منگل، 30 جون، 2015

تعلیم ، بجٹ اور میڈیا


قومی تعمیر نو میں یونیورسٹیاں اہم وسیلہ ہوتی ہیں۔ سیاسی ، معاشی اور تہذیبی استحکام کے لیے قوموں کو علوم و فنون کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یونیورسٹیاں اس ضرورت کو پورا کرنے کا قومی فریضہ سر انجام دیتی ہیں۔ حقیقی یونیورسٹیاں معاشرے میں علم و دانش، مباحثے اورمکالمے کو فروغ دیتی ہیں تاکہ لوگ اپنے مسائل سے آگاہی اور انہیں حل کرنے میں لکیر کے فقیر نہ رہیں۔ اس طرح یونیورسٹیاں سماجی خدمت کے مختلف وسیلوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سماجی ترقی کا سبب بنتی ہیں۔ ترقی کا پائیدار عمل مادی سطح پر اس وقت تک شروع نہیں ہو سکتا جب تک اس بستی کے لوگوں میں فکری تبدیلیاں رونما نہ ہوں۔ تاہم فکری راہنمائی کی ذمہ داری بہر حال یونیورسٹیوں کو ہی ادا کرنی ہے ۔ خوش قسمتی سے یونیورسٹی آف گجرات اپنے اس مثبت کردار سے بخوبی آشنا ہے اور اپنے وژنری قائد ڈاکٹر ضیاءالقیوم کی راہبری میں روایتی درس گاہ سے بڑھ کرقومی دانش گاہ کا فریضہ ادا کرنے کی ثمر آور سعی میں مصروف عمل ہے ۔ اس بات کا شدید احساس و نشاط گذشتہ دنوں علوم ترجمہ کے ممتاز دانشور استاد ڈاکٹر غلام علی کے ہمراہ یونیورسٹی آف گجرات کے مرکزی آڈیٹوریم میں ”تعلیم، بجٹ اور میڈیا“کے موضوع پر منعقدہ فکر انگیز اور پر مسرت سیمینار میں ہوا۔
صدر شعبہ ¿ ڈاکٹر زاہد یوسف کی ولولہ انگیز قیادت میں جامعہ گجرات کا سنٹر فار میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ناطے ایسی سنجیدہ فکری نشستوں کا اہتمام کرتا رہتا ہے جس میں دانشوروں، صحافیوں اور میڈیا کے زعماﺅں کو طالبعلموں کے روبرو بٹھا کر عصری مسائل پر نتیجہ خیز مکالمہ کیا جا سکے اور طالبعلموں کو ابلاغ عامہ کے ماہرین کو براہ راست سننے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا جا سکے ۔
بجٹ کی آمد کے بعد گلی محلوں سے پارلیمنٹ تک ہر جگہ اس پر مختلف حوالوں سے گفتگو جاری ہے مگر بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص فنڈز و کردار پر سنجیدہ مکالمہ نہ میڈیا میں سننے کو ملا، نہ اخبارات میں پڑھنے کو، اس کمی کا ازالہ اس نشست میں ہوا جہاں پر مغز گفتگو نے کئی سوالوں کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے سوالوں کو جنم دے کر حاضرین کو سوچنے کے لیے بہت کچھ دیا۔ سیمینار کا آغاز نقاش سعید کی تلاوت قرآن حکیم اور رضوانہ کوثر کے ہدیہ نعت سے ہوا تو فضا میں علمیت کے ساتھ ساتھ روحانیت اور سنجیدگی کا تاثر بھی بڑھ گیا ۔ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر زاہد یوسف نے کہا کہ ہمارے ہاں تعلیمی ترقی کی راہ میں بڑی بڑی فکری و عملی رکاوٹیں ہمیشہ کھڑی رہی ہیں۔ تعلیم کی حالت زار پر بہت بات ہو چکی مگر پھر بھی اس لیے کہ شاید کچھ ”توجہ دلاﺅ“ قسم کی فکری ، قلمی اور بیانہ کاوشیں کبھی رنگ لے ہی آئیںاور ہمیں سوچنے اور سوال کرنے پر مجبور کر دیں۔ اس لیے یہ فریضہ ادا کرنے کی سعی کی گئی ہے ۔ تعلیمی شعبے پر وہ قومیں زیادہ سے زیادہ خرچ کرتی ہیں جنہیں ترقی کی آرزو اور خوشحالی کی امنگ ہو ۔ مہمان مقرر جواں عزم اور روشن خیال اینکر پرسن (دنیا ٹی وی ) محمد اجمل جامی نے کہا کہ اکیسویں صدی میں تعلیمی شعور اور آگہی ناگذیر ہے۔ تعلیم ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی۔ ہمارے حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم تعلیم کو اپنی ترقی کا محو بنا لیں ۔ ہمارے ہاں تعلیمی بجٹ آج بھی دو فیصد کے گرد گھومتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کے ذریعے تعلیمی بجٹ کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کیا جائے اور تعلیم و ترقی کے تعلق کو مربوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے آگاہی پیدا کی جائے۔ ترقی کا شعور فکری تبدیلیوں کے ساتھ مشروط ہے۔ یونیورسٹی آف گجرات کی معنی خیز، پاکستانیت اور پاکستان کے تقاضوں سے ہم آہنگ جراتمندانہ کاوش ہے۔ سیمینار کے مہمان اعزازDGPR کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر نے کہا کہ آج کے میڈیا کی دنیا میں صداقت، معروضیت، غیر جانبداری اور سنجیدگی کم ہوئی ہے ۔ میڈیا کے تعلیم جیسے اہم موضوع پر کردار کے حوالے سے آج کے سیمینار کے انعقاد پر منتظمین مبارکباد اور خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ آج کے میڈیا کے مسائل و مفادات نے اس کے فرائض اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں پر غلبہ حاصل کر لیا ہے اور صحافت ذرا پیچھے رہ گئی ہے ۔ کوئی قوم اس وقت تک ترقی کا دعویٰ نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ علمی ترقی کے اعلیٰ مدارج کو نہ چھو لے۔ آزادی اظہار ترقی یافتہ قوموں کا شیوہ ہے اور فرد کا بنیادی حق ہے۔ تعلیم سماجی شعور کا نام ہے۔ پاکستان میں تعلیم و صحت کے لیے بجٹ کو خاطر خواہ طور پر بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سیمینار کے مہمان خصوصی سینئر تجزیہ کار اور CPNE کے صدر مجیب الرحمن شامی تھے۔ شامی صاحب کے نقطہ ¿ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کا شمار ان چند خو ش قسمت دانشور صحافیوں میں ہوتا ہے جن کو خدا نے لکھنے اور بولنے دونوں نعمتوں سے نوازا۔ وہ بولتے ہوئے بلا تکان دلائل در دلائل دیے جاتے ہیں۔ مہمان خصوصی مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ پاکستان میں تعلیمی ترقی کے لیے میڈیا کا کردار بے پایاں اہمیت کا حامل ہے کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس ملک کے بجٹ کا کتنا حصہ تعلیمی شعبہ ¿ پر خرچ کیا جا رہا ہے ۔ اکیسویں صدی میڈیا کی صدی ہے ۔ ذرائع اطلاعات و نشریات برق رفتار بن چکے ہیں۔ میڈیا کی بنیادی ذمہ داری پاکستان کی تاریخ و مسائل کا صحیح ادراک کرنا اور اطلاعات کو عوام تک دیانتداری سے پہنچانا ہے۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے مگر حکومتی ناکامیاں ہمارے وسائل کو تباہ کر رہی ہیں۔ پاکستانی بجٹ میں تعلیم پر خرچ کی مد میں آہستگی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے۔ حکومت کو جلد بجٹ پر چار فیصد تک خرچ کرنا ہو گا ۔ جامعات اور تعلیمی اداروں کو صنعتوں کے ساتھ جڑنے کی ضرورت ہے ۔ صوبوں کو تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔ پاکستان میں ہر قسم کے وسائل موجود ہیں مگر سرکار اپنا حصہ وصول کرنے میں ناکام ہے۔ حکمرانوں کو خرچ کی رقم کم کرنے کی بجائے آمدن بڑھانے والے اعمال پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ میڈیا عوامی مسائل کے حوالے سے گفتگو کرتا ہے اسے تعلیم اور اس کی ترقی سے وابستہ مسائل پر اور زیادہ بات کرنا ہو گی ۔ جامعہ گجرات جیسی متحرک ، فعال اور شاندار یونیورسٹیاں ہی حقیقی جامعات ہیں۔ صدر محفل شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم نے کہا کہ تعلیمی ترقی کا حصول معاشرہ کی انقلابی کوششوں کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ تمام دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کا انحصار علم و تعلیم کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے ۔ شومئی قسمت ہمارے ہاں مجموعی پیداوار کا بہت کم حصہ تعلیمی ترقی پر خرچ کیا جاتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں تعلیمی ترقی کے لیے وسائل کی فراہمی کے اپنے اپنے منشور پر بھی عمل نہیں کر رہی رہیں۔ تعلیم پر اخراجات کو خرچ نہیں سرمایہ کاری سمجھا جانا چاہیے۔ تعلیمی نظام کو مربوط و مضبوط اور توانا ءبنانے کے لیے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے اپنا کردار پوری ذمہ داری سے ادا کرے۔ جامعات کو بھی سرکار پر انحصار کے ساتھ اپنے اپنے وسائل کو بڑھانے کے لیے انڈسٹری اکڈیمیا لنکجز کو عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ جامعہ گجرات کے اینڈوومنٹ فنڈ کے بڑھانے کے لیے سول سوسائٹی، تاجر برادری ، مخیر حضرات اور اوورسیز پاکستانیوں کے تعاون کو وسعت دیں گے۔ میڈیا کے دانشوروں کا جامعہ گجرات آنا اور سنٹر فار میڈیا سٹڈیز کا وقت کے تقاضوں کے مطابق سنجیدہ موضوع پر علمی نشست کا اہتمام کرنا لائق تحسین ہے ۔
سیمینار میں ابلاغیات کے اساتذہ ڈاکٹر محمد ارشد، زاہد بلال، محترمہ ثوبیہ عابد، ڈاکٹر لبنیٰ ، رخسانہ ریاض، عمیر احمد ، منعم شہزاد سمیت ماہرین تعلیم، تعلیمی منتظمین ،اساتذہ، اور طالبعلموں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ان کے فکر انگیز سوالات نے سیمینار کو حقیقی جہتوں کا پابند رکھا۔
ہمارے ملکی و قومی حالات کا تقاضا ہے کہ ہم تعلیم کو اپنی سب سے بڑی ترجیح بنا لیں۔ پوری قوم یک نکاتی ایجنڈا بنا لے کہ ہمیں پورے اخلاص سے انفرادی ، اجتماعی اور قومی وسائل کا بڑا حصہ صرف اور صرف تعلیم کے لیے وقف کرنا چاہیے۔ ہماری خوشحالی، ترقی اور سلامتی کی سب راہیں صرف تعلیم اور تعلیم ہی کھول سکتی ہے ۔ تعلیم سے بڑا پیداواری سیکٹر اور کوئی نہیں، اس کا ادراک ماہرین معاشیات کو بھی بخوبی ہے مگر ہمارے سرکاری و کاروباری مالیاتی ماہرین اس بارے میں تذبذب کا شکار ہیںجس کا اظہار ان کے اعداد و شمار کے سالانہ گورکھ دھندے سے ہر سال عیاں ہوتا ہے ۔ اپنے شہریوں کی تعلیم و صحت کا تحفظ و ترقی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں ہے ۔ بجٹ ریاست کے شہریوں کی ایسے ہی حوالوں سے خدمت کے لیے سالانہ میزانیے کا نام ہے جو حکمرانوں کے سیاسی منشور اور نصب العین کی تصویر پیش کرتا ہے ، اس تناظر میں صورتحال کسی طرح بھی قابل تحسین نہیں ہے۔ تعلیم کے لیے وقف بجٹ حکمرانوں کے انقلا بی نعروں قومی تقاضوں اور عوامی امنگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔ گذشتہ کئی سالوں سے سیاسی قائدین نے تعلیمی بجٹ کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کیا ۔گذشتہ انتخابات میں کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے تعلیمی بجٹ چار فیصد کرنے کا اعلان کیا تھا مگر تیسرا مسلسل بجٹ ہے حکمران جماعتیں اپنے ہی منشور کے مطابق عمل پیرا نہ ہو سکیں اور نہ ہی اپوزیشن نے اسے مخالفت برائے مخالفت کے پراپیگنڈے سے زیادہ اہمیت دی۔ اس صورتحال میں میڈیا کی بڑی ذمہ داری تعلیم کے بجٹ پر قومی جذبات کی عکاسی کرنا تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کسی سماج یا ملک میں میڈیا جس آزادی ، ذمہ داری اور ایمانداری سے معلومات پہنچاتا ہے ویسا ہی ذمہ دار ذہن و کردار پروان چڑھتا ہے۔ قوم کے مزاج اور کردار کا اعلیٰ ترین اظہار میڈیا ہی کے ذریعے ہوتا ہے ۔ تاہم حالیہ بجٹ میں تعلیم کے لیے وقف وسائل اور قومی ضرورتوں میں جو تفاوت ہے میڈیا اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ کسی نے بھی کوئی تحقیقی رپورٹ نہ دکھائی نہ شائع کی۔ اس احساس کا علمی تجزیہ کرنے اور تعلیم اور بجٹ کے حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کے لیے میڈیا کو جگانے کے لیے یونیورسٹی آف گجرات کا یہ سیمینار قوم کے جذبات کا آئینہ دار تھا۔ ایسے مکالمے ، مباحثے کی ذمہ داری کا فریضہ ایک دانش گاہ ادا کر رہی ہو تو یہ بھی قوم کے لیے نوید مسرت سے کم نہیں کہ اب جامعہ گجرات سے ”ضیائے قیوم“ کے انوار سے نئی روشنی پھیلنے لگی ہے ۔ مکالمے و مباحثے کی یہی فضا ہمارے زندہ ہونے کا اعلان بھی ہے اور آنے والے دنوں میں قوم کی علمی اور عملی راہنمائی کے لیے یونیورسٹی آف گجرات کے اگواکار ہونے کے دعوے کی تصدیق بھی ۔ 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں