دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں جب نازیوں نے پیرس پر قبضہ کرکے اپنے مخالف ادیبوں، دانشوروں اور مفکروں کو گرفتار کر لیا تو ان کے لیے سزا یہ تجویز کی گئی کہ سب کو الگ الگ کوٹھڑیوں میں بند کرکے ہر کوٹھڑی میں ایک لاؤڈ سپیکر لگا دیا گیا جس پر ان کے لیے خاص پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ ایسے پروگرام جن سے انہیں ذہنی اذیت پہنچے۔ وہ سن سکتے تھے، بول نہیں سکتے تھے، جواب نہیں دے سکتے تھے۔ کچھ عرصہ تک یہ پروگرام نشر ہوتے رہے لیکن جلد ہی ان پروگراموں کے لکھنے والے تھک گئے اور انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ سننے والوں کا رد عمل معلوم ہوئے بغیر ان کا قلم جواب دے گیا ہے۔ آخر گونگوں کے لیے کب تک اور کیسے لکھا جا سکتا ہے؟ سوچ تو ردّعمل کی فضا میں آگے بڑھتی ہے۔ جب یہ رشتہ کمزور پڑ جائے تو فکر و خیال کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ ہمارے لکھنے اور پڑھنے والے کے درمیان ابلاغ کمزور ہونے سے ہم زندگی کی ہر سطح پر ایک تھکا دینے والے بحران سے گزر رہے ہیں۔ زندگی میں ہم نے نصب العین اور معنویت کو گم کر دیا ہے۔ ہماری نئی نسل سرگرداں و پریشان ہے اور سماج برسات کے پانی کی طرح،نالیاں نہ ہونے کے باعث سٹرکوں پر مارا مارا پھر رہا ہے اور جدھر راستہ ملتا ہے، بہہ نکلتا ہے۔ فکری بحران اوربے معنویت کے ابھارنے سب سے زیادہ نقصان ادب وفن کا کیا ہے۔ شعر و ادب اور فنون لطیفہ کی تخلیقی قوتیں اس سے بجھ سی گئی ہیں۔ تخلیق و تحریر جیسی قدریں بے معنی ہو گئی ہیں۔ آج ہمارا ادب و فن مستقبل کے عقیدے سے محروم ہے اور ہمارے لکھنے والے کے پاس نئی نسلوں کو دینے کے لیے آنے والے زمانے کا کوئی خواب نہیں ہے۔ ایسی گھمبیر صورتحال میں وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں آگے بڑھیں اور اہل قلم اور نسل نو کے درمیان ابلاغ کے فروغ کے لیے گفتگو اور مکالمے کا پلیٹ فارم فراہم کریں تاکہ اعلیٰ تعلیم کے مقاصد کا عملی سماجی اطلاق ممکن ہو سکے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سنجیدہ فکر قائد ڈاکٹر مختار احمد کی فکری کاوشیں رنگ لانے لگی ہیں اور ہماری جامعات کے جوا ں عزم وائس چانسلرز نے متحرک کردار ادا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اسکی ایک مثال عصری چیلنجوں سے ہم آہنگ جدید تعلیمی و فکری وژن کے حامل یونیورسٹی آف گجرات کے خوش خیال وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم کی ہے انہوں نے قائدانہ بصیرت سے جامعہ گجرات کو دانش گاہ کی شناخت فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک تاریخ ساز ادبی روایت کے آغاز کا فریضہ سرانجام دیا اور سنحنوروں کی بستی کہلانے والے گجرات کو ”پہلے گجرات ادبی میلہ“ کی روشنی سے منور کرکے گجرات کی قدیم شناخت کی ”نشاۃِ ثانیہ“ کا آغاز کیا۔ اس زرخیز ادبی سرزمین نے نامور اہل قلم کو جنم دیا۔ فارسی شاعر غنیمت کنجاہی سے پنجابی کے نامور شاعر و محقق شریف کنجاہی تک ممتا ز شعراء، ناول نگاروں، کہانی کاروں اور نثر نگاروں نے اس دھرتی کامان بڑھایا۔ حضرت نوشہ گنج سے ڈاکٹر شاہین مفتی تک شعرو ادب کے ایسے ایسے بطل جلیل گجرات کی سرزمین سے فیض یاب ہوئے کہ سرسید احمد خاں نے گجرات کی علمی وتعلیمی خدمات کے اعتراف میں اسے ”خطہئ یونان“ کے لقب سے نوازا۔ ایسے ہی اہل علم و ادب کی خدمات کے اعتراف اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شیخ الجامعہ نے نہ صرف محترمہ توشیبا سرور کی ادب دوستی کی معاونت سے یونیورسٹی آف گجرات میں بھرپور انداز میں پہلے گجرات لٹریری فیسٹیول کا اہتمام کیا بلکہ ببانگ دہل اسے سنحنوران گجرات کے نام بھی کیا۔
اس ادبی میلے میں شرکاء بجا طور مسرور تھے کہ عشروں بعد گجرات میں ایسی ادبی محفل سجی تھی جو سنحن فہمی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ سنحنوری کے فروغ کا علم بھی بلند کیے ہوئی تھی۔ منتظمین تحسین و مبارک کے حقدار ٹھہرے کہ انہوں نے ادب پروری کی شمع روشن کردی ہے جس کی روشنی میں نوجوان نیا شعور حاصل کریں گے۔ اسی شعور کے ذریعے قومیں بدلتی ہیں اور یہی نئی معنویت نوجوانوں میں قوت عمل اور خواہش عمل بیدار کرتی ہے۔ مارسل پر وست نے کہیں لکھا ہے کہ ”ہماری اصل زندگی ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ اسے ہمارے سامنے لائے اور اس طرح خود ہمیں ہم سے واقف کر دے۔“بلاشبہ اسی شعور کے ذریعے ہم ایک نیا جنم لیتے ہیں۔ گجرات لٹریری فیسٹیول کے مباحث نے عیاں کر دیا کہ ادبی رویے فکری رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور لکھنے والوں کی ذمہ داری، فکری رویوں کی پاسداری سے ثابت ہوتی ہے۔ اللہ کرے ہم لکھنے والوں کو اپنے رد عمل سے نواز سکیں تاکہ وہ لکھتے رہیں۔ سوچتے رہیں کیونکہ ہم سوچتے ہیں، اسی لیے تو ہم ہیں۔