بدھ، 4 مئی، 2016

جمہوری وفاقیت کے استحکام میں اٹھارویں آئینی ترمیم کا کردار اور امکانات

جمہوری وفاقیت کے استحکام میں اٹھارویں آئینی ترمیم 
کا کردار اور امکانات 


ممتاز ماہر سیاسیات ہیرالڈ لاسکی کا ایک مضمون"The Obsolescence of Federalism"   ء میں شائع ہوا جس میں اس نے اعلان کیا تھا کہ ”وفاقیت کا عہد اپنے اختتام کو پہنچا“ اور نشاندہی کی کہ وفاقی حکومت اپنی روایتی ہیئت،وظائف کی حد بندی، غیر لچک پذیری اور فطری قدامت پسندی کے باعث زندگی کی اس رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتی جسے سرمایہ داری جیسے دیو قامت نظام نے پروان چڑھایا ہے لہذا اب غیر مرکزیت والی واحدانی حکومت بیسویں صدی کے درمیان کے حالات کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اس کے باوجود وہ مسائل جو وفاقیت کے لیے الجھن کا باعث ہیں اور وہ مسائل جو وفاقی نظام میں از خود موجود ہیں، انہیں جاننے کے باوجود دنیا نے وفاقی نظام کو نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ اس نے ترقی پذیر ملکوں میں مقبولیت بھی حاصل کی ہے۔ 
آج بھی دنیا کی آبادی کا چالیس فیصد حصہ وفاقی ممالک میں رہتا ہے وفاقی نظام ہائے حکومت کے حامل 28 ممالک میں حیرت انگیز کثیر جہتی پائی جاتی ہے ان میں نہ صرف دنیا کے متمول ترین ممالک جیسا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ بلکہ مائکرونیشیا اور سینٹ کٹس اور نیوس جیسی مختصر جزیریاتی ریاستیں بھی شامل ہیں۔ دنیا کے دس گنجان ترین ممالک میں سے چھ اور رقبے کے اعتبار سے دس بڑے ممالک میں سے آٹھ وفاقی ہیں۔سر آئیور جیننگز نے کہا تھا کہ ”کوئی بھی وفاقی نظام نظام کو نہ اپناتا، اگر وہ اس سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا“۔ دنیا میں اس وقت وفاقیت ہی بڑھتی ہوئی مقبولیت حاصل نہیں کر رہی بلکہ اس کے مآخذوں، بنیادوں اور خصوصیات کو سمجھنا بھی اہم گیا ہے۔ 
پاکستان بھی ایک وفاقی ملک ہے، کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں وفاقی نظام اچھے طریقے سے کام نہیں کر سکا کیونکہ مرکز گریز قوتوں اور مرکز مائل قوتوں میں توازن نہیں رہا۔ یہاں نظام اور مزاج کا رجحان مرکزیت کی طرف تھا جس سے و فاقی اور علاقائی عدم توازن پیدا ہوا۔ اس کے باوجود اٹھارویں آئینی ترمیم اس سفر میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی کوکھ سے جمہوری اور شراکتی وفاقیت کے استحکام کے نئے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ لیونگسٹن نے عمرانی نقطعہئ نظر سے وفاقیت کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقیت کی اصل روح اس کی دستوری اور اداراتی ساخت میں نہیں بلکہ خود معاشرے میں موجود ہوتی ہے۔ وفاقی حکومتیں اور وفاقی دساتیر کچھ محرکات کے جواب میں وجود میں آتے ہیں، چنانچہ یہ نظام شعوری طور پر اختیار کیا جاتا ہے تاکہ وہ ان مسائل کو حل کر سکے جو ان محرکات کے ترجمان اور نمائندہ ہوتے ہیں۔پاکستان میں جمہوری وفاقیت کو شعوری طور پر اپنانے اور اس کے فروغ کے لیے علمی مکالمہ ناگذیر ہے۔اس حوالے سے پاکستان کی نامور جامعہ گجرات اپنے کردار کے حوالے سے قومی دانش گاہ کا کردار ادا کرتی نظر آرہی ہے۔ حسب روایت حساس آئینی اور اہم قومی مسئلے سے نسل نو کو آگاہ کرنے کے لیے یونیورسٹی آف گجرات کی وژنری اور محب وطن قیادت نے خصوصی لیکچر کا اہتمام کیا۔ شعبہ ئسیاسیات و بین الاقوامی تعلقات کے زیر اہتمام تقریب میں قائداعظم محمد علی جناح کے اے ڈی سی میاں عطاء ربانی کے دانشور صاحبزادے وفاق کے نمائندہ ادارے سینٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کو موضوع پر گفتگو کے لیے مدعو کیا سابق وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری قمر زمان کائرہ، ایم پی اے میجر معین نواز اور چوہدری شبیر احمد،ڈی سی او لیاقت علی چٹھہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ علم دوست وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء القیوم نے سینئر سٹاف کے ہمراہ مہمانوں کا والہانہ استقبال کیا۔ 

دانش گاہیں وہ ہوتی ہیں جنہیں دانشوروں کی میزبانی کا شرف حاصل ہو،جامعہ گجرات میں قومی اہمیت کے حامل موضوعات پر دانشوروں کی آمد کی روایت پختہ اور قابل تحسین ہے۔پاک سرزمین کو شاد باد رکھنا اور منزلِ مرادتک پہنچانا جن کی ذمہ داری تھی وہ پروڈا، اورایبڈو جیسے قوانین کا رزق ہو گئے، قومی یکجہتی کی علامت قیادت کے حوالے سے قحط الرجال کے اس دور میں کہیں کہیں اُمید کے کچھ جزیر ے ہیں جہاں سے وفاقیت کے کچھ علمبردار ہر تاریک رات میں اپنے عہد کا دیا جلا کر راہبری کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ ان آشفتہ سروں کی کاوشیں ہیں کہ بلوچستان کی محرومی کا تریاق ہو چلا ہے، ڈرون کی جنگ اپنے انجام کو پہنچی ہے اور سب سے بڑھ کر۔۔۔کوئی ایسا بھی ہے جو زمیں زاد ہے، رضا ربانی جیسے سنجیدہ فکر پاکستانی نہ صرف جمہور کی اُمید ہیں بلکہ جمہوریت کی آس بھی ہیں۔ ان کی آمد سے تقریب میں پاکستانیت اور وفاقیت کا رنگ نمایاں ہو گیا۔ صدر ِ شعبہئ سیاسیات ڈاکٹر مشتاق احمد نے اختصار و جامعیت سے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ وفاق اور وفاقیت کا تعارف کروایا۔ گلگت  بلتستان کے سابق گورنر چوہدری قمر زمان کائرہ جو تکلم کی جولانی اور گفتگو کی روانی کے حوالے سے شہرت عام رکھتے ہیں اُنہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم نے پاکستان میں صوبوں، اکائیوں اور مرکز کے درمیان تناؤ کم کرکے اعتماد کی فضا کو بحال کیا ہے۔ پاکستان قائدا عظم کے وفاقیت پر کامل یقین کے ساتھ ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ غیر متوازن قوتیں نظام کے بہتر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ بنی ہیں۔ کڑے مرحلے پر رضا ربانی نے بطور چیئرمین کمیٹی وفاقیت کے استحکام کے لیے اکائیوں کو بہت کچھ لوٹا یا،ہماری قومی سیاسی اور آئینی تاریخ میں ان کا اجتہادی کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جا ئے گا۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے اپنے خصوصی خطاب میں زور دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی ممالک کے پاس حکومتوں کے درمیان بڑی حد تک باہمی انحصاری ہوتی ہے۔ سیاستدان، سرکاری ملازمین، شہری اور دیگر حصے دار اپنے اپنے دائروں میں نتائج پر کس طرح اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں یہ چیز ایک وفاق کی سیاسی زندگی کے قلب تک جاتی ہے۔ وہ جمہوریتیں اور وفاقی نظام جن کو یکجہتی کے چیلنج کا سامنا ہو، ایک مثبت سیاسی قومیت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ وفاقیت کی طرف بتدریج بڑھتا ہوا رُحجان جمہوری انتظام کاری کے پھیلاؤ کے نتیجے میں اُبھرا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لیے ابھی بڑی تگ و دو کی ضرورت ہے۔ عوام اور اکائیوں کے حقوق کا تحفظ ریاست پاکستان کا استحکام ہے۔ ہماری تہذیب اور ریاست مختلف صوبوں  سے جنم لیتی ہے۔ اُنہوں نے قائد اعظم کی حصولِ پاکستان کی جدوجہدکے تصور اور 11اگست1947ء کی پالیسی ساز تقریر سے وفاقِ پاکستان کی روح کو کشید کیا اور بتایا کہ تاریخ پاکستان میں اتحاد و اختلاف کے مستقبل بدلتے ہوئے دباؤ کے مقابل پاکستان میں وفاقی نظام ایک انتہا سے دوسری انتہا تک ڈانواں ڈول رہا، غیر متوان قوتیں نظام کے بہتر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ بنی رہیں۔ مرکزیت پسند حکومتیں قومی یکجہتی کا شعور بیدار نہ کر سکیں۔ ایسے میں اٹھارویں ترمیم خاصی اہمیت کی حامل ہے اس نے اکائیوں کو ان کے اصل مقام سے آگاہ کیا اور صوبائی خود مختاری کے تکنیکی اور آئینی معاملات پر سے گرد صاف کر دی گئی۔ صدرِ محفل ڈاکٹر ضیاء القیوم نے کہا کہ وفاقیت ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے متفرق لسانی اور ثقافتی گروہوں کو ایک عمومی مرکزی حکومت کے تحت متحد کرکے اتحاد و اختلاف کی متصادم قوتوں کو ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ کثیر نسلی اور کثیر اللسانی معاشرے ہی وفاقی ہوتے ہیں پاکستان کا معاشرہ وفاق کی خصوصیات کا حامل ہے۔ بانیان پاکستان کے تفکر میں وفاقی نظام وہ واحد ممکن العمل طریقہ کار تھا جس کے ذریعے اتحاد اور اختلاف کے متصادم دباؤوں کے درمیان توازن قائم رکھا جا سکتا تھا۔ اتحاد یا اختلاف کی قوتیں جیسی بھی ہوں ان کو مناسب طور پر متوازن ہونا چاہیے تاکہ نظام چلتا رہے یہ ایک نازک معاملہ ہے، لیکن رضاربانی جیسے اٹھارویں ترمیم کے تخلیق کاروں نے پاکستان میں وفاقیت کو مرکزیت میں بدلنے سے روکنے کے لیے تاریخ ساز کردار ادا کیا، اٹھارویں ترمیم کی کوکھ سے مستحکم وفاق اور خوشحال پاکستان کے نئے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نسل نو تک اس روشنی کو پہنچائیں اور انہیں حقیقی جمہوری و وفاقی اقدار سے روشناس کرائیں۔ جامعات اس حوالے سے مثبت اور متحرک کردار ادا کر سکتی ہیں۔ جامعہ گجرات قومی ذمہ داریوں سے آگاہ دانش گاہ ہے ہم اس حوالے سے پاکستانیت کے تقاضوں سے عہدہ برآہ ہونے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھیں گے۔ سوال و جواب کے فکر انگیز سیشن نے نئے سوالات اُٹھائے اور مہمان مقرر نے بھرپور جواب دئیے۔ سوال و جواب کی اُلجھنوں میں پاکستان میں جمہوری وفاقیت کی گتھی سلجھتی ہوئی دکھائی دینے لگی تو پنڈال پر زور تالیوں سے گونج اُٹھا۔ 
ٍ تکثیری معاشرے میں چھوٹی اکائیوں کا بڑے صوبوں سے خائف رہنا کوئی غیر معمولی مظہر نہیں یہ احساس کینیڈا و بھارت سمیت تمام وفاقی معاشروں میں مختلف درجوں میں پایا جاتا ہے۔ تاہم یہ احساس نظام کے استحکام کے لیے اس وقت خطرہ بن جاتا ہے جب چھوٹے علاقوں کے شکوک و شہبات اور بے اعتمادی ایک زبردست عدم تحفظ کے احساس میں تبدیل ہو جائے۔ پاکستان میں وفاقیت کی ڈولتی کشتی کو پار لگانے کے لیے اٹھارویں ترمیم اہم موڑ ہے اس سے نئے امکانات اُبھر کر روشن مستقبل کی اُمید کو جنم دے رہے ہیں۔ بلاشہ ہمارے ہاں جمہوری وفاقیت عمدگی سے کام نہیں کر سکی یاا سے ٹھیک طرح سے کام کرنے نہیں دیا گیا، اس سے نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ وفاقیت ملک کے لیے موزوں نہیں۔ پاکستان میں وفاقی معاشرہ اپنے شدید ثقافتی و لسانی اختلافات کے ساتھ موجود ہے اس کے لیے جمہوری وفاق کا فروغ ناگذیر ہے حقیقی وفاق اور خالص جمہوریت کے علاوہ کوئی نظام اس معاشرے کی بقا کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اٹھارویں ترمیم سے وا ہونے والے نئے امکانات کو پروان چڑھانے کے لیے ساز گار حالات پیدا اور فراہم کیے جائیں جو اس کے کامیاب عمل درآمد کے لیے ممدو معاون اور لازمی ہیں۔ 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں