جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

فرزند اقبال جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال(مرحوم) کے ساتھ یادگار نشست

تعارف 

(بصد شکریہ: یہ انٹرویو ماہنامہ گجرات ٹائمز میں شائع ہوچکا ہے)
فرزند اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال ایک ہمہ پہلو شخصیت ہیں ان کی کئی علمی و فکری کاوشیں بطور قانون دان ، دانشور ، ادیب اور ماہر اقبالیات منظر عام پر آچکی ہیں ۔ موصوف کی ذات کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ نہ صرف جدوجہدپاکستان اور حصول پاکستان کے مقاصد میں ناکامی کی تاریخ کے ناظر و شاہد ہیں بلکہ ایسے محب وطن ہیں جو اپنے سماج اور ریاست کو جدوجہد پاکستان سے ہم آہنگ دیکھنے کے آرزو مند ہیں وہ قائداعظم کے پاکستان اور فکر اقبال کے عملی اطلاق کے خواہاں ہیں 
جاوید اقبال 5 اکتوبر 1924ءکو شب 9 بج کر 30 منٹ پر سیالکوٹ شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے وقت ان کے دادا شیخ نور محمد زندہ تھے انہوں نے قمر الاسلام نام رکھا مگر ان کے والد اقبال کو یہ نام پسند نہ آیا انہوں نے جاوید اقبال رکھا ۔ سیکرڈہارٹ مشنری سکول میں داخل کرا دیا گیا 1940ءمیں میٹرک کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا 1942ءمیں ایف اے کر کے جغرافیہ میں بی اے (آنرز)کیا ۔ 1945ءمیں ایم اے انگریزی میں داخل ہوئے مگر پہلی دفعہ امتحان میں فیل ہوئے پھر ایم اے فلسفہ میں داخلہ لے لیا اور دوسری بار ایم اے انگریزی کا امتحان دے کر پاس ہو گئے۔1948 ءمیں ایم اے فلسفہ میں یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ ستمبر 1947ءمیں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور اِنز آف کورٹ سے بیرسٹری کی ڈگری بھی حاصل کی ۔1956ءمیں وطن واپس آ گئے اور وکالت شروع کر دی نیز پنجاب یونیورسٹی لاءکالج میں جز وقتی پڑھانا بھی شروع کیا۔ جون 1964ءمیں ان کی شادی ناصرہ سے ہوئی ۔ 1970ءکے انتخابات میں کونسل لیگ کے ٹکٹ پر بھٹو کے خلاف الیکشن لڑا مگر ہار گئے۔ جولائی 1971ءمیں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنا دیئے گئے۔ 4 اکتوبر 1986ءمیں باسٹھ برس کی عمر میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب سے ریٹائرمنٹ کے روز ہی سے انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا پھر 3 سال بعد چار اکتوبر 1989ءکو سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے ۔ نوے کی دہائی میں مسلم لیگ (نواز )کی جانب سے سینٹ کے ممبر چُنے گئے۔ کئی عشروں سے فکر و تحقیق اور تقریر و تحریر میں مصروف ہیں ۔ محترم جاوید اقبال نہ صرف ممتاز اقبال شناس ہیں بلکہ انہوں نے فکر اقبال کی مجتہدانہ روایت کو جس جرات و بہادری سے آگے بڑھایا ہے وہ قابل تقلید و قابل تحسین ہے گذشتہ دنوں انکی رہائش گاہ پر ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے ۔ 

شیخ عبدالرشید: فکر اقبال آج کے انسان کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟ 
جاوید اقبال: اقبال خطبات کے دیباچہ میں تحریر کرتے ہیں کہ قرآن مجید ”فکر“ کے بجائے ”عمل“ کی تلقین کرتا ہے ۔ مگر عام لوگوں کی فطرت میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ باطنی واردات ، جن پر ان کے ایمان کی بنیاد رکھی گئی ہے ، اسی طرح اپنے تجربے میں لے آئیں جیسے زندگی کے دیگر احوال یا اپنے اردگرد کے ماحول کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ اقبال کی نظر میں عہد حاضر کا انسان جو اپنے حواس پر انحصار کرنے کے سبب محسوس کی دنیا میں رہتا ہے اور اگرچہ اس طریق زندگی کی اسلام نے اپنے تمدن کے ابتدائی ادوار میں حمایت کی، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ انسان باطنی واردات کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے لگا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں کہ مثبت تصوف نے ماضی میں بے شک مسلمانوں میں مذہبی یا روحدانی جذبہ کے فروغ کے سلسلہ میں نمایاں خدمات انجام دیں لیکن اب جو حضرات تصوف کی نمائندگی کر رہے ہیں ، وہ عہد حاضر کے ذہن انسانی سے قطعی نا آشنا ہیں، بلکہ وہ انہی پرانے طریقوں سے کام لے رہے ہیںجو کسی صورت میں بھی آج کے اذہان کے لیے قابل قبول نہیں ۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے :” تمہیں پیدا کیا جانا اور (بروز قیامت) دوبارہ اٹھایا جانا، اگر ایک نفس واحد کی تخلیق اور بعثت کی مانند ہے “۔ یہ آیت جس حیاتی وحدت کی طرف اشارہ کر ہی ہے ، اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایسے منہاج کا تقاضا کرے گی جو ممکن ہے عضویاتی اعتبار سے جسمانی ریاضت کا طالب نہ ہو ، مگر نفسیاتی طور پر اس ذہن پر ضرور اثر انداز ہو گا جسے محسوس کی دنیا میں رہنے کی عادت پڑ گئی ہے ۔ جب تک ایسا ممکن نہیں ہوتا‘ کیاہم مطالبہ کر سکتے ہیں کہ مذہب کے ذریعہ جو علم ہمیں حاصل ہوتا ہے ‘اُسے سائنس کی زبان میں سمجھنے کی کوشش کریں ؟ اسی مقصد کے پیش نظریہ خطبات مرتب کیے گئے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں کہ انہوں نے علم انسانی کے مختلف شعبوں میں ارتقاءکو ملحوظ رکھتے ہوئے ‘ اسلام کی فکری روایات کے مطابق اسلام کی مذہبی فکر کی تشکیل نو کرنے کی ایک حد تک کوشش کی ہے ۔ ویسے بھی یہ وقت اس قسم کے کام کرنے کے لیے نہایت موزوں ہے ۔ قدیم طبعیات نے اپنی بنیادوں پر تنقید کرنا شروع کر دی ہے ۔ مادے کا پرانا تصور ختم ہو رہا ہے ۔ اس لیے وہ دن دور نہیں جب مذہب اور سائنس میں ایسی ہم آہنگی پیدا ہو جائے جو فی الحال ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے ۔ مگر فلسفیانہ غور و فکر کے معاملے میں قطعیت کوئی شے نہیں۔ جوں جوں علم وسیع ہوتا جائے گا ، فکر کے نئے رستے کھلتے چلے جائیں گے ۔ اسی بنا پر جو تصورات ان خطبات میں پیش کیے گئے ہیں ‘ ممکن ہے ان سے بہتر سامنے آجائیں ۔ پس بقول اقبال ہمارا فرض ہے کہ فکر انسانی کے ارتقاءپر کڑی نگاہ رکھیں اور مکمل آزادی کے ساتھ اس پر تنقید کرتے چلے جائیں۔ 



شیخ عبدالرشید: اقبال کے تصور اجتہاد کا بڑا چرچا ہے ۔ خطبات اقبال کی روشنی میں آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں ....؟ 
جاوید اقبال: 1924ءمیں تحریر کردہ ”اجتہاد“ کے مقالے پر جو بعد ازاں زیادہ بہتر شکل میں خطبات میں شامل ہے ،اقبال کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ اقبال اپنے خط بنام مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی میں تحریر کرتے ہیں کہ سر سید کی تحریک کے بعد پیشہ ور مولویوں کا اثر و رسوخ کم ہو گیا تھا ۔ مگر خلافت کمیٹی نے ان سے سیاسی نوعیت کے فتوے حاصل کرنے کی غرض سے انہیں ہندی مسلمانوں پر پھر مسلط کر دیا ۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی جس کا اب تک کسی کو احساس نہیں ہوا ۔ فرماتے ہیں ، مجھے حال ہی میں اس کا تجربہ ہوا ہے ۔ کچھ مدت ہوئی میں نے انگریزی میں اجتہاد کے موضوع پر ایک مقالہ لکھا جو ایک مجمع میں پڑھا گیا۔ مگر بعض لوگوں نے مجھے کافر قرار دے دیا ۔ اسی طرح اقبال نے مولانا عبدالماجد دریا بادی کو بھی یہ مقالہ ارسال کیا، لیکن انہوں نے بھی غالباً سرسری نگاہ سے دیکھا اور ناپسند فرمایا ، جس سے اقبال کو بڑی مایوسی ہوئی ۔ بقول مولانا ابو الحسن علی ندوی، سید سلیمان ندوی نے تو اس تصنیف کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اقبال اگر یہ کتاب نہ لکھتے تو بہتر ہوتا ۔ بقول سید نذیر نیازی کسی ہندی عالم نے قاہرہ کے علماءحضرات سے درخواست کی تھی کہ خطبات میں پیش کردہ اقبال کے نظریات کو اسی طرح مردود قرار دیا جائے جیسے ان سے پیشتر سر سید کے خیالات کو کفریات قرار دیاگیا تھا ۔ اگرچہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے شعر اقبال پر ایک عربی کتاب تحریر کر رکھی ہے جس کا اردو میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے ، لیکن خطبات اقبال کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ وہ اقبال کو نہ تو معصوم سمجھتے ہیں نہ متقی و پرہیز گار، نہ رہبر دین ، نہ امام مجتہد، نہ ان کی فکری کاوشوں کی تعریف میں، ان کے مداحین کی طرح، حد سے گزر جانا انہیں قبول ہے ۔ ان کی رائے میں حکم سنائی ، عطار اور عارف رومی احترام و اتباع شریعت، ہم آہنگی فکر و عمل اور یگانگت قول و فعل میں اقبال سے بہت آگے تھے۔ اقبال کے ہاں اسلام او ر فکر اسلامی کی بعض ایسی تعبیریں ملتی ہیں جن کے ساتھ اتفاق کرسکنا بڑا مشکل ہے ۔ اقبال کے بعض نوجوان حامیوں کی طرح ، وہ اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ اقبال سے بہتر اسلام کو کو کوئی نہیں سمجھ سکا یا یہ کہ اسلامی علوم اور تاریخی حقائق کے متعلق جو معلومات اقبال کو حاصل تھیں ، وہ اور کسی کو حاصل نہیں، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ تمام عمر اقبال اپنی ہمعصر عالم شخصیتوں سے فیض یاب ہوتے رہے ۔ ان کی نادر شخصیت میں بعض ایسی خامیاں تھیں جن کی تطبیق ان کے علم کی وسعت اور پیغام کی عظمت کے ساتھ نہیں ہوتی ۔ بد قسمتی سے انہیں اپنی ان خامیوں سے نجات حاصل کر سکنے کا موقع نہ ملا ۔ ان کے خطبات مدراس میں کئی ایسے خیالات و نظریات پیش کیے گئے ہیں جو اہل سنت و الجماعت کے کئی اعتقادات سے متصادم ہیں ۔ 
ان خطبات کو تحریر کیے اب تقریباً تراسی برس گزر چکے ہیں ۔ مدراس، حیدر آباد دکن اور علی گڑھ میں اقبال کے مخاطب مسلم و ہندو طلبہ، اساتذہ اور دیگر اہل علم تھے ۔ ساتویں خطبہ کے سامعین البتہ زیادہ تر انگریز اراکین ارسطاطیلین سوسائٹی تھے جن کی دلچسپی مذہب کے بجائے فلسفہ میں تھی ۔ اقبال کے ہمعصروں نے ، خصوصی طور پر علمائے ہند نے ان کی اس تصنیف میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اگر لی تو سرسری طور پر اور کہیں رائے کا اظہار کیا تو منفی۔ اوّل تو کتاب انگریزی میں تھی اور دو، خطبوں میں بحث کی نوعیت عقلی اور فلسفیانہ تھی جسے غالباً مذہبی حلقوں میں تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔ اقبال کے بعد پہلی نسل میں ہمیں زیادہ تر خطبات اقبال کے اردو اور دیگر مختلف زبانوں میں ترجمے نظر آتے ہیں مگر تبصرے تقریباً مفقود ہیں ۔ مطلب یہ کہ اس نسل نے کتاب کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ البتہ اس کے بعد دوسری اور تیسری نسلوں میں ، معلوم ہوتا ہے کہ خطبات اقبال کو سنجیدگی سے پڑھنے اور اس پر تبصرہ کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔ 

شیخ عبدالرشید: خطباتِ اقبال کی جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی موجودہ نسل کے لیے کوئی اہمیت ہے یا نہیں .... ؟ 
جاوید اقبال: خطبات کا اصل مقصدتو مسلمانوں کو ترغیب دینا تھی کہ کسی اور وجہ سے نہیں تو مصلحتاً مغربی تہذیب کے علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی برتری کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں اپنے اندر جذب کر کے نہ صرف مادی اعتبار سے فائدہ اٹھائیں بلکہ ان کے ساتھ اپنی روحانی اور اخلاقی اقدار منسلک کر کے زیادہ متوازن معاشرہ وجود میں لائیں اور یوں مغربی تہذیب کے مقابلے میں اپنے تمدن کی برتری ثابت کردیں ۔ اقبال کے نزدیک احیائے تمدن اسلام کی یہی ایک ممکن صورت تھی اور اب بھی اسی طریق کار کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ مگر مستقل مزاجی سے اس راہ پر چل سکنا اس لیے ممکن نہ ہو سکا کیونکہ مغربی نو آبادیاتی طاقتوں کے شکنجے سے سیاسی آزادی حاصل کر لینے کے باوجود مسلم اقوام کی مغربی استعمار کے خلاف رنجشیں قائم رہیں بلکہ اب بھی ہیں اور ان کی جدید ترین صورت بعض مسلم حلقوں میں رجعت پسندی کے رجحانات عام ہونے کے سبب دہشت گردی کا فروغ ہے اور دہشت گردی بھی خود کش بمباروں کی شکل میں ۔ ترقی یافتہ مغربی طاقتیں تو بہترذرائع کے بل بوتے پر اپنی حفاظت کا بندوبست کرسکتی ہیں ۔ مگر جہاں تک ترقی پذیر مسلم ممالک کا تعلق ہے ، وہاں خود کش بمبار کی اسلام کے نام پر کار گزاری اپنوں ہی کے خلاف ایک طرح کی اجتماعی خود کشی کا باعث بن رہی ہے ۔ غیر مسلم ممالک میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیںانہیں دہشت گردوں کے طور پر شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ ہر امن پسند مسلمان اپنے ملک میں ہو یا اپنے ملک سے باہر ، غیر محفوظ محسوس کرتا ہے ۔ 
اس پس منظر میں پاکستان ، جو دہشت گردی اور خود کش بمباروں کی زد میں ہے ، میں مسلمانوں کی نئی نسل کے سامنے دو ہی رستے ہیں : ایک تو یہ کہ مذہبی جوش و خروش کے ریلے میں بہہ کر سینکڑوں برس اُسی طرح پیچھے چلے جائیں جیسے وہابی تحریک یا خلافت تحریک کی ناکامی کے بعد صورت پیدا ہوئی تھی ۔ یعنی جتنی ترقی حاصل کر سکنے کی ہمیں توفیق ہوئی ہے یا ”نیو کلیئر“ قوت کی صورت میں جو کچھ حاصل کیا گیا ، کہیں شدت جذبات اور مقابلے کے لیے حقیقی ذرائع کے فقدان کے سبب، کسی نئے اجتماعی استعمار کے زیر آکر ، ہم اسے گنوا نہ بیٹھیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس غیر یقینی اور غیر معتدل دور سے کامیابی سے گزر جانے کی خاطر، مصلحتاً یا خالصتاً عقلی بنیادوں پر اپنی کوئی نئی حکمت عملی وضع کریں ۔ اگر م ¶خر الذکر طریق کار اپنایا گیا تو خطباتِ اقبال کی تسہیل و تفہیم کی ضرورت پیش آسکتی ہے ۔ کوئی عجب نہیں اگر مستقبل میں اقبال کے افکار کی روشنی میں احیائے اسلام یا احیائے تمدن اسلام نے کوئی عملی صورت اختیار کی تو ہندو پاکستان کے مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں خطباتِ اقبال اور ان کی دیگر نثری کاوشوں پر مزید تحقیق کے ذریعہ نئے طریقوں سے نئے مسائل کا حل تلاش کرنا پڑے ۔ 
اجتہاد سے متعلق خطبہ سے ثابت ہے کہ اشعار میں جمہوریت پر تنقید کے باوجود اقبال کی جدید اسلامی ریاست میں جمہوریت کا نعم البدل کوئی اور سیاسی نظام نہیں ۔ اگر کوئی ہے تو ملوکیت یا آمریت ہے جو بقول اقبال دونوں اسلام کی روح کے خلاف ہیں۔ لہذا پاکستان کی جمہوری سیاست میں بار بار فوجی مداخلت، تغلب یا آمریت کے فتنہ کا مستقل طور پر خاتمہ کرنا اشد ضروری ہے ۔ یعنی فوج کو سیاسی قیادت پر حاوی نہیں بلکہ ماتحت رہنا چاہئے ۔ 
جہاں تک انتہا پسندی یا دہشت گردی کا تعلق ہے ، اس فتنہ کا اصل سبب غربت، جہالت ، بیماری اور معاشی نا انصافی ہیں ۔ خود کش بمبار کے پاس اپنے جسم کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا جسے وہ رٹائے ہوئے غلط عقیدے کے مطابق بارود سے اڑا کر نہ صرف اس دنیا میں محرومیوں پر اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے بلکہ توقع رکھتا ہے کہ عاقبت میں اُسے معاوضے کے طور پر ہر طرح کی آسودگی ملے گی مگر مذہبی جنون میں سیاسی فرقہ وارانہ منافرت کی بنا پر کسی بد قسمت مخالف کی جان لینے کی کوشش میں جن کی جانتیں لیتا ہے ، وہ سب بھی اسی کی طرح پسماندگی اور بے کسی کا شکار ہوتے ہیں اور ان بیچاروں کے پاس بھی اپنے ، اپنے بیوی بچوں یا ماں باپ کے جسموں کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ پس خود کش دہشت گردی کو ریاستی جبر یا دہشت گردی سے دبایا نہیں جاسکتا۔ بلکہ اس کا خاتمہ تو جمہوری نظام کے استحکام اور صحیح قسم کی سیاسی قیادت کے ذریعہ معاشی ، تعلیمی اور طبی اصلاحات کے نفاذ ہی سے ہوسکتا ہے ۔ 
شیخ عبدالرشید: یہ محض خوش خیالی ہے یا ایسا ممکن بھی ہو گا .... ؟ 
جاوید اقبال : مذکورہ بالا دونوں فتنے ایسے ہیں جن کا خاتمہ اقبال کی مجوزہ ریاست پاکستا ن کو اپنی بقا کی خاطر کرنا ہے ۔ بہر حال تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مسلمانوں نے من حیث الملت بیرونی فتنوںکے علاوہ ایسے کئی اندرونی فتنوں کا مقابلہ کر کے ان کا قلع قمع کیا ۔ خلفائے راشدین میں سے تین کی شہادت، جنگ جمل ، جنگ صفین ، جنگ کربلا، فتنہ ہائے خوارج، اساسین ، قرامطہ و ملاحدہ سب قتل و غارت کے ذریعہ اسلامی تمدن کے ارتقاءکو روک نہ سکے ۔ اس لیے پاکستان بھی ایسے فتنوں پر بالآخر قابو پا لے گا ۔ 
شیخ عبدالرشید: اقبال مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر کیا روشنی ڈالتے ہیں ؟ 
جاوید اقبال: دیکھئے اقبال نے تین وجوہات بیان کی ہوئی ہیں زوال کی، اس پر بھی غور کرنا چاہئے ایک تو ملوکیت ہے وہ تو ختم ہو گئی ، یعنی آپ نے جمہوریت قبول کر لی بے شک دنیائے اسلام میں نہیں کی گئی ، دوسری اقبال کے نطقعہ نظر کے مطابق ’مُلائیت‘ ہے ۔ مُلائیت سے مراد ان کی یہ ہے کہ original thinking نہیں رہی ۔تقلید ہے اجتہاد کی کوئی صورت نہیں رہی یعنی حقیقی سوچ غائب ہو گئی ۔ تیسری وجہ پیری ’مریدی‘ ہے جو ابھی تک جاری ہے اور بڑی مضبوطی سے جاری ہے مثال کے طور پر ایک پیر نے بچے کو مار دیا تھا ہاتھ بازو توڑ کے اُس کو اسی کے بازو کے ساتھ مارتا رہا اور وہ بچہ مر گیا ۔ ہمارے پیر اس قسم کے ہیں۔ یہاں ہماری اپنی حالت اس قسم کی ہے اس کو تو ہم کنٹرول کرسکتے ہیں جدید فکرسے ، جدید تعلیم You have to control your population with latest methods۔ میں پچھلے دنوں نیشنل ڈیفنس کالج میں بیوروکریٹس کو ایک لیکچر دے رہا تھا ۔میں نے ان کو کہا کہ ہم جب بھی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی اصلاح ہو تو ہمارا طرز عمل کیا ہوتا ہے اب اسی ضمن میں میں نے ان کو زوال کی مختلف جہتیں بتائیں۔ ہم زوال کی ان کیفیات میں سے اب تک نکل نہیں سکے اور نہ ہی original thinking پیدا ہوئی، اور نہ ہی ملوکیت میں سے نکل پائے سیاست میں بھی ملوکیت آگئی ان کے بیٹے تیار ہونا شروع ہو گئے ہیں اب حمزہ شریف آگے آگیا ہے پھر بھٹو کا بلاول آجائے گا اور پھر پرویز الہیٰ کا بیٹا مونس الہیٰ آجاتا ہے یہ سب لوگ وہی ملوکیت والے آرہے ہیں اب جمہوریت میں ہی ایک طرح سے ملوکیت آرہی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم حقیقی جمہوریت سے بہت دور ہیں جس وقت یہ صورت آجائے کسی قوم کی توپھر وہ سارا تخیل جس کی بنیاد پر نظریاتی ملک وجود میں آیا وہ ختم ہو جائے گی ۔ ہم نے تو یہ سب کچھ خود آہستہ آہستہ ختم کر دیا اب سب کچھ رجعت پسندوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ 

شیخ عبدالرشید: جمہوریت سے علامہ کیا مراد لیتے تھے ؟ 
جاوید اقبال : مجھے ایک شخص نے سوال کیا فرنٹیئر کا تھا کہنے لگا ایک طرف علامہ صاحب کہتے ہیں جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے تو دوسری طرف وہ علی گڑھ کے طلباءکو کہہ رہے ہیں ’بتاﺅ جمہوریت کے علاوہ اور کیا متبادل ہے کسی ملک کو چلانے کا طلباءنے جواب دیا ملوکیت یا آمریت، تو کہنے لگے یہ دونوں چیزیں اسلام کے خلاف ہیںچنانچہ علامہ نے کم برائی کے طور پر جمہوریت کو اپنایا اور جو غلطیاں انہوں نے جمہوریت کے متعلق بتائیں وہ غلطیاں اپنی جگہ درست ہیں ۔ اپنے خطابات میںتو کہتے ہیں کہ اسلام کا پیغام ہی سلطانی جمہور ہے ۔ یہ تضادات نہیں ۔ ایسے ہی تضادات قرآن میں بھی نظر آتے ہیں مثلاً قرآن مجید میں دیکھتا ہوں قرآن مجید میں اگر ایک طرف اﷲ تعالیٰ کہتا ہے کہ بچوں کو قتل مت کرو، اﷲ ہی اِن بچوں کا رازق ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہتا ہے کہ بغیر کوشش کے تمہیں کچھ نہیں ملے گا جو بھی کرو گے اپنی کوشش سے کرو گے ۔ Then how do you resolve this kind of contradictionدونوں حقیقتیں اپنی جگہ پر درست ہیں ٹھیک ہے اﷲ تعالیٰ سب کا رازق ہے لیکن اﷲ تعالیٰ رزق اسی کو دیتا ہے جو اپنی کوشش سے لیتا ہے ۔ کوشش نہیں کرو گے تو نہیں ملے گا ، کچھ نہیں ملے گا تو مر جاﺅ یا پھر ضبط نفس کریں یا پھر فیملی پلاننگ کرو اچھا یہاں جو ہماری حالت ہے فیملی پلاننگ کا نام لیتے ہیں تو لوگ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں ملّاسے بات کرو تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو قرآن ہی کے خلاف ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے تو رزق پہلے دن سے ہی مقرر کر رکھا ہے۔ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں ۔ مائیں بچے بیچ رہی ہیں آپ اخبار تو دیکھیں جو حقائق ہیں یہ کس طرح سے صحیح ہے میں کس طرح اس کو قبول کر لوں میری عقل ہی قبول نہیں کرتی میں ایسے خدا کو قبول کرنے کو نہیں تیار جس کی آپ اس طرح تشریح و تفہیم کرتے ہیں یہ تو خدا نے نہیں کہا کہ وہ اس معنوں میں تو آپ کا رازق نہیں ہے اور اس طرح وہ باتیں کرتے ہیں پچھلے دنوں مجھے کسی اپنے بچے نے ویڈیو ٹیپ لا کر دکھائی اور اس میں کسی عالم صاحب نے بڑی تفصیل سے وہی نظم جو علامہ نے مجھ سے منسوب کر کے نوجوانوںکو ایڈریس کیا ہوا ہے ”جاوید کے نام“ ؒ µ µ
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے 
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر 

اس شعر کی تفسیر وہ عالم صاحب بیان کر رہے تھے وہ بتا رہے تھے کہ فقر کی کیا اہمیت ہے مجھ سے بچے نے سوال کیا کہ آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے اس تقریر کے متعلق؟ میں نے جواب دیا وہ آپ کو تلقین کر رہے ہیں اخلاقی طور پر فقر اختیار کرو مگر اس بات پر غور نہیں کررہے کہ پہلے آپ غربت اور افلاس کو دور کرو کیونکہ امام غزالی نے کہہ رکھا ہے کہ اگر پیٹ میں روٹی نہیں توایمان نہیں رہے گا “ یہ غزالی کے کہے پر دھیان نہیں کرتے بس بھوکے رہ کے اﷲ اﷲ کرو ۔ فقر کرو ۔وہ فقر کس طرح آئے گا جب تک بنیادی ضروریات ہی پوری نہ ہوں تفکر کیسے آئے گا ۔ ہمارے ہاں ابھی تک اجتہاد اور تقلید کی جدوجہدجاری ہے اب بات تو قتل و غارت تک پہنچ چکی ہے تقلیدی اسلام لینا ہے یا اجتہادی اسلام ؟ اقبال تو اجتہادی اسلام کے داعی تھے پاکستان کے سارے خالقین جو بھی بانیان پاکستان میںسر سید، شبلی، جمال الدین افغانی، محمد عبدہ، اقبال، جناح سب کے سب اجتہاد کے قائل ہیں ۔وقت کی ضرورت کے ساتھ اپنا آپ بدلو۔ اس کا کوئی تعلق سیکولر ازم سے نہیں ہے چونکہ سیکولر ازم تو آیا ہی اسی وجہ سے یورپ میں تھا کہ وہاں اجتہاد کی صلاحیت ہی نہیں ہے آپ کے ہاں ساری بحث ہی اس بات سے شروع ہوتی ہے کہ بائبل کے جو قوانین ہیں وہ بدلے نہیں جاسکتے وہ اٹل ہیں اور اگر ان کو بدلو گے تو وہ ایک طرح سے گندگی ہو گی غلاظت ہو گی پلیدگی ہو گی Profain کے معنی پلیدہ ہونا کے ہیں کہ خدا کے احکام بدلے نہیں جاسکتے ان پر اجتہاد نہیں ہو سکتا ۔ آپ کے ہاں معاملات اور عبادات ہیں تفریق ہے اور اقبال نے تو صاف کہا ہے ”ثبات فی التغیر“یعنی تغیر کو ہی ثبات حاصل ہےتو آپ کی عبادات ہیں آپ نمازوں کو چینج نہیں کرسکتے وہ تو پانچ ہی رہیں گی اسی طرح آپ روزوں میں تو کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے، زکوٰة کی ریشو تبدیل نہیں ہوسکتی، حج کے احکام میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی باقی جو آپ کے دنیاوی معاملات ہیں اس میں آپ وقت کے ساتھ اجتہاد کر سکتے ہو۔ 
شیخ عبدالرشید: آپ کے خیال میں امت مسلمہ میں اجتہاد کا دروازہ کیوں اور کب بند ہوا؟ 
جاوید اقبال: یہ دروازہ بند ہونے کی علامہ چند وجوہات بیان کرتے ہیں جس وقت منگولوں نے حملہ کیا بغداد پر اور بغداد کا خاتمہ ہو گیا ۔ یہ حملہ 1328ءکو ہوا جب انہوں نے ’محتسم باﷲ‘ کو گائے کی کھال میں لپیٹ کر ڈنڈوں کے ساتھ قتل کر دیا تھا محتسم باﷲ اس وقت عباسی خلیفہ تھے اس وقت سے علماءحضرات نے اجتہاد کے دروازے بند کر دیئے تھے بقول اقبال اس وقت تک کے 36سکولز آف لاءہو گئے تھے اسلام میں۔ اب ان 36 سکولز آف لاءمیں سے ایک تو امامیہ کورٹ رہ گئی ہے ، چار حنفی مالکی، شافعی، حنبلی، شیعہ سنی کی کورٹس رہ گئی ہیں لیکن جو متروک ہو گئے ہیں فقہ کے مدرسہ ہائے فکر ان کو بھی سٹڈی کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ اسماعیلی فرقے ہیں اور دوسرے جن کو بھول چکے ہیں ہم لوگ ان میں بعض ایسی عجیب و غریب باتیں ہیں جو کہ آج کے زمانے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں مثلاً اسماعیلیوں میں دوسری شادی قاضی کے حکم کے بغیر نہیں کر سکتے اگر آپ دوسری شادی کے طالب ہو تو You have to move the court of "Mukhia", he is not a Qazi in the strict scene but he is some thing to do with your religion. یہ ایک طرح سے آپکا دینی پیشوا ہے پھر آپ اپنے دینی پیشوا سے بیان کرتے ہو کہ آپ دوسری شادی کیوںکرنا چاہتے ہو ، یعنی اولاد نہیں، پہلی بیوی کو کیا مراعات دے رہے ہو ، اُس کی ایماءکیا ہے ؟ اس طرح کی چیزوں کو دیکھ کر وہ اجازت دیتا ہے اور مُکھیا انکار بھی کرسکتا ہے اور وہ دینی پیشوا پہلی بیوی کو بھی بلا کر پوچھتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی طرح اگر تیسری شادی کرنا چاہو یعنی دو موجود ہوں تو پھر اسی طرح آگے چلتا ہے اب ان میں ایک شادی کے بعد ہوتی نہیں ہے ۔ اب تیونس میں انہوں نے وہی جو آیات ہیں شوہر کے متعلق کہ جس میں تم چار شادیاں کر سکتے ہو اگر ان میں انصاف نہیں کر سکتے تو پھر بہتر ہے ایک ہی پر مطمئن رہو۔ اس آیت کو لے کے تیونس نے ایک شادی کا قانون بنا دیا، ترکی تو سیکولر ملک ہے ۔ ابھی چند پہلے ٹی وی پر ایک بحث ہو رہی تھی ایک عالم وہاں پر موجود تھے اور اسی پروگرام میں میری بیگم صاحبہ بھی چلی گئیں میں وہ پروگرام دیکھ رہا تھا اب بیگم صاحبہ چونکہ جج رہی ہیں ان کو اسلامی قانون کا پتہ ہے اس سے صرف یہی بحث ہو رہی تھی کہ مرد کو طلاق کا حق ہے اور وہ اس بات پر نہیں آ رہے تھے کہ عورت تنسیخ نکاح کراسکتی ہے اور زینب کی مثال دے نہیں رہے تھے اچھا پھر یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے کورٹس خاص کر جسٹس کیکاﺅس کی پہلی Judgementجو کہ Judge made law ہے ہمارے ہاں مسلم خواتین کا اس میں خلع کا تصور ہے ہی نہیں یہ جج کا بنایا ہوا قانون ہے کسی اسلامی ملک میں ہندوستان سمیت خلع کی بنیاد پر عورت طلاق نہیں لے سکتی یہ صرف پاکستان میں ہے یا بنگلہ دیش میں میری ایک Judgement آئی تھی خلع کی جو کہ جسٹس کیکاﺅس کی judgement کے بعد تھی میں نے اس میںیہ کہا تھا کہ جس وقت کوئی عورت خلع کے لیے move کرے تو جج کا صرف یہی فرض ہونا چاہئے کہ وہ یہ دیکھے کہ عورت یہ خود اپنی مرضی سے کہہ رہی ہے اسکے پیچھے اور تو کو ئی نہیں۔ جب تک اس کو یقین نہ ہو جائے کہ عورت اپنی مرضی سے کہہ رہی ہے اور اس کے ئیچھے کوئی اور نہیں تو لازم ہے کہ تنسیخ کرے نکاح کو اس طرح وہ تو سب کچھ سرنڈر کر دیتی ہے جو کچھ اس نے خاوند سے لیا ہوتا ہے ۔ جب میں چیف جسٹس تھا یہاں تو میں نے کہا تھا جب بھی خلع کا کوئی مقدمہ آئے اُس کا تین ماہ میں فیصلہ کر دیا جائے ۔ اگر خاوند نہیں پیش ہوتا تو بھی اس کی عدم موجودگی میں فیصلہ سنا دیا جائے۔ اب خلع کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کی تعداد ساٹھ ہزار ہو گئی ہے پہلے پانچ سال لگ جاتے تھے اور میں نے انہیں تجویزکیا تھا کہ اس کو طلاق کے برابر بنا دو۔ جو بھی عورت خلع لینا چاہے جہاں میرج کا رجسٹرار اُس کو خط لکھے کہ میں خلع کی بنیاد پہ اپنے خاوند سے طلاق لینا چاہتی ہوں ایک کاپی خاوند کو بھیجے اور ساتھ یہ کہے کہ میں نے جو کچھ اس سے لیا ہے وہ واپس دینے کو تیار ہوں وہ صلح کی کوشش کرے اگر نہیں ہوتی تو نوے دن کے اندر اندر تنسیخ نکاح کر دیا جائے مگر حکومت کو جرات نہیں ہوئی اس طرح کی قانون سازی کرنے کی ۔ 

شیخ عبدالرشید: آج ہم جس سماجی اور فکری بانجھ پن کا شکار ہیں کیا ان حالات میں اجتہاد کی اجازت ہونی چاہئے ....؟

جاوید اقبال: اجتہاد کی اجازت اقبال کے خیال میں تو پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور وہ قانون سازی سے اسکا تعلق ہے اب وہ بات نہیں ہو سکتی کہ ایک مفتی بیٹھ کر اجتہاد کر رہا ہے وہ ختم ہو گیا ہے 

شیخ عبدالرشید: ایسی پارلیمنٹ جیسے پاکستان کی ہے ،خواہ جعلی ووٹوں سے منتخب ہو کر آجائے اس کے پاس ہی اجتہاد کا اختیار رہنا چاہئے ؟ 
جاوید اقبال: اب لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ اجتہاد کیسے کریں گے ۔ ان کی تو ڈگریاں ہی ساری جعلی ہیں لیکن آجکل Apparently you see their is a concept in modern jurisprudence جس کو Ordinary common man کہتے ہیں یہ Ordinary common man جیوری Constitute کرتا ہے انگریز کے دور میں جو آپ کے بھی عدالتیں ہوتی تھیںوہاں دس سے پندہ افراد پر مشتمل ایک جیوری ہوتی تھی یہ قانون دان نہیں تھے They were ordinary common men اور کبھی بھی جو فیصلہ جج کر رہا ہے اس کے خلاف نہیں گئے یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ Common man اﷲ تعالیٰ نے اس کو اتنی سمجھ بوجھ دی ہے کہ اگر وہ حالات کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے تو وہ جان کے کہے گا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ انکی راہنمائی کیلے کچھ علماءبھی رکھ سکتے ہیں اور کچھ وکلاءجدیدعلوم سے واقف ہوں رکھ سکتے ہیںاقبال کا یہی تخیل ہے اقبال کے تصور کے مطابق مستقبل کے مجتہد وکیل ہوں گے وہ ان پرانے مجتہدوں کو نکال سکتے ہیں اب جو پرانا مجتہد ہے وہ ولایت فقیہہ ہے جیسے ایران ہے ایک تھیوکریٹک سٹیٹ اب قائداعظم نے واضح طور پر کہا ہوا ہے کہ پاکستان تھیوکریٹک سٹیٹ نہیں بنے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیشوائیت کا تخیل ہی کیتھولک ریاست کا ہے اسلامک سٹیٹ کیسے سیکولر ہو سکتی ہے اب آپ اگر سوچیں کونسی سٹیٹTheocratic state ہوسکتی ہے تو اس سلسلے میں آپ ’خطبات‘پڑھیں تو اقبال کے ہاں جو اجتہاد کا باب ہے اس میں فرماتے ہیں کہ نائبین امام کا جو تصور ہے اس وقت نائبین امام کا تھا اس وقت ایران میں انقلاب نہیں آیا تھا یہ مجتہدین کا ایک گروہ تھا رضا شاہ پہلوی کے زمانے میں جو امام غائب کے نائب کے طور پر ایک گروپ تھا ۔ وہ رضا شاہ پہلوی کو کہتے تھے تم جو مرضی قانون بنانا چاہتے ہو بنا لو لیکن ہم نائبین امام فیصلہ کریں گے کہ وہ اسلام کے مطابق ہے یا نہیں۔ اقبال اپنے اجتہاد والے باب میں اس تصور کو رد کرتے ہیں ۔ اب اقبال ایک سوال پوچھ رہے ہیں سید سلمان ندوی سے ان کے جو خطوط ہیں ان میں علامہ کا ایک خط ہے ’کہ مجھے بتائیے کہ جب مدینے میں قحط پڑا تو عمر نے غلے کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا ختم کر دی ۔ یہ طاقت حضرت عمرؓ نے کہاں سے حاصل کی تھی ؟اب عمرؓ نے قرآنی طور قانون کو م ¶خر کر دیا بطور سربرآہ ریاست اور اقبال یہ پوچھ رہے ہیں کہ یہ پاور اس کو کہاں سے ملی ؟ کس جگہ خدا نے کہا ہوا ہے کہ جس جگہ ایمرجنسی ہو تو تم میرا حکم Suspend کر ے و ایمرجنسی کے متعلق قانون ہے اضطرار میں تو حرام شے بھی حلال ہو جاتی ہے ۔کھانے پینے کے متعلق زندہ رہنے کے لیے یا زندہ رہنے کے لیے آپ مذہب کے متعلق کہتے ہو ۔ اضطرار وہاں نہیں آتا کہ جہاں خدا کا صریح حکم ہے اسی کو ہی کالعدم قرار دے دو یہ تو صرف اجتہاد کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے ۔ سید سلمان ندوی نے اقبال کو کیا جواب دیا یہ تو پتہ نہیں کیونکہ وہ کہیں محفوظ نہیں مگراس کا جواب اقبال اجتہاد کے ذریعے سے ہی دیتے ہیں کہ یہ عمرؓ کے اجتہادات ہیں اور جب یہ سزا یہاں نافذ کی گئی تھی یہاں تو منافقانہ طریقے سے نافذ کی گئی ہے آج تک کبھی دی بھی نہیں گئی اس سے بلکہ کرائم بڑھا ہے ۔ہمارے جسٹس کیکاﺅس نے ایک اخباری بیان جاری کیا تھا کہ ضیاءالحق کے خلاف کہ جب تک تو مجھے اور میرے ملک کے ہر فرد کو ضروریات زندگی فراہم نہیں کرتا تجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تو کسی کا ہاتھ قلم کرے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو حکومت مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ حل نہیں کر سکتی وہ میرا ہاتھ کیسے کاٹے گی ۔اگر میں چوری کرتا ہوں روٹی کی خاطر ہی چوری ہوتی ہے خواہ وہ ڈاکہ زنی ہو یا کچھ اور ہو۔ اب ہمارے معاشرے میں جو مسائل ہیں اقبال کے ہاں اشارے ملتے ہیں تو ہم نے اس پر غور نہیں کیا۔ 

شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب اس فکری اضطراب میں رہتے ہوئے کیا آپ دیکھ رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں اجتہاد کی لہر دوبارہ زندہ ہو پائے گی؟
جاوید اقبال: میں نہیں سمجھتا کہ یہ لہر دوبارہ زندہ ہو سکتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال نے چار چیزیں بتائیں ہیں جن کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی خودی مستحکم ہو سکتی ہے وہ مسلمان کی خودی مستحکم کر نے لیے چار چیزوں کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ان میں سب سے اول جو ہے جس کو وہ عشق کہتے ہیں اور دوسری فقر۔ تیسری چیز جرات اور چوتھی چیز آزادی ہے ۔ اس مسئلے پر جو اقبال نے یہ چار چیزیں بتائی ہیں کہ ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ۔ میرے رائے یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو علماءکا تصور ہے وہ عقل کو اس لیے ایمان کا دشمن سمجھتے ہیں کہ عقل ”لا الہ“ سے شروع ہوتی ہے وہ نہیں جانتی خدا ہے کہ نہیں ، یہ تو حجاب ہے ایک طرح کا۔ اگر کشف المحجوب پڑھیں تو داتا صاحب نے اپنی کتاب میں یہی لکھا ہے کہ سب سے بڑا حجاب خدا کو نہ ماننا ہے یعنی آپ عقل کے ذریعے شروع ہی اس بات سے کرتے ہو کہ خدا نہیں ہے مجھے ثبوت پہلے عقلی طور پر دو کہ خدا ہے یا نہیں تو عقل دشمن ہو گئی نا ایمان کی.... عشق کیوں دشمن ہے ایمان کی، چونکہ عشق تو اصرار کرتا ہے مجھے دکھاﺅ ،وہ دیدار دوست چاہتا ہے ۔ وہ تو کہتے ہیں خدا تو دیکھا ہی نہیں جاسکتا ۔قرآن مجید میں لکھا ہوا ہے کہ وہ پردے کے پیچھے سے بات کرتا ہے یا وحی سے بات کرتا ہے وہ تو نظر ہی نہیں آتا وہ تو رسول اﷲ نے بھی نہیں دیکھا اچھا پھر تیسری چیز تجربے کو بھی اسی لیے برا کہتے ہیں کہ تجربے سے جو سائنسز یا ٹیکنالوجی انسان حاصل کرتا ہے وہ ان چیزوں کو استعمال کرے جو حیوان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہاتھوں کو استعمال کرتا ہے جو تجربی علوم ہیں وہ بھی کفرانہ علوم ہیں ۔ اس کا مطلب ہوائی جہازمت بناﺅ۔ لاﺅڈ سپیکر مت بناﺅ جب اہلیت ہی نہیں تو کہہ دیا کہ یہ سب شیطانی کام ہیں ۔ میری ایک عالم کے ساتھ بحث ہو رہی تھی وہ کہنے لگے کہ یہ آپ کی باتیں تو ٹھیک ہیں ۔عشق بھی ٹھیک ہے ، فقر بھی ٹھیک ہے جرات بھی ٹھیک ہے لیکن یہ آزادی کا تصور تو اسلام میں ہے ہی نہیں ۔ہم یا تو شیطان کے غلام ہیں یا خدا کے غلام ہیں اب وہ کہتے ہیں کہ آزادی کا تصور ہی مغربی ہے مسلمان کے ہاں آزادی کا تصور ہی نہیں ہے ۔ اقبال کے ہاں جو خودی کو کمز ور اور فنا کرتی ہیں وہ قدریں ان کے برعکس ہیں ۔ عشق کی کیا برعکس قدر ہے وہ نفرت ہے اور نفرت ہم میں ہے ہم ایک دوسرے کو برداشت ہی نہیں کرتے ۔جو کچھ شیعہ کے ساتھ کرتے ہیں یا کچھ بھی ہم غیر مسلموں کے ساتھ کرتے ہیں ۔ عشق نہیں ہے تو نفرت ہے وہ بھی تو خدا کے بندے ہیں اقبال نے کیوں کہا ہے 

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمان 
نہ ہو تو مرد مسلمان بھی کافر و زندیق 

اچھا اب فقر کا برعکس کیا ہے امیر ہونا امارت ، اب جرات کے برعکس کیا ہے خوف اور آزادی کا ہے فقیری ، ہاتھ پھیلانا افلاس، اب اقبال نے جو چاروں چیزیں بتائی ہیں ان سب کا متضادہم ہیں ۔نفرت کا اگر جذبہ ہے تو اس میں ہم سب سے آگے ہیں خواہ وہ صوبائی ہو خواہ وہ علاقائی ہو خواہ وہ مذہبی ہو اور دوسری چیز جو جرات کے برعکس ہے ۔خوف، اب دیکھیں کوئی بھی یہ بات نہیں کر رہا ہے کہ اس ملک کا جو قانون ہے یہ اس قانون کے تحت اگر آپ نے تحقیر رسول کی سزا مقرر کی ہوئی ہے تو جو اس کا باعث بنتا ہے اگر تم سمجھے ہو کہ گورنر نے تحقیر رسالت کی ہے تو اسکے خلاف دعوی کرو عدالت میں جاﺅ ، قانون ہاتھ میں لے کر قتل کرنا کہاں کا انصاف ہے نہیں تو قانون نہیں بنانا تھا اگر خودی اس قسم کے لوگوں کو قتل کرنا ہے تو پھر قانون کیوں بنایا یا پھر اس طرح کے قانون کو ختم کرو قانون کی ضرورت ہی نہیں ۔ مسلمان خود ہی ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں اور کرتے جارہے ہیں پھر قانون کیوں بنایا ہے کوئی یہ سوال ہی نہیں اٹھا رہا بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ وکلاءحضرات اس کے ڈیفنس کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں اور آگے دفتر کے دفتر باندھ رہے ہیں مجھے کسی نے پوچھا کہ آپ اس پر Comment کرو میں نے کہا میں تو نہیں کرتا مجھے اپنی جان عزیز ہے میں پاکستانی ہوںاور زندہ رہنا چاہتا ہوںمیں اس قسم کی جرات نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے تو بہت ڈر ہے میں تو اپنے آپ کو سب سے پہلے مقدم سمجھتا ہو یہ میرا جواب TV Channels کو تھا کہ جی علامہ صاحب گئے تھے علم دین کی طرف ، میں نے کہا وہ اور وجہ تھی اس کی وجہ سے تو پاکستان بنا، وہ تو پاکستان بنانے کے لیے تھے کیونکہ اس وقت ہندو مسلم کے درمیان تناقص تھا اس کو نمایاں کرنا تھا اور جو دلچسپ بات ہے وہ قائداعظم کے دلائل ہیں ۔قائداعظم کی دلیل یہ نہیں تھی کہ اس نے توہین رسالت نہیں کی بلکہ ان کا نکتہ یہ تھا کہ توہین رسالت اتنا Personal Provocation ہے کہ اس Provocation کے تحت Lessor Penalty ہونی چاہئے ایک تو یہ بات نقص کی تھی اور دوسرا یہ بات اس لیے نہ چل سکی کہ قائد نے جو نکتہ نکالا تھا وہ یہ تھا کہ علم دین تھا اس نے پہلے جو Trial court تھا اسکے سامنے کہا تھا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ کس نے مارا ہے He denied the charge کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ یہ کس کا چاقو ہے شاید اس کے وکیل نے کہا ہو گا کہ Deny کر دو تو اس وقت دو جج بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ یہ پہلے کیوں نہیں بولے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں جو جسٹس شریف صاحب گئے ہیں ہمارے Former Chief Justice اور انکے ساتھ آفتاب فرخ یہ سارے اسی لیے گئے ہیں کہ وہ یہ نکتہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ Provocation ہے اس کو Lessor Penalty کریں اور Court اس کو Terrorism کے تحت Try نہ کریں 


شیخ عبدالرشید: مسلمانوں کے ہاں اجتہاد نہیں رہا۔ اس رجعت پسندی اور جمودی فکر کے سائے میں جو اجتہاد کی راہ پر چلتے ہوئے مسلمان نظر نہیں آتے کیا ۔آپ سمجھتے ہیں کیا کسی مسلم معاشرے میں جمہوریت پنپنے کا امکان ہے یا نہیں ؟ 
جاوید اقبال: فی الحال تو اسکے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے جمہوریت جہاں چل رہی ہے وہاں مسلمان اکثریت میں ہیںجمہوریت اگر کسی مسلم معاشرے میں ہے تو وہ ایسے معاشرے ہیں جن میں جمہوریت کامیابی سے چل رہی ہے یا مکسڈ معاشرے میں مثلاً ساﺅتھ ایسٹ ایشیا میں ، انڈونیشیا وہاں پر انہوں نے نکاح ہی کو تصور کیا گیا ہے اگر مسلمان عورت بھی کسی غیر مسلم سے شادی کرے تو وہ بھی نکاح ہی تصور ہو گا یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کے لیے دوسرے کا مسلمان ہونا ضروری نہیں یعنی عجیب و غریب قسم کی ریفارمز انہوں نے کی ہیں چونکہ اس میں ان کا معاشرہ اسی قسم کا ہے کیونکہ ان میں غیر مسلم کافی تعداد میں ہیں ایک تو انڈونیشیا ہے اور دوسرا ملائشیا جہاں پر جمہوریت کامیابی سے چل رہی ہے باقی اور کسی جگہ پر جمہوریت چل رہی ہے تو وہ ہے ترکی اب خاص طور پر جس طرح انہوں نے فوج کو ایک طرح سے شکست دی ہے ۔میں بوسنیا بھی گیا تھا ان دونوں ملکوں نے سیکولر ازم قبول کیا ہوا ہے اور دونوں مسلمان ملک ہیں بوسنیا کو انہوں نے یورپین یونین میں شامل نہیں کیا صرف اس وجہ سے کہ ’سکوزی‘ نے جو فرانس کا صدر ہے اس نے کہا تھا کہ European Union is a Christian Club, Only Christian can become members۔ تو آپ دیکھ لیں سیکولرازم کا آپ نے جو ترجمہ کیا ہوا ہے لادینیت یہ غلط ہے ۔ اب رہ گیا ترکی ، یہ سیکولر سٹیٹ ہے بوسنیا بھی ویسے تو سیکولر سٹیٹ ہے وہاں پر ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا وہاں کا جو شیخ الاسلام ہے وہ فضل الرحمان کا طالب علم تھا اور وہ اقبال کا بڑا حامی تھا ، مجھے کہنے لگا کہ آپ تین مہینے کے لیے آ کہ یہیں لیکچرز دیں سراج یونیورسٹی میں ، میں نے ان سے کہا کہ میں تین ماہ تو ملک سے باہر رہنا پسند نہیں کرتا۔ وہ مجھے گلے کے طور پر کہنے لگا کہ تین ادارے یہاں آئے ہیں ہمیں مسلمان کرنے کیلئے میں نے پوچھا کہ وہ کون سے ہیں تو جواب ملا کہ ایک سعودی عریبیہ ، ایک احمدی اور تیسری جماعت اسلامی، یہ ہمیں مسلمان کرنے آئے ہیں میں نے پوچھا آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو انہوں نے بڑے تلخ جواب تینوں کے بارے میںتینوں کو شیخ الاسلام نے ردکیا ان کی کیا حیثیت ہے یہ ہمیں اسلام سکھانے آئے ہیں اور ہم نے یورپ کی سرزمین میں اسلام کا جھنڈا گاڑا تھا ان کو تو اتنی بھی توفیق نہیں 

شیخ عبدالرشید: اگر اجتہاد نہیں ہو رہا یا نہیں ہونے کا امکان ، جمہوریت پنپ نہیں سکتی مسلمان پچھے 1500 سال سے کوئی اسلامی نظام قائم کرنے میں ناکام رہے تو ایسی صورتحال میں مسلمانوں کا آگے مقدر کیا ہو گا ؟ 

جاوید اقبال: میں تو ایک طرح سے بہت مایوس آدمی ہوں میں علامہ صاحب کی طرح رجائی نہیں ہوں چونکہ ان کے سامنے تو ایک مردہ قوم تھی انہوں نے اپنی طرف سے جگانے کی کوشش کی ہے خودی کا فلسفہ پیش کیا جس کو آپ تسلیم ہی نہیں کرتے جس کو پنجابی میں کہتے ہیں نا ”ڈھڈوں مننا“ وہ نہیں کرتے ہم، خودی کاتصور آپ نے قبول نہیں کیا ۔ہم تو خودی مارنے کے قائل ہیں اور ہمیشہ مارتے رہے ہیں ہم تو صوفیاءکی وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں ورنہ تو ہندو رہتے ہمیں علماءنے مسلمان نہیں کیا تبلیغ سے مسلمان نہیں ہوئے ہم تو محبت سے ہوئے ہیں جو مظاہرہ ہمارے سامنے صوفیاءنے کیا انکی محبت نے زیر کیا ہمیں ورنہ میرے والدین بزرگ تو برہمن تھے ہم کیسے مسلمان ہو پائے دوسری صورت جو ہے جس کی وجہ سے فیوچر نظر نہیں آرہا مجھے بار بار ایسے ہی خیال آتا ہے سوتے وقت جب نیند نہیں آتی اور ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ہم معتوب ہو چکے ہیں اﷲ کی نگاہ میں ۔ یہ جس طرح کے طوفان، وبائیں، زلزلے آرہے ہیں آپ قرآن مجید دیکھیں تو اسی طرح کے پرانی اقوام کا ذکر ہے جو ختم ہو گئیں اور برباد کر دی گئیں اسی طرح ہمارا حشر تو نہیں ہو رہا ۔ یہ نہیں ہے کہ ہم خدا کے احکام کی پیروی نہیں کر رہے اس سے منحرف بھی نہیں ہو رہے حقیقت یہ ہے کہ ان کی پیروی جس طرح کی جانی چاہئے وہ نہیں ہو رہی اور وہ اجتہاد ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم پر عتاب الہی نازل ہو رہا ہے وہ یہی ہے کہ ہم اس طرف نہیںآ رہے ہم پیچھے رہنے والی قوموں کی طرح رہ گئے ہیںعلامہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ ایک ایسی کتاب ہے جو بہت کم سمجھی گئی ہے اس کے آخر میںخدا کے حضور جو گستاخی کرتے ہیں وہاں پر جو ان کی گستاخانہ گفتگو ہے اس میں خدا ان سے مخاطب ہو کے کہتا ہے کہ ہماری نگاہ میں جو مسلمان Creative نہیں ہے یعنی خلّاق نہیں اس نے ہمارے جمال میں سے حصہ نہیں لیا وہ کافر ہے اور زندیق ہے یہ خدا کہہ رہا ہے اقبال کو .... اب خدا کا جمال اور اس میں حصہ لینا Is to be a creative اور جو علامہ صاحب کا اصرار ہے اور پھر علامہ صاحب آخری سوال کرتے ہیں مجھے بتاﺅ آگے مستقبل کیا ہے اسلام کا اور مسلمانوں کا .... اس پر خدا ناراض ہو جاتا ہے اور ان کو کہتا ہے کہ تیری وجہ سے یہ مہ خانہ جو ہے ذلیل ہو گیا ہے تمہیں ڈھنگ ہی نہیں شراب پینے کاچلے جاﺅ یہاں سے .... اﷲ نے کوئی جواب نہیں دیا کہ مستقبل کیا ہو گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل تو خود بناﺅ گے ۔ وہ خدا نہیں بنائے گا۔ اقبال کا جو تصور تقدیر ہے اس میں وہ کہتے ہیں کہ خدا کی مشیت ہی نہیں یہ جاننے کی کہ آگے کیا کرنا ہے اس کو یہ پتہ ہے کہ تمہارے سامنے کتنے رستے کھلے ہیںوہ یہ سب جانتا ہے لیکن وہ کونسا رستہ ہے جو تم نے چننا ہے یہ اسکی اپنی مشیت نہیں جاننے کی۔ سزا و جزا کا مسئلہ ہی ختم ہو جاتا ہے یہ ساری باتیں نوجوانوں کو بتانے کی ہیں اور یہی لکھنے لکھانے کی باتیں ہیں یہی لیکچرز کی باتیں ہیں اور یہی ہم نہیں کر رہے۔ 

شیخ عبدالرشید: کلونیل ہندوستان میں علامہ نے مسئلے کا حل ایک مسلم ریاست کی صورت میں پیش کیا ہندوستان کے اندر مسلم ریاست ،کیا مسلمانان ہند کے سیاسی مسائل کا کُلّی حل تھی ....؟ 

جاوید اقبال: دیکھئے جہاں تک خطبہ الہ آباد کا تعلق ہے آپ اس بات پر بھی غور کریں کہ پاکستان کس نے بنایا میں کہتا ہوں یہ ہندو ¶ں نے بنایا ہے یہ ہم نے بنایا ہی نہیں ۔ہم اس قابل ہی نہیں میرا استدلال یہ ہے کہ اس طرح ہندو ¶ں نے بنایا جہاں تک الہ آباد کا خطبہ ہے اس میں تو علیحدگی کا تصور ہی نہیں ہے۔ آپ آلہٰ آباد کا خطبہ ایک طرف رکھیں اور کیبنٹ مشن پلان جو جناح نے قبول کیا تھا اس کو سامنے رکھیں وہ بالکل یہی ہے یعنی ہندوستانی یونین کے اندر کامل خود مختاری یہ تصور تھا جو جناح نے قبول کیا اور نہرو نے رد کیا ۔اب ہندو خود مان رہے ہیں آپ جسونت سنگھ کی کتاب پڑھیں، مولانا ابو کلام آزاد کی کتابIndia Wins Freedom کا وہ حصہ پڑھیںجو انہوں نے کہا تھا کہ میری موت کے بعد شائع کیا جائے وہ سارے اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں یہ ضروری نہیں تھا اب کینیڈامیں مونٹریال کے ایریا میں Qubec کا علاقہ ہے جسے French Canada کہتے ہیں وہ اسکی خود مختاری قبول کرنے کو تیار ہیں یہ ایک طرح کی کنفیڈریشن کا تصور ہے آپ ایسی کنفیڈریشن کی طرز پر بھی سوچ سکتے ہو یونین رکھ سکتے ہو میری تو یہ تجویز ہے میرا کوئی سیاست سے تعلق نہیں ہے لیکن میری ایک فکری تجویز ہے کہ ہمیں دنیائے اسلام کو چھوڑنا چاہئے ہمارے ساتھ کہیں بھی ان کی مطابقت نہیں ہے ۔اگر انڈیا کشمیر کو وہ status دینے کو تیار نہیں جو اس وقت نیپال کا ہے یا بھوٹان کا ہے تو ہم اپنا حصہ اس کشمیر میں شامل کر دیں اور کشمیر کو خود مختار ریاست بننے دیںاسی طرح کی خود مختاری ہو جیسے نیپال ، بھوٹان ۔پھر پاکستان ، انڈیا، سری لنکا اور تمام لوگ جمع ہو کے Union کیوں نہیں بنا سکتے اور چائنہ اور رشیا اس کے ضامن ہوں انڈیا کو ویسٹ تیار کر رہا ہے چائنہ سے لڑانے کے لیے تاکہ ان کے بندے مارے جائیں اور انڈیا سے روس کے بھی فاصلے ہوتے جا رہے ہیں اسی بنا پر کیونکہ یہاں امریکہ سرمایہ کاری انویسٹ کر رہا ہے ۔آپ لوگوں کو تو اس لیے ساتھ رکھا ہوا ہے کیونکہ آپ کی سٹریٹجک اہمیت ہے ۔ آپ چائنہ کے بہت قریب ہیں ۔ جب چائنہ سے کوئی بات چیت کرنی ہوتی ہے تو وہ آپ کو استعمال کر سکتے ہیں آپ کا رستہ استعمال کر سکتے ہیں آپ کو اس لیےاعتماد میں رکھا ہوا ہے فرض کیجئے یہ یونین وجود میں آجاتی ہے تو پھر ہم مغرب پر انحصار نہیں کریں گے۔ ویسے بھی اب آپ کے ایچیسن کالج میں چائنیز سیکھنا ضروری ہو گیا ہے یہی چیزیں آپ چائنہ سے سیکھ سکتے ہو، یہی چیزیں آپ جاپان سے سیکھ سکتے ہو اگر مغربآپ کو نہیں قبول کرتا تو نہ سہی مگر میں سمجھتا ہوں ہم اپنا تعلق مغرب سے قائم رکھتے ہوئے بھی سیاسی طور پر یہ یونین اپنی اغراض کی خاطر بنا سکتے ہیں اور میرے خیال میں یہ ایک مثبت قدم ہو گا ۔ اس میں صرف انڈیا ایک بڑی ریاست ہے اور یہ ایک Unusual position ہے ۔ 
سو آپ نے ایک جدید ویسٹرن تصور کو اسلامائز کر دیا ہے یعنی نیشنل ازم کے ختنے کر کے پاکستان بنا لیا ہے اب نیشنل ازم کی اسلامائزیشن ہو گئی اور اس کی بنیاد پر آپ نے ایک قوم وجود میں لا دی اور قوم وطن سے پہلے وجود میں آگئی قائداعظم کے الفاظ ہیں Nation do not exist in the air پاکستان تو اس وجہ سے بنا ہے اور اس میں بھی جن مراحل سے یہ گذرا ہے مثلاً یہ جو الہ آباد والی سٹیج ہے خطبے کی جیسا کہ دونوں کے ایک فوج کا تصور ....
جناح پر سب سے زیادہ مسلم لیگ کونسل میں اعتراض کرنے والے ایک شاعر تھے جنہیں ایم کیو ایم والے کہتے ہیں کہ حسرت موہانی ہمارے قومی شاعر ہیں ۔ حسرت موہانی نے قائداعظم کو مذاق کے طور پر اور طعنے کے طور پر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ We are committed for Pakistan as a separate state اور تم ہمیں کہہ رہے ہو کہ ہم یہ کیبنٹ مشن پلان قبول کر لیں گے قائداعظم نے یہ جواب دیا تھا you are gainer in this way because you are getting full Punjab and bangal ۔ لیکن اس وقت بھی اعتراض کرنے والے مسلمان ہی تھے جنہوں نے مسلم لیگ کونسل میں اعتراض کیاIt was overruled کیونکہ قائداعظم کہتے ہیں اس کو قبول کر لو اس میں فائدہ ہے ۔ اب جسونت لکھ رہا ہے کہ ہم اگر اس وقت مان لیتے تو ہندوستان میں ضرورت ہی نہ ہوتی پاکستان بنانے کی۔ اور میرے جیسے لوگ کہہ رہے ہیں کہ نہیں جی یہ تو آپ نے بنایا ہے پچھلے دنوںانڈیا سے ایک ٹی وی چینل والے میرا انٹرویو کرنے آئے ہوئے تھے میں نے ان کو بتایا کہ جی پاکستان تو آپ لوگ وں نے بنایا ہے پنڈت نہرو نے بنایا ہے ہم تو آپ کے ساتھ بغل گیر ہونا چاہتے تھے کہنے لگے اب کیا دیر ہے میں نے بتایا آپ سوچو تو سہی دیر اب بھی کوئی نہیں ہے ۔ میں نے اُن کو بتایا کہ مسئلہ ہمارا اب بھی کشمیر ہی ہے اب بھی دیر نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ یورپین یونین تو ہم اب بھی بنا سکتے ہیں میں اب بھی کہتا ہوں کہ جو علامہ اقبال کا خواب تھا وہ پورا نہیں ہوا یہ نہیں کہ وہ میرے خواب میں آتے ہیں میں تو خود سمجھتا ہوں میرا زندگی میں کوئی جواز نہیں ہے ایک جگہ پر انہوں نے کہیں لکھ رکھا ہے اس میں ایک جگہ انہوں نے لکھا کہ ایک دم دار ستارہ طلوع ہوا تو اس میں یہ کلیم کر رہے ہیں کہ یہ ستارہ دیکھ کر مجھے احساس ہوااپنی کمتری کا کہ میری کیا حیثیت ہے حالانکہ خودی کے پیامبر ہیں مجھے اسکو دیکھ کر احساس ہوا کہ خدا نے یہ کیا چیز بنائی ہوئی ہے اور یہ کائنات میں اس طرح پھر رہی ہے اور کہتے ہیں کہ یہ دوبارہ 183 سالوں کے بعد نظر آئے گا ۔ اور لکھتے ہیں کہ شاید یہ میں اپنے بیٹے یا پوتے کی آنکھوں سے دیکھ سکوں میں اپنی طرز پر سوچ رہا ہوں کہ میری زندگی میں جس طرح کے حالات ہیں ہمارا جواز کوئی نہیں ہے زندہ رہنے کا شاید علامہ میری آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں ۔ 

شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب آپ علامہ کی نظر سے دیکھ رہے ہوں پاکستان کو تو وہ پاکستان خواہ اسلام کی بنیاد پر بنا ، کمیونل مسائل کی وجہ سے بنا یا معاشی بحران کے سبب جیسے بھی بنا مگر کیا تقسیم کے مسلمانوں کو کوئی ثمرات بھی ملے .... ؟ 

جاوید اقبال: ثمرات تو یقیناملے یہاں تو لوگ کہتے ہیں کہ ہندو چلا گیا مگر ہمارا ایمان لے گیا یہ تو اب جتنے بھی جعلی قسم کے کلیم آپ کے ہاں ہوئے تقسیم کے وقت اور جتنے بھی مسلمان جو باہر سے آئے تھے انہوں نے مبالغے سے جو کچھ بھی لیا وہ تو ضرورت تھی میں سمجھتا ہوں کہ ہم میں بہت سی غلاظتیں ہیں جن میں ہم ملوث ہیں ان سب چیزوں کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم ابھی زوال کی کیفیت سے باہر نہیں نکلے وہی جو علامہ نے کہا تھا کہ کسی نہ کسی شکل میں ملوکیت رہے گی کسی نہ کسی شکل میں یہاں پر جو بھی نظام سرمایہ دار ، جاگیر دار کے ہاتھوں میں رہے گا انہیں ہمیشہ مُلا کی سپورٹ رہے گی چونکہ قدماءکے نزدیک اسلام کا کوئی سوشل آرڈر نہیں سوائے فقر کے ۔ یعنی ذرائع آمدنی ریاست کی مضبوطی کے لیے آپ مجھے یہ بتائیے اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز جو خلیفہ تھے ان کو کیوں قتل کروایا کیوں زہر دلوایا وہ کہتے ہیں تھے جزیہ نہ لو ان کو مسلمان کرو اور ان لوگوں نے کہا کہ جزیہ تو سٹیٹ کی ایک آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے ۔اگر آپ کی زمین ہے تو عُشر لیتی تھی اور غیر مسلمانوں سے پر ہیڈ جزیہ لیتی تھی جو کہ اصلی آمدنی کا ذریعہ تھا اور اس کے علاوہ خراج لیتی تھی۔ اور تیسری چیز غنیمہ۔ 
شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب اسی طرح دو طرفہ رائے ایک اور بھی ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قائداعظم سیکولر معاشرت کے علمبردار تھے اور حضرت علامہ کا مسلم نشاط ثانیہ سے تعلق ہے ....؟ 
جاوید اقبال: یہ بالکل درست ہے میں نہیں سمجھتا کہ قائداعظم سیکولرازم کے مخالف تھے یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم کی اپنی زندگی سیکولر تھی اور دوسری بات یہ ہے کہ قائداعظم کو اگر یقین تھا تو صرف جمہوریت پر ۔ اگر جمہوریت کے تحت کوئی ایسا قانون بناتے ہیں جو کہ آپ کی نگاہ میں اسلامی ہو وہ آپ لے آئیںImplement کر لیں ۔ ریاست کے سوال کا قائد نے ہمیشہ جواب گھما پھرا کر دیا ہے ۔ clear جواب کبھی نہیں دیا باقی جہاں تک ان کا یہ کہنا ہے کہ In modern state, their is nothing to do with the state قائد کی جو گیارہ اگست والی تقریر میںقائد نے بیان کیا ہے یہ بنیادیں ہیں یہ کس طرح سے میثاق مدینہ کے خلاف ہے ۔ میثاق مدینہ میں یہ کیسے کہہ دیا رسول اﷲ نے ”امت الواحدہ“ اس میں یہودی بھی تھے عیسائی بھی تھے کافر بھی تھے اور مسلمان بھی تھے یہ سب لوگ امت واحدہ کس طرح ہو گئے ۔ اب صلح حدیبیہ کو دیکھیں اس میں وہ کہہ رہے تھے کہ آپ محمد رسول اﷲ کی بجائے محمد بن عبداﷲ لکھیں۔ رسول اﷲ نے حضرت علیؓ سے کہا لکھو محمد بن عبداﷲ اور پھر ہاتھ پکڑ کرمحمد بن عبداﷲ لکھوایا۔ آپ نے دیکھا جب بھی ہمارے مفاد میں ہوا ہم سیکولر ہو گئے ۔اب اگر فرض کیجئے یہاں امام بارگاہوں پر حملے شروع ہو جائیںچونکہ سنّی اکثریت میں ہیں تو کیا ہم سُنّیوں کے ساتھ مل کر شیعہ کو مارنا شروع کر دیں آپ سُنّیوں کو روکیں گے کہ ایسا مت کرو یہی سیکولر ازم ہے ۔ اسی طرح آپ اگر غیر مسلمانوں کی عبادات کو توڑیں گے تو ریاست تو روکے گی ۔ آپ کوریاست تو مل ہی نہیں سکتی سیکولرازم کے بغیر 

شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب ایک اور تصور ہے کہ گلوبلائزیشن کے تصور میں عالمگیریت کے تصور سے ریاستیں اور نظریات تحلیل ہونا شروع ہو گئے ہیں اگر ایسا مان لیا جائے تو علامہ کی ریاست اپنی جڑیں پکڑنے سے پہلے ہی اسکا شکار ہو گئی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال کا تصور ریاست عہد حاضر سے غیر متعلق ہے ؟ 

جاوید اقبال: تصور تو صرف تصور ہی ہوتا ہے اس کا تعلق تومواقع پر منحصر ہوتا ہے اور قوموں پر انحصار کرتا ہے کہ خود کو وجود میں لایا جاسکتا ہے یا نہیں جہاں تک اقبال اور جمال الدین افغانی کی سوچوں کا فرق ہے وہ ذہن میں رکھنا چاہئے وہ فرق بڑا واضح ہے جمال الدین افغانی ترک خلافت کو آئینی بنانا چاہتے تھے جس پر وہاں شیخ الاسلام نے اعتراض کیا کہ آپ خلیفہ کی پاور کو آئینی بنا کر محدود نہیں کر سکتے چونکہ وہ تو اولوالامر ہے اس کی اطاعت سارے مسلمانوں پر فرض ہے ۔ شیخ الاسلام کا فتویٰ یہ تھا کہ خلافت آئینی نہیں ہوسکتی ۔اور یہ وجہ تھی کہ آخر میں جمال الدین افغانی کوزہر دے کر مار دیا گیا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت کی تنسیخ ہو گئی ترکی سیکولر ہو گیا اب اقبال کا جو تصور اتحاد امت مسلمہ ہے جسے وہ خطبات میں بیان کرتے ہیںوہ جوفیڈریشن آف مسلم سٹیٹ ہے جس طرح یورپین یونین۔ کہ سارے آزاد مسلم ممالک جو ہیں جس کی شکل OIC کی ہے اقبال مسلمان اقوام کے اتحاد کا جدید تصور پیش کرتے ہیں دوسرا تصور وہ جو بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں اس طرح نہیں وہ یہ ہو کہ بعض مسلمان ریاستیں آپس میں اکٹھی ہو جائیں۔ مثلاً ایران، پاکستان، ترکی ، افغانستان یہ چار ریاستیںامریکہ نے ایک دفعہ اکٹھی کرائیں بھی تھیں اس وقت افغانستان شاید اس میں نہیں تھا اس طرح کا خیال تھا کہ پہلے اس طرح ہو کر آہستہ آہستہ دیگر اسلامی ممالک اس میں شامل ہونے چاہئیں اقبال کا جو تصور اسلامی ریاست کے اجتماع کا ہے اس کے لیے بھی سب سے پہلی ضرورت ہے کہ وہ مضبوط و مستحکم ہوںنیشن سٹیٹ جو اسلام کا مذہب رکھتے ہیں وہ آپس میں اکٹھی ہیں اور پھر فرماتے ہیں کہ اگر اسلامک سٹیٹ ایک دوسرے کے خلاف لڑنا شروع کر دیں جیسا کہ ایران اور عراق پھر اس یونین کو ختم کر کے اسلام کی بجائے کمیونزم کی جانب چلے جانا چاہئے۔ اب نہ تو کمیونزم ہے اور نہ ہی ایران اور عراق والی صورتحال ہے اب کی جو صورت ہے تو اس میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں ریاستوں کی یونین ممکن نہیں اور OIC جیسا اتحاد مصنوعی ہے اسی بنا پر میرا اپنا خیال یہ ہے کہ I would have to proceed further کہ OIC کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق ہے بھی تو وہ بہت Nominal۔ Because it is only effective so far as the United Nations concerned وگرنہ تو It is not important ٹھیک ہے انفرادی طور سعودی عریبیہ امداد کرتا ہے ہماری گلف سٹیٹس کرتی ہیں اور دیگر سٹیٹس بھی ہیں جو امداد کرتی ہیں البانیہ ایک مسلم سٹیٹ ہے But it is secular State بلکہ اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتے ہیں And they are collaborating with your ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی سٹیٹس کے ساتھ ہمارے بڑے اچھے روابط ہیں مثلاً ایران ہے ترکی کے ساتھ ہے بلکہ ہماری کوشش تو یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ بھی ، حالانکہ افغانستان ایک واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا United Nations میں ۔ اب اس اعتبار سے تو میں سمجھتا ہوں کہ فی الحال اقبال کے اس تخیل کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہے ہم تو اپنی یونین قائم نہیں کرسکے ابھی تک۔ 

شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب اس بات پر عمومی طور پر اتفاق ہے کہ اقبال کی فکر نے لوگوں کو بہت انسپائر کیا لیکن کیا ان کی سیاسی عملیت کا معیار بھی قائم ہوا....؟ 
جاوید اقبال: نہیں کچھ نہیں ہوا میں تو سمجھتا ہوں کہ اب تو انکی کوئی Relativity ہی نہیں ہے ان کی اپنی Importance ہی نہیں ہے اب وہ عُرس منا لیتے ہیں اسی طرح اقبال کا اور جناح کا بھی عرس منا لیتے ہیں ۔ 

شیخ عبدالرشید: اس وقت ہم قومی سطح پر جن سیاسی ، سماجی ، علمی اور فکری مسائل کے بحران کا ہم اجتماعی طور پر شکار ہیں کیا فکر اقبال میں کوئی حل بھی تجویز ہوا .... ؟ 

جاوید اقبال: فکر اقبال میں تو کئی حل ہیںسب سے پہلے تو یہ جو ویلفیئر سٹیٹ کا جو concept ہے اس پر ہم عمل کیوں نہیں کرتے اس پر ہم اکٹھے ہو کر کیوں بحث نہیں کرتے یا کیوں کچھ نہیں لکھا جاتا اس تصور پر ۔ سارے اقبال کے پرانے وہی تصورات جن پر بہت بحث ہو چکی آج کے جو مسائل ہیں ان کا حل بتاﺅ۔ اقبال کیا بتاتا ہے اس سے آگے کس طرح چلنا ہے آپ اگر ایک کتاب پڑھیں”اقبال کے حضور“نذیر نیازی کی لکھی ہوئی ہے یہ اقبال کے آخری دو تین ماہ ہیں زندگی کے ۔ 21 اپریل کو تو فوت ہو جاتے ہیں یہ مارچ تک آتی ہے یہ کتاب۔ صرف تین مہینے کور کرتی ہے اس کو آپ پڑھیں اس میں ایک بیمار آدمی ہے وہ مر رہا ہے اور علاج بھی ہو رہا ہے مگروہ بیماری کی حالت میں بھی حسین احمد مدنی کے سوالات کے جواب دے رہے ہیں کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں یا عقیدے سے بنتی ہیں اسی قسم کی بحثیںہو رہی ہیں۔ اب اس کی کوئی Relevance نہیں ہے چونکہ پاکستان تو بن چکا ہے ۔ یہ بحث اس وقت اور زمانے کے لیے تھے لیکن اب اس کی اتنی اہمیت نہیں رہی۔ اقبال کا بہت سارا مواد ایسا ہے جس کا وقت گذر چکا ہے بہت کچھ ایسا ہے جو حال پر لاگو ہوتا ہے اور بہت کچھ ایسا ہے جس کو لے کر ہمیں آگے چلنا ہے ۔ 
شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب اس وقت جو بہت بڑا مسئلہ ہے اجتماعی طور پر یہ کہتے ہیں کہ امریکی سامراج نے شرقِ بعید میں ویت نام میں اشتراکیت کا سیلاب روکا عراق میں اپنی تابعدار حکومت بنانے میں کامیاب ہوا آج مشرق وسطیٰ میں تیزی سے سامراج دوست حکومتیں قائم ہونا شروع ہو گئیں ہیں افغانستان میں طالبان سودے بازی کرنے میں مصروف ہیں ان حالات میں کہیں آپ کو حریت یا انقلاب کا تصور نظر آتا ہے ....؟ جس کی بنیاد پر ہم فکرِ اقبال کو آگے بڑھائیں .... ؟ 

جاوید اقبال: اس وقت تو مشکل کا سامنا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو مسائل ہیں جو اس وقت اُٹھ رہے ہیں یہ تو ایسے مسائل ہیں جو اٹھتے رہیں گے اور یہ حل بھی ہوتے جاتے ہیں یہ زیادہ تر سیاسی مسائل ہیں جن کا روز مرہ کی سیاست سے تعلق ہے اس کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا اقبال کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ اس طرح ان کی نگاہ نہیں تھی کہ ایک وقت آتے آتے امریکی سامراج اتنا بڑھ جائے گا اس وقت تو وہ زمانہ تھا جب ویسٹ سامراج کی آپس کی لڑائی ختم ہوئی تھی اور سوال یہ تھا کہ ویسٹ جو ہے وہ ختم ہو جائے گا جنگ کے بعد ہندوستان سے انگریز چلا جائے گا بلکہ یہ لوگ تو سوچتے تھے کہ انگریز جائے گا ہی نہیں۔ اس وقت کی باتیں کچھ اور تھیں اب حالات کچھ اور ہیں ۔ 

شیخ عبدالرشید: لیکن ان حالات میں جو پاکستان میں درپیش ہیں قیادت کا بحران ہے آپ نے تو مسلم فکر کا بھی مطالعہ کیا ، اقبال اور جناح کی فکر سے بھی آشنا ہیں پاکستانی راہنماﺅں کو پاکستانی قوم کو اس حالات سے نکلنے کے لیے کیا راہ تجویز کریں گے .... ؟ 

جاوید اقبال: ابھی تو بہت مشکل ہے بیان کرنا میں تو سمجھتا ہوں کہ یہاں ضرورت تھی کہ کوئی نہ کوئی اگر جمہوریت ہی آجاتی ہے تو کوئی نہ کوئی نیشنل گورنمنٹ فارم ہو چونکہ ہم اس وقت ایک طرح سے عالم جنگ میں ہیں اوریہ عالم جنگ خواہ آپ کی نہیں آپ نے کسی سے مستعار لے لی ہے یا آپ کی بھی ہے کئی اعتبار سے۔ کیونکہ یہ تقلید اور اجتہاد کی جنگ ہے اس اعتبارسے یہ جنگ آپ کی ہے اس میں امریکہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ اور دوسرے اعتبار سے اگر آپ دیکھو تو یہ افغانستان کا مسئلہ بھی ہے آپ نہیں چاہتے کہ افغانستان پر ہندوستان کا رسوخ ہو ۔ 
شیخ عبدالرشید: کیا آپ کے خیال میں اس وقت ٹیکنو کریٹ قسم کی حکومت ہو تو زیادہ بہتر طور پر پرفارم کرسکتی ہے ۔ ....؟ 
جاوید اقبال: ممکن ہے کیونکہ یہ تجویز آئی ہے کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت ہونی چاہئے ساتھ آرمی ہو بات یہ ہے ہماری جو Political Parties ہیں 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں