جمعرات، 23 جولائی، 2015

علوم ترجمہ


بابائے اردو مولوی عبدالحق نے کہا تھا کہ ”جب کسی قوم کی نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے اور وہ آگے قدم بڑھانے کی سعی کرتی ہے تو ادبیات کے میدان میں پہلی منزل ترجمہ ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ جب قوم میں جدت اور اپچ نہیں رہتی تو ظاہر ہے کہ اس کی تصانیف معمولی، ادھوری، کم مایہ اور ادنیٰ ہوں گی۔ اس وقت قوم کی بڑی خدمت یہی ہے کہ ترجمہ کے ذریعے دنیا کی اعلیٰ درجے کی تصانیف اپنی زبان میں لائی جائیں۔ یہی ترجمے خیالات میں تغیر اور معلومات میں اضافہ کریں گے، جمود کو توڑیں گے اور قوم میں ایک نئی حرکت پیدا کریں گے اور پھر یہی ترجمے تصنیف و تالیف کے جدید اسلوب اور آہنگ سجائیں گے۔ ایسے میں ترجمہ تصنیف سے زیادہ قابل قدر، زیادہ مفید اور زیادہ فیض رساں ہوتا ہے “۔ اسی تناظر میں یونیورسٹی آف گجرات کے شعبہ ¿ تصنیف و تالیف کی نئی پیش کش ”علوم ترجمہ“شائع ہوئی۔ یہ نامور ماہر لسانیات و ادب اور علوم ترجمہ سوزن بیسنٹ کی ابتدائی، مفید اور مقبول عام کتاب "Translation Studies" کا اردو ترجمہ ہے ۔ بیس سے زیادہ علمی کتب کی اس مصنفہ کی یہ کتاب پہلی بار 1980ءمیں شائع ہوئی تودنیا بھر میں اس کی پذیرائی ہوئی اور اس کی مانگ بڑھتی گئی۔ قارئین کی دلچسپی اور مانگ کی بنا پر اب تک اس کے کئی ایڈیشن طبع ہوئے اور یہ کتاب (دوبارہ) چھ بار شائع ہو چکی ہے ۔ یہ کتاب ”علوم ترجمہ“ کی ابتدائی اور بنیادی کتاب سمجھی جاتی ہے اور اس نے گذشتہ پینتیس برسوں میں علوم ترجمہ کے شعبہ ¿ کو بھرپور قوت متحرکہ اور مدرسانہ راہنمائی فراہم کی ہے ۔ یہ کتاب رومن ثقافت سے بیسویں صدی تک ترجمہ کے تناظر میں ہونے والے اہم مباحث کا جائزہ پیش کرتی ہے ۔ یہ ترجمہ کو قطعی لسانی عمل کی بجائے لسانی علامات و اشارات اور ثقافتی عمل کے طور پر دیکھتی ہے اور قارئین کو مترادف معانی کی بہت سی مشکلات سے بھی آشنا کرتی ہے ۔ اس کتاب کے مطالعے سے عیاں ہوتا ہے کہ یہ پڑھنے والوں کو ”علوم ترجمہ“ کی اہمیت ، وسعت، گہرائی، امتیاز اور ترجمہ کی گہری پیچیدگیوں اور مشکلات سے متعارف کرواتی ہے اور پس نو آبادیاتی نظام کا فہم دیتی ہے اور تاریخ میں ترجمے کے کردار اور ترجمے کے بدلتے اور ترقی کرتے نظریات و مباحث سے آگاہی فراہم کرتی ہے ۔ 

سوزن بیسنیٹ (Susan Bassnett) فن ترجمہ کی نظریہ ساز اور تقابلی ادب کی سکالر ہیں۔ انہوں نے ڈنمارک، پرتگال اور اٹلی سے تعلیم حاصل کی اور بچپن میں ہی مختلف زبانوں میں مہارت حاصل کی ۔ انہوں نے واروک یونیورسٹی (The University of Warwick) میں تقابلی ادب اور علوم ترجمہ میں پوسٹ گریجویٹ پروگرام شروع کیے۔ واروک یونیورسٹی میں وہ اس کے Centre for Translation and Comparative Cultural Studies سے وابستہ رہیں۔ وہ اس یونیورسٹی میں پرووائس چانسلر کے عہدے پر بھی تعینات رہیں۔ موصوفہ بیس سے زیادہ کتب کی مصنفہ ہیں ۔وہ دنیا بھر میں علوم ترجمہ اور تقابلی ادب کے حوالے سے لیکچر دیتی رہتی ہیں اور ورکشاپس منعقد کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ سوزن بیسنٹ Institute of Linguists, اور Royal Society of Literature اور The Academia Europia کی منتخب رکن ہیں۔ حالیہ سالوں میں وہ کئی بڑے ادبی انعامات جیسے کہ The Independent Foreign Prize, Time/Stephen Poetry in Translation اور The IMPAC Dublin Prizeکی جج رہیں ہیں۔ یونیورسٹی آف گجرات CeLTS کے تحقیقی مجلہ کے ایڈیٹوریل بورڈ کی ممبر بھی ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی صحافت ، ترجموں اور شاعری کی وجہ سے شہرت عام کی حامل لائق تحسین اور قابل قدر مصنفہ ہیں۔ 
ایسی عالمی شہرت اور مہارت کی حامل مصنفہ کی شہرہ آفاق کتاب ”علوم ترجمہ “کا ترجمہ کوئی عام قلمکار نہیں کر سکتا تھا۔ اسی لیے علم دوست، صاحب مطالعہ اور کثیر اللسانی مہارتوں کے حامل دانشور قلمکار جناب توحید احمد کو ہی اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے ہی سوزن بیسنٹ کی کتاب ”علوم ترجمہ“ کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور نیک نیتی ، خلوص، لگن اور مہارت سے خوبصورت اور قابل اعتماد ترجمہ کیا ہے ۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ جناب توحید احمد نے یہ ترجمہ مصنفہ سے ان کے تیسرے ایڈیشن کی اشاعت پر باقاعدہ اجازت لے کر کیا ہے ۔ 
جناب توحید احمد اکتوبر 1947ءمیں لاہور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے حیدر آباد ، سکھر ، بہاولپور، راولپنڈی اور لاہو رکے سکولوں سے تعلیم حاصل کی ۔ 1967ءکے بہترین طالبعلم کے طور پر ایف سی کالج سے تعلیم مکمل کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ¿ انگریزی میں داخلہ لیا اور انگریزی زبان و ادب میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ انہیں پنجابی اور اردو کے علاوہ فرانسیسی ، فارسی اور عر بی زبانوں پر بھی عبور حاصل ہے ۔ 1971ءمیں انہوں نے پاکستان کی فارن سروس میں شمولیت سے پہلے دو سال تک پاکستان ٹائمز، لاہور میں کام کیا ۔ بعد ازاں دنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں اپنی خدمات سر انجام دیں اور 2007 میں ریٹائر ہوئے ۔ انہوں نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے رکن کی حیثیت سے ایک عرصہ کام کیا ۔ انہوں نے پاکستانی اخبارات اور رسالوں میں انگریزی اور اردو زبان میں 200 سے زیادہ مضامین لکھے۔ جناب توحید احمد نے Alvin Toffler کی بہترین کتاب "The Third Wave" اور Erasmus کی کتاب "The Praise of Folly" کا اردو میں ترجمہ کیا ۔ 1995ءمیں انفارمیٹکس ریوولوشن کے حوالے سے ”اطلاعیات“ کے نام سے ان کے اردو مضامین کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے ۔ موصوف کا ”علوم ترجمہ“ کے عنوان سے سوزن بیسنٹ کی کتاب کا شاندار اور جاندار ترجمہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ جناب توحید احمد کا تجربہ اور زبان شناسی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مترجم جس زبان تحریر کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کا سوچے، پہلے اس زبان کے تہذیبی رچاﺅ میں واقفیت حاصل کرے۔ ہمارے ممدوح مترجم کا یہ وصف سند یافتہ ہے ۔ ”علوم ترجمہ“ کا ورق ورق شاہد ہے کہ جناب توحید احمد کا ترجمہ ان کے نیاز و ناز کا حسین امتزاج ہے۔ وہ مصنفہ کا دل سے احترام کرتے ہیں او راس احترام کو معتبر بنانے کے لیے انہوں نے مکمل آزادی اور دیانتداری سے ترجمہ کیا ہے ۔ ان کا ترجمہ رواں، شفاف اور تواناءہے۔ والٹر بنجامن کا کہنا ہے کہ ”اصل ترجمہ شفاف ہوتا ہے“۔ جناب توحید احمد نے متن کو اپنی علمی توانائی سے اس طرح پیش کیا ہے کہ ترجمہ کی زبان کا متن اصل معلوم ہوتا ہے ۔ ایک فرانسیسی کہاوت ہے کہ Translation is like a woman, if it is beautiful it cannot be faithful and if it is faithful, it cannon be beautiful ۔ 
جناب توحید احمد کے اس شفاف ترجمے کا نمایاں وصف یہ ہے کہ یہ مذکورہ کہاوت کے برعکس بیک وقت خوبصورت اور قابل اعتبار ہے ۔ لیکن اسے ستم ظریفی کے علاوہ کیا کہیے کہ ترجمہ نام ہی سعی نا مشکور کا ہے ، جس میں بالعموم مترجم کو ترجمے کی شدید مشقت کے بعد بھی تحسین و قبولیت کم ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس لیے ترجمے کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ ترجمہ ایسی محنت ہے کہ جو کسی کے شکریے کی مستحق نہیں۔ اس سے مراد یہ بھی لی جاتی ہے کہ شکریے کا مستحق دراصل مصنف ہے ، مترجم کا کام صرف اس کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کا ہے اور یہ کوئی بڑا کام نہیں۔ عنایت اللہ دہلوی کہتے ہیں کہ ”مترجم شکریے کا مستحق نہ ہو، لیکن اگر دنیا میں مترجم نہ ہوتا ، تو روئے زمین پر علم کی جھیلیں اور دریا تو بہتیرے ہوتے، مگر ان کو ملا کر علم کا بحر ناپید کنار بنانے والا کوئی نہ ہوتا“۔ اسی تناظر میں میں دانش گاہ گجرات ، مرکز السنہ و علوم ترجمہ اور علوم ترجمہ کے طالبعلم اور اساتذہ جناب توحید احمد کے شکر گذار ہیں، جامعہ گجرات کے مرکز السنہ و علوم ترجمہ کی بنیاد رکھنے اور اسے پروان چڑھانے میں انہوں نے جو قابل قدر کردار ادا کیا ہے، میں اس کا عینی شاہد ہوں اور خوب جانتا ہوں کہ انہی کی راہنمائی اور فراخدلی سے جامعہ گجرات کا مرکز برائے السنہ و علوم ترجمہ، ترجمہ کی تدریس، تحقیق ، تدریب اور ترغیب کا واحد پاکستانی مرکز بنا ہے ۔ 

دو سو سات صفحات پر مشتمل اس کتاب کا آغاز شیخ الجامعہ ڈاکٹر ضیاءالقیوم کے فکر انگیز حرف اول سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے بجا طور پر اکیسویں صدی کو ترجمے کی صدی بنتے دکھایا ہے۔ ترجمے کی کہانی میں مترجم نے اس کتاب کے ترجمے کی ضرورت اور اہمیت کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ پھر مصنفہ کا جامعہ دیباچہ و تمہید بھی شامل ہے۔ کتاب تین بنیادی ابواب پر مشتمل ہے جس میں چوبیس ذیلی عنوانات زیر بحث لائے گئے ہیں اور پھر اختتامیہ بھی ہے۔ آخر میں 34 صفحات پر مشتمل زیر بحث موضوعات سے متعلقہ 291 انگریزی کتب کی تفصیلی فہرست بھی شامل ہے جسے قارئین کی سہولت کے لیے پانچ ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ 
امید واثق ہے کہ علوم ترجمہ کی یہ کتاب زبان و خیال میں وسعت اور زرخیزی کا سبب بنے گی ۔ اس کتاب کی اشاعت میں یونیورسٹی آف گجرات کے مرکز برائے السنہ و علوم ترجمہ کے سربراہ اور مبلغ علوم ترجمہ ڈاکٹر غلام علی کی ترغیب و دلچسپی کلیدی اہمیت کی حامل ہے ۔ 
گجرات یونیورسٹی کے شعبہ ¿ تصنیف و تالیف کی یہ نئی کاوش، وژنری وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم کی شفقت ، علم دوستی اور علوم ترجمہ کی اہمیت کے ادراک کی بدولت ہی کتابی صورت میں منظر عام پر آسکی ۔یہ شعبہ ¿ اس سے قبل بھی درجن بھر کتب شائع کر کے ادبی و علمی حلقوں سے داد و تحسین وصول کر چکا ہے۔ جامعہ گجرات کی خوش قسمتی ہے کہ اسے روح عصر سے ہم آہنگ”ضیائے قیوم“ نصیب ہوئی۔ یہ فضل ربی حافظ حیات ؒ کی برکت کا ثمر ہے۔ یہی ”ضیاء“علوم و ادب کی روشنیوں سے دانش گاہ گجرات کو منور رکھے گی ۔ (انشاءاللہ)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں