جمعرات، 21 اپریل، 2016

چوں مرگ آید تبسم برلب اوست

چوں مرگ آید تبسم برلب اوست 


حضرت علامہ اقبال مقدر کے سکندر تھے۔ انہیں ہر طرح سے تاریخ میں اعلیٰ مقام حاصل ہوا۔ فکری و فنی پہلو میں ان کی مہارت نے اپنا لوہا منوایا تو نجی زندگی میں بھی وہ کم خوش قسمت نہ تھے۔ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ فارسی کا عظیم شاعر فردوسی لاچارگی کی موت مرا، عطا ر جیسا عظیم فارسی شاعر معمولی سپاہی کی تلوار سے جاں بحق ہوا۔ جعفر زٹلی حق بات کہنے پر ہاتھی سے کچل دیا گیا۔ انشاء اللہ خاں جیسا شاندار شعر کہنے والا شاعر بھی شاہی عتاب کا نشانہ بنا۔ اس تناظر میں شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال خوش قسمت رہے۔ ان کی علالت میں علاج اور تیمار داری ایسی شاہانہ تھی کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اس کی آرزو کرتے ہیں۔
شاعر مشرق، مصور پاکستان علامہ محمد اقبال آغاز شباب کے سوا کسی دور میں بھی صحیح معنوں میں تندرست و توانا نہیں رہے۔ حالانکہ علامہ اقبال کے خاندانی ”جینز“بہت عمدہ تھے،ان کے خاندان کے اکثر افراد دراز عمر رہے۔ ان کے والد نے 93 سال، والدہ نے پچھتر سال،بھائی اور بہن نے اسی سال سے زائد جبکہ بیٹے جاوید اقبال نے بھی نوے سال سے زیادہ عمر پائی۔ تاہم حضرت علامہ اکسٹھ سال چند ماہ کی عمر میں ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اقبال کی کم عمری کی وجوہات میں ان کی کمزور طبیعت، تساہل پسندی، فشار اعصاب، تمباکو نوشی، بدپرہیزی اور کشتوں کا استعمال وغیرہ بیان کی جاتی ہیں۔ علامہ زندگی بھر مختلف بیماریوں کا شکار رہے۔ عوارض چشم، عوارض گردہ، نقرس، عوارض قلب، عوارض ریوہ، عوارض گوراشی، درد گلو، امراض دہان، ملیریا اور کم خوابی جیسی امراض کا ساتھ زندگی بھر رہا۔ علامہ اقبال نے اپنی بیماریوں کا تذکرہ خود بہت تفصیل سے کر رکھا ہے اور اپنی بیماریوں اور کیفیتوں کو خوب رقم کیا۔ ان کے مطبوعہ ساڑھے چودہ سو خطوط میں سے 251 خطوط میں ان کی بیماریوں کا ذکر ہے۔ علامہ کی آخری عمر کی کئی نظموں میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔ مسلسل بیماریوں کے حملوں کے باوجود علامہ اقبال وبائی امراض اور ان کے حملوں میں محفوظ رہے۔ 1918ء میں لاہور میں جان لیوا انفلوائنزا کی وبا میں لاکھوں شہری لقمہئ اجل بن گئے پھر طاعون کی وبا کے وقت بھی علامہ کا مدافعتی نظام کامیاب رہااور وہ محفوظ رہے۔ 
علامہ اقبال علالت و علاج کے معاملے میں بھی خوش قسمت رہے اور انہیں وقت کے لحاظ سے بہترین طبی امداد میسر رہی۔ تیس سے زیادہ حکیموں اور ڈاکٹروں کے نام ان کے معا لجین کی فہرست میں نمایاں ہیں۔ ان معالجین میں مقامی اور غیر ملکی ماہرین جن میں برطانوی، جرمن اور فرانسیسی طبیب بھی شامل ہیں۔ حکیم عبدالوہاب انصاری المعروف حکیم نابینا دہلی، حکیم اجمل خاں، حکیم سید ضیاء الحسن بھوپال، حکیم سلطان محمود، حکیم محمد حسن قریشی، حکیم گورداس پور، حکیم سید زادہ، حکیم محمد افضل اور حکیم فقیر محمد کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدالباسط انصاری، ڈاکٹر احمد بخش خاں بہادر، ڈاکٹر رحمان، ڈاکٹر بوس، ڈاکٹر حسن محمدحیات، ڈاکٹر مظفر علی، ڈاکٹر ڈک، ڈاکٹر یار محمد خاں، ڈاکٹر کرم، ڈاکٹر کرنل امر چند، ڈاکٹر کیپٹن الہٰی بخش، ڈاکٹر برج موہن ورما، ڈاکٹر عباس علی، ڈاکٹر ذیلنتر، ڈاکٹر محمد یوسف، ڈاکٹر متھرا داس، ڈاکٹر جمعیت سنگھ، ڈاکٹر عبدالقیوم کے نام نمایاں ہیں۔ ایام شباب سے ہی صحت کے حوالے سے مشکلات کا شکار رہنے والے علامہ کو زندگی کے آخری سالوں میں جس جان لیوا بیماری نے ان کو مبتلائے اذیت رکھا، وہ 1934 میں کھانسی اور زکام سے شروع ہوئی۔ سید نذیر نیازی کے مشہور مضمون ”آخری علالت“ کے مطابق 1934 میں 10 جنوری عید الفطر کا دن تھا وہ حسب معمول نماز کے لیے شاہی مسجد گئے،اس روز تیز اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ علامہ عام لباس میں گئے تو وہاں مسجد کے کھلے صحن میں انہیں ٹھنڈ لگ گئی۔ واپس آگئے،سویاں کھائیں اور والد مرحوم کی تقلید میں دودھ کی بجائے دہی میں ملا کر کھائیں۔ حکیم فقیر محمد نے انہیں عرصہ سے دودھ اور ہر اس شے سے جو دودھ سے بنی ہو، سے پرہیز تجویز کر رکھا تھا یہ کھانے سے ان کا گلا بیٹھ گیا۔ علاج شروع ہوا مگر افاقہ نہ ہوا۔ فروری میں ایکسرے ہوا تو پتہ چلا کہ قلب کے اوپر رسولی بن رہی ہے۔ ڈاکٹر نے ریڈی ایشن علاج تجویز کیا مگر علامہ متفق نہ تھے انہوں نے حکیم نابینا سے رابطہ کیا اور ان کے علاج سے بہتری آئی۔ معاملات معمولی تبدیلیوں کے ساتھ چلتے رہے 1938 کے فروری میں دمہ کا دورہ ہوا۔ 30 مارچ کو ضعف قلبی سے غشی طاری ہو گئی۔ اپریل میں چہرے، پاؤں پر ورم ہو گیا، درد پشت اور درد شانہ کے عوارض شروع ہو گئے۔ 19 اپریل سے بلغم میں کسی قدر خون آنے لگا۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ نے مایوسی ظاہر کی۔ ڈاکٹر امیر چند پہنچ گئے اور ڈاکٹر عبدالقیوم کو ہدایات دے کر چلے گئے، دوائی کھائی تو علامہ کا جی متلانے لگا، اس پر خمیرہ گاؤ زبان عنبری کی خوراک لی تو طبعیت بحال ہوئی۔ 20 اپریل کو طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تو ڈاکٹروں نے Mersalyl کا ٹیکہ لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس ٹیکے سے پیشتر چونکہ ان دنوں ایمونیم کلورائیڈ دینا ضروری تھا تاکہ پیشاب کھل کر آجائے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم نے دوائی تیار کی اور ذائقہ بدلنے کے لیے تھوڑا سا ”گلیسرینزا“ بھی ملا دیا۔ اس کے باوجود علامہ کو دوائی ناگوار لگی اور انہوں نے ناگواریت کا اظہار بھی کیا۔ صبح سے علامہ کی چارپائی جاوید منزل کے پورچ میں تھی رات ہوتے ہی خنکی ہونے لگی اور رات گئے علامہ نے چارپائی اندر لے جانے کا کہا۔علی بخش اور ڈاکٹر قیوم چارپائی ان کے کمرہ خاص میں لے گئے۔ چارپائی رکھ کر ڈاکٹر قیوم کمرے سے نکل کر باہر سستانے لگے۔ علامہ نے علی بخش کو کہا کہ میرے شانے دباؤ پھر بیٹھے بیٹھے پاؤں پھیلا لیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا، ”یا اللہ، یہاں درد ہے اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف گرنے لگا،علی بخش نے سہارا دیا تو علامہ نے قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کر لیں اور پیدا کرنے والے کے دربار میں سرخرو ہو گئے۔ 21 اپریل 1938 ء بمطابق 19 صفر بروز جمعرات صبح سوا پانچ بجے علامہ نے جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ علی بخش نے گھبرا کر ڈاکٹر صاحب کو آواز دی۔ڈاکٹر عبدالقیوم دوڑتے ہوئے اندر پہنچے تو علامہ کی آنکھیں بند اور لبوں پر ہلکا سا تبسم سا تھا۔ اس وقت ہر طرف فجر کی اذانوں کی پر سطوت صدائیں گونج رہی تھیں پھر ڈاکٹر عبدالقیوم نے ہی ریڈیو والوں کو فون پر علامہ کے انتقال کی خبر دی۔ لوگ جوق در جوق جمع ہونا شروع ہو گئے۔ اخباروں نے خصوصی ضمیمے شائع کیے، سکول، کالج، عدالتیں سب ادارے بند رہے عبدالمجید سالکؔ کے بقول ”جاوید منزل اس بیوہ کی طرح نظر آرہی تھی جس کا سہاگ اجڑ گیا ہو“۔ چوہدری محمد حسین نے، راجہ حسن اختر اور ڈاکٹر مظفر الدین قریشی کے ہمراہ اقبال کو شاہی مسجد کے کسی حجرے میں دفن کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس کے لیے سرکاری اجازت کی ضرورت تھی۔ پنجاب حکومت کے سربراہ سکندر حیات کلکتہ کے دورے پر تھے۔ میاں امیر الدین نے ٹیلی گراف کے ذریعے ان سے رابطہ کر کے اجازت طلب کی تو انہوں نے انکار کر دیا اور اسلامیہ کالج کے میدان میں تدفین کا کہا۔ لیکن علامہ کے دوست احباب ڈٹے رہے اور انہوں نے براہ راست صوبہ کے گورنر سر ہنری کریگ سے رابطہ کر کے دہلی سے اجازت منگوا لی اور مسجد شاہی کے بائیں جانب والے قطعہ زمین پر علامہ کی لحد کی تیاری شروع ہو گئی۔ علامہ کی رہائش گاہ پر عقید ت مندوں کی آمد پانچ بجے عصر تک جاری رہی پھر علامہ کا جنازہ جاوید منزل سے برآمد ہوا۔ جنازے کی چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ دیئے گئے تاکہ ہر شخص آسانی سے کندھا دے سکے، ہر مذہب، مسلک اور فکر کے لوگ ہجوم کی صو رت ساتھ ساتھ تھے۔ جنازہ قلعہ گوجر سنگھ اور خیابان فلیمنگ سے ہوتا ہوا، اسلامیہ کالج سے گذر کر قلعہ لاہور کے قریب پہنچا، پہلے حضوری باغ پھر شاہی مسجد کی سیڑھیوں کے قریب رکھ دیا گیا۔ 60 ہزار سے زیادہ کا ہجوم شام سات بجے شاہی مسجد کے صحن پہنچا اور وہاں جنازہ رکھ کر علامہ کے بڑے بھائی عطا محمد کا انتظار ہونے لگا جو سیالکوٹ سے نہیں پہنچ پائے تھے۔ ساڑھے آٹھ بجے مولانا غلام مرشد نے نماز جنازہ پڑھائی، اسی اثناء میں سیالکوٹ سے رشتہ دار پہنچ گئے۔ کہرام مچ گیا۔ عطا محمد روتے روتے مجمع کو ہٹاتے جاتے اور کہتے لوگو مجھے میرے بھائی کا چہرہ دیکھ لینے دو، اس نے کہا تھا اس کے چہرے پر مرنے کے بعد تبسم ہو گا ۔یقیناہو گا۔ علامہ نے خود کہا تھا کہ

نشان مرد مومن باتو گویم 
چو مرگ آید تبسم بر لب اوست

(مرد مومن کی علامت سے کہتا ہوں کہ جب اس پر موت آئے تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ رہتی ہے) 

حکیم الامت کے جسد خاکی کو سوا دس بجے رات سپرد خاک کر دیا گیا۔ چند مہینوں بعد مزار کمیٹی بنا دی گئی جس نے فیصلہ کیا کہ مزار کی تعمیر کے لیے چندہ نہیں لیں گے۔ قیام پاکستان کے بعد وزیر خزانہ غلام محمد نے حکومت کی جانب سے مزار کی مدد کرنا چاہی تو کمیٹی نے قبول نہیں کیا۔ افغان حکومت نے اٹلی کے ماہرین فن سے مقبرہ کا نقشہ بنوا کر بھیجا، اسے بھی قبول نہیں کیا گیاکہ اس میں کیتھولک صنعتی فن تعمیر نظر آتا ہے اور آخر میں عالمی شہرت یافتہ ماہر فن تعمیر نواب زین یار بہادر جنگ سے نقشہ بنوایا گیا اور پھر پرشکوہ مقبرہ تعمیر ہوا۔ علامہ اقبال کا مقبرہ لاہور کی سرزمین پر صدیوں ”سجدہ گاہ صاحب نظراں“ رہے گا اقبال نے کہا تھا کہ  
زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری  

بدھ، 20 اپریل، 2016

پاکستان بھی تو لفظ ہے


کتاب مقدس میں ہے کہ اندھیرا ہی اندھیرا تھا، پانی ہی پانی تھا اور صرف خدا کا وجود تھا پھر اس نے چاہا کہ وہ جانا جائے اور ایک لفظ تخلیق ہوا   ”کن“ اور پھر کروڑوں سال سے دنیا میں لفظ”کن“ کا ہی جمال ہے۔ کائنات میں تخلیق کا پہلا اظہار، تخلیق اور قوت گویائی کی پہلی دلیل لفظ بنا، لفظ تخلیق کا بنیادی جزو اور کائنات اصلاً لفظ کے حُسن کاا ظہار ہے۔ لفظ اپنی معنویت میں تخلیق کی ماں ہے۔ کسی دانشور نے خوب کہا ہے کہ ہم لفظ کی صورت حال میں زندہ رہتے ہیں اور لفظ ہی ہمارا گردوپیش اور ہمارا سیاق و سباق متعین کرتے ہیں۔ لفظ تلفظ کے عمل سے لیکر معنی کے ابلاغ تک ایک ایسی کنجی کا نام ہے جو اسرار کے ہر زاویے تک رسائی کا ناگزیر اور لازمی ذریعہ ہے۔ لفظ اسم ہے، اسم پہچان۔لفظ فعل ہے، فعل کارکردگی۔ لفظ حرف ہے، حرف حقیقت۔ تمام انسانی خیالات، تصورات، تفکرات، تواہمات، نظریات، فلسفے اور مذاہب لفظوں کے استعمال سے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ لمحہئ تنزیل میں اترا ہوا پیغام بھی لفظ ہے اور شاعر کے شعور پر ہویدا ہونے والا خیال بھی لفظ کے لباس میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ لفظ بیاں بھی ہے اور طلسم بھی، لفظ اظہار بھی ہے اور اخفاء بھی۔ لفظ بے نقاب بھی کرتا ہے اور ڈھانپ بھی لیتا ہے۔ لفظ کی اسی ہمہ گیریت اور ہمہ جہتی نے یونیورسٹی آف گجرات کی ڈیبیٹنگ سوسائٹی کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا کہ اس نے گیارہ اور بارہ اپریل کو منعقد ہونے کل پاکستان مباحثے کو لفظ 2016کے خیال سے باندھ دیا۔آل پاکستان بین الجامعاتی تقریری مقابلے یونیورسٹی آف گجرات کی قابلِ تحسین روایت ہے اس سال چوتھے کل پاکستان مقابلوں کو بھی ”لفظ“ ہی کے نام سے موسوم کیا گیا،  لفظ انسانی زندگی کو معنی دیتے ہیں تو مکالمہ ان لفظوں کی ترتیب سے نئے افکار کی پرورش کرتا ہے۔ مباحثے اور مکالمے سے نئی بحثیں جنم لیتی ہیں، مختلف خیالات ٹکراتے ہیں اور پھر یہ جدلیات کسی نئے امتزاج میں ڈھل کر تہذیبی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔

کسی قومی دانشگاہ کا فریضہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کو جانے والوں کی تہذیب سے متعارف کروائے اور نئی تہذیب کے وارثوں کے ہاتھ میں نئے سوال تھما دے جن کی روشنی میں وہ زندگی کی ترقی کا سفر طے کریں۔ جامعہ گجرات کی وژنری قیادت اجتماعی شعور کی نمائندہ ہے اسی لئے اس درسگاہ کی فضا شیخ الجامعہ کی فکری ضیاء سے منور ہے اس روشنی نے چار سو لفظ اور خیال کا سویرا قائم کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر ضیاء القیوم کی حب الوطنی نے ان روایتی تقریری مقابلوں کو قومی یکجہتی اور ملی آگہی کا ضامن بنا دیا۔ کل پاکستان مباحثے میں پاکستان کی تمام اکائیوں کی بھرپور نمائندگی تھی۔ ملک بھر سے چالیس ممتاز جامعات کی ٹیموں نے بھرپور شرکت کی۔ پہلی شب کو پاکستانیت کے عنوان سے ثقافتی رنگ میں رنگ دیا گیا اور گجرات یونیورسٹی کو سندھ، خیبر پختونخواہ، بلوچستان، پنجاب، گلگت  بلتستان اور کشمیر کے ثقافتی رنگوں سے سجا کر پاکستانیت کا علمبردار بنا دیا گیا۔ افتتاحی تقریب میں ڈی سی او گجرات لیاقت علی چٹھہ مہمان خصوصی تھے، جامعہ گجرات کی نمائندگی رجسٹرار ڈاکٹر طاہر عقیل نے کی۔ سٹوڈنٹس سروسز سنٹر کے ڈائریکٹر محمو یعقوب اور اپنی ذات میں پوری انجمن کا کردا ادا کرنے والے محمدحیدر معراج نے حسن انتظام اور والہانہ استقبال کی درخشندہ روایت کو رواج دیا۔ڈبیٹنگ سوسائٹی کے کوارڈینیٹر رانا احمد شہید اور صدر سوسائٹی آصفہ فرحت نے میزبانی کے تقاضے بھرپور انداز سے نبھائے، نظامت کے فرائض خوش گفتارعروشہ اعوان اور نورالہدیٰ نے بحسن و خوبی انجام دئیے۔ مقابلوں کے بنیادی تھیم ”لفظ 2016“ کے تعارف کی ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی گئی تو میں نے مختصراً عرض کیا کہ لفظ ہر وہ چیز ہے جسے تلفظ کیا جاسکے۔ نحویوں کے نزدیک لفظ وہ ہے جسے اسم اور حرف میں تقسیم کیا جا سکے، حرفیوں کے ہاں لفظ وہ ہے جو پہلو بدلے تو معنی بدل جاتے ہیں، فلسفیوں کے نزدیک لفظ خیال کا جسم و پیکر ہے اور صوفیوں کے نزدیک لفظ اشارہ ہے جو ماورائے حقیقت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ محی الدین ابن عربی نے کہا تھا کہ ”تمہارے نام تمہاری تربیت کرتے ہیں، اس طرح لفظ ہی ہماری شناخت کی تقسیم کرتے ہیں۔ افکار کی جنگ ہو یا اقوام کی جنگ لفظ ہی حتمی طور پر مؤثر ہتھیار ثابت ہوتے ہیں۔ ہیرلڈ پنٹر کے ایک کردار کے بقول”لفظ جس کی گرفت میں آجائیں وقت کی لگامیں اس کے ہاتھوں میں آجاتی ہیں“۔جامعہ گجرات کے چوتھے کل پاکستان مباحثے کا آغاز ہونے جا رہا ہے لفظوں کی جنگ شروع ہونے والی ہے میں تمام ٹیموں اور ان کے سپہ سالاروں کے سامنے سقراط کی آخری بات رکھنا چاہتا ہوں۔ زہر کا پیالہ پی لینے کے بعد اپنے شاگرد کو آخری نصیحت کرتے ہوئے سقراط نے کہا تھا کہ کریٹو! یاد رکھو لفظوں کا غلط استعمال دنیا کا سب سے بڑا گناہ ہے۔امید ہے  لفظو ں کے سوداگر آنے والے مقابلوں میں لفظ کی حرمت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اس کے بعد رنگا رنگ ثقافتی پروگرام پیش کیا گیا۔ شینا ڈانس، پختون اور بلوچ روایتی رقص اور بلوچ و پنجابی لوک داستانوں نے حاضرین کو خوب محظوظ کیا۔ بانسری نے سماں باندھا تو زوہیب خاور اور نثار احمد کی مدھر آوازوں نے دلوں کے راگ چھیڑے، طبلے پر فنکارانہ کمال نے محفل کو دو آتشہ کر دیا۔ڈی سی او گجرات لیاقت علی چٹھہ نے کہا کہ تقریر دلیل کے ذریعے سامع کو قائل کرنے کا فن ہے۔ مقرر لفظ کی حرمت کا پاسباں ہوتا ہے۔ انہوں نے ملک بھر سے آئے ہوئے طالبعلموں اور اساتذہ کا گجرات کی سول سوسائٹی کی جانب سے خیر مقدم کیا۔ نامور مقرر اور ماہر امور طلبہ محمد حیدر معراج نے کہا کہ تقریر محنت اور منطق کا حسین امتزاج ہوتی ہے انسانی تہذیب میں فن تقریری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ فن تقریر قوموں اور قومیتوں کے درمیان امن اور یکجہتی کا فریضہ سر انجام دینے میں معاون ہوتا ہے۔

رجسٹرار ڈاکٹر طاہر عقیل نے کہا کہ لفظوں کی ہم آہنگی ہماری متوازن سوچ کی کی غماز ہوتی ہے۔ جامعہ گجرات میں صحت مند ہم نصابی سر گرمیاں تربیت کا اہم وسیلہ ہیں۔ ڈائریکٹر محمد یعقوب نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ دو روزہ اردو اور انگریزی تقریری مقابلوں میں شعبہ انگریزی کی اسسٹنٹ پروفیسر محترمہ صائمہ انور، عبدالواحد، صافیہ ضیاء، کامران احمد، ہمراز شیروانی اور حیدر معراج نے منصفین کے فرائض سر انجام دیے۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی ٹیم ٹرافی کی حقدار ٹھہری۔ انفرادی طور پر انگریزی مقابلوں میں UETٹیکسلا کی فاطمہ اول، رابعہ رحمان دوم اور پنجاب یونیورسٹی کے حماس سوم قرار پائے جبکہ اردو مقابلوں میں جی سی یو لاہور کے کفیل رانا پہلے، یو ای ٹی ٹکسلا کے محمد عامر دوسرے اور FASTفیصل آباد کیمپس کے حسان الرشید تیسرے نمبر پر رہے۔ حذیفہ کو انفرادی جبکہ کیڈٹ کالج پشین کی ٹیم کو حوصلہ افزائی کا انعام دیا گیا۔تقسیم انعامات کی تقریب کے مہمان خصوصی وائس چانسلر جامعہ گجرات ڈاکٹر ضیاء القیوم تھے، انہوں نے فاتح ٹیم کو ٹرافی اور انعامات کے حقدار ٹھہرنے والوں میں نقد انعامات اور ٹرافیاں اپنے دست مبارک سے تقسیم کیں۔سر پرست ڈیبٹنگ سوسائٹی ڈاکٹر طاہر عقیل نے قومی یکجہتی و قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے طالبعلموں کو بہترین سفیر قرار دیا۔ڈاکٹر ضیا القیوم نے کہا کہ مکالمہ و مباحثہ سماجی رواداری اور فکری روشن خیالی کا ضامن سمجھاجاتا ہے جامعہ گجرات طالبعلموں فکری راہنمائی اور تربیت و کردار سازی کو اولین ترجیح گردانتی ہے۔ تمام صوبوں کے نمائندگان کی موجودگی سے ان مقابلوں کو معیار اور وقار ملا ہے۔منتظمین کو اس ثمر آور مقابلے کے اہتمام پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
 لفظ جو ایک علامت ہے کبھی کانوں میں رس گھولتا نغمہ، کبھی دلوں کو چھو لینے والی میٹھی بات۔ کبھی رگ وپے میں تلخی بکھیرنے والا نشتر، تو کبھی زخم مند مل کر دینے والا مرہم۔ان مقابلوں میں لفظ کے بہت سے پہلو کھل کر سامنے آئے۔ طالبعلموں کی گفتار اور فکری معیارواضح کر رہا تھا کہ کائنات رنگ و بو میں ہر رنگ لفظ سے شناخت پاتا ہے اور ہر خوشبو لفظ کے دامن سے لپٹی چلی آتی ہے۔ ایسے ہی جیسے اس عظیم دھرتی ماں کے سارے رنگ، ساری خوشبوئیں جامعہ گجرات میں لفظ کی شمع جلا کر پتنگوں کے رقص کا عکس پیش کر رہی تھیں۔ قومی تقاضو ں سے ہم آہنگ قومی یکجہتی کے عکاس ان دو روزہ کل پاکستان تقریری مقابلوں میں اس اعلان پر سب کا اتفاق تھا کہ پاکستان بھی تو لفظ ہے۔اس کی معنویت اور حرمت پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