ذہنی رجحان دیتا ہے۔ نوبل انعام حاصل کرنے والے بڑے بڑے اساتذہ و محققین کے ایک بڑے گروپ کا جائزہ لینے کے بعد ایک مبصر نے لکھا تھا کہ کسی سائنسدان کو نوبل انعام پانے کے قابل بنانے والی چیز یہ نہیں ہے کہ اس کو کہیں سے سائنسی معلومات کا بڑا ذخیرہ مل گیا تھا بلکہ وہ چیز جس نے انہیں عالمی اعزاز کا مستحق بنایا وہ صرف اخذ و مطالعہ کا ایک ذہنی رجحان تھا جو کسی بڑے سائنسدان کی صحبت سے ہی اسے ملا تھا۔اسی چیز نے بالآخر اس کو ترقی کے اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔جناب قاسم علی شاہ بھی کوئی بڑے عالم یا محقق نہیں ہیں بلکہ اپنے ذوق و شوق کے سبب بڑے لوگوں کی صحبت سے فیضیاب صاحبِ فضل شخص ہیں۔وہ شخص جس نے طویل عرصہ علم و تجربہ میں اپنا حصہ ڈالا ہو، اس کی باتیں سادگی و پرکاری کا امتزاج ہو جاتی ہیں۔وہ جب بولتے ہیں تو علم حُسنِ ابلاغ کے پروں پر پرواز کرنے لگتا ہے۔جب تبصرہ کرتے ہیں تو ان کا تبصرہ مطالعہء کتب کا خلاصہ ہوتا ہے۔شاہ صاحب جب اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو وہ برسوں پر محیط سفر کو منٹوں میں سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔قاسم علی شاہ جب مشورہ دے رہے ہوتے ہیں تو اس کے پس منظر میں نشیب و فرازِ حیات کی جھلک نظر آتی ہے۔ان کا ہر لفظ کتاب ہوتا ہے اور ان کی ہر تقریر حاصلِ مطالعہ ہوتی ہے۔یہی فلسفہ صحبت ِ اکابرین کا حاصل ہے۔اشفاق احمد،واصف علی واصف،پروفیسر احمد رفیق اختر،بابا جی عرفان الحق و ایسے ہی دیگر بزرگوں کی صحبت کا خلاصہ قاسم علی شاہ ہیں۔شاہ صاحب نے مذکورہ بزرگوں کی صحبت سے علم نہیں زاویہ نظر کشید کیا،ان کی محفلوں میں مکالمے سے معلوماتِ محض جمع نہیں کیں بلکہ تڑپ اور لگن سمیٹی۔بلاشبہ صادقین کی صحبت نے ایک ٹیوٹر کو ٹرینر بنا دیا۔جناب قاسم علی شاہ کی پہلی اڑان ایک استاد کی اڑان تھی جس نے پاس آنے والے طالبعلموں کو نہ صرف تعلیم دی بلکہ خواب دیکھنے کا ہنر بھی سکھایا۔
قاسم علی شاہ کی دوسری اڑان جس میں وہ مسلسل بلندیوں کی طرف محوِ پرواز ہیں،ایک Inspirational اور Motivational Speaker کی ہے۔پاکستان کے طول و عرض میں متعدد جامعات،کاروباری اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ملنے والی دعوت میں جاتے ہیں اور اپنے علم اور فن کا جادو جگاتے ہیں۔ Motivational Speech اب ایک Genre کی حیثیت اختیار کر چکی ہے،اس کی ابتداء بیسویں صدی میں ڈیل کارنیگی سے ہوئی تھی۔امریکہ کا یہ نامور شخص بیسویں صدی کے افق پر موٹیویشنل سپیکر کے طور پر چھایا رہا۔ہزاروں لوگوں نے ڈیل کارنیگی سے اُمید کا درس لیا اور مایوسیوں کو چھوڑ کر کامیابی و کامرانی کے راستے کو اپنایا۔
پاکستان میں میری دانست میں اس اسلوب کو متعارف کروانے کا سہرا قاسم علی شاہ کے سر ہے جنہوں نے اس میدان میں نہ صرف لوہا منوایا بلکہ دنیا کا ایک منفرد اسلوب بھی متعارف کروایا۔ اس اسلوب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی جڑیں ہماری اعلیٰ تہذیب و اقدار میں ہیں۔اونچی اڑان کے دیباچے میں عرضِ مصنف کے عنوان کے تحت قاسم شاہ صاحب نے تین بنیادی اصول بیان کیے ہیں۔1- سچائی  2- دیانت 3- خوش اخلاقی،اور انہیں ہمارے آقا محسنِ انسانیت ؐ کی سُنت قرار دیا ہے۔میرے خیال میں یہ تینوں اصول ہر کامیاب انسان کی زندگی کا جزو لازم ہوتے ہیں۔انہیں سنت نبویؐ سے جوڑ کر قاسم علی شاہ نے ان اصولوں سے برکت بھی اخذ کی ہے جو ہماری تہذیبی زندگی کی اساس ہے۔
راست گوئی،دیانت داری اور خوش اخلاقی ایک پورا اسلوبِ زیست ہے جو کامیابیوں اور کامرانیوں کے دروازے کھولتا ہے۔حکمت و دانش کے اس سرچشمے کو اپنی روایت میں تلاش کرنا وہ خوبی ہے جس نے شاہ جی کے اسلوب کو بہت دل آویز بنا دیا ہے اور ان کی کتاب اونچی اڑان کا مطالعہ کرتے ہوئے علامہ اقبال کا شعر یاد آتا ہے کہ 
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہئ دانشِ فرنگ 
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف 
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اپنی روایت سے جڑا ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ نوعِ انسانی کی اجتماعی دانش سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ قاسم علی شاہ نے مشرق و مغرب کی قدیم و جدید دانش سے اکتسابِ فیض کیا ہے اور حکمت کو مومن کا گمشدہ سرمایہ تصور کرتے ہوئے عقل و دانش کی ہر بات کو اپنے سامعین تک پہنچانے کی کوشش ہے۔
اونچی اڑان میں 37 عنوانات کے تحت حکمت و دانش کے موتی بکھیرے گئے ہیں اور ہر عنوان کے نیچے موضوع کا احاطہ کرنے والے کسی قولِ زریں کا حوالہ دیا گیا ہے۔جہاں رومی،سعدی اور بایزید بسطامی کاحوالہ ہے وہیں مغرب و مشرق،ایشیاء،افریقہ،یورپ اور امریکہ اور دنیا کی اکثر تہذیبوں کے اہلِ فکر و دانش کے اقوال کا حوالہ بھی دیا گیا ہے،اسی تنوع سے قاسم علی شاہ کا وسعتِ مطالعہ کے ساتھ ان کے ظرف کی وسعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
جناب قاسم علی شاہ کی یہ خوشہ چینی اس اعتبار سے منفرد ہے کہ وہ کہیں بھی اپنی روایت،اپنی اقدار،اپنے تہذیبی اصولوں کو فراموش نہیں کرتے۔ دانائی کی ہر بات کو انہوں نے اپنی ثقافتی اور تہذیبی تناظر میں رکھ کر دیکھا ہے اور ان کی فکر میں مرعوبیت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ان کے اسلوب کی ایک اور خوبی ان کی فکر کا روحانی تناظر ہے۔قاسم علی شاہ اسلام کی صوفیانہ روایت سے مضبوط وابستگی رکھتے ہیں۔ ان کی فکر میں صوفیانہ طرزِ احساس کی بڑی بھرپور جھلک پائی جاتی ہے۔وہ بے مرشد،بے فیض،بے استاد ہونے کو ناکامی کا ایک اہم سبب سمجھتے ہیں۔ جناب شاہ جی نے اپنی تحریروں میں باربار ان روحانی اقدار کا حوالہ دیا ہے جو اسلامی تصوف کا جوہر ہے۔اونچی اڑان کا عمومی موضوع بھی کامیابی ہے اس حوالے سے قاسم شاہ صاحب نے کامیابی کا جو پیمانہ بیان کیا ہے وہ ان کی  تمام تحریروں کا جوہر ہے۔ان کے نزدیک کامیابی کسی بھی شعبے میں جو آپ کی افتادِ طبع اور آپ کی فطری صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہو،نکتہ کمال کو چھونا ہے۔یہ بڑی بنیادی بات ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ کی ربوبیت کا بیان کرتے ہوئے مفسرین نے تربیت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے '' تبلیغ الشئی الی کمالہ  بحسبِ استعدادہ الازلی شیاً فشیاً (سیماوی،اصفہانی) '' ترجمہ: کسی شے کا اپنی ازلی استعداد کے مطابق درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے اپنے کمال کو پالینا (ضیاء القرآن) 
قاسم علی شاہ نے اونچی اڑان میں اسی معیار کو مدِ نظر رکھا ہے۔علم دوستی نے انہیں ابلاغ کی قوت سے بھی مالا مال کیا ہے ان کی تحریریں اور تقریریں دیکھ اور سُن کر لگتا ہے کہ برطانوی دانشور شاعر لیم بٹلر ییٹس (W.B. Yeats)نے درست کہا تھا کہ 
''Think like a wise man but communicate in the language of the people.'' 
قاسم علی شاہ صاحب اپنے مطالعے اور فکر کی سنجیدگی کو قارئین و سامعین کی استعداد کے مطابق بیان کرتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں مسکراہٹ کی پڑیا میں لپیٹ کر دوسروں کے تحت الشعور کا حصہ بنا دیتے ہیں ڈیل کارنیگی کا کہناتھا کہ 
''Your smile is a message of your goodwill.'' 
قاسم علی شاہ صاحب کا اسلوب ان کے اندازِ فکر اور اطوارِ حیات کا امتزاج ہے اور یہی زاویہء نظر ان کی اونچی اڑان،ان  بلند منزلوں کی پرواز سکھاتی ہے جو انسان کو لازوال کامیابیوں اور کامرانیوں کی نوید دیتی ہیں۔ان کی کتاب پر بہترین تبصرہ مصحفی کا یہ شعر ہے 
میں کنگرعرش سے پر مار کے گزرا
اللہ رے رسائی میری پرواز تو دیکھو 
قاسم شاہ جی کی اونچی پرواز اب مستند ہو گئی ہے کہ اب تو یہ اڑان کئی دلوں میں کھٹکنے بھی لگی ہے۔کئی لوگوں کی حسرت حسد بن کر تنقید کے فیشن کا روپ دھار گئی ہے۔ان ناقدین شاہ جی کی رائے کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے صرف اتنا کہنے کی جسارت کروں گا کہ ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان جو فرق ہے وہ سُننے کا فرق ہے۔ایک آواز آتی ہے،تم اس کو دروازہ بند کرنے کی آواز سمجھتے ہو اور میں اسے دروازہ کھلنے کی آواز سمجھتا ہوں۔

تفاوت است میانِ شنیدن من و تو 
تو غِلق باب و منم فتحِ باب می شنوم

جمعرات، 21 مارچ، 2019

شاعری کا عالمی دن



ولیم ہیزلٹ نے خوب کہا ہے کہ "Poetry is all that is worth remembering in life".بے شک انسان فطرتاًحسن و جمال کا شیدائی ہے۔ اچھا شعر انسان کو تازگی اور جمالیات کو فرحت بخشتا ہے اور اس کے ذہن کا بوجھ ہلکا کر دیتا ہے۔ مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں کہ ”فنون لطیفہ کی سب سے زیادہ تربیت یافتہ اور سب سے زیادہ لطیف صورت ادب یعنی الفاظ کا فن ہے جو سنگ تراشی اور مصوری کے بعد وجود میں آیا اور ادب کی سب سے زیادہ قدیم، سب سے زیادہ فطری اور سب سے زیادہ مقبول شکل شاعری ہے“۔ شاعری کو انگریزی میں Poetryکہتے ہیں جو یونانی لفظ Poieoسے ماخوذ ہے جس کے دو معنی ہیں 'I create'شاعری کوعام طور پر دو معنوں میں لیا جاتا ہے، اول ایک نفسی کیفیت جس کا نتیجہ شعر گوئی ہوتا ہے، دوم اس کیفیت کی پیداوار۔ پہلے معنوں میں شاعری ایک شاعرانہ کیفیت کا نام ہے جو خودکو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ہمارے اندر اور ہمارے ذریعے ایک دنیا خلق کرتی ہے جو خود اس سے مشابہ ہوتی ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ ایک عمل ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں کے اندر ایسی کیفیت پیدا کرنا جو اس کی محرک تھیں۔ شاعری کی معراج یہ ہے کہ پڑھنے والے کو یہ محسوس ہو کہ جو اثر اس کے اوپر ہو اہے اس کے پیدا کرنے کیلئے اور کوئی الفاظ ممکن ہی نہ تھے۔ شاعری کی کسی فلسفیانہ بحث میں الجھنے کی بجائے لیو نارڈ کوہن کی یہ بات آسان فہم ہے کہ 
"Poetry is just the evidence of life. if your life is burning well, poetry is just the ash".
شاعری کا انسانی زندگی سے قدیم اور گہرا تعلق رہاہے لیکن دھیرے دھیرے اس تخلیقی عمل میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شعر، شاعری اور مشاعرے کی روایت نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے پیش نظر 1999ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے پیرس میں منعقدہ 30ویں اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ ہر سال 21مارچ کو شاعری کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔تا کہ شعری روایت کو مستحکم کیا جاسکے۔اور انسانیت کیلئے اس کے مثبت اثرات کو بروئے کار لایا جا سکے۔
افلاطون نے ”جمہوریہ“ میں شاعری پر پابندی لگائی تھی مگر اس کے شاگرد ارسطو نے فن شاعری کا انسانی ذہن کے خود مختار عمل کی حیثیت سے جائزہ لیا اور اسے صداقت پر مبنی سنجیدہ اور مفید پایا۔ اس کے خیال میں شاعر افراد کے افعال اور جذبات کا ایسے طور پر بیان کرتا ہے کہ وہ عمومی اور آفاقی بن جاتے ہیں۔ ارسطو کے خیال میں شاعری کو تاریخ پر فوقیت حاصل ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں Longinusنے نئے نقطہ نگاہ سے ادب کا جائزہ لیا اور ارسطو کی رائے کے تناظر میں تحقیق کی کہ شاعری کا نشاط بخش اثر مخاطب پر کیا ہوتا ہے۔ لانجائنس کا نظریہ افلاطون کے نظریے کی ضد تھا۔ پھر فلپ سڈنی کا مضمون 'The Defence of Poesie'بہت مقبول ہوا۔ اس کے نزدیک انسان کا کوئی فن ایسا نہیں جو فطرت کی بنائی ہوئی چیزوں پر مبنی نہ ہو۔ صرف شاعرایک ایسا فنکار ہے جو فطرت کی لکیر کی فقیری سے انکار کر کے اپنی قوت ایجاد کے بل بوتے پر ایک نئی فطرت تخلیق کرتا ہے۔ اور ایسی چیزیں ایجاد کرتا ہے جو یا تو فطرت کی چیزوں کی اصلاح یافتہ صورتیں ہوتی ہیں یا ان سے بالکل جداگانہ چیزیں۔ سڈنی کے بعد ڈرائیڈن شاعری کے متعلق یوں گویا ہوا کہ شاعری کاکام یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو ایک دلفریب اور پرلطف طریقے سے انسانی فطرت کے حقائق سے آشنا کرے، یعنی ڈرائیڈن شاعری کو علم نفسیات کے شاخ قرار دیتا ہے۔ ڈاکٹر جانسن کا خیال تھا کہ شاعر اصل زندگی کی آئینہ داری بھی کرے اور اس کے ذریعے تہذیب ِاخلاق بھی کرے۔ مشہور شاعر ورڈ زورتھ اپنے مجموعہ کلام Ballads Lyricalکے دوسرے ایڈیشن کے مقدمے میں سب سے پہلے یہ سوال کرتا ہے کہ شاعر کسے کہتے ہیں؟ اس کا روئے سخن کس طرف ہے؟ وغیرہ وغیرہ اور پھر لفظ شاعری کے دو معنی بیان کرتا ہے، شعر گوئی اورشعر۔ پھر صراحت سے بحث کرتا ہے کہ ایک طرف انسان کا نفسیاتی ڈھانچہ اور دوسری طرف نظامِ کائنات، یہ دونوں ایک دوسرے کے متوازی ہیں اور شاعر عمومی اور ہمہ گیر حقیقتوں کا اظہار اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ ایک ایسا انسان ہے جو اپنے جذبات و واردات سے حظ حاصل کرتا ہے جو دوسری لوگوں کے مقابلے میں اس روح زندگی سے جو اس کے اندر سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے زیادہ لذت اندوز ہوتا ہے۔ ورڈزورتھ مزید کہتا ہے کہ شاعری علم کی روح رواں اور سائنس کے چہرے پر جذبات کی رونق ہے۔ کولرج نے بھی' 'Biographia Literariaکے چودھویں باب میں شاعری کی اہمیت پرفلسفیانہ تحقیق کا اظہار کیا ہے۔
1820ء کے لگ بھگ Thomas Love Peacockنے شاعری کی مخالفت میں بھر پور مقالہ ”شاعری کے چار دور“ لکھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اب دنیا کو شاعری کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ایسے دور میں جو علم، عقل اور روشن خیالی کا دور ہے شاعری محض توہم پرستی کو اکساتی اور جہل وتیرہ دماغی کو فروغ دیتی ہے۔ اس کے جواب میں شیلے نے عصر انگیز مضمون "Defence of Poetry"لکھا او ر کہا کہ شاعری عمومی معنوں میں تخیل کا اظہار ہے اور ان معنوں میں نوع انسانی کی ہم عمر ہے۔ شیلے کہتا ہے کہ    شاعری فی الحقیقت ایک ملکوتی و جبروتی چیز ہے۔ وہ علم کا مرکز بھی ہے اور محیط بھی۔ شاعری سارے علوم انسانی پر حاوی ہے اور سارا علم انسانی اس سے سند اعتبار حاصل کرتا ہے۔ شاعر ایک بالاتر ازفہم الہام کے مفسر ہوتے ہیں۔ ان دور دراز سایوں کے آئینے ہوتے ہیں جو مستقبل حال پر ڈالتا ہے۔ وہ الفاظ ہوتے ہیں جو ایسی چیزوں کا اظہار کرتے ہیں جنہیں وہ خودنہیں سمجھتے، وہ جنگی نقارے ہوتے ہیں جو خود جنگ جوئی کے جذبے سے معرا ہوتے ہیں۔ وہ محرک ہوتے ہیں جو خود ہلے بغیر دنیا کو ہلا دیتے ہیں۔ شاعردنیا کے وہ قانون ساز ہیں جن کا عتراف نہیں کیا گیا۔“ کہتے ہیں کہ فن کے دربار میں شاعری کی تاج پوشی اس شان و شوکت آج تک نہیں کی گئی جیسی شیلے نے کی۔
مگر آج ادب و فن کے پر ستار بہت کم ہوتے جا رہے ہیں۔ شعر وسخن کا چراغ ٹمٹمانے لگا ہے، مشاعرے کی روایت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔ عام لوگ شاعری کو بذات خود کوئی اعلیٰ صنف کلام نہیں سمجھتے بلکہ دوسری علوم کی ایک حسین کنیز تصور کرتے ہیں۔ تاریخ میں معلم، مورئخ،فلسفی اورعالم کی حیثیت سے شاعر کا جودرجہ ہے وہ فراموش ہو چکا، ایسے وقت میں شاعری کا عالمی دن ہمیں جھنجھوڑ کر اس کی اہمیت یاددلا رہاہے۔ آج مشینی و سائنسی دنیا میں اکھڑ تی سانسوں کے انسان نما روبوٹ نے پھرسے جمالیات، فنون لطیفہ اور شعر و سخن کو یاد کرنا شروع کیا ہے تو مجھے ورڈزوتھ کے یہ الفاظ یاد آنے لگے ہیں کہ ”اگر کبھی ایسا وقت آیا کہ جب وہ چیز جسے ہم آج کل سائنس کہتے ہیں۔ عام لوگوں کیلئے آئے دن کی ایک آشناہستی بن کر گویا گوشت پوست کا جامہ پہن لے گی تو اس قلب ماہئیت کی تکمیل کی خاطر شاعر  اپنی ملکوتی روح اس کے اندر حلول کر دے گا اور پھر اس نئی ہستی کا خانمان انسانی کے ایک عزیز رکن کے طور پر خیر مقدم کرے گا“۔ بلاشبہ آج بھی کوئی با ذوق شخص جب کوئی خوبصورت شعر سنتا ہے تو پھڑک اٹھتا ہے۔ اس پر ایک وجدکی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کے منہ سے بے ساختہ واہ نکل جاتی ہے اور وہ دیر تک اس شعر سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کہا کرتے ہیں کہ شعر پڑھنا اور سمجھنا اور اس شعر سے لطف اندوز ہونا خود ایک تخلیقی عمل ہے“۔سائنس کی روبہ ترقی مادہ پرستی سے تہذیب انسانی کے روحانی پہلوؤں کو جو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اس کے سد باب کے لئے شاعری سے امید کی جاسکتی ہے کیونکہ شاعری واقعاتی صداقت سے بے نیاز ہوتی ہے میتھیو آرنلڈ نے لکھا تھا کہ۔”شاعری کی زبر دست قوت اس کی قوت تفسیرمیں مضمر ہے اس سے میری مراد راز کائنات کے معنی کا ایک لفظی مرقع پیش کرنے کی قوت نہیں بلکہ چیزوں سے ایسے طور پر تعرض کرنے کی قوت کہ ہمارے اندر ان کا اور ان کے ساتھ ہمارے تعلق کا ایک مکمل نیا اور گہرا احساس پیدا ہو جائے۔ جب اپنے ارد گرد کی چیزوں کے متعلق ہمارے دل میں ایسا احساس پیدا ہو جاتاہے ہے تو ہمیں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم ان چیزوں کی ماہئیت سے مس رکھتے ہیں اور وہ ہمارے لیے بار خاطر اور سوہان روح نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہم رازی اور ہم بازی کے رشتے میں مربوط ہیں۔ اس سے بڑھ کر تسکین اور تسلی بخشنے والا احساس کوئی نہیں ہو سکتا“۔ 21 مارچ کو عالمی یوم شاعری قرار دیتے ہوئے اس وقت کی ڈائریکٹر جنرل یونیسکو Irnia Bokovaنے جوپیغام دیاتھا اسی پر بات کو ختم کرنا چاہتا ہوں کہ"As a deep expression of the human mind and as a universal art, poetry is a tool for dialogue and rapprochemant. The dissemination of poetry helps to promote dialogue among cultures and understanding between peoples because it gives access to the authentic expression of a language".

پیر، 18 مارچ، 2019

قرآنی انسائیکلو پیڈیا: ایک جائزہ


علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا مجموعہ مضامین قرآن”قرآنی انسائیکلو پیڈیا“ شائع ہوا تو بارسلونا سپین میں مقیم منہاج القرآن کے راہنما اسد اقبال قادری نے یہ تحفہ مجھے بھجوایا۔میں اس بابرکت تحفہ پر ان کا شکر گذار ہوں۔ میرا یقین ہے کہ قرآن حکیم انسانوں کے لیے خدا کی ابدی راہنمائی اور تعارفِ خدا ہونے کے ساتھ انسانیت کا دستورِ حیات اور قانونِ فطرت ہے۔ آیات قرآنی کا اعجاز ہے کہ ان میں باربار تفکر و تدبر نئے نئے معنی و مفاہیم سامنے لے کر آتاہے۔ قرآن حکیم نے ہر دور میں لوگوں کے بند ذہنوں کو کھولا ہے۔ قرآن نے تقلید ی فکر کی بجائے اجتہادی فکر پیدا کی ہے۔ آج بھی عالمی فکر ی تحریک پر قرآن کی گہری چھاپ ہے۔ حقیقت میں قرآن کو شامل کیے بغیر انسانیت کے فکری سفر اور اسکے ارتقاء کی تاریخ کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ اس ضمن میں علامہ طاہر القادری ایسے خوش نصیب ہیں کہ مالک کائنات نے انہیں قرآن مجید سے عوام و خواص کو مستفید کرنے کے لیے چن لیا ہے۔ باشبہ ڈاکٹر طاہر القادری کا شمار عالم اسلام کی نمایاں ترین شخصیات میں ہوتا ہے اور ان کے علمی و قلمی کارنامے اہل علم سے ہرگز پوشیدہ نہیں۔ کم و بیش ساڑھے پانچ سو کتابو ں کا مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی تحریروں میں روایت اور جدت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ قدیم علماء کے علوم سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ ان میں ید ِ طولیٰ رکھتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ علومِ جدید سے آگاہی اور روح عصر کی آگہی میں بھی اپنے ہم عصروں سے کسی طور پیچھے نہیں۔ 
جناب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے علم حدیث، ترجمہ و تفسیرِ قرآن، اسلامی قانون، سماجیات، اسلام کے سیاسی اور معاشی نظام، تصوف اور تہذیبِ اخلاق پر شاندار کتابیں لکھیں ہیں تاہم انہوں نے اپنی تمام علمی وذہنی توانائیوں اور فکری و قلمی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایسا شاندار کام کیا ہے جس نے انہیں لازوال شہرت و احترام سے نوازا ہے۔ ان کا یہ تازہ کارنامہ ”قرآنی انسائیکلوپیڈیا“ کئی اعتبار سے ان کے سابقہ علمی کاموں کا تسلسل بھی ہے اور بعض حوالوں سے ان کے پہلے کاموں پر فائق بھی ہے۔ 
قرآن تمام انسانوں اور تمام قوموں کی کتاب ہے، خدا کا کامل پیغام اور ہدایت کی روشنی ہے۔ قرآن محض ایک آسمانی کتاب نہیں بلکہ یہ بیت سی آسمانی کتابوں کے درمیان واحد لاریب کتاب ہے۔ فرقان مجید سب کی طرف خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی کتاب ہے یہ آسمانی کتابوں کا مستند ترین ایڈیشن ہے۔ کسی بھی کتاب کی اہمیت اس کے موضوع اور اس سے متعلق بیان کردہ مضامین،مطالب اور مشمولات سے ہوتاہے۔ 

موضوعات قرآن پر کام اسلامی تاریخ کی اہم ترین سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔ امام جلال الدین سیوطی کی ”الاتقان فی علوم القرآن“ جو کہ خود مناہل العرفان کی تفصیل ہے۔ اس سے لے کر آج تک موضوعات قرآن کی فہرست بندی ایک اہم علمی سرگرمی رہی ہے۔ قرآن مجید چونکہ ایک کتاب زندہ ہے جو لازوال حکمتوں کا خزانہ ہے اس پر کام کرنا ایک وسیع علمی وفکری تناظر کا تقاضا کرتا ہے۔ معتقدمین نے قرآنی موضوعات پر کئی جہتوں سے کام کیا ہے، لیکن بنیادی حوالے اس اعتبار سے دو ہی ہیں۔ ایک حوالہ قرآن مجید کو      ” تبیان لکل شی ً ‘‘ یعنی ہر چیز کا بیان سمجھ کر قرآن کے موضوعات کی وسعت اور تنوع پر بات کرنا ہے اور دوسرا حوالہ ہے ”ھدی للناس“ یعنی نوع انسانی کے لیے ہدایت سمجھ کر اس کا اس جہت ہدایت کی روشنی میں مطالعہ کرنا ہے۔ 
حضرت شاہ ولی اللہ نے ھدی للناس کو بنیاد بناتے ہوئے قرآنی مضامین کو علوم پنجگانہ کی تقسیم کے تحت بیان کیا ہے۔ ان پانچ علوم میں پہلا۔ علم الاحکام یعنی قرآنی احکامات کی معرفت ہے۔ دوسرا۔ علم المخاصہ یعنی تقابل ادیان۔ تیسرا۔ علم التذکیر بالاا للہ یعنی اللہ کے تخلیقی و صف کے تناظر میں۔چوتھا۔ علم التذکیر بایام اللہ یعنی اقوام کے تاریخی احوال اور پانچواں۔ علم التذکیر بالموت و ما بعدہ یعنی موت اور اسکے مابعد کے حوالے سے جانچنا۔ 
اس اعتبار سے قرآن بنیادی طور پر کتاب ہدایت ہے اور باقی تمام علوم جس کی طرف قرآن پاک میں اشارے ملتے ہیں وہ ثانوی نوعیت کے ہیں۔ اس کے برعکس اگر قرآن کو تمام علوم کی جامع کتاب کے طور پر لیا جائے تو تمام علوم کی اصل قرآن حکیم میں پائی جاتی ہے۔ اس پہلوسے کام کرنے والوں نے قرآن کا موضوعاتی مطالعہ جدید و قدیم کی مناسبت سے کیا ہے۔ اس تناظر میں سے بہت ساری تفاسیر میں موضوعاتی انڈیکس دیے گئے ہیں۔مثال کے طور پر پیر محمد کرم شاہ الازھری صاحب کی تفسیر ”ضیاء القرآن“  کی ہر جلد کے اختتام پر ایک موضوعاتی انڈیکس دیا گیا ہے جو جدید و قدیم متنوع موضوعات پر آیات کی نشاندہی کرتا ہے۔ 
ایک اور سلوب جو قرآنی موضوعات کی تفصیل کا مطالعہ کرتا ہے معجم کی شکل میں موجود ہے۔ جرمن مستشرق فلو جل اور بعد ازاں فواد عبدالباقی کی ”معجم المفہرس“۔ ایک بہت بڑا اور وقیع کام ہے۔ اسی طرح عربی زبان میں ماضی قریب میں صبحی عبدالرؤف عصر کی کتاب ”المعجم الموضوعی الایآت القرآن الکریم۔“ جو832صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ایک عمدہ علمی کام ہے۔ یہ کتاب 2008میں شائع ہوئی۔ 
جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا قرآنی انسائیکلو پیڈیا اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں فواد الباقی اور صبحی عبدالروف عصر کے اسلوب کا امتزاج ہے۔ پہلی پانچ جلدیں صُبحی عبدالروف کے اسلوب میں قرآن کا موضوعاتی انڈیکس ہیں جن میں آیات بمعہ ترجمہ دی گئی ہیں۔ صبحی عبدالروف کا کام عربی میں ہے اس لیے ان کے ساتھ ترجمہ نہیں ہے۔ قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی آخری تین جلدوں میں فواد الباقی کی معجم المفہرس کے اسلوب میں قرآنی الفاظ کا جامع اشاریہ پیش کیا گیاہے۔ اس میں اضافہ یہ ہے کہ الفاظ اور آیات کا ترجمہ بھی دیا گیا ہے جس سے یہ قرآنی انسائیکلو پیڈیا اردو پڑھنے والے طبقہ کے لیے ایک عظیم علمی اثاثہ بن گیا ہے۔ 
قرآن انسائیکلو پیڈیا کے عنوان سے جو کتابیں انگریزی زبان میں لکھی گئی ہیں ان میں ادیان کی ممتاز سکالر محترمہJ.D McAuliffe(جے ڈی میکالف) کا مدون کردہ قرآن انسائیکلو پیڈیا3956صفحات پر مشتمل ہے جسے دنیا کے قدیم اور مستند پبلشر برل لیڈن نے شائع کیا ہے۔ اس انگریزی انسائیکلو پیڈیا آف قرآن میں قرآن مجید سے متعلق لاتعداد مباحث ہیں لیکن یہ قرآنی مضامین و موضوعات کا انسائیکلو پیڈیانہیں ہے۔
محترم علامہ طاہر القادری کا ترتیب دیا ہوا قرآنی انسائیکلو پیڈیا موضوعات کے تنوع، تفصیل و تقسیم کے اعتبار سے منفرد ہے۔ اس کا مختصر تقابلی مطالعہ صبحی عبدالروف عصر کے المعجم الموضوعی سے کیا جائے تو اس کی تفصیل اور تنوع کی انفرادیت اور نمایاں ہو جاتی ہے۔ صبحی عبدالروف نے اپنے موضوعات کو تین بنیادی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔ اورکان ایمان و اسلام کے تحت9ذیلی موضوعات ہیں۔    تقویٰ کے تحت 101ذیلی موضوعات، کفر وفجور کے تحت126ذیلی عنوانات ہیں۔ گویا صبحی عبدالروف نے اپنے موضوعات کو ”ھدی للناس“ کے تناظر میں ترتیب دیا ہے۔ 
جبکہ جناب علامہ طاہر القادری کے قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی جلد اوّل۔ ایمان بالاللہ کے متعلقات پر مشتمل ہے۔ جلد دوئم میں شرکت اور ایمان بالکتب، ملائکہ، تقدیر اور آخرت پر ایمان کے موضوعات ہیں۔ جلد سوئم احوال ِقیامت، عبادتِ و معاملات، حقوق و فرائض اور سائنس و ٹیکنالوجی کے موضوعات پر مشتمل ہے۔ جلد چہارم میں امن، محبت، عدم تشدد، غیر مسلموں سے حُسن سلوک اور انبیاء کے واقعات کے عنوانات ہیں۔ پانچویں جلد میں حکومت و سیاسی نظام، نظام عدل، معاشیات اور جہاد جیسے موضوعات کی تفصیل ہے۔اگرتفصیل اور تنوع کے نقطہئ نظر سے دیکھا جائے تو ایمان بالاللہ کے291ذیلی موضوعات ہیں۔ ایمان بالرسالت کے 135ذیلی موضوعات ہیں اور ایمان بالاکتب کے252ذیلی موضوعات ہیں۔ مکمل تفصیل قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی فہرست میں دیکھی جا سکتی ہے جو مجموعی طور پر پانچ ہزار عنوانات پر مشتمل ہے۔ صرف موضوعاتی فہرست 400صفحات پر مشتمل ہے۔ اسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے جدید و قدیم، مذہبی، سیاسی، اقتصادی، فکری، علمی، سائنسی، فلسفیانہ تمام پہلوؤں کے حوالے سے قرآنی آیات کی ترتیب موضوعی بیان کی ہے۔ گویا علامہ صاحب اسے ” تبیان لکل شی ً “ کے اعتبار سے دیکھ ر ہے ہیں۔ موضوعات کی وسعت اور تفصیل ڈاکٹر صاحب کے وسیع علمی وفکری پھیلاؤ کی نشاندہی کرتی ہے اور قرآن پاک کا مطالعہ اور اس حوالے سے تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ قرآنی انسائیکلو پیڈیا ایک انتہائی مفید ذریعہ معلومات ہے۔ 
بعض اوقات کہیں کہیں تکرار کا گمان ہوتا ہے لیکن متن قرآن کا تکرار باعث برکت بھی ہے اور فکر و نظر کے دریچے وا کرتا ہے۔بعض مقامات پر سائنسی و سیاسی موضوعات اور کئی دیگر عنوانات میں تبصرے کی گنجائش ہو سکتی ہے اور اہل علم و نظر اس پر تبصرہ کرتے رہیں گے لیکن بلاشبہ یہ ایک قابل تحسین علمی سرگرمی ہے جو اس میدان میں نئے امکانات ی نشاندہی کرے گی۔ لیکن کوئی بھی تبصرہ اور تنقید اس عظیم علمی کاوش کی اہمیت کا انکار نہیں کر سکے گی۔ اس کارِخیر پر جناب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب قلبی تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے روح عصر کے تقاضوں سے ہم آہنگ قرآن کے علوم کی یہ خدمت سرانجام دی ہے۔اللہ کریم ان کا علمی سفر جاری و ساری کھے اور انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔۔۔آمین