سماجی برائیوں کا ایک تناظر یہ بھی ہے کہ انسان سمیت دنیا کی کوئی چیز بھی جیسا عمل کرتی ہے ، ویسا ہی اس کا ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم اپنے اردگرد بخوبی کر سکتے ہیں۔ ہم جو کچھ دیتے ہیںوہی پاتے ہیں، جیسا کرتے ہیں، ویسا ہی بھرتے ہیں۔ آپ زندگی کو جو کچھ دیں گے، زندگی وہی کچھ آپ کو لوٹائے گی۔ جب ہم سماج میں دوسروں کی برائیاں دیکھیں تواپنے گربیان میں بھی ضرور جھانکیں کہ کہیں دانستہ یا نادانستہ اس میں میرا کوئی عمل تو شامل نہیں کیونکہ آپ کے دینے کا عمل جوابی طور پر وہی کچھ وصول کرتا ہے جو کچھ آپ نے دیا ہوتا ہے۔ اس عمل میں کوئی کوتاہی نہیں ہو تی بلکہ مکمل مساوات ہوتی ہے اور یہی کائنات کا مسلمہ ریاضیاتی اور طبعیاتی اُصول ہے جس کی تردید ممکن نہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا قول ہے کہ ”زندگی کے ساتھ آپ جیساسلوک کروگے، یہ بھی آپ کےساتھ ویسا ہی سلوک کرے گی اور یہ برتاﺅ اسی پیمانے کے مطابق ہو گا جو آپ کے پاس ہے۔“جی ہاں ہر عمل کا نہ صرف ردعمل ہوتا ہے بلکہ عملاً وہ بالکل مساوی اور ویسا ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک گوالا کسی بیکری والے کو روزانہ ایک کلومکھن دیا کرتا تھا۔ بیکری والے کو ایک دن شک ہوا کہ مکھن ایک کلو سے کم ہوتا ہے اور یہ گوالا پورا تول کر نہیں دیتا۔ لہٰذا اس نے ایک روز مکھن کو ترازو میں تول کر دیکھا تو واقعی ایک کلو سے کافی کم تھا۔ بیکری والے نے گوالے کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا کہ یہ گوالا اتنے عرصے سے مجھے روازنہ ایک کلو مکھن فروخت کرتا تھا لیکن وہ پورا نہیں ہوتا، اس میں اتنا وزن کم ہوتا ہے۔ لہٰذا مجھے انصاف فراہم کیا جائے اور میرے نقصان کا ازالہ کروایا جائے جو اس نے اتنے عرصے میں مجھے پہنچایا ہے۔ عدالت نے گوالے کو طلب کر لیا اور تفتیش کی اور پوچھا کہ وہ ایسا کیوںکرتا ہے؟گوالے نے عدالت کو بتایا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں، میرے پاس ناپ تول کے لےے ترازو تو موجود ہے لیکن اصلی باٹ موجود نہیں جن سے میں وزن کر سکوں۔ اس مسئلے کا حل میں نے اس طرح نکالا کہ میں اس بیکری والے سے روازنہ ایک کلو ڈبل روٹی لے جاتا ہوں، میرے پاس اور تو کوئی پیمانہ نہیں ہوتا، لہٰذا میں اس ڈبل روٹی کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ کر مکھن کا وزن کر لیتا ہوں۔ جناب عالی!اگر مکھن کا وزن کم ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ یہ وزن تو خود اس بیکری والے نے کیا ہوتا ہے گوالے کا یہ جواب سن کر بیکری والے کا رنگ فق ہو گیا اور اسے جج کے فیصلے کے بغیر ہی ا نصاف مل گیا۔ “
یہ کائنات کے آفاقی اُصول عمل اور ردِ عمل کی واضع مثال ہے۔ ڈاکٹر شمشاد احمد شاہین نے فوراً لقمہ دیا۔ یہ بالکل سچ ہے کرنی کا پھل ہے ۔ ہم ہر لمحہ مثبت سوچ رہے ہوتے ہیں یا منفی۔ ہم اپنے دل و دماغ سے مثبت یا منفی احساسات خارج کر رہے ہوتے ہیں ہماری زندگی میں لاحق ہونے والے تمام عوامل کا انحصار ہمارے انہی خیالات و اعمال پر ہوتا ہے۔ ہم جس قسم کی سوچ یا عمل رکھتے ہیں ہمیں زندگی میں اسی قسم کے سلوک یا برتاﺅ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے عرض کیا بلاشبہ ہماری زندگی میں آنے والے تمام لوگ، تمام واقعات اور حادثات جن سے ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ عبارت ہے۔ وہ ہمارے خیال و اعمال کی ہی عکاسی کر رہا ہوتا ہے۔ ہم خود کم تولتے ہیں اور دوسروں سے پورے ناپ کی اُمید رکھتے ہیں جو کہ غیر فطری ہے ہماری زندگیوں میں ہونے والے واقعات کے خود بخود ہی رونما نہیں ہوتے بلکہ ہماری سوچوں اور اعمالات کے عین مطابق اور موافق ہوتے ہیں۔ ہمیں دوسروں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ خود کا احتساب کرنا زیادہ ضروری ہے۔ ہم کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طرح سماجی برائیوں میں حصہ دار ہوتے ہیں اور جب ان کا ردعمل وصول پاتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں ۔ یہ دھوکہ، یہ دکھ ، یہ غم خود ہم نے اپنے آپ کو دیا ہوتا ہے۔ ہم خود قصور وار ہوتے ہیں اور ملزم کسی کو گردانتے ہیں۔
افطار کی محفلوں میں بیٹھ کر سب سے بڑا موقع یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا حساب کریں، اپنے گربیان میں جھانکیں اور یہ دیکھیں کہ مجھ سے کسی کو کوئی تکلیف یا دکھ تو نہیں پہنچ رہا۔ ہمیں سچائی کو رہبر بنانا ہے حضرت عیسیٰ ؑ نے خوب کہا تھا کہ جب آپ سچائی کو اپنا لیں گے تو یہ آپ کو تمام مصائب سے نجات دلا دے گی۔ افطار کی گھڑیاں آن پہنچی تھیں مگر تمام احباب حسب روایت یہی کہنے لگے آخر اس کا حل کیا ہے۔ اللہ اکبر کے تشکر و اقرار سے قضا گونج اُٹھی تومیں نے مختصراً عرض کیا کہ فلاح و صلوةعرض کیا کہ فلاح وصلوة کی اس پکار پر کان دھر یںاور خود کو بدلنے کی سعی کریں۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ ”ہم دنیا میں جس نوع کی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں، دراصل ہمیں وہ تبدیلی سب سے پہلے اپنے اندر لانے کی ضرورت ہے۔ “
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں