جمعہ، 12 دسمبر، 2014

جوش کو ہوش کے تابع رکھنا ضروری ہے



ایک عربی شاعر نے کہا تھا کہ 
و اذا الحبیب اتی بذنب واحد
جاء ت محاسنہ بالف شفیع

یعنی اور جب محبوب سے کوئی برائی ظاہر ہوتی ہے تو اس کی خوبیاں ہزار سفارشی بن کر سامنے آجاتی ہیں۔ عام طور پر بھی یہی دیکھا گیا ہے کہ آدمی کسی سے محبت کرتا ہو تو اسکے عیبوں پر بھی اس کے محاسن کا غلبہ ہی نظر آتا ہے اور خامیاں غائب ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی سے نفرت ہو جائے تو اس کی خوبیاں بھی اس کی برائیاں ہی نظر آنے لگتی ہیں۔ درحقیقت جو اپنی محبت اور نفرت سے اوپر اٹھ کر کسی شخص کے بارے میں رائے قائم نہیں کر سکتا، وہ سچ سے محروم رہتا ہے۔ بس اتنی سی بات امریکہ میں مقیم اپنے ایک انجینئر بھتیجے کو بتانی ہے۔ ایاز طفیل شیخ امریکہ سے پڑھا ہے اس لیے معلوم نہیں وہ ہم ٹاٹ سکولوں سے پڑھنے کی سعادت حاصل کرنے والوں کو سوچنے والا سمجھتا بھی ہے یا نہیں ……وہ قادری صاحب کے انقلاب اور خان صاحب کی تبدیلی کا بڑا وکیل ہے۔ اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے رکھے۔ مجھے ایاز شیخ کی رائے اور لندن سے محمد الیاس سمیت بیرون ممالک سے بہت سے دوستوں کی آراء ملتی رہتی ہیں۔ دیار غیر میں محنت اور ہمت سے مقام بنانے والے ایسے پاکستانی بڑے محب وطن ہیں، وہ پاکستان سے محبت کے تقاضوں کے مطابق اسے امریکہ، برطانیہ، یورپ کی طرح دیکھنے کے آرزو مند ہیں جو لائق ستائش جذبہ ہے مگر ان کی جذباتیت اپنی جگہ اور پاکستان کے زمینی حقائق اپنی جگہ ہیں۔اوورسیز پاکستانی نوجوانوں کی بڑی تعداد پوری نیک نیتی اور جوش سے پاکستان میں تبدیلی کی تحریک کی حامی ہے اور تبدیلی کے لیے عمران خاں کی حمایتی بھی۔ 
عمران خاں نے پاکستان میں جوش اور صرف جوش کی سیاست کے ایسے باب کو رقم کیا ہے جس کے بارے میں بہتر فیصلہ تاریخ ہی کر سکتی ہے۔ تاہم چند خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس تبدیلی کی تحریک کے پس منظر اور پیش منظر میں پنہاں خامیوں کا ادراک بھی پاکستانیت کا تقاضا ہے۔ کئی لوگ عمران خان کے پرکشش نعروں کے اسیر نہیں اور وہ حقیقت پسندانہ تجزیے کی بنا پر خانصاحب سے اختلاف کی جسارت بھی کرتے ہیں کیونکہ جب کوئی صداقت لازمی ہو تو بھی تجزیے کے ذریعے اس کی منطق تلاش کرنی چاہیے۔ جب بھی کوئی لکھنے اور سوچنے والا ایسے کرتا ہے تو تبدیلی کے علمبردار خم ٹھونک کر اسے تبدیلی دشمن ثابت کرنے پر زور لگانا شروع کر دیتے ہیں، عمران خاں کے حامیوں کا جذباتی پہلو اتنا متفقہ ہے کہ ان تمام کی منطق، انداز، لہجہ اور آہنگ سب کچھ مشترک نظر آتا ہے۔ ان کا رد عمل اتنا یکسانیت کا حامل ہوتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے سب ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔ اس صورتحال میں والٹر لپ مین کا یہ قول ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ ”جہاں سارے لوگ ایک ڈھنگ سے سوچتے ہیں وہاں کوئی بھی شخص زیادہ سوچنے والا نہیں ہو گا“۔ خان صاحب اور ان کے سارے عقیدتمند اگر یکساں نہ سوچتے تو یہ پارٹی بڑے مثبت کردار کی حامل پارٹی بن جاتی ہے۔ خان صاحب کو بار بار اپنے ہی اعلانات اور بیانات سے پیچھے نہ ہٹنا پڑتا۔ وہ عقیدتمندوں کی ہاں کو رائے سمجھنے کی بجائے حقیقی معنوں میں مشاورت سے کام لیتے۔ خان صاحب رائے کے غیر جمہوری تصور کے حامل خود پسند فرد ہیں۔ وہ جو رائے بناتے ہیں اور جس طرح بناتے ہیں اس میں تفکر، تدبر اور عقل کی کمی واضح دکھائی دیتی ہے۔ وہ معاملات کے حوالے سے یا تو بہت جلدی کر دیتے ہیں یا ہمیشہ تاخیر، عمران خاں کی رائے انکی شخصیت کی آئینہ دار کم اور ان کی شخصیت ان کی رائے کی عکاس زیادہ بنتی جا رہی ہے۔ وہ بے صبرے ہو رہے ہیں اس بے صبری میں ان کی رائے ان کے جذبات کے زیر اثر آگئی ہے ان کی ذہانت کے زیر سایہ نہیں رہی۔ ہربرٹ اسپنسر نے کہا تھا کہ:
"Opinion is ultimately determined by the feelings and not by intellect."
یعنی آدمی جو رائے بناتا ہے وہ بالآخر احساسات کے زیر اثر بنتی ہے نہ کہ عقل کے تحت۔ انسان کی یہی کمزوری اس کو حقیقت پسندی تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ عمران خان اور ان کے پرستار منطقی یا حقیقت پسندانہ ہم آہنگی کی بجائے جذبات اور احساسات کی بنیاد پر جڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ذاتی اور نجی تعلقات کے حوالے سے یہ تعلق کمزور نہیں، تاہم قومی امور میں قیادت اور راہبری کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ برادرم شیخ ایاز کی جذباتی وابستگی اپنی جگہ مگرحُب الوطنی کے تقاضے کچھ اور بھی ہیں۔ وہ جب بھی خان صاحب کی فکر و عمل کا جائزہ لیتے ہیں تو محبت اور عقیدت سے اور جب خانصاحب کے مخالفین کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے الفاظ سے صرف اور صرف نفرت مترشع ہوتی ہے۔ یہ انداز نظر روشن مستقبل کا ضامن نہیں ہو سکتا، حالات کا تقاضا ہے کہ ہم صرف جوش کی زرہ سے باہر نکل کر ہوش مندی سے تجزیہ کر کے آگے بڑھیں۔ ولیم میک فی نے بتا رکھا ہے کہ The world belongs to the enthusiast who keep cool"۔ یعنی یہ دنیا اس پر جوش شخص کے لیے ہے جو اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھے۔ خاں صاحب اور پرستاروں کو جوش کی طاقت کو ہوش کے تابع کر کے پائیدار تبدیلی کے قابل ایجنڈے کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ جوش، جوش اور صرف جوش آخر میں تھکا دینے کے علاوہ کوئی ثمر نہیں دیتا۔ پاکستانیت کی اصل ضرورت یہ نہیں کہ اقتدار ایک ہاتھ سے نکال کر دوسرے ہاتھ میں تھما دیا جائے بلکہ گہرے غور و حوض سے قابل عمل مثبت اور ثمر آور پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔ اصلاحات کے ذریعے بغیر قومی نقصان کے آگے اور بہتری کی طرف بڑھا جائے۔ خان صاحب نے سیاست میں جتنے سال صرف کیے ہیں اور جو انداز اپنایا ہے وہ دیکھ کر میرا ایک دوست عاطف رزاق بٹ اکثر تبصرہ کرتا ہے کہ تجربہ ہماری عقل کو بڑھاتا ہے مگر ہماری غلطیوں کو کم نہیں کرتا۔ 
خان صاحب کے پر جوش پلان اے، بی ناکام ہوئے، پلان سی ناکام ہونے کے قریب ہے اور پلان ڈی ان کی مایوسیوں کی کوکھ سے جنم لے گا۔ جسے کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں سمجھا جاسکتا۔ خان صاحب کی آواز تا حال اونچی او رنعرے بلند ہیں تاہم تھکن اور مایوسی ان کے چہرے اور انداز سے عیاں ہو رہی ہے۔ وہ ہار ماننے والے نہیں حالانکہ مدبر آدمی ہار کر جیت جانے کی طاقت رکھتا ہے۔ تحریک انصاف کو ایک بار پھر وزیر اعظم کے استعفے سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی بلاشبہ ادھورا سچ ہے۔ اس ملک کی تاریخ میں انتخابی عمل اتنا شفاف ہے ہی نہیں۔ ریاست اور اس کے ادارے سماج کے عکاس ہوتے ہیں۔ سماجی سطح پر ہم منافقت، جھوٹ اور ذاتی مفاد کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس سماج کو بدلنے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے، سماج منصفانہ مزاج کا حامل ہو جائے تو مقتدر لوگ فرشتے ہی ہو جاتے ہیں۔ اب خان صاحب کو کسی ایمپائر کا انتظار کرنے، کسی دھرنا اتحادی پر یقین کرنے کی بجائے وطن عزیز میں دور رس نتائج کی حامل اصلاحات کے لیے سمجھداری سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ مارو، جلادو اور جل جاؤ والے مایوس لوگوں کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ خاں صاحب بھی اپنے پلانوں کی پہ در پہ ناکامیوں پر مایوس نظر آنے لگے ہیں اور مایوس آدمی کا المیہ یہ ہے کہ انہیں ہر موقع کے اندر مشکل نظر آتی ہے۔ 
فرانسس بیکن کا قول ہے کہ "Before you attempt consider what you can perform"
جب بھی تم کوئی اقدام کرو، اس سے پہلے سوچ لو، تم کیا کچھ کر سکتے ہو۔ بلاشبہ معرفت کہیں اور نہیں بلکہ صرف اور صرف شعور میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ عمران خاں کا حالیہ تجربہ یہ واضح کرتا ہے کہ آدمی کو قابل عمل دائرہ میں عمل کرنا چاہیے۔ ناقابل عمل دائرہ میں کام کرنا ناکامی کے خندق میں چھلانگ لگانا ہے۔ جو لوگ ناقابل عمل دائرہ میں کام کریں اور پھر جب ناکام ہو ں تو حالات کی شکایت لے کر بیٹھ جائیں وہ درحقیقت دوسروں کی شکایت نہیں کرتے بلکہ خود اپنی نادانی کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔ مایوسی میں مرنے والے کی ساری زندگی بیکار جاتی ہے۔ خانصاحب کے چاہنے والوں کو اس موقع پر اندھے جذبات کی تقلید کی بجائے اپنے کھرے تجزیے اور روح عصر سے ہم آہنگ محبت کا اظہار کرنا چاہیے۔ ہیجان خیزی کے اس دور میں ہمیں اس احساس کو اجاگر کرنا ہے کہ ایسی فضا جہاں تصورات اور افکار کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں۔ یہی احسا س حقیقی تبدیلی اور اس کے استحکام کا سبب بنے گا۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں