ہفتہ، 8 نومبر، 2014

قوم کو جس سے شفا ہو، وہ دوا کون سی ہے


نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو 
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور 

عالم اسلام کے عصری و فکری منظر نامے پر جن مفکرین کے نام جگمگا رہے ہیں ان میں علامہ محمد اقبال کو مقام ناموری اور مسند امتیاز حاصل ہے۔ وہ ایک ایسی درخشاں و دانشمند فلسفی شخصیت ہیں جنہوں نے سماجِ انسانی میں اسلام کی بازور تہذیب و تمدن کا ہدیہ پیش کیا۔لطیف خیالات، فکری وسعت اور فہم و فراست کے سبب انہیں عظیم مفکرین اور راہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاعرانہ حسن تخیل اور فلسفیانہ ژرف نگاہی کے حسین امتزاج کا نام اقبال ہے۔ ان کی نظم و نثر کا ہر پہلوان کے جلوہئ ذہانت اور حکیمانہ بصیرت کا مظہر ہے۔اقبال سیاسی بیداری میں بھی بلندیوں پر تھے اور فلسفیانہ علمی تفکر میں بھی اس مقام ارجمند پر فائز ہیں کہ آج مغرب میں انہیں معاصر مفکر و فلسفی کہا جاتا ہے اور برگساں کا ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان دانشور انہیں اسلامی معاشرے کا ایک مصلح کہتے اورسمجھتے ہیں۔ ایسا مصلح جو نہ صرف مسلم معاشرے بلکہ سارے انسانی سماج اور خود اس معاشرے کی حالت پر جس میں وہ خود زندگی بسر کر رہا ہو، غور فکر کرتا اور اس کی نجات و بیداری اور آزادی کے لیے کوشا ں ہو۔ علامہ اقبال وہ نابغہ روزگار تھے جنکی مسیحا نفسی نے برصغیر کے مسلمانوں میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا کر ان کی علمی خود داری کو بیدا ر کیا۔ 
اقبال تاریخ اسلام کے ایک ایسے موڑ پر اُبھر کر سامنے آئے جب مسلمان غلامی و انحطاط کے بعد پھر آزاد قوم بن کر اُبھرنے والے تھے اورانہیں تعمیر مستقبل کی ذمہ داریوں کے سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا تھا۔ان چیلنجوں کی کوکھ سے کئی سوالات نے جنم لیا۔فکر اقبال درحقیقت انہی سوالوں کے جواب کی سعی کا نام ہے۔ ان کی ذات میں برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ کی تاریخِ آزادی کے وہ سارے تقاضے مرتکز ہو گئے تھے جو شاہ ولی اللہ ؒکے دور سے بیسویں صدی کے اوائل تک کے زمانے پر محیط تھے۔ 1933ء میں ادارہئ معارف اسلامیہ کے پہلے اجلاس منعقدہ ہیلی ہال پنجاب یونیورسٹی میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ”وقت کا تقاضا ہے کہ اب ہم فقہی جزئیات کی چھان بین کی بجائے ان اہم شعبہئ ہائے علم کی طرف متوجہ ہوں جو ہنوز محتاج تحقیق ہیں۔ ریاضیات، عمرانیات، طب اور طبیعات میں مسلمانوں کے شاندار کارنامے اب تک دنیا کے مختلف کتب خانوں میں مستور و پنہاں ہیں جن کے احیاء کی سخت ضرورت ہے۔“اقبال کہتے ہیں 

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ہے نئے صبح و شام پیدا کر
پھر مزید راہنمائی کرتے ہیں کہ:

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے 

آج پاکستان کے مذہبی و معاشرتی اور سیاسی و اقتصادی حالات ہر درد مندمحب وطن کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ پاکستان کی ریاست، نظام حکومت اور معاشرت طرح طرح کے سوالوں کی زد میں ہے۔ ہم تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑے ہیں، ایسے زمانوں میں حقائق دھندلا جاتے ہیں، عوام اور راہنماؤں کے ہاتھ سے توازن کی ڈور چھوٹ جاتی ہے۔ ارتقاء کا چلن ایسا کٹھور ہے کہ جو اقوام اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ پائیں انہیں دوسری غلطی کا موقع نہیں ملتا، لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا وار ٹھہرتی ہے۔ لہٰذا احوال حیات میں انقلاب بپا کرنے کیلئے ہمیں میدان کار ِ زار میں اترنا ہو گا۔ ایسے میں فکری راہنمائی کے لیے ہمیں ایکبار پھر فکرِ اقبال کی روشنی درکا ر ہے کیونکہ جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی سیاسی بیداری کا سب سے منور باب اقبال ہی ہے اور ان کی شاعری اور فکرکی چھاپ ہمارے ادب،ہماری ثقافت اور ہماری سیاست پر بہت گہری ہے۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ عہد جدید کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اقبالیات بھی نئی انگڑائی لے رہی ہے۔ محمد سہیل عمر کے الفاظ میں ”اب اقبالیات بھی مستعار اقدار اور مانگے تانگے کے مسائل سامنے رکھ کر فکر اقبال میں سے ان کا معذرت خواہا نہ جواب ڈھونڈنے یا نیم فخریہ تقابل کرنے کے انفعالی رویے سے باہر نکلتی نظر آتی ہے۔ دوسرے شعبہ ہائے علوم کی طرح اس میں بھی اپنی راہ خود نکالنے اور اپنے مسائل خود متعین کرنے کی آرزو جنم لے رہی ہے اور ماضی میں اس کے فکری رویوں پر نظر کرتے ہوئے یہ تبدیلی خوش آئند اور مستقبل میں روشن امکانات کی اُمید کہی جا سکتی ہے“۔ روحِ عصر سے ہم آہنگ ہوتی ہوئی یہ فکر اقبال ہی ہماری اُمید ہے۔ علامہ نے ہی ہماری سوچ، ہمارے تہذیبی رویوں اور ہماری دینی تعبیرات اور سماجی و سیاسی فکر ی تناظر کو ایک نئی تعبیر فراہم کی ہے، یہی وجہ ہے ان کی معنویت ان کی زندگی میں بھی تھی، آج بھی ہے اورکل بھی رہے گی۔ علامہ اقبال ایک بصیر دانشور تھے، بصیرت تاریخ ساز ہوتی ہے۔ ایسے دانشور کے طرزِ فکر میں ایسے راز و نکات پوشیدہ ہوتے ہیں جوقوم کی راہنمائی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قوم کسی بصیر دانشور کی فکری بنیاد سے آگاہ ہو اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل بنانے میں کامیاب ہو جائے تو وقت کا دھارا بدل جاتا ہے۔
مفکر پاکستان نے ہماری سوچ، ہمارے تہذیبی رویوں اور ہماری دینی تعبیرات، سیاسی اور سماجی فکر ی تناظر کوایک نئی تعبیر فراہم کی اور برادران ملت کو اس طریقہ کار سے آگاہ کیا جس کے ذریعے ان کے اسلاف قرون اولیٰ میں اپنے مسائل کا حل ڈھونڈا کرتے تھے۔ اجتہادی تجربات کو سامنے رکھ کر ہم ان مسائل کا حل دریافت کر سکتے ہیں جو عہدِ حاضر نے ہمارے سامنے رکھ دیئے ہیں۔ علامہ ا قبال نے تحریک پاکستان کو فکری و جذباتی بنیادیں فراہم کی تھیں، حصولِ پاکستان کے بعد ہمیں تعمیر پاکستان کے لیے فکر اقبال کو نئے سرے سے تلاش کرنے کی ضرورت تھی مگر ہم ایسا نہ کر سکے، اسی لیے ہم حقیقی پاکستان کی منزل مراد پر پہنچنے کی بجائے بھٹکتے رہے ہیں۔ آج حالات نئی کروٹ لے رہے ہیں، دوراہے پر کھڑی ریاست اور قوم کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنے مسائل کی تفہیم کے لیے فکر اقبال سے استفادہ کرے۔
فکری کشمکش اور ذہنی انتشار کے اس دور میں بحیثیت قوم ہم جن مسائل کاشکار ہیں ان میں ریاست،حکومت اور جمہوریت کے حوالے سے عصری مسائل کی تعبیر نو سب سے نمایاں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ضروری تھا کہ دانشورانِ قوم علامہ اقبال کے افکار کی ترجیحات کو از سر نو ترتیب دیتے اور ریاستی اُمور، حکومتی معا ملات اور معاشرتی اداروں کے حوالے سے مصورِپاکستان کے افکار کو اوّلین ترجیح دیتے اور انکی بنیاد پر اجتہاد کرتے، لیکن یہاں تو ساری قوم تحریک پاکستان کے متعلق پیام اقبال کے سحر میں مسحور ہو کر رہ گئی اور تعمیر پاکستان کے متعلق پیغام اقبال پر توجہ نہ دے سکی۔ مفکر ِپاکستان ہمہ جہت شخصیت اور کثیر الجہات نظریات کے مالک تھے، اُنہوں نے علم و فضل سے فکر اسلامی کے ارتقاء کو جمود سے بچانے کی شعوری سعی کی اور مسلمانوں کے معاشرتی و سیا سی نظام کو روح عصر کے تقاضوں کا سامنا کرنے کے قابل بنانے اور تضادات سے بچانے کی فکری جدوجہد کی۔ علامہ تخیل پسند نہیں بلکہ حقیقت پسند تھے اور عقلیت پسندی کے حامی بھی، بلندپایہئ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فلسفیانہ نظام رکھنے والے مفکر بھی تھے۔اسی لیے انہیں اس امر کا شدت سے احساس تھا کہ معاشرے کو متحرک رکھنے کے لیے ہر دم تازہ افکار و خیالات کی ضرورت رہتی ہے۔ آج بھی ریاست پاکستان کی بقا اور ترقی کا انحصار فکرِ اقبال کی جرأتمندانہ، دیانتدارانہ اور مجتہدانہ تعبیرپر منحصر ہے۔ 

قوم کو جس سے شفا ہو، وہ دوا کون سی ہے 
یہ چمن جس سے ہرا ہو، وہ صبا کون سی ہے 
قافلہ جس سے رواں ہو سوئے منزل اپنا 
ناقہ وہ کیا ہے، وہ آواز درا کون سی ہے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں