پیر، 27 اکتوبر، 2014

یونیورسٹی آف گجرات کا بابرکت نظام


اسے بد قسمتی کے سوا کیا کہیے کہ ہماری درسگاہیں فکری بانجھ پن کا شکار ہیں تاہم کہیں کہیں کوئی نخلستان بھی مل جاتا ہے جس کی ایک نمایاں مثال یونیورسٹی آف گجرات ہے جس نے ایک عشرے سے بھی کم مدت میں روح عصر کے نمائندہ وژن کے علمبردار قائد ڈاکٹر محمد نظام الدین کی مدبرانہ رہنمائی اور مصلی نہ کار گذاری سے درس گاہ سے دانش گاہ کی شناخت حاصل کی ہے اور پاکستانی جامعات میں مرکز اختصاص فضیلت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ عالمی شہرت کے حامل ماہر عمرانیات ڈاکٹر محمد نظام الدین اس جامعہ کے لیے ”فضل ربی“ سے کم ثابت نہ ہوئے۔ ان کے وسیع تجربے، تحقیقی و تدریسی مہارتوں اور شب و روز محنت کے مزاجِ خاص نے مختصر مدت میں ہی اس جامعہ کو اہل گجرات کے ماتھے کا جھومر بنا دیا ہے۔ یہ دانش گاہ مقامی، قومی اور عالمی سطح پر گجراتیوں کی قابل فخر شناخت ہی نہیں علاقہ کے لیے نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔ یونیورسٹی آف گجرات کی تیز رفتار ترقی کے جسم میں دھڑکتا ہوا ”نظام“ ہی ہے جس نے سخنوروں کی اس بستی کے قدیم اعزاز خطہ یونان کو نشاۃ ثانیہ بخشی ہے انہوں نے گذشت آٹھ سالوں میں جس مدبرانہ حسن انتظام سے اس یونیورسٹی کے خواب کو تعبیر بخشی ہے وہ لائق تحسین ہے اور ہر کوئی بلا امتیاز اس کامیاب منتظم کی صلاحیتوں اور خدمات کا معترف ہے۔ 
پاکستانی جامعات کے علمی و فکری منظر نامے پر پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین اپنے علمی مزاج، تحقیقی نداز، اپنی سنجیدہ آواز، اپنے لحن اور طرز سخن سے الگ ہی پہچانے جاتے ہیں وہ وطن عزیز کے عہدِ حاضر کے ممتاز اہل دانش، ماہرین تعلیم، محققین اور منتظمین میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ ایک زیرک، معاملہ فہم، شائستہ اور صاحب علم انسان ہیں۔ موصوف علم و عمل میں ارتباط کی ایک شاندار مثال ہیں، وہ علم کو تحقیق و تخلیق اور زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے جوڑ کر سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک اچھے مدبر، اعلیٰ پائے کے منظم، شفیق استاد، اساتذہ اور طلباء کے ہر دلعزیز قائد ہیں بلکہ ایک اعلیٰ ظرف اسنان اور انسان دوست شخصیت ہیں جامعہ گجرات کے شعبہ باٹنی کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید نے ان کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے ”میں نے اپنی مختصر رفاقت میں ڈاکٹر نظام الدین میں جن مختلف النوع خوبیوں کا مشاہدہ کیا وہ بہت سی عظیم شخصیات کا خاصہ تھیں۔ دراصل خوبیاں شخصی ہونے کے ساتھ ساتھ آفاقی بھی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر نظام الدین چونکہ سماجیات کے ماہر ہیں اس لیے ان کی ذات میں مختلف النوع خصوصیات کا جمع ہونا اچنبھے کی بات نہیں“ ڈاکٹر عبدالمجید مزید لکھتے ہیں ”ان میں کام کی رفتار اور جرأت عمل فوجی جرنیلوں کی سی ہے، دور اندیشی امریکی صدر کینیڈی جیسی، پیش رفت اور برق رفتاری ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اور تحرک میاں شہباز شریف جیسا، استقامت نیلسن منڈیلا والی اور فراست مارگریٹ تھیچر کی طرح کی ہے۔ ان تمام متحرک خوبیوں کے ہوتے ہوئے بھی ان کی ذات میں بلھے شاہ کی سی درویشی اور سرمستی ہے جو انہیں اور ان کے اردگرد افراد کو ایک خاص طرح کی لگن اور اطمینان قلب عطا کرتی ہے“۔  
بلاشبہ ڈاکٹر نظام الدین نے مشنری جذبے سے گجرات میں علم و تعلیم کی ثقافت متعارف کرا کے سماجی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں اپنی شخصی خوبیوں اور صلاحیتوں پر کامل یقین سے ہی انہوں نے ریاست کی میکانکی ساخت اور روایتی نظام کے اندر بیٹھ کر اپنی انقلابی فکر سے نئے امکانات روشن کر کے حقیقی معنوں میں علمی معجزہ کر دکھایا ہے۔ فرینکل کہتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مشن صرف ڈھونڈنتے ہیں، ایجاد نہیں کرتے، ہر شخص کا زندگی میں ایک اپنا مشن اور جذبہ ہوتا ہے، وہاں اس کا کوئی بدل نہیں ہوتا اورنہ ہی اس کی زندگی کو دہرایا جاسکتا ہے، لہٰذاہر شخص کا کام اتناہی منفرد ہے کہ جتنا اس کام کو سرے چڑھانے کا موقع“۔ ڈاکٹر نظام الدین وہ خوش قسمت قائد ہیں جنہوں نے اپنے ضمیر کی طاقت سے من پسند ذمہ داری دریافت کی اور بے مثال محنت و ریاضت سے جامعہ گجرات کے خاکے میں ایسے رنگ بھرے کہ اس کی ترقی کے اماکانتا بڑھتے ہی چلے گئے۔ ڈاکٹر نظام الدین نے زندگی سے سانس سانس تجربہ حاصل کیا اور اس طاقت سے لمحہ لمحہ کامیابی میں بدل دیا۔ زندگی اور زندگی کا تجربہ سماجی اور تاریخی دنیا کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ سے ایک تازہ خرام سر چشمہ ہے۔ زندگی سے شروع ہو کر شعور نت نئے گوشوں تک جاتا ہے اور زندگی اور سماج پر اپنے رد عمل سے ہی انسانیاتی مطالعوں کو ان کے اعلیٰ ترین معانی ملتے ہیں اور ہمہ وقت بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر نظام الدین کی کتاب حیات اپنی جگہ ان کے اعمال زیست اس پر ہمیشہ غالب رہے۔ اس لیے یونیورسٹی آف گجرات کی معجزانہ برق رفتاری سے ترقی و استحکام ان کا قابل رشک کارنامہ ہے۔ اس کی تعمیر، تشکیل اور تعبیر و ترقی ہر ہر شعبے میں انہوں نے کمال مہارت سے وہ کارہے نمایاں سر انجام دیئے کہ ہر ہر فرد ان کا معترف ہے ان کے کارناموں اور ان کے مثبت اثرات دیکھ کر واصف علی واصف کی یہ بات یاد آجاتی ہے کہ ”دانا کی زندگی کا علم دانائی نہیں بلکہ دانا کی زندگی کا عمل دانائی ہے“جامعہ گجرات کا درس گاہ سے دانش گاہ کی شناخت کا سفر ان کی مخلص و مؤثر دانائی کا عکس ہے۔ گجرات میں ایک عالمی معیار کی یونیورسٹی کی بنیادیں رکھتے ہوئے انہوں نے کمال اخلاص سے شب و روز کام محنت اور مہربانی سے روش کیے ان کی شفقت و راہنمائی اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے اس ادارے کے لیے فنافی الجامعہ گجرات ہو کر کام کیا۔ ویسے بھی مخلص کی تعریف ہی یہ ہے کہ آپ کے ساتھ، آپ سے زیادہ مہربان ہو۔ ڈاکٹر نظام الدین راست فکر اور راست عمل انسان ہیں انہوں نے عادلا نہ نظام سے اس جامعہ کو استحکام بخشتا ہے۔ یاد رہے کہ خیال عادل نہ ہو تو عمل عادل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اخلاص، محبت اور خیر سے جامعہ گجرات کو مقامی وقار اور قومی معیار عطا کیا ہے۔ اب اپنے حصے کا کام اور خدمت کرکے وہ جارہے ہیں، انہوں نے اپنے کردار سے ایک تاریخ رقم کی ہے اہل گجرات ان کے لیے سراپا تشکر اور دعا گو ہیں۔ ان کی خدمات، ان کے اخلاص، ان کی علم دوستی اور ان کے کردار و افکار کا چراض صدیوں اس علاقہ کو علم کی روشنی سے منور کرے گا انہیں دیکھ کر رابندناتھ ٹیگور کی بات یاد آجاتی ہے کہ 

میرے افکار جگنوؤں کی طرح ہیں 
جیتی جاگتی روشنیوں کے نقطعے
جو گھپ اندھیرے میں ہی ٹمٹماتے ہیں 

شیخ عبدالرشیدڈائریکٹر میڈیا اینڈ پبلی کیشنز

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں