جمعرات، 20 نومبر، 2014

فیض احمد فیض : جس کی آج بھی ضرورت ہے

دانشور صوفی شاعر،جس کی آج بھی ضرورت ہے


مچل رہا ہے رگِ زندگی میں خون بہار 
اُلجھ رہے ہیں پرانے غموں سے روح کے تار 
چلو کہ چل کے چراغاں کریں دیارِ حبیب 
ہیں انتظار میں اگلی محبتوں کے مزار 
محبتیں جو فنا ہو گئی ہیں میرے ندیم 

دانش و افکار کسی پراسرار دنیا سے نازل نہیں ہوتے جس کو مرزا غالب نے ”عالم غیب“ کا نام دیا ہے بلکہ فکر و دانش زندگی کے بدلتے ہوئے سانچوں کے ساتھ ساتھ دھیرے دھیرے ارتقاء پذیر ہوتے ہیں۔ کسی قوم یا ملک کے لیے دانشور کا ہونا لازمی ہے کہ دانشور قلمکار ہی وہ چراغ ہوتا ہے جس کی روشنی میں قوم اور راہنما عملی قدم اُٹھاتے ہیں۔ سچا لکھاری یا ادیب اپنے سماج کے اجتماعی شعورکاآئینہ دار ہوتا ہے جو معاشرہ کو اپنے احساسات سے باخبر بھی کرتا ہے اور اسے بدلتا بھی ہے۔ 
سگمنڈ فرائیڈ نے کہا تھا کہ"Everywhere I go, a poet has been there before me"یعنی میں جہاں بھی جاتا ہوں، جو سائنسی تحقیق کرتا ہوں، کوئی شاعر وہی بات پہلے ہی بیان کر چکا ہوتا ہے۔
فیض احمد فیضؔ ہماری ادبی و شعری اور فکری وتہذیبی حیات کا سب سے روشن، اہم اور زندہ حوالہ ہیں۔ شاعر، نقاد، صحافی، استاد، فوجی افسر، ٹریڈ یونین رہ نما سب انکی ہمہ گیر شخصیت کی مختلف جہتیں اور نمایاں پہلو ہیں جو ہماری قلمی، تہذیبی، ثقافتی اور ادبی زندگی میں منفرد، قابل فخر اور مثالی شناخت رکھتے ہیں۔وہ عالمی سطح پر انسانی مساوات ومحبت اور انسان دوستی کے آرزو مند راہ نما، امن و آزادی کے ترجمان اور مجبوروں، محروموں اور مظلوموں کی حمایت کرنے والے شاعر کی حیثیت میں روشن علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی نظر مشرقی و مغربی ادب پر بہت گہری تھی چنانچہ مشرقی و مغربی ادب کی اعلیٰ اقدار، احساس و یقین کے ساتھ ان کے ہاں جلوہ فگن ہوتی رہیں۔ اگرچہ اشتراکیت کے فلسفے سے ان کی وابستگی گہری تھی مگر فیض ؔنے کورانہ تقلید کی بجائے اپنے تواناء شعور، پختہ ادبی ذوق اور منفرد شعری و جدان کے ہمراہ اسے اپنی فکر کا جزو بنایا اور شاعری کی مثبت روایت اور ثقافتی ورثے کو قائم رکھا۔ ڈاکٹر اعجاز حسین کو کہنا پڑا کہ ”فن کاری اورندرتِ خیال کا اتنا حسین امتزاج دور جدید میں کسی شاعر کے یہاں نہیں دکھائی دیتا۔ سیدھے سادے الفاظ کو بغیر تشبہیہ و استعارے کے شعر کی صورت میں پیش کرنا اور تاثیر و معنویت پیدا کرنا فیض کا خاص کارنامہ ہے “۔
فیض کی شاعری زرد پتوں کے اس بن کے نام ہے جو درد کی انجمن ہے جہاں کلرک ہیں، پوسٹ مین ہیں، تانگے والے ہیں، کارخانوں کے بھوکے مزدور ہیں، اناج اگانے والے کسان ہیں، دکھی مائیں ہیں، طالبعلم ہیں۔ فیض کی فکر کا حقیقی محور سماجی و معاشی استحصال ہے۔ اس لیے وہ سرمایہ دارانہ نظام کو تمام برائیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ شعوری طور پر ترقی پسند ہیں لیکن دوسرے ترقی پسندوں کے برعکس وہ افکار وجذبات کی رو میں نہیں بہتے بلکہ ان کے ہاں غصہ، گھن گرج اور ہما ہمی کے آثار کہیں نمایاں نہیں ہوتے بلکہ وہ انتہا پسندی سے گریز کرکے اپنی بات دھیمے لہجے میں بڑے اعتدال کے ساتھ کرنے کے عادی ہیں۔ وہ تلخ و ترش واقعات کی شدت کو شعر کے لطیف پردوں میں اس طرح اُجاگر کرتے ہیں کہ شعریت اور سیاست دونوں ایک دوسرے میں بالکل شیرو شکر ہو گئے 
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا 
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا 

فیض صاحب کی ترقی پسندی کھرے معاشرتی تجزیے کی حامل ہے۔ سٹیفن سپینڈر کا کہنا ہے کہ ”ادیبوں کو ان کے سیاسی نظریات سے نہیں سماجی تجزیے کی سچائی سے جاننا ضروری ہے“۔ 
انہیں کے فیض سے بازار عقل روشن ہے 
جو گاہ گاہ جنون اختیار کرتے ہیں 
فیض احمد فیضؔ بے پایاں خلوص اور محبت کے آدمی ہیں، بغض و عناد اور کینے سے نا آشنا، پھر بھی عمر بھر جتنی گالیاں فیض صاحب کو دی گئیں شاید ہی کسی اورکو دی گئی ہوں۔ اس کے باوجود فیض صاحب نے جس اعلیٰ ظرفی اور صبر کا مظاہرہ کیا اسی بناء پر کئی لوگ انہیں صوفی سلسلے میں شامل کرتے ہیں۔ مرحوم اشفاق احمد نے فیض کو ملامتی صوفی قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ”یہ ادب، یہ صبر، ایسا دھیما پن، اس قدر در گذرکم سخنی اور احتجاج سے گریز، یہ صوفیوں کے کام ہیں۔ ان سب کو فیض نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے،اوپر سے ملامتی رنگ یہ اختیار کیا ہے کہ اشتراکیت کا گھنٹہ بجاتے پھرتے ہیں کہ کوئی قریب نہ آئے اور محبوب کا راز نہ کھل جائے۔ واہ بابا ٹل واہ! کیا کہنے، چوری کر، تے بھن گھر رب دا،ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ۔ میرا تعلق چونکہ خانوادے سے ہے اور میں مسلمان بادشاہوں کا پرستار ہوں اور ملوکیت کو ہی اسلام سمجھتا ہوں۔ اس لیے میری اور بابا ٹل کی نہیں بن سکتی۔ لیکن کبھی اکیلے بیٹھے بیٹھے خاموش اور چپ چاپ میں سوچا کرتا ہوں کہ اگر فیض صاحب حضور سرور کائنات ؐ کے زمانے میں ہوتے تو ان کے چہیتے غلاموں میں سے ہوتے۔ جب بھی کسی بد زبان، تند خو، بد اندیش یہودی دوکاندار کی دراز دستی کی خبر پہنچتی تو حضور ؐ کبھی کبھی ضرور فرماتے: آج فیض کو بھیجو، یہ بھی دھیما ہے، صابر ہے، بردبار ہے، احتجا ج نہیں کرتا، پتھر بھی کھا لیتا ہے۔ ہمارے مسلک پر عمل کرتا ہے“۔
اشفاق احمد کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہے یقینافیض صاحب تصوف کے پختہ کار داعی بھی تھے۔ اپنے عہد کے بہت سے صوفیاء سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ وہ لاہور کے صوفی بابا ملنگ صاحب کے چاہنے والوں میں سے تھے۔ واصف علی واصف، اشفاق احمد اور سید فخر الدین بلے سے قریبی تعلق رہا۔ ایک دفعہ ان سے استفسار کیا گیا کہ صوفیوں کا سوشلسٹ کامریڈوں سے کیسے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ تو اُنہوں نے کہا کہ صوفی ہی حقیقی کامریڈ ہوتے ہیں۔ پھرفیض صاحب نے ہی اناء الحق کو سیاسی انداز میں اپنانے کا اسلوب اختیار کیا۔ ان کی شاعری میں مادھو لعل حسین اور بلھے شاہ کی انکھ، میاں میر کی انسان دوستی، شاہ عبدالطیف بھٹائی کا سُر سنگیت، وارث شاہ کی رومانویت اور خواجہ فرید کی شیرینی جا بجا نظر آتی ہے۔ اپنے ہم عصر حاسدین کی ہزار مخالفتوں اور مخاصتوں کے باوجود لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ فیض نے صرف غم جاناں اور غم روزگار کا فرق ہی نہیں سمجھایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ غم روزگار کو غم جاناں بنانے کے لیے کتنی ریاضت کرنا پڑتی ہے بلکہ فیض کی ساری زندگی ہی انسانوں اور انسانیت کی اعلیٰ قدروں پر صرف ہوئی۔
آج پاکستانی سماج میں جو بگاڑ ہے اس میں امن اور انسان دوستی کی اشد ضرورت ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو فیض صاحب اپنی وفات کے بعد آج بھی سیاسی و سماجی حالات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ کسی بھی بڑے ادیب و شاعر کا کمال ہی یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے بعد آنے والے زمانوں کے احساسات اور اپنے سماج کی خواہشات، خوابوں، امنگوں اور آرزوں سے آشناہی نہیں ہوتا بلکہ اپنے قلم کے ذریعے انہیں صفحہئ قرطاس پر منتقل کرتا ہے اور آنے والے زمانوں میں بھی releventہوتا ہے۔ فیض نے فلسفیانہ سطح پر جو خواب دیکھے پاکستان کا عام آدمی عام رنگ میں آج بھی وہی خواب دیکھ رہا ہے۔ ان کے بعد یہاں جبرو استحصال میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اس نے اس سماج اور آج کے مسائل نے فیض احمد فیض ؔکو اور زیادہ اہم بنا دیا ہے۔ محترمہ افضل توصیف سچ کہتی ہیں کہ ”فیض اگر آج اپنی دنیا کو پلٹ کر دیکھ سکتے تو پھر یہاں آنے کے لیے بے قرار ہو جاتے، سارے کام ادھورے پڑے ہیں“۔عدم برداشت، سیاسی و سماجی استحصال، طبقاتی کشمکش غرض کچھ نہیں بدلا بلکہ اوربڑھ گیا ہے چنانچہ آج ہمارے حالات فکر ِفیضؔ کی ترسیل ِنو کے متقاضی ہیں اور اہم اسی کے ابلاغ اور احیاء کے خواہشمند ہیں۔ البیلے اور محبوب شاعر فیض احمد فیض کے ذکر جمیل سے ان کے چاہنے والوں کا جی نہیں بھرتا، حالانکہ فیض ٹھہرا ہو اپانی نہیں ہے جسے دیکھ کر خوش ہو ا جائے بلکہ فکر فیض کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ 
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم 
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں