جمعہ، 15 مئی، 2015

قومی وحدت میں میڈیا کا کردار



اکثر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی قومی وحدت کے بحران کا شکار رہا ہے ۔ قدیم سماج اور جدید ریاست کے امتزاج کا حامل پاکستان ایک مرکب ملک اور ثقافتی تنوع کی حامل انتظامی وحدت ہے۔ اس قسم کی ریاستوں میں تعصبات کی موجودگی تعجب انگیز نہیں مگر ہمارے ہاں لمحہ فکریہ یہ ہے کہ یہاں تعصب نہ صرف حکومتوں اور عوامی اداروں میں دکھائی دیتا ہے بلکہ یہاں کے دانشوروں ، قلمکاروں، ماہرین عمرانیات و سماجیات اور میڈیا کو بھی اس میں فعال دلچسپی ہے ۔ قومی اکائی بہت سی متنوع انفرادیتوں کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ تاریخ عالم میں بہت کم ہوا ہے کہ کوئی قوم ایک مذہب کی پیرو ہو ، ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہو ، ایک ہی زبان ،ایک ہی لہجے میں بولتی ہو۔ لسانی و ثقافتی رنگا رنگی قومی وحدت کی طاقت ہوتی ہے ۔ قومی وحدت کا حقیقی مفہوم یہ نہیں کہ ہماری زبان ، ہماری نسل، ہمارا لباس ایک ہو بلکہ یہ ہے کہ ہمارا نصب العین، ہمارا منتہائے مقصود اور قومی سطح پر ہماری نفسیاتی فضا ایک ہو ۔ آزادی کے فوراً بعد ہمیں اس تنوع کا حقیقت پسندانہ تجزیہ ادراک کر لینا چاہیے تھا تاکہ تعمیر نو یا قومی ارتقاءکا آغاز ہو سکے مگر ایسا نہ ہوا ، ہمارے ارباب اختیار نے مذہب پر مبالغہ انگیز حد تک اصرار کر کے قومی وحدت مسلط کرنے کی بار ہا ناکام کوشش کی ۔ ایسی ہی غیر منطقی پالیسیوں کی وجہ سے آج تک ہم اپنے اپنے خول میں بیٹھے ایک دوسرے سے ہی چوکنے رہنے پر ساری توانائیاں صرف کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے درمیان بے اعتمادی بلکہ بد اعتمادی کی فضا قائم ہے اور قومی وحدت کا تصور المناک حد تک مجروح ہوا ہے ۔ قومی وحدت کی فضا یوں تو متعدد عناصر سے قائم ہوتی ہے مگر اس حوالے سے آج معاشرے کا سب سے م ¶ثر عنصر ہمارامیڈیا ہے۔ اس لیے کہ صحافی سب کچھ ہونے کے ساتھ تہذیبی کارکن بھی ہوتا ہے اور تہذیب ذہنی کیفیات کی شائستگی کا نام ہے اور ذمہ دار میڈیا حکمت عملیوں کی تکنیکی وضاحت اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے ہی کام نہیں لیتا ، وہ دلوں کی بولی بھی بولتا ہے ۔ لوگ توقع کرتے ہیں کہ آزاد، ذمہ دار اور متحرک میڈیا قومی وحدت کے تصور کو مسلمہ حقیقت میں بدل سکتا ہے ۔آزاد میڈیا نے بے شمار تضادات کے باوجود امریکہ کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ تعلیم و تبلیغ کے دوسرے ذرائع میں اتنی وسعت نہیں جتنی وسعت صحافت کی ہمہ گیری نے میڈیا کو دے دی ہے ۔ میڈیا کو بجا طور پر جمہوری اقدار کا محافظ، قانون کی سر بلندی کا حصار اور قومی ضمیر کا آئینہ دار گردانا جاتا ہے ۔ اب تو میڈیا نے خود کو ریاست کے چوتھے ستون کے طور پر بھی منوا لیا ہے۔ مقننہ قانون بناتی ہے، عدلیہ اس کی تشریح کرتی ہے، انتظامیہ اسے نافذ کرتی ہے اور میڈیا اس سارے عمل کے لیے رائے عامہ ہموار کرتا ہے ۔اسی اہمیت کے پیش نظر یونیورسٹی آف گجرات کے سنٹر فار میڈیا سٹڈیز نے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ سیمینار بعنوان” قومی وحدت میں میڈیا کا کردار:ذمہ داریاں اور مشکلات“کا خصوصی اہتمام کیا۔ اور اس میں مہمان مقرر کے طور پر قلم و قرطاس اور فکر و خیال کی طاقت کو معاشرتی تطہیر اور قومی وحدت کے لیے وقف کرنے والے، صحافت میں پاکستانی طرز احساس کے نمائندہ، دھیمے لہجے میں تلخ سچائی بیان کرنے میں کمال رکھنے والے سینئر صحافی سجاد میر کو مدعو کیا ۔ سیمینار کی صدارت قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار سے روشن ضمیر کے حامل سچے اور سُچے پاکستانی، شیخ الجامعہ دانش گاہ گجرات پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم نے کی۔ شعبہ ¿ ابلاغ عامہ کے سربراہ ڈاکٹر زاہد یوسف نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ قومی وحدت قوموں کے نصب العین کا نام ہے اور ابلاغیات کے دور حاضر میں کئی میدانوں میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے کیونکہ میڈیا عوامی رائے کو بنانے یا بگاڑنے کا کام سر انجام دے رہا ہے ۔ میڈیا مشکلات کے باوجود اپنا کردار ادا کر رہا ہے تاہم میڈیا کے ذمہ دارانہ کردار کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ سینئر صحافی سجاد میر کا کہنا تھا کہ صحافت ایک ذمہ دارانہ پیشہ ہے ، سچا صحافی معاشرہ میں اعلیٰ شعور و اقدار کو فروغ دے کر قومی وحدت کے پُر وقار جذبہ کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔ پاکستان کے قیام میں صحافیوں کی فکر و سعی نمایاں تھی۔ سر سید احمد خاں سے مولانا محمد علی جوہر تک صحافیوں نے پاکستانی طرز فکر کو فروغ دیا ، استحکام پاکستان کے لیے صحافیوں کو قومی ذمہ داریوں سے ہم آہنگ کردار ادا کرنا ہو گا ۔ میڈیا کا بنیادی فریضہ سماجی بیداری اور معاشرتی آگاہی پیدا کرنا اور قومی وحدت کے شعور کو بڑھاوا دینا ہے ۔عصر حاضر میں میڈیا سماج سازی سے قومی یکجہتی تک کے بہت سے کارنامے سر انجام دے رہا ہے۔ آزاد میڈیا وہ ہوتا ہے جو سچ کو بنیاد بنائے۔ میڈیا کی آزادی کے معنی میڈیا کی ذمہ داری کے ہیں۔ آج کل ابلاغی نظریہ جس طرح بنتا ہے یا خبر اور رپورٹ معرض وجود میں آتی ہے ، اس کے پس منظر میں جو قوتیں اور محرکات کار فرما ہوتے ہیں اور اس میں جو تکنیکی جبر مسلط ہوتا ہے اس نے میڈیا کے سارے مزاج کو بدل دیا ہے اور سچ ناپید ہو گیا ہے آج کمرشل ازم نے بزنس نیوز کو نیوز بزنس میںبدل دیا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال لوگوں کی سر زمین ہے لیکن بد قسمتی سے ہم عالمی شکنجوں میں جکڑی قوم بن چکے ہیں اور ہماری صحافت میں غیر ملکی کارپوریٹ سیکٹر کی کارفرمائیاں نمایاں ہیں۔ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ہندوستانی کارپوریٹ سیکٹر کی لڑائی کا میدان بنا ہوا ہے چنانچہ قومی وحدت میں ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کر پا رہا۔ اس شعبہ ¿ کی مشکلات اور ذمہ داریاں بھی بہت ہیں۔ ہمارے ہاں رد عمل کی کار گذاریوں نے جذباتیت اور انتہا پسندی کو بڑھایا جس نے قومی وحدت کو کمزور کیا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر غلام علی ، ڈاکٹر ارشد علی، پروفیسر زاہد بلال، پروفیسر ثوبیہ عابد، ڈاکٹر لبنیٰ، ڈاکٹر محمد نواز، محمد عمیر اور ریڈیو صحافت سے وابستہ منعم شہزاد نے بھی فکر انگیز گفتگو کی اور کہا کہ پاکستانی میڈیا ارتقائی مراحل میں ہے اس لیے کئی ابہامات کا شکار ہے ۔ ڈویلپمنٹ جرنلزم سے لیس ہو کر میڈیا قوم اور عوام کی بہتر خدمت کر سکتا ہے ۔ صحافت عوامی شعور کی بیداری میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ قلم و نظر کے حامل ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ معاشرتی بہتری اور قومی وحدت کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔ مکالمے کے داعی اور دانشور استاد، پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم وائس چانسلر یونیورسٹی آف گجرات نے صدارتی کلمات میں کہا کہ صحافت دراصل آزادی ¿ اظہار کا نام ہے ۔ آزاد مگر ذمہ دار میڈیا میں ہی سچ کی روایت کو پروان چڑھا کر پاکستان میں قومی یکجہتی کی بنیادوں کو مضبوط کیا جاسکتا ہے ۔ ایک سچا صحافی معاشرہ و قوم کے لیے دیدہ ¿ بینا کی حیثیت رکھتا ہے۔ میڈیا معاشرہ اور عوام کی سوچ کا آئینہ دار ہی نہیں ہوتا، اس کی راہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دیتا ہے۔ آج میڈیا معاشرتی سوچ کے دائروں کو متعین کرتا ہے چنانچہ کھرے اور سچے صحافیوں کی ذمہ داریاں بڑھ چکی ہیں۔ صاحب عمل اور پختہ عزم صحافی ہمارے لیے رول ماڈل ہیں۔ 1965ءکی جنگ کے ایام میں پاکستانی میڈیا کا کردار قومی تقاضوں سے ہم آہنگ تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی آزاد میڈیا نے قوم کو آگاہی کی نئی جہتوں سے متعارف کروایا۔ اکتوبر 2005ءمیں آنے والے زلزلے کے وقت بھی پاکستانی میڈیا نے قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں قابل تحسین کردار ادا کیا ۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے سما ج اور میڈیا کے درمیان کمرشل ازم نے ڈیرے لگا لیے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ کمرشل ازم نے میڈیا کے قلم و بیان کی رعنائی ، زیبائی اور خوبصورتی کو متاثر کیا ہے ۔ صحافی کے لیے لازم ہے کہ وہ کلمہ ¿ حق کا علمبردار ہو۔ بریکنگ نیوز نے قومی وحدت سمیت بہت سے تصورات کو بریک کیا ہے ۔ میڈیا کو ذاتی ، گروہی، علاقائی مفادات سے بالا تر ہو کر پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانی اور قومی تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ جامعہ گجرات کے شعبہ ابلاغ عامہ کے ڈاکٹر زاہد یوسف نے درد مند پاکستانی ہونی کے ناطے جس سنجیدہ مکالمے کا آغاز کیا ہے اسے جاری رہنا چاہیے۔ سجاد میر جیسے تجربہ کار صحافیوں سے مستقبل کے صحافیوں کی گفتگو اور مکالمہ مثبت اور ثمر آور نتائج کا حامل ہو گا ۔ ڈاکٹر ضیاءالقیوم نے کمال سنجیدگی سے فکر انگیز بات کہی کہ سماجی ذمہ داری کے نظریہ صحافت نے میڈیا کے کاندھوں پر بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے ۔ صحافت کو فلاح عامہ کا ضامن اور قومی امنگوں کا ترجمان ہونا چاہیے۔ جب تک صحافت سماج کے ساتھ نہیں ہو گی قومی وحدت سمیت بہتری کے امکانات کم رہیں گے ۔ 
یونیورسٹی آف گجرات اس وقت پاکستانیت کی حامل قومی دانش گاہ کا کردار جس وژن، درد مندی اور حب الوطنی سے ادا کر رہی ہے وہ قومی سطح پر مثالی اور خراج تحسین کا مستحق ہے۔ جواں عزم، دور اندیش اور وژنری قائد کے طور پر ڈاکٹر ضیاءالقیوم نے یونیورسٹی آف گجرات کو پاکستان کے روشن مستقبل کی ضامن دانش گاہ بنانے کے لیے جو متحرک، نتیجہ خیز اور دانشمندانہ علمی و تحقیقی فضاءقائم کی ہے وہی عصری قومی ضرورت اور روح عصر سے ہم آہنگ ہے ۔ حقیقت پسندانہ روشن خیال اور مستقبل شناس تعلیم و تدریس ہی قومی وحدت کی حقیقی ضامن ہے ۔ اسی کے ذریعے سچ اور سچائی پر مبنی صحافت و سیاست کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور یہی قومی وحدت کی منزل کا پائیدار راستہ ہے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں