بدھ، 20 اپریل، 2016

پاکستان بھی تو لفظ ہے


کتاب مقدس میں ہے کہ اندھیرا ہی اندھیرا تھا، پانی ہی پانی تھا اور صرف خدا کا وجود تھا پھر اس نے چاہا کہ وہ جانا جائے اور ایک لفظ تخلیق ہوا   ”کن“ اور پھر کروڑوں سال سے دنیا میں لفظ”کن“ کا ہی جمال ہے۔ کائنات میں تخلیق کا پہلا اظہار، تخلیق اور قوت گویائی کی پہلی دلیل لفظ بنا، لفظ تخلیق کا بنیادی جزو اور کائنات اصلاً لفظ کے حُسن کاا ظہار ہے۔ لفظ اپنی معنویت میں تخلیق کی ماں ہے۔ کسی دانشور نے خوب کہا ہے کہ ہم لفظ کی صورت حال میں زندہ رہتے ہیں اور لفظ ہی ہمارا گردوپیش اور ہمارا سیاق و سباق متعین کرتے ہیں۔ لفظ تلفظ کے عمل سے لیکر معنی کے ابلاغ تک ایک ایسی کنجی کا نام ہے جو اسرار کے ہر زاویے تک رسائی کا ناگزیر اور لازمی ذریعہ ہے۔ لفظ اسم ہے، اسم پہچان۔لفظ فعل ہے، فعل کارکردگی۔ لفظ حرف ہے، حرف حقیقت۔ تمام انسانی خیالات، تصورات، تفکرات، تواہمات، نظریات، فلسفے اور مذاہب لفظوں کے استعمال سے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ لمحہئ تنزیل میں اترا ہوا پیغام بھی لفظ ہے اور شاعر کے شعور پر ہویدا ہونے والا خیال بھی لفظ کے لباس میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ لفظ بیاں بھی ہے اور طلسم بھی، لفظ اظہار بھی ہے اور اخفاء بھی۔ لفظ بے نقاب بھی کرتا ہے اور ڈھانپ بھی لیتا ہے۔ لفظ کی اسی ہمہ گیریت اور ہمہ جہتی نے یونیورسٹی آف گجرات کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا کہ اس نے گیارہ اور بارہ اپریل کو منعقد ہونے کل پاکستان مباحثے کو لفظ 2016کے خیال سے باندھ دیا۔آل پاکستان بین الجامعاتی تقریری مقابلے یونیورسٹی آف گجرات کی قابلِ تحسین روایت ہے اس سال چوتھے کل پاکستان مقابلوں کو بھی ”لفظ“ ہی کے نام سے موسوم کیا گیا،  لفظ انسانی زندگی کو معنی دیتے ہیں تو مکالمہ ان لفظوں کی ترتیب سے نئے افکار کی پرورش کرتا ہے۔ مباحثے اور مکالمے سے نئی بحثیں جنم لیتی ہیں، مختلف خیالات ٹکراتے ہیں اور پھر یہ جدلیات کسی نئے امتزاج میں ڈھل کر تہذیبی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔

کسی قومی دانشگاہ کا فریضہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کو جانے والوں کی تہذیب سے متعارف کروائے اور نئی تہذیب کے وارثوں کے ہاتھ میں نئے سوال تھما دے جن کی روشنی میں وہ زندگی کی ترقی کا سفر طے کریں۔ جامعہ گجرات کی وژنری قیادت اجتماعی شعور کی نمائندہ ہے اسی لئے اس درسگاہ کی فضا شیخ الجامعہ کی فکری ضیاء سے منور ہے اس روشنی نے چار سو لفظ اور خیال کا سویرا قائم کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر ضیاء القیوم کی حب الوطنی نے ان روایتی تقریری مقابلوں کو قومی یکجہتی اور ملی آگہی کا ضامن بنا دیا۔ کل پاکستان مباحثے میں پاکستان کی تمام اکائیوں کی بھرپور نمائندگی تھی۔ ملک بھر سے چالیس ممتاز جامعات کی ٹیموں نے بھرپور شرکت کی۔ پہلی شب کو پاکستانیت کے عنوان سے ثقافتی رنگ میں رنگ دیا گیا اور گجرات یونیورسٹی کو سندھ، خیبر پختونخواہ، بلوچستان، پنجاب، گلگت  بلتستان اور کشمیر کے ثقافتی رنگوں سے سجا کر پاکستانیت کا علمبردار بنا دیا گیا۔ افتتاحی تقریب میں ڈی سی او گجرات لیاقت علی چٹھہ مہمان خصوصی تھے، جامعہ گجرات کی نمائندگی رجسٹرار ڈاکٹر طاہر عقیل نے کی۔ سٹوڈنٹس سروسز سنٹر کے ڈائریکٹر محمو یعقوب اور اپنی ذات میں پوری انجمن کا کردا ادا کرنے والے محمدحیدر معراج نے حسن انتظام اور والہانہ استقبال کی درخشندہ روایت کو رواج دیا۔ڈبیٹنگ سوسائٹی کے کوارڈینیٹر رانا احمد شہید اور صدر سوسائٹی آصفہ فرحت نے میزبانی کے تقاضے بھرپور انداز سے نبھائے، نظامت کے فرائض خوش گفتارعروشہ اعوان اور نورالہدیٰ نے بحسن و خوبی انجام دئیے۔ مقابلوں کے بنیادی تھیم ”لفظ 2016“ کے تعارف کی ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی گئی تو میں نے مختصراً عرض کیا کہ لفظ ہر وہ چیز ہے جسے تلفظ کیا جاسکے۔ نحویوں کے نزدیک لفظ وہ ہے جسے اسم اور حرف میں تقسیم کیا جا سکے، حرفیوں کے ہاں لفظ وہ ہے جو پہلو بدلے تو معنی بدل جاتے ہیں، فلسفیوں کے نزدیک لفظ خیال کا جسم و پیکر ہے اور صوفیوں کے نزدیک لفظ اشارہ ہے جو ماورائے حقیقت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ محی الدین ابن عربی نے کہا تھا کہ ”تمہارے نام تمہاری تربیت کرتے ہیں، اس طرح لفظ ہی ہماری شناخت کی تقسیم کرتے ہیں۔ افکار کی جنگ ہو یا اقوام کی جنگ لفظ ہی حتمی طور پر مؤثر ہتھیار ثابت ہوتے ہیں۔ ہیرلڈ پنٹر کے ایک کردار کے بقول”لفظ جس کی گرفت میں آجائیں وقت کی لگامیں اس کے ہاتھوں میں آجاتی ہیں“۔جامعہ گجرات کے چوتھے کل پاکستان مباحثے کا آغاز ہونے جا رہا ہے لفظوں کی جنگ شروع ہونے والی ہے میں تمام ٹیموں اور ان کے سپہ سالاروں کے سامنے سقراط کی آخری بات رکھنا چاہتا ہوں۔ زہر کا پیالہ پی لینے کے بعد اپنے شاگرد کو آخری نصیحت کرتے ہوئے سقراط نے کہا تھا کہ کریٹو! یاد رکھو لفظوں کا غلط استعمال دنیا کا سب سے بڑا گناہ ہے۔امید ہے  لفظو ں کے سوداگر آنے والے مقابلوں میں لفظ کی حرمت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اس کے بعد رنگا رنگ ثقافتی پروگرام پیش کیا گیا۔ شینا ڈانس، پختون اور بلوچ روایتی رقص اور بلوچ و پنجابی لوک داستانوں نے حاضرین کو خوب محظوظ کیا۔ بانسری نے سماں باندھا تو زوہیب خاور اور نثار احمد کی مدھر آوازوں نے دلوں کے راگ چھیڑے، طبلے پر فنکارانہ کمال نے محفل کو دو آتشہ کر دیا۔ڈی سی او گجرات لیاقت علی چٹھہ نے کہا کہ تقریر دلیل کے ذریعے سامع کو قائل کرنے کا فن ہے۔ مقرر لفظ کی حرمت کا پاسباں ہوتا ہے۔ انہوں نے ملک بھر سے آئے ہوئے طالبعلموں اور اساتذہ کا گجرات کی سول سوسائٹی کی جانب سے خیر مقدم کیا۔ نامور مقرر اور ماہر امور طلبہ محمد حیدر معراج نے کہا کہ تقریر محنت اور منطق کا حسین امتزاج ہوتی ہے انسانی تہذیب میں فن تقریری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ فن تقریر قوموں اور قومیتوں کے درمیان امن اور یکجہتی کا فریضہ سر انجام دینے میں معاون ہوتا ہے۔

رجسٹرار ڈاکٹر طاہر عقیل نے کہا کہ لفظوں کی ہم آہنگی ہماری متوازن سوچ کی کی غماز ہوتی ہے۔ جامعہ گجرات میں صحت مند ہم نصابی سر گرمیاں تربیت کا اہم وسیلہ ہیں۔ ڈائریکٹر محمد یعقوب نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ دو روزہ اردو اور انگریزی تقریری مقابلوں میں شعبہ انگریزی کی اسسٹنٹ پروفیسر محترمہ صائمہ انور، عبدالواحد، صافیہ ضیاء، کامران احمد، ہمراز شیروانی اور حیدر معراج نے منصفین کے فرائض سر انجام دیے۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی ٹیم ٹرافی کی حقدار ٹھہری۔ انفرادی طور پر انگریزی مقابلوں میں UETٹیکسلا کی فاطمہ اول، رابعہ رحمان دوم اور پنجاب یونیورسٹی کے حماس سوم قرار پائے جبکہ اردو مقابلوں میں جی سی یو لاہور کے کفیل رانا پہلے، یو ای ٹی ٹکسلا کے محمد عامر دوسرے اور FASTفیصل آباد کیمپس کے حسان الرشید تیسرے نمبر پر رہے۔ حذیفہ کو انفرادی جبکہ کیڈٹ کالج پشین کی ٹیم کو حوصلہ افزائی کا انعام دیا گیا۔تقسیم انعامات کی تقریب کے مہمان خصوصی وائس چانسلر جامعہ گجرات ڈاکٹر ضیاء القیوم تھے، انہوں نے فاتح ٹیم کو ٹرافی اور انعامات کے حقدار ٹھہرنے والوں میں نقد انعامات اور ٹرافیاں اپنے دست مبارک سے تقسیم کیں۔سر پرست ڈیبٹنگ سوسائٹی ڈاکٹر طاہر عقیل نے قومی یکجہتی و قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے طالبعلموں کو بہترین سفیر قرار دیا۔ڈاکٹر ضیا القیوم نے کہا کہ مکالمہ و مباحثہ سماجی رواداری اور فکری روشن خیالی کا ضامن سمجھاجاتا ہے جامعہ گجرات طالبعلموں فکری راہنمائی اور تربیت و کردار سازی کو اولین ترجیح گردانتی ہے۔ تمام صوبوں کے نمائندگان کی موجودگی سے ان مقابلوں کو معیار اور وقار ملا ہے۔منتظمین کو اس ثمر آور مقابلے کے اہتمام پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
 لفظ جو ایک علامت ہے کبھی کانوں میں رس گھولتا نغمہ، کبھی دلوں کو چھو لینے والی میٹھی بات۔ کبھی رگ وپے میں تلخی بکھیرنے والا نشتر، تو کبھی زخم مند مل کر دینے والا مرہم۔ان مقابلوں میں لفظ کے بہت سے پہلو کھل کر سامنے آئے۔ طالبعلموں کی گفتار اور فکری معیارواضح کر رہا تھا کہ کائنات رنگ و بو میں ہر رنگ لفظ سے شناخت پاتا ہے اور ہر خوشبو لفظ کے دامن سے لپٹی چلی آتی ہے۔ ایسے ہی جیسے اس عظیم دھرتی ماں کے سارے رنگ، ساری خوشبوئیں جامعہ گجرات میں لفظ کی شمع جلا کر پتنگوں کے رقص کا عکس پیش کر رہی تھیں۔ قومی تقاضو ں سے ہم آہنگ قومی یکجہتی کے عکاس ان دو روزہ کل پاکستان تقریری مقابلوں میں اس اعلان پر سب کا اتفاق تھا کہ پاکستان بھی تو لفظ ہے۔اس کی معنویت اور حرمت پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں