منگل، 20 اکتوبر، 2015

نظام عدل و مساوات ہے نظام حسین ؓ


نظام عدل و مساوات ہے نظام حسین ؓ


مجھ سے کہتی ہیں ستاروں کی ضیائیں ساغر
ایک بار اور زمانے میں حسین آئے گا 
پھر کہیں وقت کے زنداںکا فسوں ٹوٹے گا 
تب کہیں گردش ایام کو چین آئے گا 

محرم الحرام کا آغاز ہوتے ہی ملت اسلامیہ کا غم تازہ ہو جاتا ہے۔ہر وہ شخص جسے نبی رحمت سے محبت اور اہل بیت سے تعلق ہے، ممکن نہیںکہ کربلا کی صبح قیامت اور عاشورہ کی بھیانک رات کی یاد اسے نہ تڑپائے۔ کوئی دل ایسا نہیں جو نواسہ رسول پر نہ دُکھے، کوئی آنکھ اس پر آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتی، کوئی باشعور اظہار غم کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ماہ محرم ہر سال کربلا کے غموں کی یاد ساتھ لے کر آتا ہے اس لیے گریہ و زاری، نالہ و ماتم فطری سچائی ہے۔ بلا شبہ امام عالی مقام اور ان کی عظیم قربانی کی یاد میں مجالس اور محافل کا اہتمام کرنا کار خیر ہے کیونکہ ان محفلوں کے ذریعے شہدائے کربلا کے فلسفہ ¿ حیات و شہادت کی یاد دہانی کرانا مقصود ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی امنگ کو پیدا کرنا ہے ۔ 
تیرے لہو کی ہر اک بوند کہہ رہی ہے 
کہ تیرا خون کبھی رائیگاں نہ جائے گا 
جلائیں عزم و یقیں کی جو مشعلیں تو نے 
انہیں یزید کوئی بھی بجھا نہ پائے گا
حضرت امام حسینؓ کی اپنی زندگی عزم و استقلال، صبر و ثبات اور خیر وبرکت کا ایسا نمونہ تھی کہ وہ زندگی کے جس جس راستے سے گذرے اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے روشنی کی کہکشاں چھوڑ گئے ،پھر ان کی شہادت تو خود اسلام کی حیات ثانیہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ حضرت امام حسین ؓ نے جس مقصد کے لیے اور جس آن کے ساتھ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ اسی لیے شہدائے کربلا کا تذکرہ ہمیشہ خون میں ڈوبے ہوئے الفاظ اور نمناک آنکھوں سے کیا جاتا ہے۔ لیکن اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ نالہ و ماتم اور آہ و بکا کس لیے ....؟ کیا امام عالی مقام نے ساتھیوں سمیت جانِ عزیز کی قربانی دے کر یہی سبق دیا تھا کہ ہم ہر سال چند روز سوگ منا کر ، اہلِ بیت رسول کے ساتھ عقیدت و محبت کا اظہار کریں یا پھر کربلا متقاضی ہے کہ مسلمانان عالم شہدائے کربلا کے نقش قدم پر چل کر حق کے لیے سینہ سپر رہیں اور باطل کو قدم نہ جمانے دیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ واقعہ کربلا پر اظہارِ غم فطری ہے لیکن یہ اظہار عقیدت محض ذاتی اور شخصی نوعیت کا ہے تو اس کی زیادہ اہمیت نہیں بلکہ کربلا کی تاریخ حق کی علمبرداری کے دعوے داروں سے کچھ اور تقاضا کر رہی ہے ۔ سیدنا امام حسین ؓ عظیم انسانی اقدار اور دینی قوت کے تحفظ کے لیے میدان کربلا میں جلوہ افروز ہوئے اور اپنی ، اپنی اولاد اور ساتھیوں کی جانیں قربان کر کے حق کی اس جدوجہد کو جاوداں بنا گئے ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ حضرت امام حسین کی شہادت کوئی شخصی واقعہ نہیں بلکہ شہادت حسینؓ اسلام کی اصل حقیقت ہے ۔ 
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم 
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسماعیل
واقعہ کربلا کی یاد تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ ، میرے خیال میں حضرت امام حسین ؓ کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے، وہ کیا تھے؟ کیوں لڑے اور کیوں شہید ہوئے ؟ میرا خیال ہے کہ حسین شعور و آگہی کا نقش جادواں ہے ، حسین ؓ حقیقتوں کا ایسا سیل بے کراں ہے جو مصلحتوں کے سارے خار و خس بہا کے لیے گیا ، حسین ؓ اصولوں کا نام ہے ، انصاف کا نام ہے ، ظالم کے خلاف جہاد او رمظلوم کی قربانی کا نام ہے ۔ اسوہ ¿ حسین ؓ ہمیں سچائی اور نیکی کی منزل کا پتہ دیتا ہے اور دنیاوی مصلحتوں اور جاہ و حشم کی خاطر اصولوں سے روگردانی سے باز رکھتا ہے ۔ محرم کا مہینہ ہمیں خود احتسابی کی دعوت دینے آتا ہے کہ کیا ہم نے شہادت امام عالی مقام سے استفادہ کیا ہے ، کیا ہم نے حق و صداقت اور عدل و انصاف کو اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ بنایا ہے، قومی اور اجتماعی زندگی میں ہم کہاں تک ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں؟ اگر ہم اسوہ ¿ حسینی پر عمل پیرا ہوتے تو کیا سماجی انصاف سے محروم ہوتے، سیاسی طور پر یتیم، معاشی طو ر پر محروم اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوتے ؟ اگر ہماری تاریخ میں کربلا کا واقعہ حقیقی معنوں میں ’زندہ‘ ہوتا تو کیا آج ہمارے ہاں، جبر و ستم کا رواج ہوتا ،یا قبضہ مافیا کا راج ہوتا ، مظلوم انصاف سے محروم اور ظالم مقتدر ہوتے ؟ اگر حضرت امام حسین ؓکی سچ کے لیے شہادت کا پیغام ہم میں رائج ہوتا تو کیاہماری حیات مصلحتوں سے آلودہ ہوتی۔ امام عالی مقام کی شہادت کا چراغ صراط مستقیم کی مانند ہمارے لیے روشن ہے مگر ہم تو راہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں ۔ہم نے دین اور روح دین کو بھی رسوم اور روایات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ شخصیت پرستی کا رواج عام ہو جائے تو درس کربلا کسے یاد رہ سکتا ہے ۔ سید الشہداءنے کوفہ جاتے ہوئے راستے میں ”بیضہ“ کے مقام پر جو خطبہ دیا اس میں یہ بھی فرمایا کہ ”....میں حق بجانب ہوں کہ مجھے غیرت آئے۔ اور میں ان کی سرکشی اور بغاوت کو حق و عدل سے بدلنے کی کوشش کروں۔ وقت آگیا ہے کہ مومن حق کی راہ میں جان قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ میں شہادت کی موت چاہتا ہوں، ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا خود بہت بڑا جرم ہے ۔ میری ذات تم لوگوں کے لیے نمونہ ہے “ اس خطبے کی گونج آج بھی موجود ہے اور ہمیں غیرت دلا رہی ہے اور ان مراحل سے گذرنے کی دعوت بھی دے رہی ہے جن سے شہدائے کربلا گذرے۔ کربلا میں جب چراغ گل کر کے جانے کی اجازت دی گئی تو بنو عقیل، مسلم بن عوسجہ، سعد بن عبداللہ حنفی، زہیر بن قیس و دیگر اٹھے اور مشن حسینؓ کا ساتھ دینے کا برملا اور جرا ¿تمندانہ اعلان کیا۔ آج بھی پیغام حسین گونج رہا ہے مگر عقیدت و محبت کے شور میں کوئی اس پیغام کربلا پر کان دھرنے کی جرات نہیں کر رہا۔ آج وطن عزیز اور ملت اسلامیہ کی حالت زار کے تناظر میں محرم کے قیامت خیز شب و روز ہم سے انہی جذبات، عزائم اور فدا کاری و جاں نثاری کا تقاضا کر رہے ہیں ۔ روح عصر مطالبہ کر رہی ہے کہ ہم حسینی مشن کی تکمیل کے لیے کربلا کے سبق کو یاد کریں ، دہرائیں اور اس پر عمل پیرا ہوں ہمیں یہ یاد بھی رکھنا ہے اور اس پر تدبر بھی کرنا ہے کہ محض نالہ و فغاں اور اظہارِ غم فدا کاری اور جاں نثاری کا بدل نہیں ہو سکتے۔ محبت حسین ؓ شعور حسینی کو عام کرنے کا تقاضا کر رہی ہے ۔ حضرت امام حسین ؓ سے عقیدت و محبت کا حق وہی لوگ ادا کرتے ہیں اور کر سکتے ہیںجو سرفروشی اور جاں نثاری کے جذبات سے سرشار ہو کر اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کو ہی اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ 
گماں تک نہ دلائے جو رخ بدلنے کا 
حسین ؓ نام ہے اس آرزو میں ڈھلنے کا 
کربلا میں شہداءنے انسانیت، حریت ، آزادی اور ضمیر کی قوت کو نئے معنی بخشے۔ جب تک انسانیت سسکتی رہے گی، مظلوم انصاف سے محروم رہیں گے ، ضمیر آزاد نہیں ہوں گے ، حقیقی معنوں میں حریت کا چراغ روشن نہیں ہو گا ، تب تک کربلا کا مشن جاری رہے گا اور ہمیں مشن حسینی میں اپنا حصہ ڈالنے کی دعوت دیتا رہے گا ۔ کربلا میں حق و باطل کے دو نظریوں کا ٹکراﺅ ہوا تھا۔ کربلا عظمت انسانی اور ظلم کے درمیاں نمایاں لکیر کا نام ہے ۔ کربلا کی داستاں ہمیں درس دے رہی ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ آئیے اسوہ حسینی کو مشعل راہ بنا کر انسانیت کی جنگ میں وقت کے یزیدوں کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں، عدل و انصاف ہی عظمت انسانی کی کلید ہے ۔ 
جیو خدا کے لیے اور مرو خدا کے لیے 
حسین والو سنو ہے یہی پیام حسینؓ 
یہی ہے دےن محمد، یہی صراط ہدیٰ
نظام عدل و مساوات ہے نظام حسینؓ 

جمعہ، 16 اکتوبر، 2015

سرسید احمد خاں:فہم نو کی ضرورت ہے


انیسویں صدی کے وسط میں ہماری قومی زندگی فشار اور بحران کے سنگم پر کھڑی تھی۔ راستے گم تھے اورر اہ نما مفقود! ان نازک حالات میں جس شخص نے اعتماد اور حوصلے کے چراغ جلائے، علی گڑھ جیسی اہم تحریک کی داغ بیل ڈالی اور پھر اس کی قیادت کے فرائض بھی انجام دیئے۔ اسے ہم سر سید احمد خاں کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ سر سید نے قومی زوال سے متاثر ہو کر قومی تعمیر کے لیے کمر باندھی تو زندگی کے بے شمار پہلو انہیں داغ داغ نظر آئے ۔ تہذیب و تمدن ، مذہب و معاشرت، سیاست و معیشت ، علم و ادب ، زبان اور تعلیم غرض کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو اصلاح طلب نہ ہو ۔ ان میں سے ہر پہلو سر سید کی توجہ کا مرکز بنا اور انہوں نے ہر ایک پہلو میں زندگی کی نئی روح پھونکنے کی کوشش کی ۔ 
مولانا حالی اور سر سیدکے دوسرے معاصرین نے ان کے کام کو1857ءکے ہنگامہ رستا خیز اور برطانوی اقتدار کے قیام اور اس سے پیدا شدہ حالات کی روشنی میں ہی دیکھا ہے مگر آج ان کی وفات کے ایک سو تیرہ سال بعد بھی ان کے کام کو1857ءکے پس منظر میں دیکھنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے حالانکہ سرسید دور جدید کے پہلے مسلمان تھے جس نے آنے والے زمانے کے ایجابی مزاج کا عکس اپنے آئینہ ادراک میں دیکھ لیا تھا اور اپنی ساری جدو جہد کا رُخ ہندوستان کی فلاح و بہبود، اسلام کی نئی تفسیر و تعبیر اور ایشیاءکے نفس ہائے رمیدہ کی باز یافت کی طرف موڑ دیا تھا۔ سر ہملٹن گب نے سر سید کی قائم کردہ درسگاہ کوFirst modernist organization of Indiaقرار دیا تھا۔ 
سر سید نے اپنی تحریک کے ذریعے بے زاری، مایوسی ، غلامی اور تقلید کی ز نجیروں میں جکڑے ہوئے لوگوں کو ایک نئی زندگی کی بشارت دی۔ ان کی آنکھوںمیں اعتماد اور حوصلے کی چمک پیدا کی ۔ سر سید کا خیال تھا کہ جب تک ہم اندھی تقلید کی زنجیروں کو نہ توڑیں گے اصلاح کا کوئی کام نتیجہ خیز ثابت نہ ہو گا ۔ اسی خیال کے پیش نظر زندگی اورادب میں عقلیت اور افادیت کا تصور پروان چڑھا۔ زندگی سے متعلق مسائل کو عقل کی روشنی میں دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش شروع ہوئی ۔ اسی طرز فکر کے باعث ان پر کفر کے فتوے لگے لیکن ان کے کفر نے ایمان کے لیے نئے راستے کھول دیئے ۔ ہمارے معاشرے میں میں عمل اور حرکت کی ایک موج پیدا ہوئی۔ مشرق و مغرب کے امتزاج سے ایک نیا معاشرہ ابھرنے لگا۔ جدید اور قدیم کے مابین سر سید تحریک نے ایک پل کا کام کیا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ تقلید سے پرہیز اور روایت شکنی پر زور دینے کے ساتھ انہیں اپنی اچھی روایات، عقاید اور تہذیبی ورثہ سے بھی دلی تعلق تھا۔ سرسید اور ان کے رفقاءکی جدوجہد کی تہہ میں فکر و نظر کے ساتھ گہرا انسانی ، علمی اور تاریخی شعور بھی کارفرما تھا جو اپنے مفید اور کار آمد ورثہ کو برقرار رکھتے ہوئے ، دوسروں سے اچھی اور مفید اقدار کو قبول کرنے پر اصرار کرتا تھا اور اسی تصور پر زندگی کی صحت مند تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ 
آج وطن عزیز جن سماجی و فکری مسائل کا شکار ہے اس کے تدارک کے لیے بھی ہمیں ایسی ہی ہمہ جہت ، روشن خیال اور منطقی تحریک کی ضرورت ہے ۔ آج سر سید ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہم نے اپنی ذات سے بلند ہو کر اخلاص اور محبت سے اپنی تہذیب کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کی ؟ اور کیا ہم نے ان کی طرح فراخدلی اور رواداری کے ساتھ ، جذباتیت سے بلند ہو کر اپنی زندگی کے راستے متعین کیے ہیں ؟ اور کیا ہم نے اس تہذیبی بحران پر جس سے آج ہم دوچار ہیں اس طرح حاوی ہونے کی کوشش کی جس کی مثال ہمیں سر سید کے عمل میں ملتی ہے ؟ 
سر سید کے سماجی اور تہذیبی تصورات اگرچہ ہمارے معاشرے میں غیر محسوس طور پر نفاد کر گئے تھے لیکن ان کا شعوری اور تفصیلی جائزہ بھی ابھی نہیںلیا گیا ؟ تعلیم کے بارے میں ان کے تصورات کی افادیت آج بھی موجود ہے مگر ان کو باضابطہ مطالعہ کے بعد مرتب شکل دینے کی آج بھی اشد ضرورت ہے ۔ 
علامہ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ ”مسلمانان ایشیا اب تک سرسید احمد خاں کی ذہنی کاوش کو سمجھنے کے قابل نہ ہو سکے“ انہوں نے مزید کہا کہ ”اس حقیقت کا انکشاف مجھ پر ہوا کہ سرسید کی نگاہ ایسے وسیع و عریض اُمور پر جمی ہوئی تھی جن کا تعلق مسلمانان ایشیاءکے مذہب اور سیاست سے تھا۔ پس مسلم ایشیاءنے اب تک ان کی شخصیت کی حقیقی عظمت کا اندازہ نہیں کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی سرسید احمد خاں کی شخصیت کو عالم اسلام کے وسیع فکری پس منظر میں دیکھا اور ”وکیل “ کے ایک ادارےے میں لکھا تھا کہ ”جو آواز آج سے تیس چالیس برس پیشتر اس اسلامی دور کے آخری مجدد کی زبانی سرزمین ہند سے بلند ہوئی تھی آج مصر، استنبول اور خود ہندوستان کے ہر روشن خیال اور تعلیمافتہ شخص کی زبان پر ہے ۔ مولانا ابوالکلام نے علی گڑھ کے ایک کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر ہندو اور مسلمانوں نے سر سید کی رائے کی روح کو سمجھا ہوتا اور اس کی پیروی کی ہوتی تو آج ملک کی تاریخ کا دوسرا رُخ ہوتا۔ بلاشبہ سرسید کے کارنامے ترکی کے مدحت پاشااور فواد پاشا، ایران کے حجةالاسلام شیخ ہادی نجم آبادی، مصر کے مصطفےٰ کامل، تیونس کے خیر الدین پاشا، الجیریا کے امیر عبدالقادر، طرابلس کے امام محمد سنوسی، افغانستان کے سید جمال الدین افغانی اور روس کے مفتی عالم جان کے کارناموں کے ساتھ مطالعہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 
اگر اقبال، گب اور آزاد کے دئےے ہوئے معیار اور سرسید کی جدوجہد و مساعی کے جملہ پہلو ہمارے پیش نظر رہتے تو سرسید کی حیرت انگیز ہمہ گیری اور اس کے دوررس اثرات کا عظیم الشان میدان نظروں کے سامنے آجاتا لیکن ہم نے ہمیشہ محدود دائروں میں سرسید کی عظمت کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور بقول اقبال 
اس مردخدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو 
تو بندہ آفاق ہے، وہ صاحب آفاق
حقیقت یہ ہے کہ سر سید کی فکر اور ان کی جدو جہد وسعی کی نوعیت کو سمجھنے کے لےے پاک و ہند، عالم اسلام اور ایشیا تینوں کے پس منظر سامنے ہونے چائییں۔ آج پاکستانی معاشرہ جس عدم برداشت، قنوطیت، فتویٰ بازی اور تاریخی نرگیست کا شکارہے اس کا ایک علاج سر سید احمد خاں جیسے مصلح و مدبرراہنما کی حقیقت پسندانہ روشن خیالی کا فروغ بھی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سرسید کے افکار و خدمات کی فہم نو حاصل کرکے آنے والے دنوں کو ان کی لو سے منور کریں تاکہ معاشرے سے جہالت، مایوسی اور فکری پسماندگی کا خاتمہ ہو، ہمیں ایک اور سر سید کی ضرورت ہے۔ 

قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خاں

 حیات و خدما ت

قائد اعظم کے دست ِراست پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خاں کا شمار مجاہدین تحریک آزادی اور معماران وطن میں ہوتا ہے ۔ قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے اس بطل ِجلیل کی ملی خدمات ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے وہ ایک باصلاحیت، دیانتدار، محنتی، بے باک اور عہد ساز شخصیت تھے۔ 
انہوں نے یکم اکتوبر1896ءکو مشرقی بنگال کے ضلع کرنال میں ایک بڑے زمیندار نواب رستم خان کے گھر جنم لیا۔ پیدائش میں ان کا نمبر سجاد علی کے بعد دوسرا تھا۔ انکا خاندان جو مشہور بادشاہ نوشیروان عادل کی نسل سے متعلق ہونے کا دعویدار تھا۔ تقریباً پانچ سو سال قبل مغلیہ عہد میں ایران سے ہندوستان آیا تھا۔ انکی زمینیں صوبہ پنجاب اور اتر پردیش میں پھیلی ہوئی تھیں۔ برطانوی عہد میں لارڈ کنینگ نے لیاقت علی خان کے داد ا نواب احم علی خان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پنجاب کے چیف کمشنر کو ہدایت کی تھی کہ اسے اور اس کی اولاد کو ہمیشہ پانچ ہزار روپے کا مالیہ معاف کر دیا جائے اور دس ہزار روپے کی خلعت دی جائے انکے ہاں نواب کا خطاب پشتی تھا۔ جو انکے بڑے بھائی سجاد علی خان کو ملا۔ لیاقت علی خان کا بچپن زیادہ تریوپی میں ہی گذارجو اس وقت مسلم ثقافت کا بڑا مرکز تھا۔ ان کی تعلیم گھر پر ہی مکمل ہوئی تو وہ مزید تعلیم کیلئے محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج علی گڑھ چلے گئے جہاں اسے انہوں نے1918ءمیں بی اے کا امتحان پاس کیا ۔اس وقت ان کے اہل خانہ ان کوانڈین سول سروس میں شامل کرانے کا خواب دیکھ کر رہے تھے۔ لیکن دوسری طرف لیاقت علی خان بھی مزید تعلیم کے حصول کے خواہشمند تھے۔ اس لئے1919ءمیں وہ قانون کی اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان چلے گئے۔ جہاں1921ءمیں انہوں نے آکسفورڈ سے قانون کی ڈگری لی اور1922ءمیں بارایٹ لاءکیلئے انرٹمپل چلے گئے۔ آکسفورڈ میں نوجوان لیاقت علی خان انڈین مجلس کے زیر اہتمام سیاسی مباحثوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور کچھ عرصہ تک اس مجلس کے خازن بھی رہے۔ 1923ءمیں وہ ہندوستان واپس آئے اور یو پی کے مقام منظر نگر میں مقیم ہو گئے۔ عملی سیاست میں بھی دلچسپی بڑھی تو اسی سال آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور مئی1924ءمیں پہلی مرتبہ وہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں شریک ہوئے۔1927ءمیں سائمن کمیشن کے مسئلے پر مسلم لیگ دوواضع دھڑوںجناح لیگ اور شفیع لیگ لاہور میں تقسیم ہوئی تو وہ جناح لیگ کے ساتھ کھڑے رہے۔ وہ1926ءمیں یوپی کی لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے ۔لیاقت علی چونکہ ایک ملنسار اور وضع دار شخصیت تھے اسلئے تعلقات بنانا اور نبھانا خوب جانتے تھے۔ اس لےے مسلسل چودہ سال تک اپنی نشست پر کامیاب ہوتے رہے۔ اس دوران وہ چھ سال صوبائی مجلس قانون ساز کے ڈپٹی پریذیڈنٹ اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے راہنما رہے۔ دسمبر1928ءمیں وہ نہرو رپورٹ پر بحث کیلئے کلکتہ میں منعقدہ نیشنل کانفرنس میں شریک مسلم لیگ وفد کے ممبر تھے۔اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے سفیر محمد علی جناح سے گہری وابستگی کے باعث شروع میں ہندو مسلم اتحاد کے خواہشمند تھے لیکن نہرو رپورٹ اورہندوانتہا پسندوں کے دباﺅ پر اسکی منظوری سے وہ ہندوﺅں سے مایوس ہو گئے۔ 
1933ءمیں انہوں نے دوسری شادی کی اور اسی سال بیگم رعنا لیاقت کے ہمراہ یورپ چلے گئے اس دورے میں انہوں نے انگلستان میں تنظیم سازی اور سیاسی جماعتوں کے ڈھانچوںکا خصوصی مطالعہ کیا۔ لیاقت علی نے اترپردیش میں پہلے ہی ڈیمو کریٹک پارٹی کے نام سے گروپ بنا رکھا تھا اسکی تصدیق نواب احمد سعید خاں آف چھتاری جو فروری1929ءمیں لیاقت علی رعنا کے مہمان بھی رہے اپنی سوانح حیات” یاد ایام“ میں کرتے ہیں۔ 26اپریل1936ءکو بمبی ¿ سیشن میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کے سلسلے میں محمد علی جناح کو صدر اور سر محمد یعقوب کی جگہ نوابزادہ لیاقت علی خاں کو آنریری سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا لیکن ڈاکٹر رفیق افضل کے مطابق صوبائی لیگ کے بعض راہنماﺅں سے اختلاف کی وجہ سے وہ جولائی1936ءمیں مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ سے علیحدہ ہو گئے اور نواب احمد سعید خاں آف چھتاری کی نیشنل ایگر یکلچر سٹ پارٹی میں شامل ہو گئے۔ لیکن 1937ءکا انتخاب انہوں نے کسی پارٹی کے ٹکٹ سے نہیں لڑا تا۔ہم 2مارچ1938ءکوانہیں ایک سرکاری تجارتی وفد کے مشیر کی حیثیت سے سر ظفر اللہ خاں کی زیر قیادت لند ن بھیج دیا گیا۔ 1940ءمیں وہ پھر مرکزی اسمبلی کے رکن چنے گئے اور مسلم لیگ پارٹی کے ڈپٹی لیڈر بن گئے اب آپ کا شمار قائد اعظم کے معتمد ترین ساتھیوں میں ہونے لگا تھا اور قائد اعظم نے مسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے لیاقت علی خاں کو اپنا دست وبازوقرار دیا تھا۔ دسمبر1943ءمیں آپ کو دوبارہ مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری منتخب کر لیاگیا۔ پھر1948ءمیں پاکستان مسلم لیگ کے قیام تک یہی فرائض سرانجام دیتے رہے آپ کی صلاحیتوں کا اصل امتحان1946ءمیں شروع ہوا جب آپ کو مسلم لیگ کی جانب سے وائسرائے کی کونسل میں شامل کیا گیا اور عبوری حکومت میں وزیر خزانہ بنا یا گیا ا س وقت عام خیال یہی تھا کہ وزارت خزانہ جیسی مشکل اور اہم ذمہ داری نبھانا کسی مسلمان یا نواب کے بس کا روگ نہیں چنانچہ اس بے بنیاد چیلنج کو قبول کرتے ہوئے لیاقت علی خان نے سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی جو تاریخ ساز بجٹ پیش کیا اسے غریب آدمی کا بجٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس بجٹ سے ہندو سرمایہ دار حیران و پریشان رہ گئے اور اسکی مخالفت کرنے لگے ۔ایک پرولتاری مزاج کے حامل نوابزادے کے اس ”کارنامے“ کے سامنے آخر کار کانگریسی راہنماﺅں نے گھٹنے ٹیک دئےے اور کئی راہنماﺅں نے بادل ِنخواستہ تقسیم ہند کی حمایت شروع کر دی۔ قیام پاکستان کے بعد لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی خواہش کے برعکس جب قائد اعظم نے سربراہ ریاست کی حیثیت سے حلف اُٹھایا تو اپنے ساتھ بطور وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا ہی انتخاب کیا بلاشبہ ابتداءمیں بابائے قوم خود ہی قوم اور حکومت کی راہنمائی فرماتے تھے۔ لیکن اس دور میں بھی انکے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری وزیر اعظم ہی کی تھی لیکن صرف ایک سال بعد جب قائد اعظم قوم کو داغِ مفارقت دے گئے تو نوازئیدہ پاکستان کی بنیادیں ہل گئیں بھارت نے اس صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے حیدر آباد دکن پر ہلہ بول دیا اس سے نوازئیدہ مملکت خداداد کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں ہزاروں اندیشے اور خطرے جنم لینے لگے۔ ایس ایم اکرام کے بقول غیر ملکی مبصرین تو یہاں تک کہنے لگے کہ"With the builder's death the house that Jinnah built would collapse" یعنی معمار کی وفات سے وہ مکان جو جناح نے تعمیر کیا قائم نہیں رہ سکے گا۔ان تشویشناک حالا ت میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے عزم و استقلا ل سے قوم کے آزردہ دلوں کو سنبھالا دینے اور لا تعداد مسائل کی الجھی ہوئی گھتیوں کو سلجھانے میں ناقابل فراموش کردار سرا نجام دیا ۔انہوں نے خود اعتمادی ، تندہی، لگن اور تدبر سے اندرون وبیرون ملک پاکستان کی ساکھ نہ صرف قائم رکھی بلکہ اس میں اضافہ کیا چوہدری محمد علی کے الفاظ میں"Liaqat Ali rose to unexpectedly great hights as the national leader"لیاقت علی کو جن مسائل کا سامنا تھا ان میں سرفہرست فرقہ وارانہ فسادات اور مہاجرین کی آباد کاری کا تھا آپ خود مہاجر کو نسل کے چیئرمین تھے اور شب و روز آباد کاری کے فرائض سرانجام دیتے رہے فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لئے حکومت ہند اورلارڈ ماﺅنٹ بیٹن سے ملاقات کی نہرو کے ساتھ مل کر جرا ¿ت مندی سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ فضا کو خوشگوار بنانے کے لئے گاندھی کی سمادھی پر پھول چڑھائے۔ پٹیل کی عیادت کی اور نہرو لیاقت پیکٹ کے لئے راہ ہموار کی ۔عبوری دور میں ہی لیاقت علی خان ثابت کر چکے تھے کہ وہ اقتصادی ومالیاتی امور سے کماحقہ‘ آگاہ ہیں۔ چنانچہ وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد آزاد معیشت کے لئے ملکی برآمدات پر زور دیا اور پہلے ہی سال بظاہر ناگفتہ بہ حالت اور اثاثوں کی غیر منصفانہ تقسیم اور روک کے باوجود متوازن بجٹ پیش کرکے مستحکم معاشی حالت کی نشاندہی کی۔ انہی کے دور میں اکتوبر1948ءمیں لاہور میں سکے ڈھالنے کے لئے ٹکسال قائم کیا گیا ۔اقتصادی حوالے سے انہیں ستمبر1949ءمیں ایک اور کڑے امتحان سے گزرنا پڑا جب برطانیہ سمیت کئی ممالک نے اپنی معاشی بدحالی کے باعث عالمی سطح پر اپنے سکے کی قیمت گرانے کا فیصلہ کیا لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈیڑھ سال تک معاشی سردجنگ جاری رہی بالاخر25جنوری1951ءکو بھارت نے پاکستانی سکے کی نئی شرح تبادلہ کو تسلیم کر لیا انہی دنوں کوریا کی جنگ چھڑ جانے سے بھی پاکستان نے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ 
نومبر1949ءمیں نیشنل بنک آف پاکستان قائم کیا گیا۔ اسی سال کمپنیوں کے حصص کی خرید و فروخت کے لئے سب سے پہلا سٹاک ایکسچینج کراچی میں قائم کیا گیا ۔1950ءپاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن قائم کی گئی جس کا مقصد پبلک سیکٹر میں صنعتیں قائم کرنے کے بعد ان کو پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل کرنا تھا۔کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ تیل کی تلاش شروع ہوئی جس کی وجہ سے سوئی گیس دریافت ہوئی ۔وارسک پراجیکٹ اور کرنافلی پراجیکٹ پر توجہ دی گئی سیلاب کی تباہ کاریوں کی روک تھام کے لئے 1950ءمیں فلڈ کمیشن قائم کیا ۔اسکی سفارشات کے مطابق قانون قومی آفات پاس کیا گیا جسکے تحت فلڈ ریلیف کمیشن قائم کیا جا سکتا ہے۔ اسی کمیشن کے فوجی ممبران کی تجویز پر بمبانوالہ بیدیاں کینال تعمیر کی گئی اس نہرنے1965ءکی پاک بھارت جنگ میں لاہور کی حفاظت کے سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 
اس کے باوجود لیاقت علی خان کے کچھ ناقدین معترض ہیں کہ کو وزیر اعظم نے دستور ساز اسمبلی میں واضع اکثریت کے باوجود دستور سازی کے معاملے میں غیر ضروری تساہل سے کام لیالیکن معترفین بھول جاتے ہیں کہ قائد اعظم کی رحلت، مہاجرین کا سیل ،رواں مسئلہ کشمیر، سرحدوں پر ہندوستانی فوج کا اجتماع ایسی حقیقتیں تھیں جس سے انکی تمام تر توجہ قومی استحکام پر مرکوز رہی، اسکے باوجود12مارچ1949ءکو قرار دادمقاصد منظور کرائی جسکی بنیاد پر دستور بنناتھااگلے ہی روز بنیادی اُصولوں کی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے اگلے سال عبوری رپورٹ پیش کی اس پر نکتہ چینی شروع ہوئی تو اس پر بحث ملتوی کراد دی اور پھر انکی جان لے لی گئی۔ 
اسکے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ انکے دور میں مسلم لیگ اور حکومتی پارٹی تنزل کا شکار ہو گئی مگر انہوں نے بطور وزیر اعظم اور صدرپاکستان مسلم لیگ اس طرف مناسب توجہ نہ دی اسی بناءپر تمام صوبوں میں بھی مسلم لیگی قائدین اور ارباب اقتدار دست و گربیان رہے مگر اس نازک صورتحال میں وزیر اعظم خود کو مفادات کی جنگ اور ان صوبائی جھگڑوں سے بالا تر نہ رکھ سکے۔ اس سے انکی ذات ہدف تنقید بنی ڈاکٹر مظفر احمد چوہدری کا کہنا ہے کہ ”انکا تعلق پاکستان کے کسی صوبہ سے نہ تھا لہٰذا انہیں سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لئے مختلف صوبوں کو وزرائے اعلیٰ کے تعاون کا سہارا لینا پڑتا تھا اور اس غرض کے لئے انہوں نے متعد د باراصولوں کی قربانی دی۔ لیاقت علی کے عہد میں خارجہ پالیسی نے بھی واضع شکل اختیار کرنا شروع کر دی تھی۔ بھارت کے ساتھ تنازعات کو پر امن طریقے سے طے کرنے کے لےے اقدامات، سا لمیت پاکستان کے تحفظ کے لئے دستور کی تلاش اوراسلامی کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو فروغ حاصل ہوا۔ لیکن مشتاق احمد نے اپنی کتاب ” گورنمنٹ اینڈ پالٹکس ان پاکستان“ میں لیاقت دور کی خارجہ پالیسی کو ہدف تنقید بنایا ہے کہ ابتداءمیں انکی پالیسی غیر جانبدارانہ تھی اور پاکستان کسی بھی بین الاقوامی گروہ میں یا بلاک میں شامل ہونا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن روس کی دعوت پر ماسکو نہ جانا اور ٹرومین کی دعوت پر امریکہ چلے جانا غیر جانبداری کے دعوﺅں کے سر ا سر منافی تھا۔ بعد ازاں اس غلطی کی وجہ سے وزیر اعظم کو شہید کر دیا گیا۔ 
قائد ملت لیاقت علی خان16اکتوبر1951ءکو راولپنڈی کے موجودہ لیاقت باغ میں عوام کے ایک بڑے اجتماع کو خطاب کرنے آئے اور ڈائس پر جونہی انہوں نے تقریر شروع کی اور ابھی برادارن ملت ہی کہا کہ سید اکبر نامی ایک پٹھان نے انہیں گولیوں کا نشانہ بنالیا وہ کلمہ طیبہ ادا کرتے ہوئے نیچے گر پڑے اور انکی روح پرواز کرنے لگی آخری وقت انکی زبان پر یہی الفاظ تھے کہ خدا پاکستان کی حفاظت کرے ۔ وزیر اعظم کی شہادت کا واقعہ ایک گہری سازش کا نتیجہ تھا۔ اگر ہم شہیدملت لیاقت علی کی حیات و خدمات کا تجزیہ کریں اور انکی بشری کوتاہیوں اور ملی خدمات کو ترازو میں رکھیں تو شریف النفس وزیر اعظم کی خدمات کا پلڑا بھاری رہے گا۔ سید نور احمد ”مارشل لاءسے مارشل لاءتک“ میں لکھتے ہیں کہ انکی بعض پالیسیوں سے اختلاف ممکن ہے لیکن امر واقع یہ ہے کہ قائد اعظم کی طرح لیاقت علی خان نے بھی پاکستان ہی کو اپنا سرمایہ، اپنا خاندان اور اپنا سب کچھ سمجھا۔ انہوں نے نہ کوئی بنک بیلنس جمع کیا ،نہ اپنے لئے اور نہ اپنے خاندان کے لےے کوئی منفعت حاصل کرنے کی کوشش کی وہ اقتدار کو قوم کی امانت سمجھتے رہے قائد اعظم کے بعد ملک کی قیادت اور خدمت کے لئے انکی موجودگی بلاشبہ عوام کا حوصلہ بلند رکھنے کا باعث ثابت ہوئی۔ انکی کابینہ کے ایک اہم وزیر چوہدری نذیر احمد خاں رقمطراز ہیں کہ لیاقت علی خان ایک سچے ،محب وطن، بے لالچ قابل اور گہری سوچ و بچارکے مالک تھے انہوں نے قائد اعظم کے بعد جس طرح اس نوازئیدہ مملکت کو سنبھالا وہ انہی کا حصہ ہے۔ جبکہ مشتاق احمد نے انکی شہادت کو عظیم المیہ قرار دیتے ہوئے یوں تبصرہ کیا تھا کہ 
The Assassination of Liaqat was a mortal blow to to the young state, how grim was the tragedy, became more obvious by the events that followed his death....his premature exit from the scene marked a turning point in political history of Pakistan. 

