پیر، 15 جنوری، 2018

فروغِ قومی زبان اور جامعات کا کردار

فروغِ قومی زبان اور جامعات کا کردار

دنیا کے ہر آزاد ملک کی ایک مشترک زبان ہوتی ہے جسے قومی زبان کہا جاتا ہے۔ یہ زبان اس ملک کے مختلف حصوں، علاقوں، خطوں اور طبقات کے مابین اتحاد و یگانگت و قومی تشخص، کاروبار مملکت و ملکی نظم و نسق اورعلوم و فنون کی نسل نو کو منتقلی کے عمل میں معاون اور دیگر قوموں کی صف میں برابری دلانے جیسے امور میں نشان امتیاز کا کردار ادا کرتی ہے۔ گویا قوم کی پہچان اس کی قومی زبان کے بغیرممکن نہیں اور قوم کے بغیر زبان ناپید ہو جاتی ہے۔ تاریخ ِانسانی گواہ ہے کہ قومیت کی تشکیل میں جہاں قومی نشوونما میں قومی شعور کا ادراک مرحلہ وار ہوتا رہا ہے وہیں متوازی طور پر قوم کی زبان بھی بتدریج نشوونما اور ارتقاء پاتی رہی ہے۔ آج کے اس گلوبل ویلج میں بھی کسی آزاد ملک کو اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے جن بنیاد ی تقاضوں کو پورا کرنا پڑتا ہے اس میں قومی زبان کی نشاندہی کرنا لازم ہے تاکہ بوقت ضرورت ملک کی زبان کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبان قرار دیا جا سکے۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جملہ انسانی حقوق میں قومی زبان کسی ملک کے انسانوں کا بنیادی حق ہے جو اسے ملنا چاہیے۔ہر ملک اپنی آزادی کے ساتھ ہی اپنی مخصوص قومی زبان کا اعلان کر دیتا ہے اور بعد ازاں تیاری کے عمل میں اسے آئینی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہر قوم آئین سازی کے مراحل میں جن جملہ امور کو ملحوظ رکھتی ہے ان میں سے قومی زبان سب سے پہلے آتی ہے۔ برطانیہ کا غیر تحریری آئین ہو یا امریکہ کا تحریری آئین۔ سری لنکا جیسے لسانی خلفشار زدہ مگر متحد ملک کا دستور ہو یا فرانس جیسے لسانی قد رو منزلت کے امین ملک کا آئین۔بھارت جیسے لگ بھگ ساڑھے سا ت سو زبانوں والے ملک کا آئین ہو یا اپنی زبان کو حیاتِ نو بخشنے والے اسرائیل کا آئین۔ ہر ایک نے اپنی قومی زبان کے تحفظ کا آئینی حلف اٹھا رکھا ہے۔ اسی تناظر میں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا کیونکہ و ہ جانتے تھے کہ یہ ہماری قومی شناخت کا معتبر حوالہ ہے پھر اسے ملک کے 1956ء،1962ء اور1973ء کے آئین میں بھی تسلیم کیا گیا۔ تاہم اسے قومی بد قسمتی کے سوا کیا کہیے کہ قومی زبان اردو کو پاکستان کے تعلیمی نظام، قانونی و انتظامی ڈھانچے اور ہیئت ِ مقتدرہ کا حصہ نہ بنایا جا سکا۔ سپریم کورٹ میں جسٹس جواد خواجہ کے فیصلے کے بعد سے ایک با ر پھر ملک میں قومی زبان کا حال و احوال زیر بحث ہے۔
اسی تناظر میں وطن عزیز کی ایک ممتاز دانش گاہ یونیورسٹی آف گجرات کی محب وطن قیادت نے اس قومی تقاضے کو قومی بیانیے کا حصہ بنانے کے لیے اگواکاری کا فریضہ انجام دیا اور اس کے مرکز السنہ و علوم ترجمہ کے زیر اہتمام10جنوری کو ”قومی زبان کا فروغ“ کے موضوع پر فکر انگیز سیمینار کی میزبانی کی گئی۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب اور ادارہ فروغ قومی زبان کے سربراہ جناب افتخار عارف مہمان خصوصی تھے۔ جواں فکر قلمکار ڈاکٹر صفدر رشیدا ورسربراہ شعبہ علوم ترجمہ جامعہ گجرات ڈاکٹر غلام علی مہمان مقررین میں شامل تھے۔ مہمانوں کے تعارفی سیشن میں وائس چانسلر جامعہ گجرات پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم نے میزبانی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے مہمانوں کا والہانہ استقبال کیا اور کہا کہ تہذیبوں کے ارتقاء میں زبان کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ انسانی ذہن کے ارتقاء اور معاشروں کو باہم مربوط بنانے میں زبان نے ہمیشہ موثر کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان ایک کیثر للسانی خطہ ہے۔ اس تنوع کو باہم مربوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان بنیادوں پر قومی زبان کی ترویج اور فروغ ممکن ہو پائے۔ قومی زبان اردوکے فروغ کے عظیم تر مقصد کے حصول کے لیے ہمیں ایک دیرپا اور پائیدار لسانی پالیسی تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسی لسانی پالیسی جو ہماری قومی ضرورتوں اور تقاضوں کو بخوبی پورا کرتے ہوئے ہماری شرح خواندگی کو بھی بڑھائے اور ہماری اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی، علمی و قانونی ا ورانتظامی ضروریات کو بھی پوار کر سکے۔ اس کے لیے یونیورسٹی آف گجرات نے قومی دانش گاہ کی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے پنجاب کے تمام قوانین کااردو ترجمہ کرنے کا قومی فریضہ بحسن خوبی پورا کیا ہے اور قومی زبان کے فروغ میں فعال کردار ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر رشید نے اس موقع پر کہا کہ فروغ قومی زبان کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ادارہ جاتی منصوبے ہمیشہ ٹیم ورک کے مرہون منت ہوتے ہیں۔جامعہ گجرات کا دارالترجمہ تراجم کے مراحل کو جدید تکنیکی سہولیات سے فیض یاب کر رہا ہے۔ اس کے مرکز السنہ و علوم ترجمہ کی تکنیک عالمی معیار سے ہم آہنگ ہے۔ علوم ترجمہ کے ممتاز ماہر ڈاکٹر غلام علی کا کہنا تھا کہ قومی زبان اردو کے فروغ کے لیے اخلاص اور نیک نیتی سے پائیدار لائحہ عمل تیار کرنا ضروری ہے۔ قومی زبان کا فروغ و نفاذ ایک تہذیبی و ثقافتی مسئلہ ہے۔ قومی زبان در حقیقت قوم کے اجتماعی شعور کانام ہے۔ اردو پاکستان کے قومی تشخص کا اظہار یہ بن بن چکی ہے۔ قومی زبان اردو کے نفاذ کے لیے جامعات کی کارکردگی و کار گذاری کو معتبر حیثیت حاصل ہے۔جامعہ گجرات میں ہمیں اپنے وثرنری قائد پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم کی راہنمائی مدد اور سب سے بڑھ کر ”تھپکی“ حاصل ہے جس کی بدولت ہم نے یہاں حکومت پنجاب کے شعبہ قانون، پنجاب پبلک سروس کمیشن اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین کے ترجمے کے کام کا آغاز کر رکھا ہے۔ ہماری جامعات کو اس قومی فریضے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ مہمان خصوصی جناب افتخار عارف نے اس موقع پر فکر انگیز گفتگو کی اور کہا کہ قومی زبان اردو پاکستانی تشخص کی زندہ علامت ہے۔ قومی تشخص کے اظہار و شناخت میں زبان و کلام کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ قومی زبان اردو کا فروغ و نقاد یکجہتی پاکستان کی نوید ہے۔ اردو کا فروغ پاکستان کے مختلف خطوں کے باسیوں میں باہمی افہام و تفہیم کا روشن کردار ادا کرتے ہوئے ملکی سالمیت و بقا کے تحفظ کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ فروغ قومی زبان کے لیے سماجی و سرکاری سطح پر اجتماعی کاوشیں درکار ہیں۔ افتخار عارف کا مزید کہنا تھا کہ قیام پاکستان سے طویل عرصہ قبل ہی اردو کو مسلمانان ہند کی ملی زبان کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ مگر قیام پاکستان کے بعد کچھ مخالفین نے اردو کے بطور قومی زبان نفاذ کو لسانی تنازعہ بنا کر کھڑا کر دیا۔ بانیانِ پاکستان بھی اردو کا بطور قومی زبان نفاذ چاہتے تھے۔لسانی استعمار نے ہمارے اندر ایک مستقبل غلامانہ کیفیت کو جنم دیتے ہوئے اردو کو اس کے جائز حق سے محروم کر دیا۔ اردوکے ساتھ ساتھ مقامی و علاقائی زبانوں کو بھی ان کا جائز حق ملنا چاہیے۔ قومی زبان اردو کے نفاذ و فروغ میں علوم جدید ہ عالمی ادب کے معیاری تراجم بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں۔ قومی زبان اردو کا حقیقی معنوں میں نفاذ و فروغ نسل نو کو بہتر اظہار کا موقع فراہم کرنے کا ضامن ہو گا۔ اس موقع پر شرکاء نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پرنسپل گورنمنٹ زمیندار پوسٹ گریجوایٹ کالج پروفیسر عبید اللہ نے کہا کہ کسی بھی خود مختار ملک کے قیام کا بنیادی تقاضا اصل صورت میں قومی زبان کا نفاذ ہے قومی زبان کا دفاع اصلاً قوم کا نظریاتی تحفظ ہے اس لیے قومی زبان میں مکالمہ فروغ قومی زبان میں قومی زبان کا نفاذ ہے۔
انگریزی ادب کے ممتاز استاد پروفیسر محمد اقبال بٹ کا کہنا تھا کہ قومی زبان کے احیاء کا اہم ترین ذریعہ ترجمہ ہے۔ ترجمے کے ذریعے زبان مختلف جہان میں بالحاظ گہرائی و گیرائی آگے بڑھتی ہے۔ ڈاکٹر کنول زہرا نے کہا کہ یہ ترجمے کی ہی افادیت ہے کہ عالمی سطح پر رابطوں کی بحالی اور مضبوطی کے لیے ترقی یافتہ اقوام میں بڑے پیمانے پر ٹرانسلیشن پراجیکٹ نہایت تیزی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ شعبہ ابلاغیات کے ڈاکٹر ارشد علی کا کہنا تھا کہ ہمیں جدید علوم و فنون کو قومی زبان اردو میں منتقل کرنے کے سلسلہ میں قابلیت و صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج وہی زبان کا میاب ہو سکتی ہے جس کا علمی و تحقیقی اثاثہ بیش بہا ہو گا۔ اس موقع پر طلبہ و طالبات و اساتذہ کے حکمت افروز سوالوں نے سیمینار کی رونق کو دوبالا کیا۔
بلاشبہ قومی زبان قوم کے تشخص و امتیاز کی ہمہ پہلو بنیادی قومی علامات میں ایک علامت ہے۔تاریخ میں ترقی اور عزت اسی قوم کو ملی ہے جس نے اپنی قومی زبان کو اپنایا۔ گویا قومی زبان قوم کی روح کو زندہ رکھنے کی بنیادی اکائی ہے۔ قومی زبان کے نفاذ اور فروغ سے قوم کی خدا داد صلاحیتیں سو فیصد کام کرتی ہیں بلکہ خوابیدہ قوتیں بھی بیدار ہو جاتی ہیں جو مجموعی طور پر تیز رفتارترقی کا سبب بنتی ہیں۔ اردو کے فروغ کے لیے جامعات کو اردو زبان کی تدریس میں جدت آشنائی کو اپنانا ہو گا اور نسل نو کو لسانی احساس کمتری سے نکالنے کے لیے مکالمے کو رواج دینا ہو گا۔ آئین پاکستان اردو کے نفاذ کے حوالہ سے ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ اعلیٰ عدالت کا فیصلہ آ جانے کے بعد اردو کے قومی زبان کے طور پرنفاذ میں کوئی رکاوٹ نہیں ماسوائے ہماری نیت کے۔ اس کے فروغ کے لیے یونیورسٹیوں، ان کے شعبہ جات اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو کو علمی زبان بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کریں۔مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ میری لسانی عصبیت، دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس طرح اقبال زبان کو انسان کے اعصابی نظام کا قوی فعل قرار دیتا ہے جبکہ ممتاز ماہر لسانیات ایڈورڈ ساچر اور بنجمن لی روف نے کہا تھا کہ زبان لوگوں کے سوچنے کا انداز بتاتی ہے۔ہمیں اپنے سوچنے کا انداز بدلنا ہو گا اورقومی زبان کے فروغ کے ذریعے قومی تخلیقی فکر کو اپنانا ہو گا تاکہ قومی زبان ہمارے اجتماعی شعور کی عکاس بنکر قومی ترقی کاذریعہ بن سکے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں