منگل، 16 دسمبر، 2014

اس بے ثمر فساد سے مخلوق تنگ ہے



قدیم بغداد کے ایک نامور واعظ ابن السماک تھے انہوں نے ایک دفعہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا”لا تحرق و جھک فی النار“ یعنی ایسا نہ کرو کہ تمہارا چہرہ آگ میں جلے ۔ یہ بات میں کسی کو کہہ تو نہیں سکتا، لیکن یہ الفاظ مجھے 15 دسمبر کو لاہور میں تحریک انصاف کے ”لاہور بند کرنے“ کی حکمت اور حکمت عملی کو دیکھ کر بہت یاد آئے ۔ یہ جماعت تبدیلی کے نعرے کی علمبردار ہے اور پاکستانی یوتھ کی بڑی تعداد اس تبدیلی کے لیے ان کے ساتھ ہونے کی دعویدار بھی ہے ۔ تبدیلی کا عمل محض تبدیلی برائے تبدیلی ہو تو اس کے لیے جوش و جذبہ کافی ہے کیونکہ بے راہ جذبہ بے ہنگم صورتحال کو جنم دے کر تبدیلی تو پیدا کر دیتا ہے مگر مثبت اور پائیدار تبدیلی کے لیے بے ہنگم جذبات ہی کافی نہیں ہوتے۔ سنبھل کر، سمجھ کر آگے برھنا پڑتا ہے اور تدبر و تفکر کو تیاگ کر یوتھ کو کھلی چھٹی دے دی جائے تو وہی ہوتا ہے جو لاہور میں ہوا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ طاقت اپنے زور کے کے بھدے پن میں چابی کو بے کار سمجھ کر ، کلہاڑے سے کام لینے لگتی ہے ۔ احتجاج کے نام پر جس طرح شہریوں کے بنیادی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں ، سڑکیں اس طرح بند کی جا رہی ہیںکہ ایمبولینسوں میں مریض دم توڑنے لگے ہیں۔ مدہوشی اتنی کہ ”ٹائیگرز“ غیرت کی حدیں پھلانگ کر اپنے ساتھ شریک احتجاج خواتین کی چادر میلی کرنے کے در پہ نظر آنے لگے ہیں۔ خواتین اور صحافیوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی کاروبار بند او رمعمولات زندگی متاثر، یہ کوئی کارنامہ نہیں۔ کوئی بھی بے ہنگم ہجوم کہیں بھی نکل آئے ایسے نتائج سامنے آجاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت ہر وقت مغربی جمہوریتوں کا حوالہ دیتی ہے کیا یورپ میں کوئی احتجاج کے نام پر سڑکیں بند کر سکتا ہے ۔ تشدد کی زبان، تشدد کا مزاج، الامان، الحفیظ،وہ دو بچے جو کل کے احتجاج کی بھینٹ چڑھے ان کی قبروں پر تبدیلی کا نعرہ ان الفاظ میںرقم ہوا ہے کہ پھول مرجھا کر آہ بھرتا ہے کہ بہار ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئی ۔ 
ٹیگور نے کہا تھا کہ دنیا زیادہ تر اپنے ہی بہی خواہ کے بے نیاز تشدد سے پریشان رہتی ہے ۔ لاہور میں خواتین اور خاتون صحافیوں کے ساتھ جو کیا گیا اس سے ہر غیرت مند کا سر ندامت اور شرم سے جھک گیا ۔جب پاکستان کی بیٹی کروڑوں لوگوں کے سامنے رونے لگی، اس کو رونے پر مجبور کر دیا گیا ۔ پی ٹی آئی کو کسی ادارے سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ورکنگ جرنلسٹس کے ساتھ بے ہودہ سلوک، یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے ۔ PFUJ کے مطابق ایسے 69 واقعات ہو چکے ہیں۔ ماریہ میمن، ثنا مرزا، امین حفیظ، سہیل وڑائچ، جواد ملک ، مسعود رضا ہر کسی کے ساتھ ناروا سلوک، مسلسل سلوک قابل مذمت ہے ۔ لاہور کا منظر نامہ کئی سوالات کو جنم دے رہا تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف نے ”سیاسی شعور“ دیا ہو مگر اس سیاسی شعور نے اخلاقیات اور اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے ۔ لاہور بند کر کے عمران کی انا شاید جیت گئی ہو ، مگر پاکستانی سماج اور ریاست کی ہار ہوئی ہے ۔ 
پھر اقتدار کے مصروف جنگ ہیں
وہ لوگ جن کے ہاتھ میں وعدوں کے سنگ ہیں 
جس نسل کے ذریعے تبدیلی کی امید کی جا رہی ہے اسکا کھلنڈرا پن ابھر کر سامنے آگیا ہے ۔ وہ نسل جس نے نئے پاکستان کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے وہ نسل اپنی عزتوں کے دو پٹے اچھال رہی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ تبدیلی دھاندلی دھاندلی کا راگ الاپنے سے نہیں آتی۔ یہ قیادت کے تاثر کا نتیجہ ہے ۔ دھاندلی سیاست سے عوام اکتا گئے ہیں 
اس بے ثمر فساد سے مخلوق تنگ ہے 
یہ جنگ صرف بانجھ اناﺅں کی جنگ ہے 
کہتے ہیں کہ خطائیں صداقت کی ہمسایہ ہیں اور اکثر ہمیں فریب دیتی ہیں۔ خانصاحب کی سیاست اور اس کے کھلنڈرے اثرات دیکھ کر Frank Lloy Wright کا قول یاد آرہا ہے کہ The anything wrong with architecture is architects۔ 
یعنی تعمیر میں واحد غلط چیز اس کے معمار ہیں۔ معمار اگر غیر دانش مند و غیر سنجیدہ ہو تو قوم کی تعمیر ممکن نہیں۔ اٹھارویں صدی کے اٹلی کے ممتاز دانشور کا ¶نٹ یوٹونیو نے اپنی کتاب ”ڈیلا امیڈے“ کے نام سے لکھی ہے ۔ اس میں مصنف نے تشدد، تخریب اور ہتھیاروں کے ذریعے تبدیلی لانے سے پہلے ذہن اور شعور میں انقلاب لانے کا فلسفہ بیان کیا ہے ۔تبدیلی کی خواہش متشدد خیالات اور بے ضبط اعمال کے راستے پر چل نکلے تو اندھا دھند فتنہ بن کر قوم و ملک کو تباہ کر دیتی ہے ۔ 
بڑے لیڈر کسی بڑی مصیبت کی پیداوار ہوتے ہیں اور اپنے بعد کوئی بڑی مصیبت چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے لیڈر منفی نعروں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ پر جوش تقریریں کر کے فوراًعوام میں مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔ ایسے لیڈر قوم کو ایک گڑھے سے بچانے کے نام پر دوسرے گھڑے میں گرا دیتے ہیں۔ سماجی و سیاسی زندگی میں غصہ اور تلخی پیدا ہونا غیر معمولی بات نہیں مگر اس کے اظہار کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ غصے کو غصہ کی شکل میں ظاہر کیا جائے، دوسرا یہ کہ غصہ کو برداشت کی شکل دی جائے۔ غصہ کو برداشت کی شکل میں ظاہر کرنا مفید رہتا ہے مگر جو لوگ غصہ برداشت نہ کر سکیں انہیں اس سے بھی زیادہ بُری چیز برداشت کرنا پڑتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ غصہ کو غصہ کی شکل میں ظاہر کرنا صرف ان لوگوں کے لیے مفید ہے جنہیں اپنے نفع نقصان کا کوئی درد نہ ہو ۔ ژاںساپال سارتر نے جو بات تشدد کے بارے میں کہی ہے وہی غصہ کے بارے میں صحیح ہے ۔ اس نے کہا تھا کہ تشدد ان لوگوں کے لیے موزوں ہے جو اپنے کھونے کے لیے کچھ نہ رکھتے ہوں۔ خانصاحب کے غصے میں نفرت اور حسد بھی شامل ہے ۔ وہ اس کا اظہار کرنے میں کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔ فرانسس بیکن نے کہا تھا کہ حسد کی تعطیل کا دن نہیں ہوتا ۔ 
کہتے ہیں کہ زنجیر کی مضبوطی اس کی کمزور ترین کڑی کے ذریعے جانچی جاتی ہے ۔ کسی چیز کی تمام کڑیاں مضبوط ہوں اور صرف ایک کڑی کمزور ہو تو زنجیر وہیں سے ٹوٹے گی اور پھر اس کا انجام تمام کڑیوں کی کمزوری کی صورت میں ہو گا ۔ لاہور کے واقعات میں پی ٹی آئی کے مضبوط لوگ نہ سہی کمزور ہی شامل تھے پھر یہ کمزوری اس جماعت کی حقیقی کمزوری کی نمائندہ ہے ۔ لیکن ایسی باتیں تو ہوشمندوں کے لیے ہوتی ہیں ۔ جوش تو بے مہار ہوتا ہے ۔ جو سوچ کر نہ سمجھے وہ دیکھ کر بھی نہیں سمجھ سکتا ۔ جس شخص کی عقل اس کو نہ بتائے، اس کی آنکھ بھی اس کو نہیں بتا سکتی، قرآن مجید کے الفاظ میں آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل کے اندھے ہوتے ہیں ، جو سینوں کے اندر ہے۔ بلاشبہ دانا سکھانا جانتے ہیں اور ناداں بھلانا جانتے ہیں۔ 
جوش کے علمبرداروں سے عرض یہ ہے کہ ناکام شخص وہ ہے جس نے ایک غلطی کی مگر وہ اس قابل نہیں کہ اپنی غلطی سے تجربہ حاصل کر سکے ۔ غلطی سے آدمی اگر کوئی سبق سیکھ سکے تو وہ غلطی نہیں۔ غلطی دراصل وہ ہے جو آدمی کو سبق تک پہنچائے اور جو اس کے شعور میں اضافہ کا باعث ہو ۔ مگر جوشیلے نوجوان اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے عذر گناہ تلاش کرنے میں سارا زور صرف کر رہے ہیں۔ وہ سازشی تھیوری کے ذریعے ندامت کا داغ دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ واہ کیا بات ہے اپنی سیاہی کے دھبوں کو جائز ٹھہرانے کے لیے، لوگ دن کو رات کہتے ہیں۔ 
آپ ہی اپنی ادا ¶ں پر ذرا غور کریں 
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی 
عمران خاں نے تمام طبقوں کو بیک وقت ساتھ ملانے کی جذباتی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ بغداد کے واعظ ابن السماک کی ایک ذہین خادمہ تھی ۔ السماک نے ایک بار پوچھا کہ میرا وعظ کیسا ہوتا ہے ؟ اس نے جواب دیا آپ کا وعظ تو بہت اچھا ہوتا ہے مگر آپ ایک بات کو بار بار کہتے ہیں، اس طرح آپ کا وعظ بہت لمبا ہو جاتاہے۔ ابن السماک نے کہا کہ میری مجلس میں خواص بھی ہوتے ہیں اور عام بھی ۔ میں بات کی تفصیل اس لیے زیادہ کرتا ہوں کہ جو عوام ہیں وہ میری بات سمجھ جائیں۔ خادمہ نے جواب دیا ! جب تک عوام سمجھیں گے اس وقت تک خواص اکتا چکے ہوں گے ۔ اس معاملے میں بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے لیے کسی ایک گروہ کا انتخاب کرے ، اگر اس نے دونوں گروہوںکو مخاطب بنانے کی کوشش کی تو ایک گروہ کے تقاضے پورے کرتے کرتے دوسرا گروہ ناراض ہو جائے گا ۔ خان صاحب کو بھی سوچنا ہو گا وہ کن طبقوں کے ذریعے تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ پلان سی دیکھ کر یاد آتا ہے کہ کسی نے کہا تھا 
قیاس کن زگلستان من بہار مرا 
(میرے گلستان سے اندازہ کرلے، میری بہار کیسے ہو گی )


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں