پیر، 27 اکتوبر، 2014

میاں صاحب عوام کا اعتماد بحال کیجئے

سترھویں صدی کے عرب مؤرخ الیوسی نے بہت خوبصورتی سے ایک کہانی بیان کی ہے جس کی مماثلتیں ہر سماج میں نظر آتی ہیں اور جو ہمیں جمہوریت کے نظریے کی بجائے اس کے اصل تجربے کے حوالے سے آشنائی و آگاہی فراہم کرتی ہے کہ جب ابن ابی مہلی نے مراکش پر قبضہ کیا تو اس کے کچھ پرانے ساتھی اسے مبارکباد دینے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے لیکن جب وہ اس کے پاس کھڑے اسے ایک نئی سر زمین فتح کرنے پر مبارکباد دے رہے تھے تو ان میں شامل ایک شخص کچھ بھی نہ بولا،بلکہ چپ سادھے کھڑا رہا۔ جب سلطان نے اسے پوچھا کہ بھائی کیا بات ہے، آپ کیوں اتنے چپ چاپ کھڑے ہیں؟ تو وہ بولا، جہاں پناہ آپ بادشاہ وقت ہیں اگر جان کی امان بخشیں تو عرض کروں گا۔ بخشی ابن مہلی نے کہا ’بولو کیا بولتے ہو، کھیل کی بازی میں، فقیر بولا، کوئی دو سو افراد ایک گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اسے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں چوٹ نہ لگ جائے یا زخم نہ آجائے، موت بھی ہو سکتی ہے اور یہ سب ایک گیند کی خاطر۔ اور اس ساری دھینگا مشتی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ کچھ بھی نہیں سوائے پریشانی اور تکلیف کے، اور اگر آپ گیند کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس میں چیتھڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جب ابن ابی مہلی نے اس کی تمثیل سنی تو فوراً اس کے معانی بھانپ گیا اور رونے لگا، ہم دین پھیلانے کی نیت سے نکلے تھے، وہ بولا، مگر حیف! ہم تو گمراہی میں جا پڑے“۔ یہ درست ہے کہ اہل اقتدار کے ذہن سے یہ بات ہمیشہ نکل جاتی ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ حکومتوں کا چلن صراط مستقیم کی بجائے ”راہ گم کردہ“ ہوتا ہے۔ حکمران خادم بن کر آتے ہیں اور آقا بن کر حکمرانی کرتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ وہ حکومتیں جن کا آغاز جوش و جذبے اور اعلیٰ آدرشوں سے ہوتا ہے، ان کی گاڑی ”بُری حکمرانی“ کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔ 
آج کل وطن عزیز کی حکمرانی کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ جمہوریت کو عموماً ایک کامل و اکمل نظام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو خود ہی خود کو متوازن رکھتا ہے اور مفاد عامہ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ جمہوری حکمران جمہور کی بہتری کے لیے اقتدار حاصل کرتے ہیں اور اپنی بہتری کو نصب العین بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں حکمرانوں کے ذہنوں سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے جدوجہد کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا آغاز جس جوش و جذبے اور اعلیٰ آدرشوں سے ہوا تھا، سال، ڈیڑھ سال بعد ہی وہ جذبہ اور وہ آدرش دھندلا گئے ہیں۔ آج اس بات ے انکار ممکن نہیں کہ اندا زحکمرانی اور جمہور کے مفادات کے پس پشت چلے جانے سے حکومت کی ناکامی اور زوال کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کے سارے عہد اور وعدے فراموش کر دیئے گئے ہیں۔ میاں صاحب  کی نیت و شرافت کا سوال نہیں۔ نیتوں کے بھید خدا جانتا ہے مگر جس طرح حکومت چلائی گئی اس سے کہیں نظر نہیں آتا کہ گڈ گورننس اور فلاح عامہ ان کا نصب العین ہے۔ اچھی چیز اور نیک کام کے لیے بار بار لڑنا پڑتا ہے۔اس کے لیے عزم صمیم کی ضرورت ہوتی ہے مگر حکمرانی کی کرسی کا نشہ اچھی سے اچھی نیتوں کے حامل حکمرانوں کو بہکا دیتا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف سے قوم کو بہت توقعات وابستہ تھیں اور ہیں مگر انہوں نے عوامی اعتماد سے الیکشن جیت کر حکمرانی کا چوغہ پہنا تو پہلا کام یہ کیا کہ عوام سے دوری اختیار کی۔ پارلیمینٹ بالخصوص سینٹ میں آنا پسند نہیں کیا، مختلف اور مشکل مواقع پر بھی قوم کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی۔ ان کا مختصر دور قوم کے لیے خوشی کا باعث نہ بن سکا۔ مہنگائی، بد نظمی اور لا قانونیت کا گراف بڑھتا ہی چلا گیا،اس سے عوام کے حکمرانوں پر اعتماد میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ مخالف سیاسی قوتوں نے ان کا سیاسی گھیراؤ کیا اور عوامی حمایت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس ڈیڑھ سالہ دور میں صرف ایسے منصوبے متعارف کروائے گئے جن سے شہریوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ انقلابی تصورات و آگہی نظر آئی۔ سیاستدانوں و سیاسی قوتوں کی بجائے بیوروکریٹس پر مرکز اور پنجاب میں حکومتی انحصار اتنا بڑھ گیا ہے کہ لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ اگر بیوروکریٹس کے ذریعے ہی حکومت چلانی ہے تو پھر ٹیکنو کریٹس کی حکومت ہی بہتر ہو گی۔ ’میکیاولی‘کی یہ بات میاں صاحب کے دور میں بہت سے لوگوں کو یاد آنے لگی ہے کہ ”اکثر اوقات وہ چیزیں جو حاکم کو زیادہ فائدہ دیتی ہیں اس کے شہر کو نقصان پہنچاتی ہیں جبکہ وہ چیزیں جو شہر کو فائدہ دیتی ہیں حاکم کو نقصان پہنچاتی ہیں“۔ ہماری سیاسی تاریخ کے حوالے سے Dean Inge کی یہ بات بھی توجہ کی طالب ہے کہ”آزاد لوگ جنگ کے زیادہ متمنی ہوتے ہیں اور جمہوریتیں مطلق العنان بادشاہوں سے زیادہ اپنے جذبات کی غلام“۔ 
اس صورتحال میں وزیراعظم میاں نواز شریف سے امید ہے کہ وہ حالات کا منطقی اور حقیقت پسندانہ جائزہ لیں اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ہر ممکن سعی کریں۔ چین کے مشہور فلسفی کنفیوشس سے کسی نے بہترین طرز حکومت کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا بہترین طرز حکومت کے لیے تین لوازم ہیں (۱) خوراک کی افراط (۲) طاقتور فوج (۳)حکام پر عوام کا اعتماد۔ پوچھنے والے نے کہا کہ اگر یہ تینوں بر وقت میسر نہ آسکیں تو پھر ……؟ کنفیوشس نے کہا کہ فوج کے بغیر گذارہ ہو جائے گا، پوچھنے والے نے پھر کہا کہ اگر باقی دو میں سے بھی ایک میسر آئے تو تب کس کا ہونا اشد ضروری ہے؟  کنفیوشس نے جواب دیا خوراک کی قلت ہو گی تو بھی کسی نہ کسی طرح گذر ہو ہی جائے گا لیکن اگر عوام کا اعتماد حکام پر سے اٹھ جائے تو حکومت اور ملک کی تباہی و بربادی یقینی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ حکمران مثالی اخلاق کے مالک ہوں تاکہ عوام ان کے نقش قدم پر چل سکے۔ کنفیوشس کی نظر میں اخلاقیات کی زمین تیار کیے بغیر کوئی حکومت خواہ کتنی ہی کوشش کرے بد نظمی سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ یونانی مفکر سولن نے اس حوالے سے بہت پتے کی بات کہی ہے کہ ”اچھی مملکت وہ ہے جس میں عوام حکام کے تابع ہوں اور حکام قانون کے تابع“ ہمارے ہاں اس  بات کا آدھا سچ ہے کہ عوام تو حکام کے تابع ہیں مگر حکمران……؟
کسی خاص حکومت کو جانچنے کے لیے ہمیں صرف یہ دیکھ لینا ہی کافی ہوتا ہے کہ اس نے یہ وظائف ورثے میں ملنے والے حالات میں کتنے اچھے طریقے سے انجام دیئے ہیں اور کیا اس نے ورثے میں ملنے والے مالی، انسانی، سماجی اور قدرتی سرمائے کو نمو دی ہے یا کہ اس میں ناکام رہی ہے۔ میاں صاحب وطن عزیز کو گھمبیر مسائل سے نکالنے کے لیے کسی ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ کابینہ کا احتساب درست اقدام ہے لیکن قوم یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ اس ڈیڑھ سال میں وزیر اعظم کی کارکردگی کیا رہی ہے؟ عوام سے ان کا تعلق کمزور ہوا ہے یا مضبوط……؟حالات گواہ ہیں کہ ”انجمن ستائش باہمی“ سے باہر حکومت اور عوام کا رشتہ اگر کمزور نہیں ہوا تو مضبوط بھی نہیں ہوا۔ قدرت نے آپ کو موقع دیا ہے، عوام سے رشتہ مضبوط کریں عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے نظر آنے والے اور ثمر آور کام سر انجام دیں۔ وقت تیزی سے گذر رہا ہے مگر حکمرانی سست رفتاری کی عکاس ہے۔ بیر ٹولٹ بریخت نے کہا تھا کہ ”چیزیں کب تک چلتی ہیں؟ جب تک وہ مکمل نہیں ہو جاتیں، کیونکہ جب تک ان پر کام ہوتا رہتا ہے وہ خراب نہیں ہوتیں“۔  میاں صاحب عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

مسٹر جناح سے قائداعظم تک



قائد اعظم محمد علی جناح جنوبی ایشیا کی ملت اسلامیہ کی جدوجہد آزادی کی آخری سربرآوردہ شخصیت تھے جسے ان کی ذات میں نقطعہ عروج حاصل ہوا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے اقتدار کے زوال کے نوے ہی برس بعد انہوں نے یہ اقتدار غاصبوں کے ہاتھوں سے چھین کر مسلمانوں کے سپرد کر دیا، اور اس کا نام پاکستان قرار پایا۔بانی پاکستان ہمارے لیے مثالی رہبر کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی ذات اور صفات کے تمام گوشے قوم کیلئے مینارہئ نور ہیں۔ بابائے قوم کی زندگی کے ارتقاء کی کہانی میں محمد علی جینا سے ایم اے جناح اور مسٹر جناح سے قائداعظم کا سفر بھی ان کی حیات کا اہم باب ہے، جس سے نسل نو کو آگاہ رکھنا اہم قومی تقاضا ہے۔
بابائے قوم کی سوانح حیات سے عیاں ہوتا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے والد ’جنا پونجا‘ کھالوں کی تجارت کرتے تھے۔ وہ دبلے پتلے آدمی تھے۔ قائد اعظم کا نام محمد علی اور باپ کے نام کی مناسبت سے ’جنا‘ ان کے نام کا جزو تھا یعنی محمد علی جنا۔ سندھ مدرستہ الاسلام کراچی اور چرچ مشن ہائی سکول کراچی کے ریکارڈ میں ان کا یہی نام ہے۔ پونجا جنا لمبے اور دبلے پتلے تھے اس لئے جنا ان کا نام پڑ گیا،جناکے معنی گجراتی زبان میں دبلے پتلے کے ہیں۔ اردو میں ایسا ہی ایک لفظ استعمال ہوتا جھنا‘ مثلاً جھنا کپڑا یا ململ یعنی ایسا کپڑا جس کے تار پور ذرا دور دور ہوں۔1915-16ئتک کے اردو اخبارات میں ان کانام محمد علی جنا یا محمد علی جینا ہی ملتا ہے۔ تب یہی ان کا اصلی نام تھا۔ قائد اعظم کی وفات پر رسالہ ’معارف‘ اعظم گڑھ میں جو مضمون سید سلیمان ندوی نے لکھا اس میں بھی انہوں نے سرخی ”قائد اعظم محمد علی جیناؒ‘ کی ہی جمائی تھی۔ اس مضمون میں سید سلیمان ندوی نے یہ واقعہ بھی رقم کیا کہ”جب 1916ء میں لکھنو میں کانگریس اور مسلم لیگ کے اجلاس ہوئے تھے اور وہ پہلی مرتبہ مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے مسلمانوں میں ظاہر ہوئے۔ مہا راجہ محمود آباد کی سر کردگی میں لکھنؤ نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا۔ اس وقت یہ نظم موزوں ہوئی تھی۔ اس نظم میں سید سلیمان ندوی نے آخری شعر میں یوں تذکرہ کیاہے کہ 
ہر مریض قوم کے جینے کی ہے کچھ کچھ امید
ڈاکٹر اس کا اگر  ”مسٹر علی جینا“ رہا
1916میں لکھی جانے والی اس نظم میں سید سلیمان ندوی نے قائد اعظم کا نام اسی طرح لکھا جس طرح وہ اس زمانے میں بولا اور لکھا جاتا تھا۔ڈاکٹر جمیل جالبی اپنے ایک مضمون میں اس مشکل میں تھے کہ اگر 1916تک لفظ جنا یا جینا محمد علی کے نام کا جزو تھا تو یہ جناح کب اور کیسے بنا؟  اس مشکل کو بھی سید سلیمان ندوی نے ہی آسان کیا۔ مولانا حسرت موہانی کی وفات پر لکھے گئے مضمون میں سید صاحب لکھتے ہیں کہ  ”شاید لوگوں کیلئے یہ بات اچنبھے کی معلوم ہو گی کہ قائد اعظم مرحوم کے نام کا آخری جزو اس وقت تک ”جینا“ تھا جس کے معنی گجراتی میں ”ننھے“ کے ہیں۔ 1916ء میں جب وہ لکھنؤمسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے آئے تو سید جالب دہلوی مرحوم جو ان دنوں مہاراجہ صاحب محمود آباد کے اخبار ’ہمدم‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ان کی ذہانت نے اسے ”جناح“ بنا دیا۔جس کے بعد وہ ایسا مشہور ہوا کہ اس نے اصل کی جگہ لے لی اور پھر اردو اور انگریزی اخبارات میں جنا یا جینا کی بجائے ”جناح“ عام طور پر استعمال ہونے لگا اور خود قائد اعظم نے اس لفظ کی معنویت کو دیکھتے ہوئے اسے اپنا لیا اور انگریزی میں حرف ”H“ کا اضافہ کر لیا۔
انتظار حسین اپنے ایک مضمون ”مسٹر جناح اور قائد اعظم“میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح سے پہلے ایک شخصیت گذری ہے جو ہندوستان کی سیاست میں مسٹر جناح کے نام سے مشہور تھی۔ ہماری آج کی قومی زندگی میں مسٹر جناح ایک فراموش شدہ شخصیت ہیں۔ لیکن انھیں یاد کر کے ہم اس غیر معمولی واقعہ کو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک ہی ذات سے کیونکر دو ایسی شخصیتوں نے جنم لیا جو ایک دوسرے کی ضد میں پہچانی جاتی ہیں۔“ مسٹر محمد علی جناح جدیدیت کے حامل شخص، روشن خیال، حقوق انسانی کے علمبردار اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے مگر ہندوستان کی گرما گرم سیاسی فضا میں کانگریس کے بھرے اجلاس میں گاندھی سے اختلاف کرنے والی اکیلی توانا آواز بھی تھی۔ اسی لمحہ انہوں نے کانگریس کو سلام کیا۔ متحدہ ہندوستانی قومیت کے حوالے سے ان کے اندر اس طرح شکست و ریخت ہوئی کہ ان کی اپنی بھی شکست و ریخت ہو گئی۔ بیزاری اور  مایوسی کا تھوڑا زمانہ لندن میں گزارا، پھر واپس آئے تو بدلے ہوئے آدمی تھے۔ انتظار حسین کے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ اس ذات میں ققنس کی روایت دہرائی گئی۔ ایک شخصیت اپنے تجربوں کی آگ میں جل کر خاک ہوگئی۔ پھر اس خاکستر سے ایک نیا آدمی نمودار ہوا۔ اس نئے آدمی کے اعلان کے ساتھ مسلمانوں کی سیاست میں ایک نئی سمت نمودار ہوئی۔ اس کے ساتھ مسٹر جناح تاریخ کا حصہ بن گئے اور قائد اعظم محمد علی جناح  نے ظہور کیا۔“ 
محققین اور مؤر خین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ مسٹر جناح کو سب سے پہلے قائد اعظم کے لقب سے کب اور کہاں نوازا گیا۔ اوراق تاریخ کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ یہ لقب انہیں مطالبہ پاکستان یا قرارداد لاہور سے قبل ہی مل چکا تھا۔ ”سیاست ملیہ“ کے مصنف محمد امین زبیری کے مطابق 7 دسبر 1936ء کو جمعیت علمائے ہند کے راہنما مولانا احمد سعید دہلوی نے مراد آباد کی جامع مسجد میں ایک وعظ کیا جس میں مسٹر جناح کی نسبت کہا ”آج مسلمانوں میں سیاست کو سمجھنے والا اس سے بہتر کوئی شخص نہیں، لہٰذامسلمانوں کے قائد اعظم ہونے کے بجا طور پر وہ مستحق ہیں“ قائد اعظم کے سوانح نگار پروفیسر شریف المجاہد نے اپنی کتاب میں مطلوب الحسن سید کے حوالے سے بتایا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ لکھنؤ سیشن 15تا 18اکتوبر 1937لال باغ میں ہوا۔ اس میں مولانا ظفر علی خان نے کہا کہ ”ہمارے قائد محمد علی جناح، بلکہ میں یہ کہوں گا کہ ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح۔۔۔۔“ منیر احمد منیر کی تحقیق کے مطابق 3جنوری 1938ء کی اشاعت میں کلکتہ کے اردو روزنامہ ”عصر جدید“ نے لکھا۔ ”گیا میں مسلمانان ہند کا قائد اعظم“۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سابق آفس سیکرٹری سید شمس الحسن اپنی تالیف ”صرف مسٹر جناح‘ میں لکھتے ہیں ”اگرچہ قائد کسی قسم کے اعزاز کو ناپسند کرتے تھے، لیکن جب بر صغیر کے مسلمانوں نے انھیں قائد اعظم کے خطاب سے پکارا تو وہ انھیں اس امر سے نہ روک سکے۔ یہ خطاب پہلے پہل شروع 1938ء میں مولانا مظہرالدین نے اپنے سہ روزہ ”الامان“ دہلی میں استعمال کیا جو فوراً ہی مقبول ہو گیا۔“ اسی طرح ملا واحدی کا خیال ہے کہ قائد اعظم کا خطاب سب سے پہلے خواجہ حسن نظامی نے دیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سابق جائنٹ سیکرٹری حسین ملک نے ایک انٹر ویو میں ”آتش فشاں“ کو بتایا کہ ”1938میں دہلی میں ایک جلسہ ہوا جلسے کے بعد جلوس نکالا گیا۔ قائد اعظم بگھی میں سوار ہوئے۔ دہلی مسلم لیگ کے صدرشیخ شجاع الحق ان کے ساتھ بیٹھے تھے اور میں سامنے والی سیٹ پر۔۔۔ دہلی کی فضا اللہ اکبر  اور زندہ باد کے نعروں سے معمور تھی۔ مختلف بازاروں سے ہوتا ہوا جلوس دریبا بازار میں سے گذر رہا تھا کہ قائد اعظم زندہ باد کا نعرہ بلند ہوا، پھر یہ نعرہ مسلسل بلند ہونے لگا۔ یہ پہلا موقع تھا جب انھیں قائد اعظم کے لقب سے پکارا گیا۔اس کے بعد مسٹر جناح کسی نے پکارا ہی نہیں۔ منیر احمد منیر کے مطابق محمد علی جناح واحد لیڈر نہیں تھے جن کو قائد اعظم کے لقب سے نوازا گیا بلکہ مولا نا ابوالکلام آزاد، مہاتما گاندھی، مولانا محمد علی جوہر، ترک قوم کے بانی کمال اتا ترک، کشمیری راہنما شیخ عبداللہ، مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، سعودی عرب کے بانی سلطان عبدالعزیز ابن سعود کیلئے قائد اعظم کا سابقہ استعمال کیا گیا مگر کسی کے ساتھ نہ جچا نہ چل سکا۔مگر یہ لفظ قائد اعظم، محمد علی جناح کی تکمیل، تجسیم، ترصیح اور سراپا بن گیا۔ اور پھر قیام پاکستان کے بعد یہ نام سرکاری حیثیت اختیار کر گیا۔
بطل جلیل کے نا م کا یہ ارتقاء بڑا معنی خیز ہے۔ یہ قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے مختلف ادوار کی تشریح بھی کرتا ہے۔ تاریخ کے صفحات پر نظر ڈالیں تو سمجھ آتا ہے کہ یہ محض جنا یا جینا سے جناح اور مسٹر جناح سے قائد اعظم کے نام کی تبدیلی نہیں تھی۔ یہ زاویہ نظر، انداز فکر اور فلسفہ حیات کی تبدیلی اور ارتقاء نظر آتا ہے محمد علی جینا سے قائد اعظم تک کا سفر ہندوستان کی تہذیبی و سیاسی تبدیلیوں کا سفر بھی ہے یہ مشاہدے اور تجربے کے ذریعے ذات کی تبدیلی تھی۔ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر مسٹر جناح کا بطور قائد اعظم نیا جنم بر صغیر میں پوری قوم کا ایک نیا جنم ثابت ہوا جو ظہور پاکستان کا سبب بنا۔ پاکستان کے استحکام اور روشن مستقبل کیلئے مسٹر جناح سے قائد اعظم کے سفر کو سمجھنا تاریخ کے سفر میں معاون و مفید ہو سکتا ہے۔ انتظار حسین ہی کے الفاظ میں مسٹر جناح اور قائد اعظم دو شخص نہیں تھے بلکہ ایک شخص تھا۔ میں مسٹر جناح کو فراموش کر کے قائد اعظم محمد علی جناح کو نہیں سمجھ سکتا۔ بس اسی طرح میں مسلمانوں کی پچھلی تحریکوں کو فراموش کر کے تحریک پاکستان کو نہیں سمجھ سکتا۔

یونیورسٹی آف گجرات کا بابرکت نظام


اسے بد قسمتی کے سوا کیا کہیے کہ ہماری درسگاہیں فکری بانجھ پن کا شکار ہیں تاہم کہیں کہیں کوئی نخلستان بھی مل جاتا ہے جس کی ایک نمایاں مثال یونیورسٹی آف گجرات ہے جس نے ایک عشرے سے بھی کم مدت میں روح عصر کے نمائندہ وژن کے علمبردار قائد ڈاکٹر محمد نظام الدین کی مدبرانہ رہنمائی اور مصلی نہ کار گذاری سے درس گاہ سے دانش گاہ کی شناخت حاصل کی ہے اور پاکستانی جامعات میں مرکز اختصاص فضیلت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ عالمی شہرت کے حامل ماہر عمرانیات ڈاکٹر محمد نظام الدین اس جامعہ کے لیے ”فضل ربی“ سے کم ثابت نہ ہوئے۔ ان کے وسیع تجربے، تحقیقی و تدریسی مہارتوں اور شب و روز محنت کے مزاجِ خاص نے مختصر مدت میں ہی اس جامعہ کو اہل گجرات کے ماتھے کا جھومر بنا دیا ہے۔ یہ دانش گاہ مقامی، قومی اور عالمی سطح پر گجراتیوں کی قابل فخر شناخت ہی نہیں علاقہ کے لیے نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔ یونیورسٹی آف گجرات کی تیز رفتار ترقی کے جسم میں دھڑکتا ہوا ”نظام“ ہی ہے جس نے سخنوروں کی اس بستی کے قدیم اعزاز خطہ یونان کو نشاۃ ثانیہ بخشی ہے انہوں نے گذشت آٹھ سالوں میں جس مدبرانہ حسن انتظام سے اس یونیورسٹی کے خواب کو تعبیر بخشی ہے وہ لائق تحسین ہے اور ہر کوئی بلا امتیاز اس کامیاب منتظم کی صلاحیتوں اور خدمات کا معترف ہے۔ 
پاکستانی جامعات کے علمی و فکری منظر نامے پر پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین اپنے علمی مزاج، تحقیقی نداز، اپنی سنجیدہ آواز، اپنے لحن اور طرز سخن سے الگ ہی پہچانے جاتے ہیں وہ وطن عزیز کے عہدِ حاضر کے ممتاز اہل دانش، ماہرین تعلیم، محققین اور منتظمین میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ ایک زیرک، معاملہ فہم، شائستہ اور صاحب علم انسان ہیں۔ موصوف علم و عمل میں ارتباط کی ایک شاندار مثال ہیں، وہ علم کو تحقیق و تخلیق اور زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے جوڑ کر سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک اچھے مدبر، اعلیٰ پائے کے منظم، شفیق استاد، اساتذہ اور طلباء کے ہر دلعزیز قائد ہیں بلکہ ایک اعلیٰ ظرف اسنان اور انسان دوست شخصیت ہیں جامعہ گجرات کے شعبہ باٹنی کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید نے ان کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے ”میں نے اپنی مختصر رفاقت میں ڈاکٹر نظام الدین میں جن مختلف النوع خوبیوں کا مشاہدہ کیا وہ بہت سی عظیم شخصیات کا خاصہ تھیں۔ دراصل خوبیاں شخصی ہونے کے ساتھ ساتھ آفاقی بھی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر نظام الدین چونکہ سماجیات کے ماہر ہیں اس لیے ان کی ذات میں مختلف النوع خصوصیات کا جمع ہونا اچنبھے کی بات نہیں“ ڈاکٹر عبدالمجید مزید لکھتے ہیں ”ان میں کام کی رفتار اور جرأت عمل فوجی جرنیلوں کی سی ہے، دور اندیشی امریکی صدر کینیڈی جیسی، پیش رفت اور برق رفتاری ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اور تحرک میاں شہباز شریف جیسا، استقامت نیلسن منڈیلا والی اور فراست مارگریٹ تھیچر کی طرح کی ہے۔ ان تمام متحرک خوبیوں کے ہوتے ہوئے بھی ان کی ذات میں بلھے شاہ کی سی درویشی اور سرمستی ہے جو انہیں اور ان کے اردگرد افراد کو ایک خاص طرح کی لگن اور اطمینان قلب عطا کرتی ہے“۔  
بلاشبہ ڈاکٹر نظام الدین نے مشنری جذبے سے گجرات میں علم و تعلیم کی ثقافت متعارف کرا کے سماجی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں اپنی شخصی خوبیوں اور صلاحیتوں پر کامل یقین سے ہی انہوں نے ریاست کی میکانکی ساخت اور روایتی نظام کے اندر بیٹھ کر اپنی انقلابی فکر سے نئے امکانات روشن کر کے حقیقی معنوں میں علمی معجزہ کر دکھایا ہے۔ فرینکل کہتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مشن صرف ڈھونڈنتے ہیں، ایجاد نہیں کرتے، ہر شخص کا زندگی میں ایک اپنا مشن اور جذبہ ہوتا ہے، وہاں اس کا کوئی بدل نہیں ہوتا اورنہ ہی اس کی زندگی کو دہرایا جاسکتا ہے، لہٰذاہر شخص کا کام اتناہی منفرد ہے کہ جتنا اس کام کو سرے چڑھانے کا موقع“۔ ڈاکٹر نظام الدین وہ خوش قسمت قائد ہیں جنہوں نے اپنے ضمیر کی طاقت سے من پسند ذمہ داری دریافت کی اور بے مثال محنت و ریاضت سے جامعہ گجرات کے خاکے میں ایسے رنگ بھرے کہ اس کی ترقی کے اماکانتا بڑھتے ہی چلے گئے۔ ڈاکٹر نظام الدین نے زندگی سے سانس سانس تجربہ حاصل کیا اور اس طاقت سے لمحہ لمحہ کامیابی میں بدل دیا۔ زندگی اور زندگی کا تجربہ سماجی اور تاریخی دنیا کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ سے ایک تازہ خرام سر چشمہ ہے۔ زندگی سے شروع ہو کر شعور نت نئے گوشوں تک جاتا ہے اور زندگی اور سماج پر اپنے رد عمل سے ہی انسانیاتی مطالعوں کو ان کے اعلیٰ ترین معانی ملتے ہیں اور ہمہ وقت بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر نظام الدین کی کتاب حیات اپنی جگہ ان کے اعمال زیست اس پر ہمیشہ غالب رہے۔ اس لیے یونیورسٹی آف گجرات کی معجزانہ برق رفتاری سے ترقی و استحکام ان کا قابل رشک کارنامہ ہے۔ اس کی تعمیر، تشکیل اور تعبیر و ترقی ہر ہر شعبے میں انہوں نے کمال مہارت سے وہ کارہے نمایاں سر انجام دیئے کہ ہر ہر فرد ان کا معترف ہے ان کے کارناموں اور ان کے مثبت اثرات دیکھ کر واصف علی واصف کی یہ بات یاد آجاتی ہے کہ ”دانا کی زندگی کا علم دانائی نہیں بلکہ دانا کی زندگی کا عمل دانائی ہے“جامعہ گجرات کا درس گاہ سے دانش گاہ کی شناخت کا سفر ان کی مخلص و مؤثر دانائی کا عکس ہے۔ گجرات میں ایک عالمی معیار کی یونیورسٹی کی بنیادیں رکھتے ہوئے انہوں نے کمال اخلاص سے شب و روز کام محنت اور مہربانی سے روش کیے ان کی شفقت و راہنمائی اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے اس ادارے کے لیے فنافی الجامعہ گجرات ہو کر کام کیا۔ ویسے بھی مخلص کی تعریف ہی یہ ہے کہ آپ کے ساتھ، آپ سے زیادہ مہربان ہو۔ ڈاکٹر نظام الدین راست فکر اور راست عمل انسان ہیں انہوں نے عادلا نہ نظام سے اس جامعہ کو استحکام بخشتا ہے۔ یاد رہے کہ خیال عادل نہ ہو تو عمل عادل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اخلاص، محبت اور خیر سے جامعہ گجرات کو مقامی وقار اور قومی معیار عطا کیا ہے۔ اب اپنے حصے کا کام اور خدمت کرکے وہ جارہے ہیں، انہوں نے اپنے کردار سے ایک تاریخ رقم کی ہے اہل گجرات ان کے لیے سراپا تشکر اور دعا گو ہیں۔ ان کی خدمات، ان کے اخلاص، ان کی علم دوستی اور ان کے کردار و افکار کا چراض صدیوں اس علاقہ کو علم کی روشنی سے منور کرے گا انہیں دیکھ کر رابندناتھ ٹیگور کی بات یاد آجاتی ہے کہ 

میرے افکار جگنوؤں کی طرح ہیں 
جیتی جاگتی روشنیوں کے نقطعے
جو گھپ اندھیرے میں ہی ٹمٹماتے ہیں 

شیخ عبدالرشیدڈائریکٹر میڈیا اینڈ پبلی کیشنز

جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

اقتصادی و سماجی ترقی اور ہمارے حکمران


زر انسان کی وہ تخلیق ہے جو خود انسان پر بھاری پڑ رہی ہے۔ ماہرین معیشت کو زندگی کا مادی چہرہ قرار دیتے ہیں کیونکہ جس طرح روپے کے زرد رخ پر انسانی خون لگا ہوا ہے،اس طرح زندگی کا مادی چہرہ بھی اس خون سے لت پت ہے۔ اس تناظر کے باوجود اقتصادیات اور مالیات کا علم ہی خود زندگی کو سمجھنے ا ور برتنے کے لیے ناگذیر ہے۔ آج زندگی سے متعلق ہر شے کو معاشی پیمانے سے ہی ماپا جاتا ہے، یہی وہ مستقل قدر ہے جسے ہر کوئی تسلیم کرتا ہے۔ افراد کی عزت و تکریم کی میزان معاشیات ہے تو اقوام کی قوت و اقتدار کا معیار بھی یہی اقتصادیات ہے۔ معاشی جدیدیت کا شکار ہونے والوں کی جدید اخلاقیات، معاشی و معاشرتی فوائد کو ہر دوسری چیز پر فوقیت دیتی ہے۔ اس صورتحال کا اطلاق پاکستان پر کر کے یہاں کی معاشی و معاشرتی مشکلات کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ وطن عزیز کے اکثر مسائل کی جڑ معاشی عدم مساوات ہے،پاکستانی سماج کے اخلاقی دیوالیہ پن، فکری بانجھ پن اور معاشرتی تباہی کے اسباب کا باریک بینی سے تجزیہ کریں تو معاشی ناانصافی اور غربت ہی اسکی نمایاں وجوہات ہیں۔ 
پاکستان کے موجودہ مسائل میں دہشت گردی اور انتہا پسندی سب سے گھمبیرمسائل ہیں۔ تمام پاکستانی دہشت گردی و انتہا پسندی سے نجات کے آرزو مند ہیں۔ ان انسانیت دشمن مسائل سے نجات کے لیے سماجی و معاشی عدم مساوات ناگذیر ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت ہمارے مسائل کا بڑا منبع ہے اور غربت کی طرف جانے والا راستہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے راستے سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔ غربت اپنے جال میں پھنسے لوگوں میں احساس محرومی اور سختی پیدا کرتی ہے تو عدم مساوات سے ناانصافی اور شکایت کا احساس تقویت حاصل کرتا ہے، اسی سے مایوسی اور غصے کو فروغ ملتا ہے جو سماجی و سیاسی عدم استحکام حتیٰ کہ تشدد کو جنم دیتا ہے۔ ہمارے ہاں معاشی عدم مساوات کا بڑا سبب مقامی، صوبائی اور قومی حکومتوں میں باقاعدہ اور منصفانہ عوامی نمائندگی کا نہ ہونا ہے۔ مفاد پرست گروہوں کے شکنجے عوامی سطح پر ناخواندگی اور شعور کی کمی کی وجہ سے مضبوط ہیں۔ لوگ استحصال اور نظام کی زیادتیوں کا شکارتو ہیں مگر اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات سے بھی محروم ہیں۔یوں دکھائی دیتا ہے لوگوں نے مصائب کو مقدر تسلیم کر لیا ہے۔ وہ استحصال کرنے والوں سے لڑنے کی بجائے خود اپنے اندر ہی لڑتے رہتے ہیں۔ ہمارے عوام بجائے اس کے کہ متحد ہو جائیں اور ترقی و روزگار اور معاشی ڈھانچے کی بہتری کے مشترکہ مقاصد کے لیے کوشاں ہوں، اُلٹا آپس میں دوست و گریباں ہیں۔ پاکستان میں معاشی ترقی کی ناگفتہ بہ صورتحال اور ناقص نوعیت کی وجہ سے ذہنی امراض اور انتہا پسندی کو بڑھوتری حاصل ہو رہی ہے۔ ماہرین نفسیات درست طور پر نشاندہی کرتے ہیں کہ نا امیدی اور شدت پسندی میں گہرا تعلق ہے۔  
پاکستان میں معاشی و معاشرتی پالیسیاں مسلسل ناکامی سے دوچار ہیں۔ اس ناکامی کے اثرات کی تقسیم میں مساوات کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ غریبوں کے لیے پبلک سروس کی اہمیت خاص معنی رکھتی ہے مگر ہماری ریاست و حکومت نے اپنی سماجی ذمہ داری سے پہلو تہی کی روش اپنا رکھی ہے۔ یہ وہ بد قسمت ملک ہے جہاں سرکار پبلک مفادات کو کوئی اہمیت نہیں دیتی، یہاں کو ئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں، پبلک ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی یتیمانہ حالت زار حکمرانوں کی عدم دلچسپی کا ماتم کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں سماجی یکجہتی کے فقدان کی بڑی وجہ حکمرانوں کے ہاں عوام دوست ترقی کے تصور کا فقدان ہے۔ ترقیاتی منصوبہ کار اپنے منصوبے ایسے تیار کرتے ہیں اور ان پر ایسے علاقوں میں عمل در آمد کرواتے ہیں جہاں ان کا اپنا مفاد سب سے زیادہ ہو اور جمہوری ادارے سب لوگوں کے لیے یکساں حقوق کا اصول منوانے کے سلسلے میں بے اختیار ہیں۔ 
پاکستان میں لوگوں کے معاشی و سماجی حالات مستحکم نہیں ہیں اور بہت سے مسائل کا سامنا عوام کو یعنی نچلے اور نچلے متوسط طبقہ کے لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔ معاشی تنزلی لوگوں کی عزست نفس کو کچل رہی ہے۔ زندہ اقوام میں خود داری اور کسی حد تک فخر ہر فرد کے لیے لازم ہے۔ ہمارے سماج میں معاشی نا انصافی نے لوگوں کی خود داری اور تفاخر کو سب سے پہلے ختم کیا ہے۔ جب کوئی شخص نہ حل ہونے والے مسائل کا سامنا کرتا ہے، خود کو شکست خوردہ محسوس کرتا ہے اور نا امیدی کا شکار ہو جاتا ہے تو حکومت یا نجی شعبے کی طرف سے ایسی کوئی جگہ فراہم نہیں کی گئی جہاں وہ ہمدردی اور مدد کیلئے جاسکے۔ بڑھتی ہوئی غربت لوگوں کو خودکشی پر مجبور کر رہی ہے، مہنگائی نے زندگی کو ناممکن بنا دیا ہے۔ یہ بات پہلے کبھی اتنی سچ نہیں تھی تاہم اب تو بھرپور سچ ہے کہ متوسط طبقے کا بڑا حصہ، پورے کا پورا نچلا متوسط طبقہ اور نچلا طبقہ زندگی کی بنیادی ضرورتیں خریدنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ مہنگائی کا بوجھ سرمایہ داروں، قانون سازوں اور بالا دست طبقوں پر اثر انداز نہیں ہوتا، صرف اور صرف عوام کو ہی اس کا بوجھ سہنا پڑتا ہے۔ بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ بڑے کنبوں میں خاندان کے تما افراد کو کمانا پڑتا ہے اور کسی قسم کے تحفظ کے انتظامات یا بے روزگاری کی مراعات موجود نہیں ہیں۔یہ وہ سازگار حالات ہیں جس میں وہ لوگ اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں اور خود اپنی تباہی کے راستے پر چل چکے ہیں انھیں آسانی سے انتہا پسندی کے راستے پر لایا جا سکتا ہے بلکہ لایا جا رہا ہے۔
پاکستان نے عالمی سربراہ اجلاس کے اعلامیہ برائے سماجی ترقی پر دستخط کر رکھے ہیں اور اس کے تحت غربت میں کمی، ضروریات کے مطابق تعلیم کے فروغ تا کہ ترجیحی بنیادوں پر ملازمتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے، سماجی یکجہتی اور انسانی حقوق کے احترام کو رواج دینے، عورتوں اور مردوں کے درمیان برابری کے حصول اور سب کیلئے برابری کی بنیادوں پر معیاری تعلیم کی فراہمی کیلئے اقدامات کرنے کا پابند ہے۔ پاکستان نے سماجی ڈھانچے کی تربیت تو کی پالیسیوں، سماجی ترقی کے اہداف کو یقینی بنانے، بین الاقوامی تعاون اور سماجی ترقی کے ڈھانچے کو مضبوط بنانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ درحقیقت کئی سماجی و اقتصادی شعبوں میں بہتری کی بجائے خرابی واقع ہوئی ہے۔ قوم وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے پوچھ رہی ہے کہ کیا صرف آئی ایم ایف سے کیے گئے عوام دشمن معاہدوں کی پاسداری ہی حکومتی فریضہ ہے؟ کیا عالمی سربراہی اجلاس کے اعلامیہ برائے سماجی ترقی جیسے معاہدوں اور وعدوں پر عملدرآمد کسی اور کی ذمہ داری ہے؟ حکمران ہوش کے ناخن لیں۔ ان کے خود مرکزیت کا شکار ضمیر پر صرف اتنی دستک دیتا ہوں کہ معاشی و معاشرتی ناہمواریاں ننگِ انسانیت ہیں، ان کے خاتمے میں ہی انسانیت کی نشونما کا راز پوشیدہ ہے۔ تمام زرداروں کر اپنے چہروں پر لگا انسانی خون صاف کرنا ہوگاقبل اس کے قوم ان کے چہرے ہی نوچ لے۔

طبلے کا شاعر: میاں نبی بخش کالروی

برصغیر پاک و ہند میں موسیقی کے نامور طبلہ نواز و پنجابی شاعر میاں نبی بخش 1840ء میں گجرات کے نواح میں جی ٹی روڈ پر واقع گاؤں کالرا میں پیدا ہوئے۔ میاں نبی بخش گائک اور مخترع بھی تھے۔ دنیائے موسیقی میں میاں نبی بخش کالرے والے کے نام شے شہرت حاصل کی۔ ان کے ننھیال کا تعلق موسیقی سے تھا اور ان کے گھرانے کے کئی افراد موسیقی سے وابستہ تھے جبکہ کالراپنواں میں ان کا ددھیال زمیندار گھرانہ تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے سکول سے ہی حاصل کی اور صرف دوجماعت پاس تھے۔ میاں صاحب کے ایک ماموں سارنگی نواز تھے جن سے متاثر ہو کر انہوں نے موسیقی میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ موسیقی سے ان کی گہری دلچسپی دیکھ کر ان کے ماموں نے انہیں موسیقی کی باقاعدہ تعلیم دینا شروع کی۔ شروع میں میاں نبی بخش نے پکھاوج سیکھنے میں زیاد شوق دکھایا مگر بعد ازاں وہ طبلہ بجانے کی طرف راغب ہو گئے۔ طبلہ سیکھنے کے لیے انہوں نے پنجاب گھرانے کے نامور استاد میاں فتح دین کی شاگردی اختیار کی۔ میاں فتح دین نے پکھاوج کو بند ہاتھوں سے بجانے کی روایت ڈالی۔ ان سے پہلے پکھاوج کھلے ہاتھوں سے بجایا جاتا تھا۔ موسیقی کے محقق، استاد،مصنف اور نامور کلاسیکی گائیک استاد بدرالزماں اپنی کتاب ”سرتال“ کے صفحات 437-38 پر میاں نبی بخش کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”میاں فتح دین کے شاگردوں کی لڑی میں میاں نبی بخش کالرے والے، میاں میراں بخش گل والیے، میاں کرم الہیٰ، بابا بڈھے خاں اور استاد محمد طفیل نارووالیے نے بہت نام پیدا کیا“۔

شہباز علی اپنی کتاب ’سرسنسار‘ میں بیان کرتے ہیں کہ طبلہ نوازی میں پنجاب گھرانہ نمایاں اور منفرد مقام کا حامل ہے۔ میاں نبی بخش نے بھی اپنے استاد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنجاب گھرانہ کی طبلہ نوازی کو سجانے اور سنوارنے کا کام جاری رکھا۔ پنجاب گھرانے کا اپنا ایک اچھوتا اسلوب اور قرینہ ہے جو اسے طبلہ نوازی کے دیگر گھرانوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اس گھرانے کے طبلہ نوازوں نے طبلے پر گت توڑا، ’پرن‘ یا’ریلا‘ زیادہ بجایا ہے اور یہی پنجاب گھرانے کی نمایاں خصوصیت ہے۔ گجرات کے میاں نبی بخش کو پنجاب کے طبلہ نوازوں نے ’طبلے کا شاعر‘ کا لقب دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس طرح ایک شاعر دوسرے شاعر سے مختلف ہوتا ہے اور اس میں اختراع کا مادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح میاں صاحب نے بھی طبلے میں بہت سی نئی چیزیں اختراع کیں، مثلاً انہوں نے چار اور سات درجے کی گتیں بنائیں، تڑپات گت بنائی جو پہلے موجود نہ تھی، قاعدے اور پیش کاریاں بنائیں۔ ان کے بنائے ہوئے ایک قاعدہ کے بول ملاحظہ ہوں  
دھاتی دھا گھڑ نگ تٹ کٹ
تگ گھڑ نگ تٹ نگ تٹ کٹ               
میاں نبی بخش کالرا نے طبلہ سیکھنے کے بعد سب سے پہلے گجرات میں موسیقی کی درسگاہ قائم کی جہاں انہوں نے کئی سالوں تک شائقین کو طبلے کی تربیت دی اور پھر امرتسر منتقل ہو گئے اور وہاں موسیقی کی تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا۔ طبلے کی دنیا میں ناموری کمانے والے استاد کریم بخش پیرنہ  امرتسر میں ہی میاں صاحب کے شاگرد ہوئے۔ ان دنوں امرتسر میں سنگیت ساگر استائی بھائی لعل محمد کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ وہیں دونوں گنی سنگیت کار ’ولی راولی می شناسد‘کے مصداق ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے۔ امرتسر میں فضل دین، ہدایت و دیگر کو طبلے کی تربیت دی اور چند سالوں بعد ہی واپس گجرات آگئے اور دوبارہ یہیں طبلہ سکھانے لگے۔ گجرات کے مشہور بیرسٹر ایشر داس کا بیٹا ترلوک کپور بھی میاں نبی بخش کا شاگرد تھا۔ میاں صاحب کے نامور شاگرد وں میں استاد اللہ دتہ بہاری پوری، علی بخش ٹانڈے واسیا اور مہندر سنگھ بیدی نمایاں ہیں۔ میاں نبی بخش کالروی باکمال شخص تھے، انہوں نے بہت سے نئے راگ اختراع کرنے کے ساتھ ساتھ مروجہ راگوں کے استھائی انترے بھی تخلیق کیے اور اپنے تخلیق کردہ استھائی انتروں میں لفظ”عبدل“ بطور تخلص استعمال کیا، مثلاً راگ ’شدھ سارنگ“ کے بول دیکھیئے۔ 
استھائی: گاؤ سب گنین گائیں جگت تیرو 
انترا: تو ہی آو تو ہی انت، تیرو ہی سنسار
عبدل کی پربھو راکھو لاج اب 

پاکستان کے تمام بڑے گائکوں کو ان کے بنائے ہوئے استھائی انترے یاد تھے۔ میاں صاحب کے علم موسیقی سے جو نامور گائیک اور ساز نواز مستفید ہوئے ان میں استاد اللہ بخش حضروی، اعجاز حسین حضروی، ماسٹر محمد صادق پنڈی والے معتبر نام ہیں۔ 
کہا جاتا ہے کہ میاں نبی بخش کی اولاد نہیں تھی۔ گاؤں والوں نے ذکر کیا کہ کوئی اجنبی لاوارث بچے کو فروخت کرنے آیا ہے۔ آپ چاہیں تو یہ بچہ پرورش کے لیے آپ کو دے سکتے ہیں میاں صاحب نے اس بے آسرا بچے کو گود لے لیا۔ اس کا نام پیراندتہ چب تھا۔میاں صاحب نے اس کی پرورش اولاد کی طرح کی اور شروع ہی سے طبلے کی تعلیم دینا شروع کی۔ اس نے بھی پور ے ذوق اور شوق سے سیکھا اور محنت و ریاضت کی منزلیں طے کر کے نامور طبلہ نواز بن گیا۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میاں صاحب نے کوئی گت تیار کی اور اسے کہا بیٹا یاد کر لو، اس نے جواب میں یہ کہہ کر کہ یہ بھی کوئی گت ہے۔ کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی۔ میاں صاحب نے پھر اسے یاد کرنے کو کہا تو اس نے کہا یہ بھی کوئی گت ہے میں اسے کیا یاد کروں۔ میاں نبی بخش نے پھر سمجھایا کہ میں نے یہ گت بڑی محنت سے تیار کی ہے اور میری خواہش ہے کہ تم اسے یاد کر لو، اس نے کہا یہ تو بیکار گت ہے،میرے یاد کرنے کے قابل نہیں۔ اس جواب پر میاں صاحب غصے اور جلال میں آگئے اور کہا بے مراد مجھ سے سیکھ کر، میری ہی بنائی گت کا مذاق اڑاتے ہو، بے مراد رہو، جاؤ تمہارے ہاتھ طبلہ بجانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ کہتے ہیں کہ پھر اہل ِگجرات نے  دیکھا کہ استاد کی بدعا کے بعد پیراندتہ چب کا ذہنی توازن خراب ہو گیا وہ طبلہ بجانے کے قابل نہ رہا۔اور سالہا سال گجرات کی سڑکوں پر پاگلوں کی طرح پھرتا رہا۔ آخر کار گاؤں والوں کو رحم آیا اور وہ اسے میاں صاحب کے حضور لے گئے کہ اسے معاف کر دیں۔گاؤں کے لوگوں کے اصرار پر اسے معاف کر دیا گیا او رپھر کچھ عرصہ بعد پیراندتہ چب پھر طبلہ بجانے لگا۔ میاں نبی بخش کا اپنا پنجابی قطعہ ہے کہ 
اللہ، مرشد، پیر استاد دا جس تے ہووے سایا
اس نوں گھاٹا کوئی نہ رہندا مولا نے فرمایا
باج ایہناں دے کوئی نہ چنگا  جو دنیا تے آیا 
جس نے بے پروائی کیتی اس نے گھاٹا پایا 
میاں صاحب اولاد نہ ہونے کی وجہ سے شاگردوں کو ہی اولاد سمجھتے تھے۔ اولاد کی خاطر انہوں نے دو شادیاں کیں لیکن اس نعمت سے محروم رہے۔ ان کے ماموں نے بعد میں انہیں تیسری شادی کے لیے راضی کیا۔ تیسری شادی کے موقع پر ان کے شاگردوں نے استاد کی بیوی کے لیے چالیس تولے سونا بطور نذر پیش کیا۔ اللہ کے فضل سے تیسری بیوی سے ان کے ہاں نرینہ اولاد پیدا ہوئی جس کا نام ارشاد علی رکھا گیا۔ خلیفہ ارشاد علی ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے تین عشروں سے زیادہ عرصہ تک وابستہ رہے۔ میاں صاحب طبلہ کے ماہر اور صاحب علم تھے انہوں نے طبلے کے حوالے سے ایک کتاب ”پستک تال برن“ کے عنوان سے لکھی تھی مگر یہ کتاب ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکی اور نہ بعد میں۔ شہباز علی کے مطابق اس کا قلمی نسخہ ان کے بیٹے خلیفہ ارشاد علی کے پاس محفوظ ہے جو راولپنڈی میں رہائش پذیر ہیں۔
میاں نبی بخش کالروی طبلہ نواز ہونے کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان میں شعر بھی کہتے تھے۔ پنجابی شاعری میں بھی وہ موسیقی کو ہی موضوع بناتے رہے اور شعروں میں موسیقی ہی کی نزاکت و لطافت اور شیرینی کو بیان کیا۔ ان کی پنجابی شاعری بھی موسیقی سے ان کے قلبی لگاؤ اور روحانی وابستگی کا کھلا اظہار ہے۔ میاں نبی بخش کالروی کہتے ہیں 
گاون کولوں جاہل ڈر دے گاون بڑا خزانہ
حوراں جنت دے وچ گاون رب دا روز ترانہ
اس ہستی وچ سوجھت نئیں جس دے وچ ویرانہ
علم موسیقی دی مس جس نوں اس دا مغز شاہانہ
ای طرح سر اور سنگیت سے لگاؤ کی آفاقیت کو یوں بیان کرتے ہیں  
راجے، سادھ، فقیر شہزادے ہرمن راگ سہاوے  
راگ سریلا، رس دے پتھر دل نوں موم بناوے 
جتھے راگ دا پہرہ ہووے غم چنتا نس جاوے
عشق حقیقی، علم موسیقی دے وچ نظری آوے 
میاں نبی بخش کے آخری سال لاہور میں گذرے، انہوں نے ہیرا منڈی میں ایک بیٹھک کرایہ پر لے کر طبلہ کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ بیٹھک پہلے استاد برکت علی خاں صاحب کے پاس تھی جہاں وہ خود ریاض کرتے تھے۔زندگی کے آخری دو عشرے میاں نبی بخش نے لاہور میں ہی بسر کیے۔ ان کے ہونہار شاگرد پیراندتہ عرف گھاٹی نے بڑی عقیدت سے انہیں اپنے گھر رکھا۔ آخر کا ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی اور وہ سو سال سے زاید کی عمر میں 5 مئی 1948 کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور وزیر آباد کے قریب دھونکل میں پیر مراد یا کے مزار کے ساتھ دفن ہوئے۔