جمعہ، 6 فروری، 2015

ہائر ایجوکیشن کمیشن، تقاضے اور خدشات


ہائر ایجوکیشن کمیشن، تقاضے اور خدشات


کسی قوم کے نظری و عملی اور فکری و معاشرتی ارتقاءمیں ادارے کلیدی کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ عیاں کرتا ہے کہ اقوام کا عروج و زوال اداروں کے نشیب و فراز سے مشروط رہا ہے ۔ جن قوموں نے اداروںکے استحکام کو مقصود بنایا انہوں نے ترقی کا سفر تیزی سے طے کیا اور جن کے ہاں ادارے اکھاڑ پچھاڑ میں مبتلا ہوئے وہاں کھینچا تانی سے ادارے ہی تباہ نہیں ہوئے ان اقوام کا مستقبل مخدوش اور حال مصلوب ہو کر رہ گیا ۔ مغربی اقوام اور سماج آج اگر مستحکم بنیادوں پر استوار اور ترقی یافتہ ہیں تو اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ انہوں نے صدیوں کی محنت و کاوش سے اپنے تعلیمی ، سماجی اور فکری اداروں کو مضبوط و مستحکم بنایا ہے۔ تعلیم و تربیت کا اعلیٰ نظام کسی سماج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وطن عزیز کی حالیہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات فخر و انبساط کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ گذشتہ ایک ، ڈیڑھ عشرے میں ہم نے بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی صورت میں ایسا ادارہ تشکیل دیا ہے جس کی کارکردگی لائق افتخار ہے ۔ اس ادارہ کا مقصد اولین اعلیٰ تعلیم کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کر کے روح عصر سے ہم آہنگ کرنا ہے ۔ معیاری اعلیٰ تعلیم کے بغیر ملک و قوم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ افرادی قوت کی ترقی اداروں کی تعمیر کے بغیر خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ تعلیمی عمل میں اعلیٰ معیار کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ میدان علم و تحقیق میں جو انقلابی تبدیلیاں عالمگیر سطح پر ظہور پذیر ہیں ان سے مستفید ہونے کے لیے لازم ہے کہ قوم اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی ضروریات پوری کرے اور اعلیٰ تعلیم کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لائے۔ اعلیٰ تعلیم میں قومی سرمایہ کاری کبھی رائیگاں نہیں جاتی بلکہ اس کا ثمر منافع کے ساتھ قوم و ملک کو ضرور ملتا ہے ۔ اس کے برعکس اعلیٰ تعلیم کو نظر انداز کرنے پر بھاری قیمت بھی قوم ہی کو چکانی پڑتی ہے ۔ 
نالج اکانومی کی عالمگیریت کے عہد میں دنیا بھر میں مسابقت اور فضیلت کے لیے جدوجہد نے اعلیٰ تعلیم کو معاشرے میں منفرد حیثیت بخشی ہے۔ یونیورسٹی سطح کی تعلیم کو عالمی نقشے میں نمایاں جگہ ملی ہے اس لیے لازم ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں عالمی معیار پر پوری اتریں۔ عالمی معیار سے مطابقت کے لیے ہماری جامعات کو تیزی سے تبدیل ہونے والی دنیا کے مسائل اور چیلنجز، معاشرے کی توقعات اور طالبعلموں کے روز افزوں تقاضوں سے عہدہ برآہ ہونے کی صلاحیت سے مالا مال ہونا ضروری ہے۔ اسی خیال اور یقین کے ساتھ دانش گاہ گجرات کے جواں عزم اور علم دوست شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم سے گفتگو جاری تھی کہ میرے سوالوں کے جواب ڈاکٹر ضیاءالقیوم بڑی روانی سے کہہ رہے تھے کہ HEC نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی ثقافت کو بدلنے اور مثبت ترقی کے لیے ہمیشہ قابل قدر اقدامات کیے ہیں۔ تجربہ کار راہنما ڈاکٹر مختار احمد اس سفر میں نئی منزلوں کی طرف رواں دواں ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے قومی تقاضوں سے زمینی حقائق کے تناظر میں حقیقت پسندانہ تدبر و تفکر سے عہدہ برآہ ہو رہے ہیں ۔ گذشتہ چند سالوں میں HEC جیسے قومی ادارے پر دیدہ و نادیدہ دباﺅ نے بھی اپنے اثرات مرتب کیے ہیں جنہیں زائل کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے ۔ HEC کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے حب الوطنی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے قومی ہم آہنگی اور علمی یکجہتی کو فروغ دیا ہے ۔ گذشتہ دور حکومت میں اٹھارویں آئینی ترمیم سے جنم لینے والے ابہامات نے اسا ادارے کو متاثر کیا ہے ۔ ہم نے قومی سطح پر کسی مکالمے ، دانشوارانہ تجزیے اور مدبرانہ حکمت عملی کے بغیر اپنی اپنی مصلحتوں کے تناظر میں صوبائی سطح پر اعلیٰ تعلیم کے کمیشن تشکیل دینا شروع کر دیے ۔ ان صوبائی کمیشنوں کی تشکیل سے HECکے دائرہ کار اور حسن انتظام کے حوالے سے نئے مباحث نے جنم لیا ہے ،نئی بحث نے صوبائی اور مرکزی کمیشنوں کے درمیان نئی غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے ۔ قومی مفاداتی کونسل کے اگلے اجلاس تک اعلیٰ تعلیم کے مرکزی کمیشن کے مقدر کا فیصلہ ہونے تک نئی الجھنوں کو جنم دینے سے اجتناب کیا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ الجھاﺅ، کھینچا تانی یا غلط فہیوں کے نتیجے میں نقصان صرف اور صرف اعلیٰ تعلیم کا ہو گا ۔ وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاءالقیوم کی بھرائی آواز سن کر میں نے سوال بدلا۔ 
میں نے عرض کیا کہ اس بدلتی صورتحال میں یونیورسٹیاں کہاں کھڑی ہیں؟ انہوں نے کہا HEC سرکاری جامعات میں فنڈز اور تنخواہیں بانٹنے ہی کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم کا پالیسی ساز ادارہ ہے اور جامعات کے لیے راہبری و راہنمائی کا فریضہ بھی بحسن و خوبی انجام دے رہا ہے ۔ اس صورتحال میں حدود و قواعد کے تعین کے بغیر اعلیٰ تعلیم کے صوبائی کمیشنوں کی تشکیل ابہامات و مسائل کا سبب بن رہی ہے ۔ مبہم فضا میں جامعات کا متاثر ہونا لازمی امر ہے ۔ ضرورت اس امر کی تھی مناسب غور و فکر ، دور اندیشی، قومی تقاضوں اور مفاد عامہ کے ادراک کے ساتھ قواعد و ضوابط اور حدود و قیود طے کرنے کے بعد صوبائی کمیشنوں کا قیام عمل میں لایا جاتا۔ گو مگو کی اس صورتحال میں یونیورسٹیوں کو جرا ¿تمندانہ کردار ادا کرنا ہو گا ۔ میرے خیال میں پاکستانی جامعات نے HEC کی چھاﺅں کے نیچے سکھ کا سانس لیا تھا اور وہ اپنے بدلتے اور بہتر ہوتے حالات پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہونگی اور نہ ہی کسی ایسی صورتحال سے مطمئن ہوں گی جس سے HEC کمزور ہو او رنہ ہی ایسا ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر ضیاءالقیوم دو ٹوک انداز میں کہنے لگے کہ میں اور میری یونیورسٹی HEC کو بہتر سے بہتر بنانے کے ہر عمل میں ہر اول دستے میں ہوں گے، ہمیں شخصیات اور ذاتیات کے جھگڑوں سے بلند ہو کر باہم مل جل کر اعلیٰ تعلیم کی کامیابیوں کو آگے بڑھانا ہے ۔ 
اعلیٰ تعلیم کی ترقی میں میری خوش خیالی کو ساری گفتگو سن کر دھچکا سا لگا کہ ایک بار پھر ہمارا قابل فخر ادارہ HEC تنقید و مباحثے کا شکار ہو گیا ہے۔ درحقیقت ناقدین اعلیٰ تعلیم کو جمہوریت اور مساوات کے آدرش سے ہم آہنگ نہیں کر پائے۔ پاکستان کے بہت کم ادارے عالمی سطح پر تحسین و تعریف حاصل کر پاتے ہیں ، HEC بلاشبہ ان میں نمایاں ترین ہے۔ علم و تحقیق کے شعبوں میں عالمی سطح پر جو تبدیلیاں برپا ہو رہی ہیں وہ متقاضی ہیں کہ ہم بحیثیت قوم اعلیٰ تعلیم کے ادارے کی ضروریات پوری کریں اور قومی اور مرکزی سطح سے مربوط اور مبسوط بہتری کا ضامن بنائیں۔ پوری قوم درد مندی سے آرزو مند ہے کہ ڈیڑھ عشرے کے تعلیمی حاصلات کو بے ثمر ہونے سے بچایا جائے اور اعلیٰ تعلیم کے سفر میں انتشار، افتراق اور ذاتیات سے اجتناب کیا جائے ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن قومی اثاثہ ہے اس کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی قسم کی کوئی کاوش قابل تعریف نہیں ہو گی، ہم سب کو مل کر آگے بڑھنا ہے۔ صوبائی اور قومی کمیشنوں کو باہمی ہم آہنگی ، ربط و ضبط سے باہم شیر و شکر ہو کر چلنا ہو گا ،اسی میں قوم کے اہم ادارے کی بقاءکا راز پوشیدہ ہے۔ 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں