جمعرات، 21 مارچ، 2019

شاعری کا عالمی دن



ولیم ہیزلٹ نے خوب کہا ہے کہ "Poetry is all that is worth remembering in life".بے شک انسان فطرتاًحسن و جمال کا شیدائی ہے۔ اچھا شعر انسان کو تازگی اور جمالیات کو فرحت بخشتا ہے اور اس کے ذہن کا بوجھ ہلکا کر دیتا ہے۔ مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں کہ ”فنون لطیفہ کی سب سے زیادہ تربیت یافتہ اور سب سے زیادہ لطیف صورت ادب یعنی الفاظ کا فن ہے جو سنگ تراشی اور مصوری کے بعد وجود میں آیا اور ادب کی سب سے زیادہ قدیم، سب سے زیادہ فطری اور سب سے زیادہ مقبول شکل شاعری ہے“۔ شاعری کو انگریزی میں Poetryکہتے ہیں جو یونانی لفظ Poieoسے ماخوذ ہے جس کے دو معنی ہیں 'I create'شاعری کوعام طور پر دو معنوں میں لیا جاتا ہے، اول ایک نفسی کیفیت جس کا نتیجہ شعر گوئی ہوتا ہے، دوم اس کیفیت کی پیداوار۔ پہلے معنوں میں شاعری ایک شاعرانہ کیفیت کا نام ہے جو خودکو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ہمارے اندر اور ہمارے ذریعے ایک دنیا خلق کرتی ہے جو خود اس سے مشابہ ہوتی ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ ایک عمل ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں کے اندر ایسی کیفیت پیدا کرنا جو اس کی محرک تھیں۔ شاعری کی معراج یہ ہے کہ پڑھنے والے کو یہ محسوس ہو کہ جو اثر اس کے اوپر ہو اہے اس کے پیدا کرنے کیلئے اور کوئی الفاظ ممکن ہی نہ تھے۔ شاعری کی کسی فلسفیانہ بحث میں الجھنے کی بجائے لیو نارڈ کوہن کی یہ بات آسان فہم ہے کہ 
"Poetry is just the evidence of life. if your life is burning well, poetry is just the ash".
شاعری کا انسانی زندگی سے قدیم اور گہرا تعلق رہاہے لیکن دھیرے دھیرے اس تخلیقی عمل میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شعر، شاعری اور مشاعرے کی روایت نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے پیش نظر 1999ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے پیرس میں منعقدہ 30ویں اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ ہر سال 21مارچ کو شاعری کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔تا کہ شعری روایت کو مستحکم کیا جاسکے۔اور انسانیت کیلئے اس کے مثبت اثرات کو بروئے کار لایا جا سکے۔
افلاطون نے ”جمہوریہ“ میں شاعری پر پابندی لگائی تھی مگر اس کے شاگرد ارسطو نے فن شاعری کا انسانی ذہن کے خود مختار عمل کی حیثیت سے جائزہ لیا اور اسے صداقت پر مبنی سنجیدہ اور مفید پایا۔ اس کے خیال میں شاعر افراد کے افعال اور جذبات کا ایسے طور پر بیان کرتا ہے کہ وہ عمومی اور آفاقی بن جاتے ہیں۔ ارسطو کے خیال میں شاعری کو تاریخ پر فوقیت حاصل ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں Longinusنے نئے نقطہ نگاہ سے ادب کا جائزہ لیا اور ارسطو کی رائے کے تناظر میں تحقیق کی کہ شاعری کا نشاط بخش اثر مخاطب پر کیا ہوتا ہے۔ لانجائنس کا نظریہ افلاطون کے نظریے کی ضد تھا۔ پھر فلپ سڈنی کا مضمون 'The Defence of Poesie'بہت مقبول ہوا۔ اس کے نزدیک انسان کا کوئی فن ایسا نہیں جو فطرت کی بنائی ہوئی چیزوں پر مبنی نہ ہو۔ صرف شاعرایک ایسا فنکار ہے جو فطرت کی لکیر کی فقیری سے انکار کر کے اپنی قوت ایجاد کے بل بوتے پر ایک نئی فطرت تخلیق کرتا ہے۔ اور ایسی چیزیں ایجاد کرتا ہے جو یا تو فطرت کی چیزوں کی اصلاح یافتہ صورتیں ہوتی ہیں یا ان سے بالکل جداگانہ چیزیں۔ سڈنی کے بعد ڈرائیڈن شاعری کے متعلق یوں گویا ہوا کہ شاعری کاکام یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو ایک دلفریب اور پرلطف طریقے سے انسانی فطرت کے حقائق سے آشنا کرے، یعنی ڈرائیڈن شاعری کو علم نفسیات کے شاخ قرار دیتا ہے۔ ڈاکٹر جانسن کا خیال تھا کہ شاعر اصل زندگی کی آئینہ داری بھی کرے اور اس کے ذریعے تہذیب ِاخلاق بھی کرے۔ مشہور شاعر ورڈ زورتھ اپنے مجموعہ کلام Ballads Lyricalکے دوسرے ایڈیشن کے مقدمے میں سب سے پہلے یہ سوال کرتا ہے کہ شاعر کسے کہتے ہیں؟ اس کا روئے سخن کس طرف ہے؟ وغیرہ وغیرہ اور پھر لفظ شاعری کے دو معنی بیان کرتا ہے، شعر گوئی اورشعر۔ پھر صراحت سے بحث کرتا ہے کہ ایک طرف انسان کا نفسیاتی ڈھانچہ اور دوسری طرف نظامِ کائنات، یہ دونوں ایک دوسرے کے متوازی ہیں اور شاعر عمومی اور ہمہ گیر حقیقتوں کا اظہار اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ ایک ایسا انسان ہے جو اپنے جذبات و واردات سے حظ حاصل کرتا ہے جو دوسری لوگوں کے مقابلے میں اس روح زندگی سے جو اس کے اندر سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے زیادہ لذت اندوز ہوتا ہے۔ ورڈزورتھ مزید کہتا ہے کہ شاعری علم کی روح رواں اور سائنس کے چہرے پر جذبات کی رونق ہے۔ کولرج نے بھی' 'Biographia Literariaکے چودھویں باب میں شاعری کی اہمیت پرفلسفیانہ تحقیق کا اظہار کیا ہے۔
1820ء کے لگ بھگ Thomas Love Peacockنے شاعری کی مخالفت میں بھر پور مقالہ ”شاعری کے چار دور“ لکھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اب دنیا کو شاعری کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ایسے دور میں جو علم، عقل اور روشن خیالی کا دور ہے شاعری محض توہم پرستی کو اکساتی اور جہل وتیرہ دماغی کو فروغ دیتی ہے۔ اس کے جواب میں شیلے نے عصر انگیز مضمون "Defence of Poetry"لکھا او ر کہا کہ شاعری عمومی معنوں میں تخیل کا اظہار ہے اور ان معنوں میں نوع انسانی کی ہم عمر ہے۔ شیلے کہتا ہے کہ    شاعری فی الحقیقت ایک ملکوتی و جبروتی چیز ہے۔ وہ علم کا مرکز بھی ہے اور محیط بھی۔ شاعری سارے علوم انسانی پر حاوی ہے اور سارا علم انسانی اس سے سند اعتبار حاصل کرتا ہے۔ شاعر ایک بالاتر ازفہم الہام کے مفسر ہوتے ہیں۔ ان دور دراز سایوں کے آئینے ہوتے ہیں جو مستقبل حال پر ڈالتا ہے۔ وہ الفاظ ہوتے ہیں جو ایسی چیزوں کا اظہار کرتے ہیں جنہیں وہ خودنہیں سمجھتے، وہ جنگی نقارے ہوتے ہیں جو خود جنگ جوئی کے جذبے سے معرا ہوتے ہیں۔ وہ محرک ہوتے ہیں جو خود ہلے بغیر دنیا کو ہلا دیتے ہیں۔ شاعردنیا کے وہ قانون ساز ہیں جن کا عتراف نہیں کیا گیا۔“ کہتے ہیں کہ فن کے دربار میں شاعری کی تاج پوشی اس شان و شوکت آج تک نہیں کی گئی جیسی شیلے نے کی۔
مگر آج ادب و فن کے پر ستار بہت کم ہوتے جا رہے ہیں۔ شعر وسخن کا چراغ ٹمٹمانے لگا ہے، مشاعرے کی روایت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔ عام لوگ شاعری کو بذات خود کوئی اعلیٰ صنف کلام نہیں سمجھتے بلکہ دوسری علوم کی ایک حسین کنیز تصور کرتے ہیں۔ تاریخ میں معلم، مورئخ،فلسفی اورعالم کی حیثیت سے شاعر کا جودرجہ ہے وہ فراموش ہو چکا، ایسے وقت میں شاعری کا عالمی دن ہمیں جھنجھوڑ کر اس کی اہمیت یاددلا رہاہے۔ آج مشینی و سائنسی دنیا میں اکھڑ تی سانسوں کے انسان نما روبوٹ نے پھرسے جمالیات، فنون لطیفہ اور شعر و سخن کو یاد کرنا شروع کیا ہے تو مجھے ورڈزوتھ کے یہ الفاظ یاد آنے لگے ہیں کہ ”اگر کبھی ایسا وقت آیا کہ جب وہ چیز جسے ہم آج کل سائنس کہتے ہیں۔ عام لوگوں کیلئے آئے دن کی ایک آشناہستی بن کر گویا گوشت پوست کا جامہ پہن لے گی تو اس قلب ماہئیت کی تکمیل کی خاطر شاعر  اپنی ملکوتی روح اس کے اندر حلول کر دے گا اور پھر اس نئی ہستی کا خانمان انسانی کے ایک عزیز رکن کے طور پر خیر مقدم کرے گا“۔ بلاشبہ آج بھی کوئی با ذوق شخص جب کوئی خوبصورت شعر سنتا ہے تو پھڑک اٹھتا ہے۔ اس پر ایک وجدکی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کے منہ سے بے ساختہ واہ نکل جاتی ہے اور وہ دیر تک اس شعر سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کہا کرتے ہیں کہ شعر پڑھنا اور سمجھنا اور اس شعر سے لطف اندوز ہونا خود ایک تخلیقی عمل ہے“۔سائنس کی روبہ ترقی مادہ پرستی سے تہذیب انسانی کے روحانی پہلوؤں کو جو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اس کے سد باب کے لئے شاعری سے امید کی جاسکتی ہے کیونکہ شاعری واقعاتی صداقت سے بے نیاز ہوتی ہے میتھیو آرنلڈ نے لکھا تھا کہ۔”شاعری کی زبر دست قوت اس کی قوت تفسیرمیں مضمر ہے اس سے میری مراد راز کائنات کے معنی کا ایک لفظی مرقع پیش کرنے کی قوت نہیں بلکہ چیزوں سے ایسے طور پر تعرض کرنے کی قوت کہ ہمارے اندر ان کا اور ان کے ساتھ ہمارے تعلق کا ایک مکمل نیا اور گہرا احساس پیدا ہو جائے۔ جب اپنے ارد گرد کی چیزوں کے متعلق ہمارے دل میں ایسا احساس پیدا ہو جاتاہے ہے تو ہمیں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم ان چیزوں کی ماہئیت سے مس رکھتے ہیں اور وہ ہمارے لیے بار خاطر اور سوہان روح نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہم رازی اور ہم بازی کے رشتے میں مربوط ہیں۔ اس سے بڑھ کر تسکین اور تسلی بخشنے والا احساس کوئی نہیں ہو سکتا“۔ 21 مارچ کو عالمی یوم شاعری قرار دیتے ہوئے اس وقت کی ڈائریکٹر جنرل یونیسکو Irnia Bokovaنے جوپیغام دیاتھا اسی پر بات کو ختم کرنا چاہتا ہوں کہ"As a deep expression of the human mind and as a universal art, poetry is a tool for dialogue and rapprochemant. The dissemination of poetry helps to promote dialogue among cultures and understanding between peoples because it gives access to the authentic expression of a language".

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں