بدھ، 1 فروری، 2017

پہلا گجرات لٹریری فیسٹول

دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں جب نازیوں نے پیرس پر قبضہ کرکے اپنے مخالف ادیبوں، دانشوروں اور مفکروں کو گرفتار کر لیا تو ان کے لیے سزا یہ تجویز کی گئی کہ سب کو الگ الگ کوٹھڑیوں میں بند کرکے ہر کوٹھڑی میں ایک لاؤڈ سپیکر لگا دیا گیا جس پر ان کے لیے خاص پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ ایسے پروگرام جن سے انہیں ذہنی اذیت پہنچے۔ وہ سن سکتے تھے، بول نہیں سکتے تھے، جواب نہیں دے سکتے تھے۔ کچھ عرصہ تک یہ پروگرام نشر ہوتے رہے لیکن جلد ہی ان پروگراموں کے لکھنے والے تھک گئے اور انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ سننے والوں کا رد عمل معلوم ہوئے بغیر ان کا قلم جواب دے گیا ہے۔ آخر گونگوں کے لیے کب تک اور کیسے لکھا جا سکتا ہے؟ سوچ تو ردّعمل کی فضا میں آگے بڑھتی ہے۔ جب یہ رشتہ کمزور پڑ جائے تو فکر و خیال کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ ہمارے لکھنے اور پڑھنے والے کے درمیان ابلاغ کمزور ہونے سے ہم زندگی کی ہر سطح پر ایک تھکا دینے والے بحران سے گزر رہے ہیں۔ زندگی میں ہم نے نصب العین اور معنویت کو گم کر دیا ہے۔ ہماری نئی نسل سرگرداں و پریشان ہے اور سماج برسات کے پانی کی طرح،نالیاں نہ ہونے کے باعث سٹرکوں پر مارا مارا پھر رہا ہے اور جدھر راستہ ملتا ہے، بہہ نکلتا ہے۔ فکری بحران اوربے معنویت کے ابھارنے سب سے زیادہ نقصان ادب وفن کا کیا ہے۔ شعر و ادب اور فنون لطیفہ کی تخلیقی قوتیں اس سے بجھ سی گئی ہیں۔ تخلیق و تحریر جیسی قدریں بے معنی ہو گئی ہیں۔ آج ہمارا ادب و فن مستقبل کے عقیدے سے محروم ہے اور ہمارے لکھنے والے کے پاس نئی نسلوں کو دینے کے لیے آنے والے زمانے کا کوئی خواب نہیں ہے۔ ایسی گھمبیر صورتحال میں وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں آگے بڑھیں اور اہل قلم اور نسل نو کے درمیان ابلاغ کے فروغ کے لیے گفتگو اور مکالمے کا پلیٹ فارم فراہم کریں تاکہ اعلیٰ تعلیم کے مقاصد کا عملی سماجی اطلاق ممکن ہو سکے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سنجیدہ فکر قائد ڈاکٹر مختار احمد کی فکری کاوشیں رنگ لانے لگی ہیں اور ہماری جامعات کے جوا ں عزم وائس چانسلرز نے متحرک کردار ادا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اسکی ایک مثال عصری چیلنجوں سے ہم آہنگ جدید تعلیمی و فکری وژن کے حامل یونیورسٹی آف گجرات کے خوش خیال وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم کی ہے انہوں نے قائدانہ بصیرت سے جامعہ گجرات کو دانش گاہ کی شناخت فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک تاریخ ساز ادبی روایت کے آغاز کا فریضہ سرانجام دیا اور سنحنوروں کی بستی کہلانے والے گجرات کو ”پہلے گجرات ادبی میلہ“ کی روشنی سے منور کرکے گجرات کی قدیم شناخت کی ”نشاۃِ ثانیہ“ کا آغاز کیا۔ اس زرخیز ادبی سرزمین نے نامور اہل قلم کو جنم دیا۔ فارسی شاعر غنیمت کنجاہی سے پنجابی کے نامور شاعر و محقق شریف کنجاہی تک ممتا ز شعراء، ناول نگاروں، کہانی کاروں اور نثر نگاروں نے اس دھرتی کامان بڑھایا۔ حضرت نوشہ گنج سے ڈاکٹر شاہین مفتی تک شعرو ادب کے ایسے ایسے بطل جلیل گجرات کی سرزمین سے فیض یاب ہوئے کہ سرسید احمد خاں نے گجرات کی علمی وتعلیمی خدمات کے اعتراف میں اسے ”خطہئ یونان“ کے لقب سے نوازا۔ ایسے ہی اہل علم و ادب کی خدمات کے اعتراف اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شیخ الجامعہ نے نہ صرف محترمہ توشیبا سرور کی ادب دوستی کی معاونت سے یونیورسٹی آف گجرات میں بھرپور انداز میں پہلے گجرات لٹریری فیسٹیول کا اہتمام کیا بلکہ ببانگ دہل اسے سنحنوران گجرات کے نام بھی کیا۔ 

  

جامعہ گجرات کے ادب دوست کنسلٹنٹ حیدر معراج اور ڈائریکٹر سٹوڈنٹس سروسز سنٹر محمد یعقوب نے حیاتین لٹریری سوسائٹی کی ادبی روایات کو بخوبی آگے بڑھاتے ہوئے علامہ اقبال ہال کو ادبی جمالیات کے تقاضوں سے سجایا۔ ادیبوں اور فنکاروں کی آمد پر پُر جوش طالبعلموں نے والہانہ استقبال کیا۔ ڈاکٹر شیبا عالم نے میزبانی و نظامت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دئیے۔ پہلا سیشن ”انتظار حسین کی یاد میں“ تھا۔ خراج تحسین پیش کرنے والوں میں دانشور لکھاری محترمہ کشور ناہید اور ڈاکٹر اصغر ندیم سید تھے۔ کشور ناہید نے کہا کہ سیاسی، سماجی اور ثقافتی حقیقتوں کا بیانیہ ہماری فکشن کا خاصاہے۔ انتظار حسین نے اپنے ناولوں اور افسانوں کے ذریعے سماج کو انسان دوستی کے تصور سے روشناس کرایا۔ اصغر ندیم سید کا کہنا تھا کہ انتظار حسین اردو میں کہانی کی روایت کے عظیم نمائندہ ادیب تھے اور وضعداری اور تہذیبی شخصیت کے حامل تھے۔ دوسرا سیشن ”کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا“ فیض احمد فیض کی یادوں سے مہکا ہوا تھا۔ 


محترمہ سلیمہ ہاشمی نے اپنے خوشگوار انداز میں اپنے ”ابا“ فیض احمد فیض کی یادوں سے نوجوانوں کو متعارف کروایا۔ انہوں نے بیان کیا کہ فیض صاحب کو عوامی زندگی سے عشق تھا۔ وہ تیسری دنیا کے ادیبوں و شاعروں کو عوامی فلاح کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر عارفہ سیدہ کا کہنا تھا کہ فیض دھیمے مگر مضبوط لہجے کے شاعر تھے جنہوں نے عوامی موضوعات کو اپنے شعروں کا موضوع بناتے ہوئے غاصبوں کا مقابلہ کیا۔ اصغر ندیم سید کا کہنا تھا کہ فیض کی شاعری گہرے تاریخی شعور کی مظہر ہے وہ عوامی اقدار کے شاعر تھے۔ اگلا سیشن ”پاکستان میں تھیٹر اور ڈرامے کی روایت“ کے موضوع پر تھا۔ فن ڈرامہ سے وابستہ ممتاز فنکاروں نعیم طاہر اور سلمان شاہد نے فنی و تنقیدی جائزہ پیش کیا۔ نعیم طاہر نے واضح کیا کہ تھیٹراصلاً ایک طرز زندگی ہے جو ناظرین کو سماجی شعور و آگاہی بخشتاہے۔ سلمان شاہد نے ڈرامہ کے فن پرکمرشلائزیشن کے غلبے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ حقیقت میں ڈرامہ تخلیق کاری میں نمایاں مقام کا حامل ہے۔ پھر باری تھی مزاح نگار عطاء الحق قاسمی کی جنہوں نے ”بزبان قاسمی“ میں اپنے لطیف بیان سے حاضرین کو ادبی چاشنی سے لطف اندوز کیا۔ اپنی یادوں کے مزاحیہ چراغ جلائے اور تحریروں کے اقتباسات پڑھ کر محفل کو زعفران کر دیا۔ آخری سیشن ”پاکستانی میڈیا اور اخلاقی ذمہ داریاں“ کے موضوع پر تھا جس میں فعال علم دوست توشیبا سرور اور معروف اینکر عبدالرؤف نے سنجیدہ انداز میں گفتگو کی۔ عبدالرؤف کا کہنا تھا کہ میڈیا کی تمام اصناف اور ادب کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ادب سے رابطہ توڑ کر ہمارا میڈیا زوا ل پذیر ہے۔ پاکستانی میڈیا کو سماجی تشکیل کے لیے ہر صورت اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ ریٹنگ کے لیے سنسنی نے حدود کو متاثر کیا ہے۔ جامعہ گجرات کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء القیوم نے اختتامی خطاب میں تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ادب بنیاد ی طور پر ایک سماجی عمل ہے اور انسان کے سماجی رشتوں کا سب سے اہم مظہر بن کر قوم کی روح کے اظہار کا سب سے بڑا وسیلہ بن جاتا ہے۔ گجرات ادبی میلے کا مقصد ہی یہ تھا کہ سماج اور اس کے افراد کو ادب کی سطح پر ایک دوسرے کے تجربوں میں شمار ہونے کا موقع فراہم کرنے کی روایت کو مضبوط کیاجائے۔ تاکہ لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کے درمیان قربت کے ذریعے نئے فہم و شعور سے آشنائی ممکن ہو سکے۔ ادب و فن غیر معمولی قوت کے ذریعے ہماری ہستی کو بیدار کرکے اسے عام شعور کا حصہ بنا دیتا ہے اور اس کے ذریعے ہم زندگی کے نئے معنی تلاش کرتے ہیں۔ 

اس ادبی میلے میں شرکاء بجا طور مسرور تھے کہ عشروں بعد گجرات میں ایسی ادبی محفل سجی تھی جو سنحن فہمی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ سنحنوری کے فروغ کا علم بھی بلند کیے ہوئی تھی۔ منتظمین تحسین و مبارک کے حقدار ٹھہرے کہ انہوں نے ادب پروری کی شمع روشن کردی ہے جس کی روشنی میں نوجوان نیا شعور حاصل کریں گے۔ اسی شعور کے ذریعے قومیں بدلتی ہیں اور یہی نئی معنویت نوجوانوں میں قوت عمل اور خواہش عمل بیدار کرتی ہے۔ مارسل پر وست نے کہیں لکھا ہے کہ ”ہماری اصل زندگی ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ اسے ہمارے سامنے لائے اور اس طرح خود ہمیں ہم سے واقف کر دے۔“بلاشبہ اسی شعور کے ذریعے ہم ایک نیا جنم لیتے ہیں۔ گجرات لٹریری فیسٹیول کے مباحث نے عیاں کر دیا کہ ادبی رویے فکری رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور لکھنے والوں کی ذمہ داری، فکری رویوں کی پاسداری سے ثابت ہوتی ہے۔ اللہ کرے ہم لکھنے والوں کو اپنے رد عمل سے نواز سکیں تاکہ وہ لکھتے رہیں۔ سوچتے رہیں کیونکہ ہم سوچتے ہیں، اسی لیے تو ہم ہیں۔