٭٭٭٭٭

جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

فرزند اقبال جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال(مرحوم) کے ساتھ یادگار نشست

تعارف 

(بصد شکریہ: یہ انٹرویو ماہنامہ گجرات ٹائمز میں شائع ہوچکا ہے)
فرزند اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال ایک ہمہ پہلو شخصیت ہیں ان کی کئی علمی و فکری کاوشیں بطور قانون دان ، دانشور ، ادیب اور ماہر اقبالیات منظر عام پر آچکی ہیں ۔ موصوف کی ذات کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ نہ صرف جدوجہدپاکستان اور حصول پاکستان کے مقاصد میں ناکامی کی تاریخ کے ناظر و شاہد ہیں بلکہ ایسے محب وطن ہیں جو اپنے سماج اور ریاست کو جدوجہد پاکستان سے ہم آہنگ دیکھنے کے آرزو مند ہیں وہ قائداعظم کے پاکستان اور فکر اقبال کے عملی اطلاق کے خواہاں ہیں 
جاوید اقبال 5 اکتوبر 1924ءکو شب 9 بج کر 30 منٹ پر سیالکوٹ شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے وقت ان کے دادا شیخ نور محمد زندہ تھے انہوں نے قمر الاسلام نام رکھا مگر ان کے والد اقبال کو یہ نام پسند نہ آیا انہوں نے جاوید اقبال رکھا ۔ سیکرڈہارٹ مشنری سکول میں داخل کرا دیا گیا 1940ءمیں میٹرک کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا 1942ءمیں ایف اے کر کے جغرافیہ میں بی اے (آنرز)کیا ۔ 1945ءمیں ایم اے انگریزی میں داخل ہوئے مگر پہلی دفعہ امتحان میں فیل ہوئے پھر ایم اے فلسفہ میں داخلہ لے لیا اور دوسری بار ایم اے انگریزی کا امتحان دے کر پاس ہو گئے۔1948 ءمیں ایم اے فلسفہ میں یونیورسٹی بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ ستمبر 1947ءمیں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور اِنز آف کورٹ سے بیرسٹری کی ڈگری بھی حاصل کی ۔1956ءمیں وطن واپس آ گئے اور وکالت شروع کر دی نیز پنجاب یونیورسٹی لاءکالج میں جز وقتی پڑھانا بھی شروع کیا۔ جون 1964ءمیں ان کی شادی ناصرہ سے ہوئی ۔ 1970ءکے انتخابات میں کونسل لیگ کے ٹکٹ پر بھٹو کے خلاف الیکشن لڑا مگر ہار گئے۔ جولائی 1971ءمیں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنا دیئے گئے۔ 4 اکتوبر 1986ءمیں باسٹھ برس کی عمر میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب سے ریٹائرمنٹ کے روز ہی سے انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا پھر 3 سال بعد چار اکتوبر 1989ءکو سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے ۔ نوے کی دہائی میں مسلم لیگ (نواز )کی جانب سے سینٹ کے ممبر چُنے گئے۔ کئی عشروں سے فکر و تحقیق اور تقریر و تحریر میں مصروف ہیں ۔ محترم جاوید اقبال نہ صرف ممتاز اقبال شناس ہیں بلکہ انہوں نے فکر اقبال کی مجتہدانہ روایت کو جس جرات و بہادری سے آگے بڑھایا ہے وہ قابل تقلید و قابل تحسین ہے گذشتہ دنوں انکی رہائش گاہ پر ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے ۔ 

شیخ عبدالرشید: فکر اقبال آج کے انسان کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟ 
جاوید اقبال: اقبال خطبات کے دیباچہ میں تحریر کرتے ہیں کہ قرآن مجید ”فکر“ کے بجائے ”عمل“ کی تلقین کرتا ہے ۔ مگر عام لوگوں کی فطرت میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ باطنی واردات ، جن پر ان کے ایمان کی بنیاد رکھی گئی ہے ، اسی طرح اپنے تجربے میں لے آئیں جیسے زندگی کے دیگر احوال یا اپنے اردگرد کے ماحول کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ اقبال کی نظر میں عہد حاضر کا انسان جو اپنے حواس پر انحصار کرنے کے سبب محسوس کی دنیا میں رہتا ہے اور اگرچہ اس طریق زندگی کی اسلام نے اپنے تمدن کے ابتدائی ادوار میں حمایت کی، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ انسان باطنی واردات کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے لگا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں کہ مثبت تصوف نے ماضی میں بے شک مسلمانوں میں مذہبی یا روحدانی جذبہ کے فروغ کے سلسلہ میں نمایاں خدمات انجام دیں لیکن اب جو حضرات تصوف کی نمائندگی کر رہے ہیں ، وہ عہد حاضر کے ذہن انسانی سے قطعی نا آشنا ہیں، بلکہ وہ انہی پرانے طریقوں سے کام لے رہے ہیںجو کسی صورت میں بھی آج کے اذہان کے لیے قابل قبول نہیں ۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے :” تمہیں پیدا کیا جانا اور (بروز قیامت) دوبارہ اٹھایا جانا، اگر ایک نفس واحد کی تخلیق اور بعثت کی مانند ہے “۔ یہ آیت جس حیاتی وحدت کی طرف اشارہ کر ہی ہے ، اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایسے منہاج کا تقاضا کرے گی جو ممکن ہے عضویاتی اعتبار سے جسمانی ریاضت کا طالب نہ ہو ، مگر نفسیاتی طور پر اس ذہن پر ضرور اثر انداز ہو گا جسے محسوس کی دنیا میں رہنے کی عادت پڑ گئی ہے ۔ جب تک ایسا ممکن نہیں ہوتا‘ کیاہم مطالبہ کر سکتے ہیں کہ مذہب کے ذریعہ جو علم ہمیں حاصل ہوتا ہے ‘اُسے سائنس کی زبان میں سمجھنے کی کوشش کریں ؟ اسی مقصد کے پیش نظریہ خطبات مرتب کیے گئے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں کہ انہوں نے علم انسانی کے مختلف شعبوں میں ارتقاءکو ملحوظ رکھتے ہوئے ‘ اسلام کی فکری روایات کے مطابق اسلام کی مذہبی فکر کی تشکیل نو کرنے کی ایک حد تک کوشش کی ہے ۔ ویسے بھی یہ وقت اس قسم کے کام کرنے کے لیے نہایت موزوں ہے ۔ قدیم طبعیات نے اپنی بنیادوں پر تنقید کرنا شروع کر دی ہے ۔ مادے کا پرانا تصور ختم ہو رہا ہے ۔ اس لیے وہ دن دور نہیں جب مذہب اور سائنس میں ایسی ہم آہنگی پیدا ہو جائے جو فی الحال ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے ۔ مگر فلسفیانہ غور و فکر کے معاملے میں قطعیت کوئی شے نہیں۔ جوں جوں علم وسیع ہوتا جائے گا ، فکر کے نئے رستے کھلتے چلے جائیں گے ۔ اسی بنا پر جو تصورات ان خطبات میں پیش کیے گئے ہیں ‘ ممکن ہے ان سے بہتر سامنے آجائیں ۔ پس بقول اقبال ہمارا فرض ہے کہ فکر انسانی کے ارتقاءپر کڑی نگاہ رکھیں اور مکمل آزادی کے ساتھ اس پر تنقید کرتے چلے جائیں۔ 



شیخ عبدالرشید: اقبال کے تصور اجتہاد کا بڑا چرچا ہے ۔ خطبات اقبال کی روشنی میں آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں ....؟ 
جاوید اقبال: 1924ءمیں تحریر کردہ ”اجتہاد“ کے مقالے پر جو بعد ازاں زیادہ بہتر شکل میں خطبات میں شامل ہے ،اقبال کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ اقبال اپنے خط بنام مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی میں تحریر کرتے ہیں کہ سر سید کی تحریک کے بعد پیشہ ور مولویوں کا اثر و رسوخ کم ہو گیا تھا ۔ مگر خلافت کمیٹی نے ان سے سیاسی نوعیت کے فتوے حاصل کرنے کی غرض سے انہیں ہندی مسلمانوں پر پھر مسلط کر دیا ۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی جس کا اب تک کسی کو احساس نہیں ہوا ۔ فرماتے ہیں ، مجھے حال ہی میں اس کا تجربہ ہوا ہے ۔ کچھ مدت ہوئی میں نے انگریزی میں اجتہاد کے موضوع پر ایک مقالہ لکھا جو ایک مجمع میں پڑھا گیا۔ مگر بعض لوگوں نے مجھے کافر قرار دے دیا ۔ اسی طرح اقبال نے مولانا عبدالماجد دریا بادی کو بھی یہ مقالہ ارسال کیا، لیکن انہوں نے بھی غالباً سرسری نگاہ سے دیکھا اور ناپسند فرمایا ، جس سے اقبال کو بڑی مایوسی ہوئی ۔ بقول مولانا ابو الحسن علی ندوی، سید سلیمان ندوی نے تو اس تصنیف کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اقبال اگر یہ کتاب نہ لکھتے تو بہتر ہوتا ۔ بقول سید نذیر نیازی کسی ہندی عالم نے قاہرہ کے علماءحضرات سے درخواست کی تھی کہ خطبات میں پیش کردہ اقبال کے نظریات کو اسی طرح مردود قرار دیا جائے جیسے ان سے پیشتر سر سید کے خیالات کو کفریات قرار دیاگیا تھا ۔ اگرچہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے شعر اقبال پر ایک عربی کتاب تحریر کر رکھی ہے جس کا اردو میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے ، لیکن خطبات اقبال کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ وہ اقبال کو نہ تو معصوم سمجھتے ہیں نہ متقی و پرہیز گار، نہ رہبر دین ، نہ امام مجتہد، نہ ان کی فکری کاوشوں کی تعریف میں، ان کے مداحین کی طرح، حد سے گزر جانا انہیں قبول ہے ۔ ان کی رائے میں حکم سنائی ، عطار اور عارف رومی احترام و اتباع شریعت، ہم آہنگی فکر و عمل اور یگانگت قول و فعل میں اقبال سے بہت آگے تھے۔ اقبال کے ہاں اسلام او ر فکر اسلامی کی بعض ایسی تعبیریں ملتی ہیں جن کے ساتھ اتفاق کرسکنا بڑا مشکل ہے ۔ اقبال کے بعض نوجوان حامیوں کی طرح ، وہ اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ اقبال سے بہتر اسلام کو کو کوئی نہیں سمجھ سکا یا یہ کہ اسلامی علوم اور تاریخی حقائق کے متعلق جو معلومات اقبال کو حاصل تھیں ، وہ اور کسی کو حاصل نہیں، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ تمام عمر اقبال اپنی ہمعصر عالم شخصیتوں سے فیض یاب ہوتے رہے ۔ ان کی نادر شخصیت میں بعض ایسی خامیاں تھیں جن کی تطبیق ان کے علم کی وسعت اور پیغام کی عظمت کے ساتھ نہیں ہوتی ۔ بد قسمتی سے انہیں اپنی ان خامیوں سے نجات حاصل کر سکنے کا موقع نہ ملا ۔ ان کے خطبات مدراس میں کئی ایسے خیالات و نظریات پیش کیے گئے ہیں جو اہل سنت و الجماعت کے کئی اعتقادات سے متصادم ہیں ۔ 
ان خطبات کو تحریر کیے اب تقریباً تراسی برس گزر چکے ہیں ۔ مدراس، حیدر آباد دکن اور علی گڑھ میں اقبال کے مخاطب مسلم و ہندو طلبہ، اساتذہ اور دیگر اہل علم تھے ۔ ساتویں خطبہ کے سامعین البتہ زیادہ تر انگریز اراکین ارسطاطیلین سوسائٹی تھے جن کی دلچسپی مذہب کے بجائے فلسفہ میں تھی ۔ اقبال کے ہمعصروں نے ، خصوصی طور پر علمائے ہند نے ان کی اس تصنیف میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ اگر لی تو سرسری طور پر اور کہیں رائے کا اظہار کیا تو منفی۔ اوّل تو کتاب انگریزی میں تھی اور دو، خطبوں میں بحث کی نوعیت عقلی اور فلسفیانہ تھی جسے غالباً مذہبی حلقوں میں تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔ اقبال کے بعد پہلی نسل میں ہمیں زیادہ تر خطبات اقبال کے اردو اور دیگر مختلف زبانوں میں ترجمے نظر آتے ہیں مگر تبصرے تقریباً مفقود ہیں ۔ مطلب یہ کہ اس نسل نے کتاب کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ البتہ اس کے بعد دوسری اور تیسری نسلوں میں ، معلوم ہوتا ہے کہ خطبات اقبال کو سنجیدگی سے پڑھنے اور اس پر تبصرہ کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔ 

شیخ عبدالرشید: خطباتِ اقبال کی جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی موجودہ نسل کے لیے کوئی اہمیت ہے یا نہیں .... ؟ 
جاوید اقبال: خطبات کا اصل مقصدتو مسلمانوں کو ترغیب دینا تھی کہ کسی اور وجہ سے نہیں تو مصلحتاً مغربی تہذیب کے علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی برتری کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں اپنے اندر جذب کر کے نہ صرف مادی اعتبار سے فائدہ اٹھائیں بلکہ ان کے ساتھ اپنی روحانی اور اخلاقی اقدار منسلک کر کے زیادہ متوازن معاشرہ وجود میں لائیں اور یوں مغربی تہذیب کے مقابلے میں اپنے تمدن کی برتری ثابت کردیں ۔ اقبال کے نزدیک احیائے تمدن اسلام کی یہی ایک ممکن صورت تھی اور اب بھی اسی طریق کار کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ مگر مستقل مزاجی سے اس راہ پر چل سکنا اس لیے ممکن نہ ہو سکا کیونکہ مغربی نو آبادیاتی طاقتوں کے شکنجے سے سیاسی آزادی حاصل کر لینے کے باوجود مسلم اقوام کی مغربی استعمار کے خلاف رنجشیں قائم رہیں بلکہ اب بھی ہیں اور ان کی جدید ترین صورت بعض مسلم حلقوں میں رجعت پسندی کے رجحانات عام ہونے کے سبب دہشت گردی کا فروغ ہے اور دہشت گردی بھی خود کش بمباروں کی شکل میں ۔ ترقی یافتہ مغربی طاقتیں تو بہترذرائع کے بل بوتے پر اپنی حفاظت کا بندوبست کرسکتی ہیں ۔ مگر جہاں تک ترقی پذیر مسلم ممالک کا تعلق ہے ، وہاں خود کش بمبار کی اسلام کے نام پر کار گزاری اپنوں ہی کے خلاف ایک طرح کی اجتماعی خود کشی کا باعث بن رہی ہے ۔ غیر مسلم ممالک میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیںانہیں دہشت گردوں کے طور پر شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ ہر امن پسند مسلمان اپنے ملک میں ہو یا اپنے ملک سے باہر ، غیر محفوظ محسوس کرتا ہے ۔ 
اس پس منظر میں پاکستان ، جو دہشت گردی اور خود کش بمباروں کی زد میں ہے ، میں مسلمانوں کی نئی نسل کے سامنے دو ہی رستے ہیں : ایک تو یہ کہ مذہبی جوش و خروش کے ریلے میں بہہ کر سینکڑوں برس اُسی طرح پیچھے چلے جائیں جیسے وہابی تحریک یا خلافت تحریک کی ناکامی کے بعد صورت پیدا ہوئی تھی ۔ یعنی جتنی ترقی حاصل کر سکنے کی ہمیں توفیق ہوئی ہے یا ”نیو کلیئر“ قوت کی صورت میں جو کچھ حاصل کیا گیا ، کہیں شدت جذبات اور مقابلے کے لیے حقیقی ذرائع کے فقدان کے سبب، کسی نئے اجتماعی استعمار کے زیر آکر ، ہم اسے گنوا نہ بیٹھیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس غیر یقینی اور غیر معتدل دور سے کامیابی سے گزر جانے کی خاطر، مصلحتاً یا خالصتاً عقلی بنیادوں پر اپنی کوئی نئی حکمت عملی وضع کریں ۔ اگر م ¶خر الذکر طریق کار اپنایا گیا تو خطباتِ اقبال کی تسہیل و تفہیم کی ضرورت پیش آسکتی ہے ۔ کوئی عجب نہیں اگر مستقبل میں اقبال کے افکار کی روشنی میں احیائے اسلام یا احیائے تمدن اسلام نے کوئی عملی صورت اختیار کی تو ہندو پاکستان کے مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں خطباتِ اقبال اور ان کی دیگر نثری کاوشوں پر مزید تحقیق کے ذریعہ نئے طریقوں سے نئے مسائل کا حل تلاش کرنا پڑے ۔ 
اجتہاد سے متعلق خطبہ سے ثابت ہے کہ اشعار میں جمہوریت پر تنقید کے باوجود اقبال کی جدید اسلامی ریاست میں جمہوریت کا نعم البدل کوئی اور سیاسی نظام نہیں ۔ اگر کوئی ہے تو ملوکیت یا آمریت ہے جو بقول اقبال دونوں اسلام کی روح کے خلاف ہیں۔ لہذا پاکستان کی جمہوری سیاست میں بار بار فوجی مداخلت، تغلب یا آمریت کے فتنہ کا مستقل طور پر خاتمہ کرنا اشد ضروری ہے ۔ یعنی فوج کو سیاسی قیادت پر حاوی نہیں بلکہ ماتحت رہنا چاہئے ۔ 
جہاں تک انتہا پسندی یا دہشت گردی کا تعلق ہے ، اس فتنہ کا اصل سبب غربت، جہالت ، بیماری اور معاشی نا انصافی ہیں ۔ خود کش بمبار کے پاس اپنے جسم کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا جسے وہ رٹائے ہوئے غلط عقیدے کے مطابق بارود سے اڑا کر نہ صرف اس دنیا میں محرومیوں پر اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے بلکہ توقع رکھتا ہے کہ عاقبت میں اُسے معاوضے کے طور پر ہر طرح کی آسودگی ملے گی مگر مذہبی جنون میں سیاسی فرقہ وارانہ منافرت کی بنا پر کسی بد قسمت مخالف کی جان لینے کی کوشش میں جن کی جانتیں لیتا ہے ، وہ سب بھی اسی کی طرح پسماندگی اور بے کسی کا شکار ہوتے ہیں اور ان بیچاروں کے پاس بھی اپنے ، اپنے بیوی بچوں یا ماں باپ کے جسموں کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ پس خود کش دہشت گردی کو ریاستی جبر یا دہشت گردی سے دبایا نہیں جاسکتا۔ بلکہ اس کا خاتمہ تو جمہوری نظام کے استحکام اور صحیح قسم کی سیاسی قیادت کے ذریعہ معاشی ، تعلیمی اور طبی اصلاحات کے نفاذ ہی سے ہوسکتا ہے ۔ 
شیخ عبدالرشید: یہ محض خوش خیالی ہے یا ایسا ممکن بھی ہو گا .... ؟ 
جاوید اقبال : مذکورہ بالا دونوں فتنے ایسے ہیں جن کا خاتمہ اقبال کی مجوزہ ریاست پاکستا ن کو اپنی بقا کی خاطر کرنا ہے ۔ بہر حال تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مسلمانوں نے من حیث الملت بیرونی فتنوںکے علاوہ ایسے کئی اندرونی فتنوں کا مقابلہ کر کے ان کا قلع قمع کیا ۔ خلفائے راشدین میں سے تین کی شہادت، جنگ جمل ، جنگ صفین ، جنگ کربلا، فتنہ ہائے خوارج، اساسین ، قرامطہ و ملاحدہ سب قتل و غارت کے ذریعہ اسلامی تمدن کے ارتقاءکو روک نہ سکے ۔ اس لیے پاکستان بھی ایسے فتنوں پر بالآخر قابو پا لے گا ۔ 
شیخ عبدالرشید: اقبال مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر کیا روشنی ڈالتے ہیں ؟ 
جاوید اقبال: دیکھئے اقبال نے تین وجوہات بیان کی ہوئی ہیں زوال کی، اس پر بھی غور کرنا چاہئے ایک تو ملوکیت ہے وہ تو ختم ہو گئی ، یعنی آپ نے جمہوریت قبول کر لی بے شک دنیائے اسلام میں نہیں کی گئی ، دوسری اقبال کے نطقعہ نظر کے مطابق ’مُلائیت‘ ہے ۔ مُلائیت سے مراد ان کی یہ ہے کہ original thinking نہیں رہی ۔تقلید ہے اجتہاد کی کوئی صورت نہیں رہی یعنی حقیقی سوچ غائب ہو گئی ۔ تیسری وجہ پیری ’مریدی‘ ہے جو ابھی تک جاری ہے اور بڑی مضبوطی سے جاری ہے مثال کے طور پر ایک پیر نے بچے کو مار دیا تھا ہاتھ بازو توڑ کے اُس کو اسی کے بازو کے ساتھ مارتا رہا اور وہ بچہ مر گیا ۔ ہمارے پیر اس قسم کے ہیں۔ یہاں ہماری اپنی حالت اس قسم کی ہے اس کو تو ہم کنٹرول کرسکتے ہیں جدید فکرسے ، جدید تعلیم You have to control your population with latest methods۔ میں پچھلے دنوں نیشنل ڈیفنس کالج میں بیوروکریٹس کو ایک لیکچر دے رہا تھا ۔میں نے ان کو کہا کہ ہم جب بھی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی اصلاح ہو تو ہمارا طرز عمل کیا ہوتا ہے اب اسی ضمن میں میں نے ان کو زوال کی مختلف جہتیں بتائیں۔ ہم زوال کی ان کیفیات میں سے اب تک نکل نہیں سکے اور نہ ہی original thinking پیدا ہوئی، اور نہ ہی ملوکیت میں سے نکل پائے سیاست میں بھی ملوکیت آگئی ان کے بیٹے تیار ہونا شروع ہو گئے ہیں اب حمزہ شریف آگے آگیا ہے پھر بھٹو کا بلاول آجائے گا اور پھر پرویز الہیٰ کا بیٹا مونس الہیٰ آجاتا ہے یہ سب لوگ وہی ملوکیت والے آرہے ہیں اب جمہوریت میں ہی ایک طرح سے ملوکیت آرہی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم حقیقی جمہوریت سے بہت دور ہیں جس وقت یہ صورت آجائے کسی قوم کی توپھر وہ سارا تخیل جس کی بنیاد پر نظریاتی ملک وجود میں آیا وہ ختم ہو جائے گی ۔ ہم نے تو یہ سب کچھ خود آہستہ آہستہ ختم کر دیا اب سب کچھ رجعت پسندوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ 

شیخ عبدالرشید: جمہوریت سے علامہ کیا مراد لیتے تھے ؟ 
جاوید اقبال : مجھے ایک شخص نے سوال کیا فرنٹیئر کا تھا کہنے لگا ایک طرف علامہ صاحب کہتے ہیں جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے تو دوسری طرف وہ علی گڑھ کے طلباءکو کہہ رہے ہیں ’بتاﺅ جمہوریت کے علاوہ اور کیا متبادل ہے کسی ملک کو چلانے کا طلباءنے جواب دیا ملوکیت یا آمریت، تو کہنے لگے یہ دونوں چیزیں اسلام کے خلاف ہیںچنانچہ علامہ نے کم برائی کے طور پر جمہوریت کو اپنایا اور جو غلطیاں انہوں نے جمہوریت کے متعلق بتائیں وہ غلطیاں اپنی جگہ درست ہیں ۔ اپنے خطابات میںتو کہتے ہیں کہ اسلام کا پیغام ہی سلطانی جمہور ہے ۔ یہ تضادات نہیں ۔ ایسے ہی تضادات قرآن میں بھی نظر آتے ہیں مثلاً قرآن مجید میں دیکھتا ہوں قرآن مجید میں اگر ایک طرف اﷲ تعالیٰ کہتا ہے کہ بچوں کو قتل مت کرو، اﷲ ہی اِن بچوں کا رازق ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہتا ہے کہ بغیر کوشش کے تمہیں کچھ نہیں ملے گا جو بھی کرو گے اپنی کوشش سے کرو گے ۔ Then how do you resolve this kind of contradictionدونوں حقیقتیں اپنی جگہ پر درست ہیں ٹھیک ہے اﷲ تعالیٰ سب کا رازق ہے لیکن اﷲ تعالیٰ رزق اسی کو دیتا ہے جو اپنی کوشش سے لیتا ہے ۔ کوشش نہیں کرو گے تو نہیں ملے گا ، کچھ نہیں ملے گا تو مر جاﺅ یا پھر ضبط نفس کریں یا پھر فیملی پلاننگ کرو اچھا یہاں جو ہماری حالت ہے فیملی پلاننگ کا نام لیتے ہیں تو لوگ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں ملّاسے بات کرو تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو قرآن ہی کے خلاف ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے تو رزق پہلے دن سے ہی مقرر کر رکھا ہے۔ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں ۔ مائیں بچے بیچ رہی ہیں آپ اخبار تو دیکھیں جو حقائق ہیں یہ کس طرح سے صحیح ہے میں کس طرح اس کو قبول کر لوں میری عقل ہی قبول نہیں کرتی میں ایسے خدا کو قبول کرنے کو نہیں تیار جس کی آپ اس طرح تشریح و تفہیم کرتے ہیں یہ تو خدا نے نہیں کہا کہ وہ اس معنوں میں تو آپ کا رازق نہیں ہے اور اس طرح وہ باتیں کرتے ہیں پچھلے دنوں مجھے کسی اپنے بچے نے ویڈیو ٹیپ لا کر دکھائی اور اس میں کسی عالم صاحب نے بڑی تفصیل سے وہی نظم جو علامہ نے مجھ سے منسوب کر کے نوجوانوںکو ایڈریس کیا ہوا ہے ”جاوید کے نام“ ؒ µ µ
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے 
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر 

اس شعر کی تفسیر وہ عالم صاحب بیان کر رہے تھے وہ بتا رہے تھے کہ فقر کی کیا اہمیت ہے مجھ سے بچے نے سوال کیا کہ آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے اس تقریر کے متعلق؟ میں نے جواب دیا وہ آپ کو تلقین کر رہے ہیں اخلاقی طور پر فقر اختیار کرو مگر اس بات پر غور نہیں کررہے کہ پہلے آپ غربت اور افلاس کو دور کرو کیونکہ امام غزالی نے کہہ رکھا ہے کہ اگر پیٹ میں روٹی نہیں توایمان نہیں رہے گا “ یہ غزالی کے کہے پر دھیان نہیں کرتے بس بھوکے رہ کے اﷲ اﷲ کرو ۔ فقر کرو ۔وہ فقر کس طرح آئے گا جب تک بنیادی ضروریات ہی پوری نہ ہوں تفکر کیسے آئے گا ۔ ہمارے ہاں ابھی تک اجتہاد اور تقلید کی جدوجہدجاری ہے اب بات تو قتل و غارت تک پہنچ چکی ہے تقلیدی اسلام لینا ہے یا اجتہادی اسلام ؟ اقبال تو اجتہادی اسلام کے داعی تھے پاکستان کے سارے خالقین جو بھی بانیان پاکستان میںسر سید، شبلی، جمال الدین افغانی، محمد عبدہ، اقبال، جناح سب کے سب اجتہاد کے قائل ہیں ۔وقت کی ضرورت کے ساتھ اپنا آپ بدلو۔ اس کا کوئی تعلق سیکولر ازم سے نہیں ہے چونکہ سیکولر ازم تو آیا ہی اسی وجہ سے یورپ میں تھا کہ وہاں اجتہاد کی صلاحیت ہی نہیں ہے آپ کے ہاں ساری بحث ہی اس بات سے شروع ہوتی ہے کہ بائبل کے جو قوانین ہیں وہ بدلے نہیں جاسکتے وہ اٹل ہیں اور اگر ان کو بدلو گے تو وہ ایک طرح سے گندگی ہو گی غلاظت ہو گی پلیدگی ہو گی Profain کے معنی پلیدہ ہونا کے ہیں کہ خدا کے احکام بدلے نہیں جاسکتے ان پر اجتہاد نہیں ہو سکتا ۔ آپ کے ہاں معاملات اور عبادات ہیں تفریق ہے اور اقبال نے تو صاف کہا ہے ”ثبات فی التغیر“یعنی تغیر کو ہی ثبات حاصل ہےتو آپ کی عبادات ہیں آپ نمازوں کو چینج نہیں کرسکتے وہ تو پانچ ہی رہیں گی اسی طرح آپ روزوں میں تو کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے، زکوٰة کی ریشو تبدیل نہیں ہوسکتی، حج کے احکام میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی باقی جو آپ کے دنیاوی معاملات ہیں اس میں آپ وقت کے ساتھ اجتہاد کر سکتے ہو۔ 
شیخ عبدالرشید: آپ کے خیال میں امت مسلمہ میں اجتہاد کا دروازہ کیوں اور کب بند ہوا؟ 
جاوید اقبال: یہ دروازہ بند ہونے کی علامہ چند وجوہات بیان کرتے ہیں جس وقت منگولوں نے حملہ کیا بغداد پر اور بغداد کا خاتمہ ہو گیا ۔ یہ حملہ 1328ءکو ہوا جب انہوں نے ’محتسم باﷲ‘ کو گائے کی کھال میں لپیٹ کر ڈنڈوں کے ساتھ قتل کر دیا تھا محتسم باﷲ اس وقت عباسی خلیفہ تھے اس وقت سے علماءحضرات نے اجتہاد کے دروازے بند کر دیئے تھے بقول اقبال اس وقت تک کے 36سکولز آف لاءہو گئے تھے اسلام میں۔ اب ان 36 سکولز آف لاءمیں سے ایک تو امامیہ کورٹ رہ گئی ہے ، چار حنفی مالکی، شافعی، حنبلی، شیعہ سنی کی کورٹس رہ گئی ہیں لیکن جو متروک ہو گئے ہیں فقہ کے مدرسہ ہائے فکر ان کو بھی سٹڈی کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ اسماعیلی فرقے ہیں اور دوسرے جن کو بھول چکے ہیں ہم لوگ ان میں بعض ایسی عجیب و غریب باتیں ہیں جو کہ آج کے زمانے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں مثلاً اسماعیلیوں میں دوسری شادی قاضی کے حکم کے بغیر نہیں کر سکتے اگر آپ دوسری شادی کے طالب ہو تو You have to move the court of "Mukhia", he is not a Qazi in the strict scene but he is some thing to do with your religion. یہ ایک طرح سے آپکا دینی پیشوا ہے پھر آپ اپنے دینی پیشوا سے بیان کرتے ہو کہ آپ دوسری شادی کیوںکرنا چاہتے ہو ، یعنی اولاد نہیں، پہلی بیوی کو کیا مراعات دے رہے ہو ، اُس کی ایماءکیا ہے ؟ اس طرح کی چیزوں کو دیکھ کر وہ اجازت دیتا ہے اور مُکھیا انکار بھی کرسکتا ہے اور وہ دینی پیشوا پہلی بیوی کو بھی بلا کر پوچھتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی طرح اگر تیسری شادی کرنا چاہو یعنی دو موجود ہوں تو پھر اسی طرح آگے چلتا ہے اب ان میں ایک شادی کے بعد ہوتی نہیں ہے ۔ اب تیونس میں انہوں نے وہی جو آیات ہیں شوہر کے متعلق کہ جس میں تم چار شادیاں کر سکتے ہو اگر ان میں انصاف نہیں کر سکتے تو پھر بہتر ہے ایک ہی پر مطمئن رہو۔ اس آیت کو لے کے تیونس نے ایک شادی کا قانون بنا دیا، ترکی تو سیکولر ملک ہے ۔ ابھی چند پہلے ٹی وی پر ایک بحث ہو رہی تھی ایک عالم وہاں پر موجود تھے اور اسی پروگرام میں میری بیگم صاحبہ بھی چلی گئیں میں وہ پروگرام دیکھ رہا تھا اب بیگم صاحبہ چونکہ جج رہی ہیں ان کو اسلامی قانون کا پتہ ہے اس سے صرف یہی بحث ہو رہی تھی کہ مرد کو طلاق کا حق ہے اور وہ اس بات پر نہیں آ رہے تھے کہ عورت تنسیخ نکاح کراسکتی ہے اور زینب کی مثال دے نہیں رہے تھے اچھا پھر یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے کورٹس خاص کر جسٹس کیکاﺅس کی پہلی Judgementجو کہ Judge made law ہے ہمارے ہاں مسلم خواتین کا اس میں خلع کا تصور ہے ہی نہیں یہ جج کا بنایا ہوا قانون ہے کسی اسلامی ملک میں ہندوستان سمیت خلع کی بنیاد پر عورت طلاق نہیں لے سکتی یہ صرف پاکستان میں ہے یا بنگلہ دیش میں میری ایک Judgement آئی تھی خلع کی جو کہ جسٹس کیکاﺅس کی judgement کے بعد تھی میں نے اس میںیہ کہا تھا کہ جس وقت کوئی عورت خلع کے لیے move کرے تو جج کا صرف یہی فرض ہونا چاہئے کہ وہ یہ دیکھے کہ عورت یہ خود اپنی مرضی سے کہہ رہی ہے اسکے پیچھے اور تو کو ئی نہیں۔ جب تک اس کو یقین نہ ہو جائے کہ عورت اپنی مرضی سے کہہ رہی ہے اور اس کے ئیچھے کوئی اور نہیں تو لازم ہے کہ تنسیخ کرے نکاح کو اس طرح وہ تو سب کچھ سرنڈر کر دیتی ہے جو کچھ اس نے خاوند سے لیا ہوتا ہے ۔ جب میں چیف جسٹس تھا یہاں تو میں نے کہا تھا جب بھی خلع کا کوئی مقدمہ آئے اُس کا تین ماہ میں فیصلہ کر دیا جائے ۔ اگر خاوند نہیں پیش ہوتا تو بھی اس کی عدم موجودگی میں فیصلہ سنا دیا جائے۔ اب خلع کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کی تعداد ساٹھ ہزار ہو گئی ہے پہلے پانچ سال لگ جاتے تھے اور میں نے انہیں تجویزکیا تھا کہ اس کو طلاق کے برابر بنا دو۔ جو بھی عورت خلع لینا چاہے جہاں میرج کا رجسٹرار اُس کو خط لکھے کہ میں خلع کی بنیاد پہ اپنے خاوند سے طلاق لینا چاہتی ہوں ایک کاپی خاوند کو بھیجے اور ساتھ یہ کہے کہ میں نے جو کچھ اس سے لیا ہے وہ واپس دینے کو تیار ہوں وہ صلح کی کوشش کرے اگر نہیں ہوتی تو نوے دن کے اندر اندر تنسیخ نکاح کر دیا جائے مگر حکومت کو جرات نہیں ہوئی اس طرح کی قانون سازی کرنے کی ۔ 

شیخ عبدالرشید: آج ہم جس سماجی اور فکری بانجھ پن کا شکار ہیں کیا ان حالات میں اجتہاد کی اجازت ہونی چاہئے ....؟

جاوید اقبال: اجتہاد کی اجازت اقبال کے خیال میں تو پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور وہ قانون سازی سے اسکا تعلق ہے اب وہ بات نہیں ہو سکتی کہ ایک مفتی بیٹھ کر اجتہاد کر رہا ہے وہ ختم ہو گیا ہے 

شیخ عبدالرشید: ایسی پارلیمنٹ جیسے پاکستان کی ہے ،خواہ جعلی ووٹوں سے منتخب ہو کر آجائے اس کے پاس ہی اجتہاد کا اختیار رہنا چاہئے ؟ 
جاوید اقبال: اب لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ اجتہاد کیسے کریں گے ۔ ان کی تو ڈگریاں ہی ساری جعلی ہیں لیکن آجکل Apparently you see their is a concept in modern jurisprudence جس کو Ordinary common man کہتے ہیں یہ Ordinary common man جیوری Constitute کرتا ہے انگریز کے دور میں جو آپ کے بھی عدالتیں ہوتی تھیںوہاں دس سے پندہ افراد پر مشتمل ایک جیوری ہوتی تھی یہ قانون دان نہیں تھے They were ordinary common men اور کبھی بھی جو فیصلہ جج کر رہا ہے اس کے خلاف نہیں گئے یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ Common man اﷲ تعالیٰ نے اس کو اتنی سمجھ بوجھ دی ہے کہ اگر وہ حالات کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے تو وہ جان کے کہے گا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ انکی راہنمائی کیلے کچھ علماءبھی رکھ سکتے ہیں اور کچھ وکلاءجدیدعلوم سے واقف ہوں رکھ سکتے ہیںاقبال کا یہی تخیل ہے اقبال کے تصور کے مطابق مستقبل کے مجتہد وکیل ہوں گے وہ ان پرانے مجتہدوں کو نکال سکتے ہیں اب جو پرانا مجتہد ہے وہ ولایت فقیہہ ہے جیسے ایران ہے ایک تھیوکریٹک سٹیٹ اب قائداعظم نے واضح طور پر کہا ہوا ہے کہ پاکستان تھیوکریٹک سٹیٹ نہیں بنے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیشوائیت کا تخیل ہی کیتھولک ریاست کا ہے اسلامک سٹیٹ کیسے سیکولر ہو سکتی ہے اب آپ اگر سوچیں کونسی سٹیٹTheocratic state ہوسکتی ہے تو اس سلسلے میں آپ ’خطبات‘پڑھیں تو اقبال کے ہاں جو اجتہاد کا باب ہے اس میں فرماتے ہیں کہ نائبین امام کا جو تصور ہے اس وقت نائبین امام کا تھا اس وقت ایران میں انقلاب نہیں آیا تھا یہ مجتہدین کا ایک گروہ تھا رضا شاہ پہلوی کے زمانے میں جو امام غائب کے نائب کے طور پر ایک گروپ تھا ۔ وہ رضا شاہ پہلوی کو کہتے تھے تم جو مرضی قانون بنانا چاہتے ہو بنا لو لیکن ہم نائبین امام فیصلہ کریں گے کہ وہ اسلام کے مطابق ہے یا نہیں۔ اقبال اپنے اجتہاد والے باب میں اس تصور کو رد کرتے ہیں ۔ اب اقبال ایک سوال پوچھ رہے ہیں سید سلمان ندوی سے ان کے جو خطوط ہیں ان میں علامہ کا ایک خط ہے ’کہ مجھے بتائیے کہ جب مدینے میں قحط پڑا تو عمر نے غلے کی چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا ختم کر دی ۔ یہ طاقت حضرت عمرؓ نے کہاں سے حاصل کی تھی ؟اب عمرؓ نے قرآنی طور قانون کو م ¶خر کر دیا بطور سربرآہ ریاست اور اقبال یہ پوچھ رہے ہیں کہ یہ پاور اس کو کہاں سے ملی ؟ کس جگہ خدا نے کہا ہوا ہے کہ جس جگہ ایمرجنسی ہو تو تم میرا حکم Suspend کر ے و ایمرجنسی کے متعلق قانون ہے اضطرار میں تو حرام شے بھی حلال ہو جاتی ہے ۔کھانے پینے کے متعلق زندہ رہنے کے لیے یا زندہ رہنے کے لیے آپ مذہب کے متعلق کہتے ہو ۔ اضطرار وہاں نہیں آتا کہ جہاں خدا کا صریح حکم ہے اسی کو ہی کالعدم قرار دے دو یہ تو صرف اجتہاد کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے ۔ سید سلمان ندوی نے اقبال کو کیا جواب دیا یہ تو پتہ نہیں کیونکہ وہ کہیں محفوظ نہیں مگراس کا جواب اقبال اجتہاد کے ذریعے سے ہی دیتے ہیں کہ یہ عمرؓ کے اجتہادات ہیں اور جب یہ سزا یہاں نافذ کی گئی تھی یہاں تو منافقانہ طریقے سے نافذ کی گئی ہے آج تک کبھی دی بھی نہیں گئی اس سے بلکہ کرائم بڑھا ہے ۔ہمارے جسٹس کیکاﺅس نے ایک اخباری بیان جاری کیا تھا کہ ضیاءالحق کے خلاف کہ جب تک تو مجھے اور میرے ملک کے ہر فرد کو ضروریات زندگی فراہم نہیں کرتا تجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تو کسی کا ہاتھ قلم کرے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو حکومت مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ حل نہیں کر سکتی وہ میرا ہاتھ کیسے کاٹے گی ۔اگر میں چوری کرتا ہوں روٹی کی خاطر ہی چوری ہوتی ہے خواہ وہ ڈاکہ زنی ہو یا کچھ اور ہو۔ اب ہمارے معاشرے میں جو مسائل ہیں اقبال کے ہاں اشارے ملتے ہیں تو ہم نے اس پر غور نہیں کیا۔ 

شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب اس فکری اضطراب میں رہتے ہوئے کیا آپ دیکھ رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں اجتہاد کی لہر دوبارہ زندہ ہو پائے گی؟
جاوید اقبال: میں نہیں سمجھتا کہ یہ لہر دوبارہ زندہ ہو سکتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال نے چار چیزیں بتائیں ہیں جن کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی خودی مستحکم ہو سکتی ہے وہ مسلمان کی خودی مستحکم کر نے لیے چار چیزوں کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ان میں سب سے اول جو ہے جس کو وہ عشق کہتے ہیں اور دوسری فقر۔ تیسری چیز جرات اور چوتھی چیز آزادی ہے ۔ اس مسئلے پر جو اقبال نے یہ چار چیزیں بتائی ہیں کہ ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ۔ میرے رائے یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو علماءکا تصور ہے وہ عقل کو اس لیے ایمان کا دشمن سمجھتے ہیں کہ عقل ”لا الہ“ سے شروع ہوتی ہے وہ نہیں جانتی خدا ہے کہ نہیں ، یہ تو حجاب ہے ایک طرح کا۔ اگر کشف المحجوب پڑھیں تو داتا صاحب نے اپنی کتاب میں یہی لکھا ہے کہ سب سے بڑا حجاب خدا کو نہ ماننا ہے یعنی آپ عقل کے ذریعے شروع ہی اس بات سے کرتے ہو کہ خدا نہیں ہے مجھے ثبوت پہلے عقلی طور پر دو کہ خدا ہے یا نہیں تو عقل دشمن ہو گئی نا ایمان کی.... عشق کیوں دشمن ہے ایمان کی، چونکہ عشق تو اصرار کرتا ہے مجھے دکھاﺅ ،وہ دیدار دوست چاہتا ہے ۔ وہ تو کہتے ہیں خدا تو دیکھا ہی نہیں جاسکتا ۔قرآن مجید میں لکھا ہوا ہے کہ وہ پردے کے پیچھے سے بات کرتا ہے یا وحی سے بات کرتا ہے وہ تو نظر ہی نہیں آتا وہ تو رسول اﷲ نے بھی نہیں دیکھا اچھا پھر تیسری چیز تجربے کو بھی اسی لیے برا کہتے ہیں کہ تجربے سے جو سائنسز یا ٹیکنالوجی انسان حاصل کرتا ہے وہ ان چیزوں کو استعمال کرے جو حیوان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہاتھوں کو استعمال کرتا ہے جو تجربی علوم ہیں وہ بھی کفرانہ علوم ہیں ۔ اس کا مطلب ہوائی جہازمت بناﺅ۔ لاﺅڈ سپیکر مت بناﺅ جب اہلیت ہی نہیں تو کہہ دیا کہ یہ سب شیطانی کام ہیں ۔ میری ایک عالم کے ساتھ بحث ہو رہی تھی وہ کہنے لگے کہ یہ آپ کی باتیں تو ٹھیک ہیں ۔عشق بھی ٹھیک ہے ، فقر بھی ٹھیک ہے جرات بھی ٹھیک ہے لیکن یہ آزادی کا تصور تو اسلام میں ہے ہی نہیں ۔ہم یا تو شیطان کے غلام ہیں یا خدا کے غلام ہیں اب وہ کہتے ہیں کہ آزادی کا تصور ہی مغربی ہے مسلمان کے ہاں آزادی کا تصور ہی نہیں ہے ۔ اقبال کے ہاں جو خودی کو کمز ور اور فنا کرتی ہیں وہ قدریں ان کے برعکس ہیں ۔ عشق کی کیا برعکس قدر ہے وہ نفرت ہے اور نفرت ہم میں ہے ہم ایک دوسرے کو برداشت ہی نہیں کرتے ۔جو کچھ شیعہ کے ساتھ کرتے ہیں یا کچھ بھی ہم غیر مسلموں کے ساتھ کرتے ہیں ۔ عشق نہیں ہے تو نفرت ہے وہ بھی تو خدا کے بندے ہیں اقبال نے کیوں کہا ہے 

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمان 
نہ ہو تو مرد مسلمان بھی کافر و زندیق 

اچھا اب فقر کا برعکس کیا ہے امیر ہونا امارت ، اب جرات کے برعکس کیا ہے خوف اور آزادی کا ہے فقیری ، ہاتھ پھیلانا افلاس، اب اقبال نے جو چاروں چیزیں بتائی ہیں ان سب کا متضادہم ہیں ۔نفرت کا اگر جذبہ ہے تو اس میں ہم سب سے آگے ہیں خواہ وہ صوبائی ہو خواہ وہ علاقائی ہو خواہ وہ مذہبی ہو اور دوسری چیز جو جرات کے برعکس ہے ۔خوف، اب دیکھیں کوئی بھی یہ بات نہیں کر رہا ہے کہ اس ملک کا جو قانون ہے یہ اس قانون کے تحت اگر آپ نے تحقیر رسول کی سزا مقرر کی ہوئی ہے تو جو اس کا باعث بنتا ہے اگر تم سمجھے ہو کہ گورنر نے تحقیر رسالت کی ہے تو اسکے خلاف دعوی کرو عدالت میں جاﺅ ، قانون ہاتھ میں لے کر قتل کرنا کہاں کا انصاف ہے نہیں تو قانون نہیں بنانا تھا اگر خودی اس قسم کے لوگوں کو قتل کرنا ہے تو پھر قانون کیوں بنایا یا پھر اس طرح کے قانون کو ختم کرو قانون کی ضرورت ہی نہیں ۔ مسلمان خود ہی ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں اور کرتے جارہے ہیں پھر قانون کیوں بنایا ہے کوئی یہ سوال ہی نہیں اٹھا رہا بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ وکلاءحضرات اس کے ڈیفنس کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں اور آگے دفتر کے دفتر باندھ رہے ہیں مجھے کسی نے پوچھا کہ آپ اس پر Comment کرو میں نے کہا میں تو نہیں کرتا مجھے اپنی جان عزیز ہے میں پاکستانی ہوںاور زندہ رہنا چاہتا ہوںمیں اس قسم کی جرات نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے تو بہت ڈر ہے میں تو اپنے آپ کو سب سے پہلے مقدم سمجھتا ہو یہ میرا جواب TV Channels کو تھا کہ جی علامہ صاحب گئے تھے علم دین کی طرف ، میں نے کہا وہ اور وجہ تھی اس کی وجہ سے تو پاکستان بنا، وہ تو پاکستان بنانے کے لیے تھے کیونکہ اس وقت ہندو مسلم کے درمیان تناقص تھا اس کو نمایاں کرنا تھا اور جو دلچسپ بات ہے وہ قائداعظم کے دلائل ہیں ۔قائداعظم کی دلیل یہ نہیں تھی کہ اس نے توہین رسالت نہیں کی بلکہ ان کا نکتہ یہ تھا کہ توہین رسالت اتنا Personal Provocation ہے کہ اس Provocation کے تحت Lessor Penalty ہونی چاہئے ایک تو یہ بات نقص کی تھی اور دوسرا یہ بات اس لیے نہ چل سکی کہ قائد نے جو نکتہ نکالا تھا وہ یہ تھا کہ علم دین تھا اس نے پہلے جو Trial court تھا اسکے سامنے کہا تھا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ کس نے مارا ہے He denied the charge کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ یہ کس کا چاقو ہے شاید اس کے وکیل نے کہا ہو گا کہ Deny کر دو تو اس وقت دو جج بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ یہ پہلے کیوں نہیں بولے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں جو جسٹس شریف صاحب گئے ہیں ہمارے Former Chief Justice اور انکے ساتھ آفتاب فرخ یہ سارے اسی لیے گئے ہیں کہ وہ یہ نکتہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ Provocation ہے اس کو Lessor Penalty کریں اور Court اس کو Terrorism کے تحت Try نہ کریں 


شیخ عبدالرشید: مسلمانوں کے ہاں اجتہاد نہیں رہا۔ اس رجعت پسندی اور جمودی فکر کے سائے میں جو اجتہاد کی راہ پر چلتے ہوئے مسلمان نظر نہیں آتے کیا ۔آپ سمجھتے ہیں کیا کسی مسلم معاشرے میں جمہوریت پنپنے کا امکان ہے یا نہیں ؟ 
جاوید اقبال: فی الحال تو اسکے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے جمہوریت جہاں چل رہی ہے وہاں مسلمان اکثریت میں ہیںجمہوریت اگر کسی مسلم معاشرے میں ہے تو وہ ایسے معاشرے ہیں جن میں جمہوریت کامیابی سے چل رہی ہے یا مکسڈ معاشرے میں مثلاً ساﺅتھ ایسٹ ایشیا میں ، انڈونیشیا وہاں پر انہوں نے نکاح ہی کو تصور کیا گیا ہے اگر مسلمان عورت بھی کسی غیر مسلم سے شادی کرے تو وہ بھی نکاح ہی تصور ہو گا یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کے لیے دوسرے کا مسلمان ہونا ضروری نہیں یعنی عجیب و غریب قسم کی ریفارمز انہوں نے کی ہیں چونکہ اس میں ان کا معاشرہ اسی قسم کا ہے کیونکہ ان میں غیر مسلم کافی تعداد میں ہیں ایک تو انڈونیشیا ہے اور دوسرا ملائشیا جہاں پر جمہوریت کامیابی سے چل رہی ہے باقی اور کسی جگہ پر جمہوریت چل رہی ہے تو وہ ہے ترکی اب خاص طور پر جس طرح انہوں نے فوج کو ایک طرح سے شکست دی ہے ۔میں بوسنیا بھی گیا تھا ان دونوں ملکوں نے سیکولر ازم قبول کیا ہوا ہے اور دونوں مسلمان ملک ہیں بوسنیا کو انہوں نے یورپین یونین میں شامل نہیں کیا صرف اس وجہ سے کہ ’سکوزی‘ نے جو فرانس کا صدر ہے اس نے کہا تھا کہ European Union is a Christian Club, Only Christian can become members۔ تو آپ دیکھ لیں سیکولرازم کا آپ نے جو ترجمہ کیا ہوا ہے لادینیت یہ غلط ہے ۔ اب رہ گیا ترکی ، یہ سیکولر سٹیٹ ہے بوسنیا بھی ویسے تو سیکولر سٹیٹ ہے وہاں پر ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا وہاں کا جو شیخ الاسلام ہے وہ فضل الرحمان کا طالب علم تھا اور وہ اقبال کا بڑا حامی تھا ، مجھے کہنے لگا کہ آپ تین مہینے کے لیے آ کہ یہیں لیکچرز دیں سراج یونیورسٹی میں ، میں نے ان سے کہا کہ میں تین ماہ تو ملک سے باہر رہنا پسند نہیں کرتا۔ وہ مجھے گلے کے طور پر کہنے لگا کہ تین ادارے یہاں آئے ہیں ہمیں مسلمان کرنے کیلئے میں نے پوچھا کہ وہ کون سے ہیں تو جواب ملا کہ ایک سعودی عریبیہ ، ایک احمدی اور تیسری جماعت اسلامی، یہ ہمیں مسلمان کرنے آئے ہیں میں نے پوچھا آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو انہوں نے بڑے تلخ جواب تینوں کے بارے میںتینوں کو شیخ الاسلام نے ردکیا ان کی کیا حیثیت ہے یہ ہمیں اسلام سکھانے آئے ہیں اور ہم نے یورپ کی سرزمین میں اسلام کا جھنڈا گاڑا تھا ان کو تو اتنی بھی توفیق نہیں 

شیخ عبدالرشید: اگر اجتہاد نہیں ہو رہا یا نہیں ہونے کا امکان ، جمہوریت پنپ نہیں سکتی مسلمان پچھے 1500 سال سے کوئی اسلامی نظام قائم کرنے میں ناکام رہے تو ایسی صورتحال میں مسلمانوں کا آگے مقدر کیا ہو گا ؟ 

جاوید اقبال: میں تو ایک طرح سے بہت مایوس آدمی ہوں میں علامہ صاحب کی طرح رجائی نہیں ہوں چونکہ ان کے سامنے تو ایک مردہ قوم تھی انہوں نے اپنی طرف سے جگانے کی کوشش کی ہے خودی کا فلسفہ پیش کیا جس کو آپ تسلیم ہی نہیں کرتے جس کو پنجابی میں کہتے ہیں نا ”ڈھڈوں مننا“ وہ نہیں کرتے ہم، خودی کاتصور آپ نے قبول نہیں کیا ۔ہم تو خودی مارنے کے قائل ہیں اور ہمیشہ مارتے رہے ہیں ہم تو صوفیاءکی وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں ورنہ تو ہندو رہتے ہمیں علماءنے مسلمان نہیں کیا تبلیغ سے مسلمان نہیں ہوئے ہم تو محبت سے ہوئے ہیں جو مظاہرہ ہمارے سامنے صوفیاءنے کیا انکی محبت نے زیر کیا ہمیں ورنہ میرے والدین بزرگ تو برہمن تھے ہم کیسے مسلمان ہو پائے دوسری صورت جو ہے جس کی وجہ سے فیوچر نظر نہیں آرہا مجھے بار بار ایسے ہی خیال آتا ہے سوتے وقت جب نیند نہیں آتی اور ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ہم معتوب ہو چکے ہیں اﷲ کی نگاہ میں ۔ یہ جس طرح کے طوفان، وبائیں، زلزلے آرہے ہیں آپ قرآن مجید دیکھیں تو اسی طرح کے پرانی اقوام کا ذکر ہے جو ختم ہو گئیں اور برباد کر دی گئیں اسی طرح ہمارا حشر تو نہیں ہو رہا ۔ یہ نہیں ہے کہ ہم خدا کے احکام کی پیروی نہیں کر رہے اس سے منحرف بھی نہیں ہو رہے حقیقت یہ ہے کہ ان کی پیروی جس طرح کی جانی چاہئے وہ نہیں ہو رہی اور وہ اجتہاد ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم پر عتاب الہی نازل ہو رہا ہے وہ یہی ہے کہ ہم اس طرف نہیںآ رہے ہم پیچھے رہنے والی قوموں کی طرح رہ گئے ہیںعلامہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ ایک ایسی کتاب ہے جو بہت کم سمجھی گئی ہے اس کے آخر میںخدا کے حضور جو گستاخی کرتے ہیں وہاں پر جو ان کی گستاخانہ گفتگو ہے اس میں خدا ان سے مخاطب ہو کے کہتا ہے کہ ہماری نگاہ میں جو مسلمان Creative نہیں ہے یعنی خلّاق نہیں اس نے ہمارے جمال میں سے حصہ نہیں لیا وہ کافر ہے اور زندیق ہے یہ خدا کہہ رہا ہے اقبال کو .... اب خدا کا جمال اور اس میں حصہ لینا Is to be a creative اور جو علامہ صاحب کا اصرار ہے اور پھر علامہ صاحب آخری سوال کرتے ہیں مجھے بتاﺅ آگے مستقبل کیا ہے اسلام کا اور مسلمانوں کا .... اس پر خدا ناراض ہو جاتا ہے اور ان کو کہتا ہے کہ تیری وجہ سے یہ مہ خانہ جو ہے ذلیل ہو گیا ہے تمہیں ڈھنگ ہی نہیں شراب پینے کاچلے جاﺅ یہاں سے .... اﷲ نے کوئی جواب نہیں دیا کہ مستقبل کیا ہو گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل تو خود بناﺅ گے ۔ وہ خدا نہیں بنائے گا۔ اقبال کا جو تصور تقدیر ہے اس میں وہ کہتے ہیں کہ خدا کی مشیت ہی نہیں یہ جاننے کی کہ آگے کیا کرنا ہے اس کو یہ پتہ ہے کہ تمہارے سامنے کتنے رستے کھلے ہیںوہ یہ سب جانتا ہے لیکن وہ کونسا رستہ ہے جو تم نے چننا ہے یہ اسکی اپنی مشیت نہیں جاننے کی۔ سزا و جزا کا مسئلہ ہی ختم ہو جاتا ہے یہ ساری باتیں نوجوانوں کو بتانے کی ہیں اور یہی لکھنے لکھانے کی باتیں ہیں یہی لیکچرز کی باتیں ہیں اور یہی ہم نہیں کر رہے۔ 

شیخ عبدالرشید: کلونیل ہندوستان میں علامہ نے مسئلے کا حل ایک مسلم ریاست کی صورت میں پیش کیا ہندوستان کے اندر مسلم ریاست ،کیا مسلمانان ہند کے سیاسی مسائل کا کُلّی حل تھی ....؟ 

جاوید اقبال: دیکھئے جہاں تک خطبہ الہ آباد کا تعلق ہے آپ اس بات پر بھی غور کریں کہ پاکستان کس نے بنایا میں کہتا ہوں یہ ہندو ¶ں نے بنایا ہے یہ ہم نے بنایا ہی نہیں ۔ہم اس قابل ہی نہیں میرا استدلال یہ ہے کہ اس طرح ہندو ¶ں نے بنایا جہاں تک الہ آباد کا خطبہ ہے اس میں تو علیحدگی کا تصور ہی نہیں ہے۔ آپ آلہٰ آباد کا خطبہ ایک طرف رکھیں اور کیبنٹ مشن پلان جو جناح نے قبول کیا تھا اس کو سامنے رکھیں وہ بالکل یہی ہے یعنی ہندوستانی یونین کے اندر کامل خود مختاری یہ تصور تھا جو جناح نے قبول کیا اور نہرو نے رد کیا ۔اب ہندو خود مان رہے ہیں آپ جسونت سنگھ کی کتاب پڑھیں، مولانا ابو کلام آزاد کی کتابIndia Wins Freedom کا وہ حصہ پڑھیںجو انہوں نے کہا تھا کہ میری موت کے بعد شائع کیا جائے وہ سارے اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں یہ ضروری نہیں تھا اب کینیڈامیں مونٹریال کے ایریا میں Qubec کا علاقہ ہے جسے French Canada کہتے ہیں وہ اسکی خود مختاری قبول کرنے کو تیار ہیں یہ ایک طرح کی کنفیڈریشن کا تصور ہے آپ ایسی کنفیڈریشن کی طرز پر بھی سوچ سکتے ہو یونین رکھ سکتے ہو میری تو یہ تجویز ہے میرا کوئی سیاست سے تعلق نہیں ہے لیکن میری ایک فکری تجویز ہے کہ ہمیں دنیائے اسلام کو چھوڑنا چاہئے ہمارے ساتھ کہیں بھی ان کی مطابقت نہیں ہے ۔اگر انڈیا کشمیر کو وہ status دینے کو تیار نہیں جو اس وقت نیپال کا ہے یا بھوٹان کا ہے تو ہم اپنا حصہ اس کشمیر میں شامل کر دیں اور کشمیر کو خود مختار ریاست بننے دیںاسی طرح کی خود مختاری ہو جیسے نیپال ، بھوٹان ۔پھر پاکستان ، انڈیا، سری لنکا اور تمام لوگ جمع ہو کے Union کیوں نہیں بنا سکتے اور چائنہ اور رشیا اس کے ضامن ہوں انڈیا کو ویسٹ تیار کر رہا ہے چائنہ سے لڑانے کے لیے تاکہ ان کے بندے مارے جائیں اور انڈیا سے روس کے بھی فاصلے ہوتے جا رہے ہیں اسی بنا پر کیونکہ یہاں امریکہ سرمایہ کاری انویسٹ کر رہا ہے ۔آپ لوگوں کو تو اس لیے ساتھ رکھا ہوا ہے کیونکہ آپ کی سٹریٹجک اہمیت ہے ۔ آپ چائنہ کے بہت قریب ہیں ۔ جب چائنہ سے کوئی بات چیت کرنی ہوتی ہے تو وہ آپ کو استعمال کر سکتے ہیں آپ کا رستہ استعمال کر سکتے ہیں آپ کو اس لیےاعتماد میں رکھا ہوا ہے فرض کیجئے یہ یونین وجود میں آجاتی ہے تو پھر ہم مغرب پر انحصار نہیں کریں گے۔ ویسے بھی اب آپ کے ایچیسن کالج میں چائنیز سیکھنا ضروری ہو گیا ہے یہی چیزیں آپ چائنہ سے سیکھ سکتے ہو، یہی چیزیں آپ جاپان سے سیکھ سکتے ہو اگر مغربآپ کو نہیں قبول کرتا تو نہ سہی مگر میں سمجھتا ہوں ہم اپنا تعلق مغرب سے قائم رکھتے ہوئے بھی سیاسی طور پر یہ یونین اپنی اغراض کی خاطر بنا سکتے ہیں اور میرے خیال میں یہ ایک مثبت قدم ہو گا ۔ اس میں صرف انڈیا ایک بڑی ریاست ہے اور یہ ایک Unusual position ہے ۔ 
سو آپ نے ایک جدید ویسٹرن تصور کو اسلامائز کر دیا ہے یعنی نیشنل ازم کے ختنے کر کے پاکستان بنا لیا ہے اب نیشنل ازم کی اسلامائزیشن ہو گئی اور اس کی بنیاد پر آپ نے ایک قوم وجود میں لا دی اور قوم وطن سے پہلے وجود میں آگئی قائداعظم کے الفاظ ہیں Nation do not exist in the air پاکستان تو اس وجہ سے بنا ہے اور اس میں بھی جن مراحل سے یہ گذرا ہے مثلاً یہ جو الہ آباد والی سٹیج ہے خطبے کی جیسا کہ دونوں کے ایک فوج کا تصور ....
جناح پر سب سے زیادہ مسلم لیگ کونسل میں اعتراض کرنے والے ایک شاعر تھے جنہیں ایم کیو ایم والے کہتے ہیں کہ حسرت موہانی ہمارے قومی شاعر ہیں ۔ حسرت موہانی نے قائداعظم کو مذاق کے طور پر اور طعنے کے طور پر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ We are committed for Pakistan as a separate state اور تم ہمیں کہہ رہے ہو کہ ہم یہ کیبنٹ مشن پلان قبول کر لیں گے قائداعظم نے یہ جواب دیا تھا you are gainer in this way because you are getting full Punjab and bangal ۔ لیکن اس وقت بھی اعتراض کرنے والے مسلمان ہی تھے جنہوں نے مسلم لیگ کونسل میں اعتراض کیاIt was overruled کیونکہ قائداعظم کہتے ہیں اس کو قبول کر لو اس میں فائدہ ہے ۔ اب جسونت لکھ رہا ہے کہ ہم اگر اس وقت مان لیتے تو ہندوستان میں ضرورت ہی نہ ہوتی پاکستان بنانے کی۔ اور میرے جیسے لوگ کہہ رہے ہیں کہ نہیں جی یہ تو آپ نے بنایا ہے پچھلے دنوںانڈیا سے ایک ٹی وی چینل والے میرا انٹرویو کرنے آئے ہوئے تھے میں نے ان کو بتایا کہ جی پاکستان تو آپ لوگ وں نے بنایا ہے پنڈت نہرو نے بنایا ہے ہم تو آپ کے ساتھ بغل گیر ہونا چاہتے تھے کہنے لگے اب کیا دیر ہے میں نے بتایا آپ سوچو تو سہی دیر اب بھی کوئی نہیں ہے ۔ میں نے اُن کو بتایا کہ مسئلہ ہمارا اب بھی کشمیر ہی ہے اب بھی دیر نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ یورپین یونین تو ہم اب بھی بنا سکتے ہیں میں اب بھی کہتا ہوں کہ جو علامہ اقبال کا خواب تھا وہ پورا نہیں ہوا یہ نہیں کہ وہ میرے خواب میں آتے ہیں میں تو خود سمجھتا ہوں میرا زندگی میں کوئی جواز نہیں ہے ایک جگہ پر انہوں نے کہیں لکھ رکھا ہے اس میں ایک جگہ انہوں نے لکھا کہ ایک دم دار ستارہ طلوع ہوا تو اس میں یہ کلیم کر رہے ہیں کہ یہ ستارہ دیکھ کر مجھے احساس ہوااپنی کمتری کا کہ میری کیا حیثیت ہے حالانکہ خودی کے پیامبر ہیں مجھے اسکو دیکھ کر احساس ہوا کہ خدا نے یہ کیا چیز بنائی ہوئی ہے اور یہ کائنات میں اس طرح پھر رہی ہے اور کہتے ہیں کہ یہ دوبارہ 183 سالوں کے بعد نظر آئے گا ۔ اور لکھتے ہیں کہ شاید یہ میں اپنے بیٹے یا پوتے کی آنکھوں سے دیکھ سکوں میں اپنی طرز پر سوچ رہا ہوں کہ میری زندگی میں جس طرح کے حالات ہیں ہمارا جواز کوئی نہیں ہے زندہ رہنے کا شاید علامہ میری آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں ۔ 

شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب آپ علامہ کی نظر سے دیکھ رہے ہوں پاکستان کو تو وہ پاکستان خواہ اسلام کی بنیاد پر بنا ، کمیونل مسائل کی وجہ سے بنا یا معاشی بحران کے سبب جیسے بھی بنا مگر کیا تقسیم کے مسلمانوں کو کوئی ثمرات بھی ملے .... ؟ 

جاوید اقبال: ثمرات تو یقیناملے یہاں تو لوگ کہتے ہیں کہ ہندو چلا گیا مگر ہمارا ایمان لے گیا یہ تو اب جتنے بھی جعلی قسم کے کلیم آپ کے ہاں ہوئے تقسیم کے وقت اور جتنے بھی مسلمان جو باہر سے آئے تھے انہوں نے مبالغے سے جو کچھ بھی لیا وہ تو ضرورت تھی میں سمجھتا ہوں کہ ہم میں بہت سی غلاظتیں ہیں جن میں ہم ملوث ہیں ان سب چیزوں کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم ابھی زوال کی کیفیت سے باہر نہیں نکلے وہی جو علامہ نے کہا تھا کہ کسی نہ کسی شکل میں ملوکیت رہے گی کسی نہ کسی شکل میں یہاں پر جو بھی نظام سرمایہ دار ، جاگیر دار کے ہاتھوں میں رہے گا انہیں ہمیشہ مُلا کی سپورٹ رہے گی چونکہ قدماءکے نزدیک اسلام کا کوئی سوشل آرڈر نہیں سوائے فقر کے ۔ یعنی ذرائع آمدنی ریاست کی مضبوطی کے لیے آپ مجھے یہ بتائیے اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز جو خلیفہ تھے ان کو کیوں قتل کروایا کیوں زہر دلوایا وہ کہتے ہیں تھے جزیہ نہ لو ان کو مسلمان کرو اور ان لوگوں نے کہا کہ جزیہ تو سٹیٹ کی ایک آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے ۔اگر آپ کی زمین ہے تو عُشر لیتی تھی اور غیر مسلمانوں سے پر ہیڈ جزیہ لیتی تھی جو کہ اصلی آمدنی کا ذریعہ تھا اور اس کے علاوہ خراج لیتی تھی۔ اور تیسری چیز غنیمہ۔ 
شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب اسی طرح دو طرفہ رائے ایک اور بھی ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قائداعظم سیکولر معاشرت کے علمبردار تھے اور حضرت علامہ کا مسلم نشاط ثانیہ سے تعلق ہے ....؟ 
جاوید اقبال: یہ بالکل درست ہے میں نہیں سمجھتا کہ قائداعظم سیکولرازم کے مخالف تھے یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم کی اپنی زندگی سیکولر تھی اور دوسری بات یہ ہے کہ قائداعظم کو اگر یقین تھا تو صرف جمہوریت پر ۔ اگر جمہوریت کے تحت کوئی ایسا قانون بناتے ہیں جو کہ آپ کی نگاہ میں اسلامی ہو وہ آپ لے آئیںImplement کر لیں ۔ ریاست کے سوال کا قائد نے ہمیشہ جواب گھما پھرا کر دیا ہے ۔ clear جواب کبھی نہیں دیا باقی جہاں تک ان کا یہ کہنا ہے کہ In modern state, their is nothing to do with the state قائد کی جو گیارہ اگست والی تقریر میںقائد نے بیان کیا ہے یہ بنیادیں ہیں یہ کس طرح سے میثاق مدینہ کے خلاف ہے ۔ میثاق مدینہ میں یہ کیسے کہہ دیا رسول اﷲ نے ”امت الواحدہ“ اس میں یہودی بھی تھے عیسائی بھی تھے کافر بھی تھے اور مسلمان بھی تھے یہ سب لوگ امت واحدہ کس طرح ہو گئے ۔ اب صلح حدیبیہ کو دیکھیں اس میں وہ کہہ رہے تھے کہ آپ محمد رسول اﷲ کی بجائے محمد بن عبداﷲ لکھیں۔ رسول اﷲ نے حضرت علیؓ سے کہا لکھو محمد بن عبداﷲ اور پھر ہاتھ پکڑ کرمحمد بن عبداﷲ لکھوایا۔ آپ نے دیکھا جب بھی ہمارے مفاد میں ہوا ہم سیکولر ہو گئے ۔اب اگر فرض کیجئے یہاں امام بارگاہوں پر حملے شروع ہو جائیںچونکہ سنّی اکثریت میں ہیں تو کیا ہم سُنّیوں کے ساتھ مل کر شیعہ کو مارنا شروع کر دیں آپ سُنّیوں کو روکیں گے کہ ایسا مت کرو یہی سیکولر ازم ہے ۔ اسی طرح آپ اگر غیر مسلمانوں کی عبادات کو توڑیں گے تو ریاست تو روکے گی ۔ آپ کوریاست تو مل ہی نہیں سکتی سیکولرازم کے بغیر 

شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب ایک اور تصور ہے کہ گلوبلائزیشن کے تصور میں عالمگیریت کے تصور سے ریاستیں اور نظریات تحلیل ہونا شروع ہو گئے ہیں اگر ایسا مان لیا جائے تو علامہ کی ریاست اپنی جڑیں پکڑنے سے پہلے ہی اسکا شکار ہو گئی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال کا تصور ریاست عہد حاضر سے غیر متعلق ہے ؟ 

جاوید اقبال: تصور تو صرف تصور ہی ہوتا ہے اس کا تعلق تومواقع پر منحصر ہوتا ہے اور قوموں پر انحصار کرتا ہے کہ خود کو وجود میں لایا جاسکتا ہے یا نہیں جہاں تک اقبال اور جمال الدین افغانی کی سوچوں کا فرق ہے وہ ذہن میں رکھنا چاہئے وہ فرق بڑا واضح ہے جمال الدین افغانی ترک خلافت کو آئینی بنانا چاہتے تھے جس پر وہاں شیخ الاسلام نے اعتراض کیا کہ آپ خلیفہ کی پاور کو آئینی بنا کر محدود نہیں کر سکتے چونکہ وہ تو اولوالامر ہے اس کی اطاعت سارے مسلمانوں پر فرض ہے ۔ شیخ الاسلام کا فتویٰ یہ تھا کہ خلافت آئینی نہیں ہوسکتی ۔اور یہ وجہ تھی کہ آخر میں جمال الدین افغانی کوزہر دے کر مار دیا گیا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت کی تنسیخ ہو گئی ترکی سیکولر ہو گیا اب اقبال کا جو تصور اتحاد امت مسلمہ ہے جسے وہ خطبات میں بیان کرتے ہیںوہ جوفیڈریشن آف مسلم سٹیٹ ہے جس طرح یورپین یونین۔ کہ سارے آزاد مسلم ممالک جو ہیں جس کی شکل OIC کی ہے اقبال مسلمان اقوام کے اتحاد کا جدید تصور پیش کرتے ہیں دوسرا تصور وہ جو بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں اس طرح نہیں وہ یہ ہو کہ بعض مسلمان ریاستیں آپس میں اکٹھی ہو جائیں۔ مثلاً ایران، پاکستان، ترکی ، افغانستان یہ چار ریاستیںامریکہ نے ایک دفعہ اکٹھی کرائیں بھی تھیں اس وقت افغانستان شاید اس میں نہیں تھا اس طرح کا خیال تھا کہ پہلے اس طرح ہو کر آہستہ آہستہ دیگر اسلامی ممالک اس میں شامل ہونے چاہئیں اقبال کا جو تصور اسلامی ریاست کے اجتماع کا ہے اس کے لیے بھی سب سے پہلی ضرورت ہے کہ وہ مضبوط و مستحکم ہوںنیشن سٹیٹ جو اسلام کا مذہب رکھتے ہیں وہ آپس میں اکٹھی ہیں اور پھر فرماتے ہیں کہ اگر اسلامک سٹیٹ ایک دوسرے کے خلاف لڑنا شروع کر دیں جیسا کہ ایران اور عراق پھر اس یونین کو ختم کر کے اسلام کی بجائے کمیونزم کی جانب چلے جانا چاہئے۔ اب نہ تو کمیونزم ہے اور نہ ہی ایران اور عراق والی صورتحال ہے اب کی جو صورت ہے تو اس میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں ریاستوں کی یونین ممکن نہیں اور OIC جیسا اتحاد مصنوعی ہے اسی بنا پر میرا اپنا خیال یہ ہے کہ I would have to proceed further کہ OIC کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق ہے بھی تو وہ بہت Nominal۔ Because it is only effective so far as the United Nations concerned وگرنہ تو It is not important ٹھیک ہے انفرادی طور سعودی عریبیہ امداد کرتا ہے ہماری گلف سٹیٹس کرتی ہیں اور دیگر سٹیٹس بھی ہیں جو امداد کرتی ہیں البانیہ ایک مسلم سٹیٹ ہے But it is secular State بلکہ اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتے ہیں And they are collaborating with your ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی سٹیٹس کے ساتھ ہمارے بڑے اچھے روابط ہیں مثلاً ایران ہے ترکی کے ساتھ ہے بلکہ ہماری کوشش تو یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ بھی ، حالانکہ افغانستان ایک واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا United Nations میں ۔ اب اس اعتبار سے تو میں سمجھتا ہوں کہ فی الحال اقبال کے اس تخیل کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہے ہم تو اپنی یونین قائم نہیں کرسکے ابھی تک۔ 

شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب اس بات پر عمومی طور پر اتفاق ہے کہ اقبال کی فکر نے لوگوں کو بہت انسپائر کیا لیکن کیا ان کی سیاسی عملیت کا معیار بھی قائم ہوا....؟ 
جاوید اقبال: نہیں کچھ نہیں ہوا میں تو سمجھتا ہوں کہ اب تو انکی کوئی Relativity ہی نہیں ہے ان کی اپنی Importance ہی نہیں ہے اب وہ عُرس منا لیتے ہیں اسی طرح اقبال کا اور جناح کا بھی عرس منا لیتے ہیں ۔ 

شیخ عبدالرشید: اس وقت ہم قومی سطح پر جن سیاسی ، سماجی ، علمی اور فکری مسائل کے بحران کا ہم اجتماعی طور پر شکار ہیں کیا فکر اقبال میں کوئی حل بھی تجویز ہوا .... ؟ 

جاوید اقبال: فکر اقبال میں تو کئی حل ہیںسب سے پہلے تو یہ جو ویلفیئر سٹیٹ کا جو concept ہے اس پر ہم عمل کیوں نہیں کرتے اس پر ہم اکٹھے ہو کر کیوں بحث نہیں کرتے یا کیوں کچھ نہیں لکھا جاتا اس تصور پر ۔ سارے اقبال کے پرانے وہی تصورات جن پر بہت بحث ہو چکی آج کے جو مسائل ہیں ان کا حل بتاﺅ۔ اقبال کیا بتاتا ہے اس سے آگے کس طرح چلنا ہے آپ اگر ایک کتاب پڑھیں”اقبال کے حضور“نذیر نیازی کی لکھی ہوئی ہے یہ اقبال کے آخری دو تین ماہ ہیں زندگی کے ۔ 21 اپریل کو تو فوت ہو جاتے ہیں یہ مارچ تک آتی ہے یہ کتاب۔ صرف تین مہینے کور کرتی ہے اس کو آپ پڑھیں اس میں ایک بیمار آدمی ہے وہ مر رہا ہے اور علاج بھی ہو رہا ہے مگروہ بیماری کی حالت میں بھی حسین احمد مدنی کے سوالات کے جواب دے رہے ہیں کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں یا عقیدے سے بنتی ہیں اسی قسم کی بحثیںہو رہی ہیں۔ اب اس کی کوئی Relevance نہیں ہے چونکہ پاکستان تو بن چکا ہے ۔ یہ بحث اس وقت اور زمانے کے لیے تھے لیکن اب اس کی اتنی اہمیت نہیں رہی۔ اقبال کا بہت سارا مواد ایسا ہے جس کا وقت گذر چکا ہے بہت کچھ ایسا ہے جو حال پر لاگو ہوتا ہے اور بہت کچھ ایسا ہے جس کو لے کر ہمیں آگے چلنا ہے ۔ 
شیخ عبدالرشید: ڈاکٹر صاحب اس وقت جو بہت بڑا مسئلہ ہے اجتماعی طور پر یہ کہتے ہیں کہ امریکی سامراج نے شرقِ بعید میں ویت نام میں اشتراکیت کا سیلاب روکا عراق میں اپنی تابعدار حکومت بنانے میں کامیاب ہوا آج مشرق وسطیٰ میں تیزی سے سامراج دوست حکومتیں قائم ہونا شروع ہو گئیں ہیں افغانستان میں طالبان سودے بازی کرنے میں مصروف ہیں ان حالات میں کہیں آپ کو حریت یا انقلاب کا تصور نظر آتا ہے ....؟ جس کی بنیاد پر ہم فکرِ اقبال کو آگے بڑھائیں .... ؟ 

جاوید اقبال: اس وقت تو مشکل کا سامنا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو مسائل ہیں جو اس وقت اُٹھ رہے ہیں یہ تو ایسے مسائل ہیں جو اٹھتے رہیں گے اور یہ حل بھی ہوتے جاتے ہیں یہ زیادہ تر سیاسی مسائل ہیں جن کا روز مرہ کی سیاست سے تعلق ہے اس کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا اقبال کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ اس طرح ان کی نگاہ نہیں تھی کہ ایک وقت آتے آتے امریکی سامراج اتنا بڑھ جائے گا اس وقت تو وہ زمانہ تھا جب ویسٹ سامراج کی آپس کی لڑائی ختم ہوئی تھی اور سوال یہ تھا کہ ویسٹ جو ہے وہ ختم ہو جائے گا جنگ کے بعد ہندوستان سے انگریز چلا جائے گا بلکہ یہ لوگ تو سوچتے تھے کہ انگریز جائے گا ہی نہیں۔ اس وقت کی باتیں کچھ اور تھیں اب حالات کچھ اور ہیں ۔ 

شیخ عبدالرشید: لیکن ان حالات میں جو پاکستان میں درپیش ہیں قیادت کا بحران ہے آپ نے تو مسلم فکر کا بھی مطالعہ کیا ، اقبال اور جناح کی فکر سے بھی آشنا ہیں پاکستانی راہنماﺅں کو پاکستانی قوم کو اس حالات سے نکلنے کے لیے کیا راہ تجویز کریں گے .... ؟ 

جاوید اقبال: ابھی تو بہت مشکل ہے بیان کرنا میں تو سمجھتا ہوں کہ یہاں ضرورت تھی کہ کوئی نہ کوئی اگر جمہوریت ہی آجاتی ہے تو کوئی نہ کوئی نیشنل گورنمنٹ فارم ہو چونکہ ہم اس وقت ایک طرح سے عالم جنگ میں ہیں اوریہ عالم جنگ خواہ آپ کی نہیں آپ نے کسی سے مستعار لے لی ہے یا آپ کی بھی ہے کئی اعتبار سے۔ کیونکہ یہ تقلید اور اجتہاد کی جنگ ہے اس اعتبارسے یہ جنگ آپ کی ہے اس میں امریکہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ اور دوسرے اعتبار سے اگر آپ دیکھو تو یہ افغانستان کا مسئلہ بھی ہے آپ نہیں چاہتے کہ افغانستان پر ہندوستان کا رسوخ ہو ۔ 
شیخ عبدالرشید: کیا آپ کے خیال میں اس وقت ٹیکنو کریٹ قسم کی حکومت ہو تو زیادہ بہتر طور پر پرفارم کرسکتی ہے ۔ ....؟ 
جاوید اقبال: ممکن ہے کیونکہ یہ تجویز آئی ہے کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت ہونی چاہئے ساتھ آرمی ہو بات یہ ہے ہماری جو Political Parties ہیں 

منگل، 6 اکتوبر، 2015

1958ءکے مارشل لا ءکا پس منظر اور وجوہات


1958ءکے مارشل لا ءکا پس منظر اور وجوہات 


ممتاز ماہر عمرانیات ایرک فروم کا کہنا ہے کہ آزادی کا حصول اور اس کے حصول کے بعد اس کو قائم رکھنا ایک دشوار طلب عمل اور کشمکش ہے بعض لوگ، بعض گروہ یا قومیں اس سے گھبرا کر اپنی آزادی اپنی رضاسے ایک شخص یا جماعت کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس طرح انھیں فیصلہ کرنے کی زحمت سے نجات مل جاتی ہے اور وہ حکم ماننے میں ایک گو نہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ سات اکتوبر1958ءکو جب سکندر مرزا نے پاکستان میں اعلانیہ مارشل لا ¿ نافذ کرکے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں کو چیف مارشل لا ¿ ایڈمنسٹریٹر نامزد کر دیا تو قوم نے بغیر کسی مزاحمت کے سرِ تسلیم خم کرنے میں سکون محسوس کیا اور بقول ایوب خان ملک میں مارشل لاءاتنی آسانی سے جاری ہو گیا جیسے کوئی بجلی کا بٹن دبا دے ۔
لیڈر خود غرض ، علماءمصلحت بیں ، عوام خوفزدہ اور راضی بر ضائے حاکم، دانشور خوشامدی اور ادارے کھوکھلے ہو جائیں تو مارشل لاو ¿ں کے لےے راستہ ہموار ہوتا چلا جاتا ہے پھر کوئی طالع آزما ملک کو غضبناک نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔مارشل لاءخود بخود نہیں آتا اسے لایا اور بُلایا جاتا ہے اور جب آجاتا ہے تو قیامت اس کے ہمرکاب آتی ہے۔ 
بیسویں صدی کے وسط میں بہت سے ممالک نے طویل اور صبر آزما جد و جہد کے بعد آزادی حاصل کی مگر کچھ ریاستوں کی جھولی میں یہ آزادی پکے ہوئے پھل کی طرح آ گری ۔ جس کی وجہ سے ان ریاستوں میں سیاسی خلاءپیدا ہوا۔ جس کی شدت میں اضافہ اقتصادی بحرانوں نے کیاممتاز ماہر دانشورEdward Luctwackکہتا ہے 
There was one thing that the new states lacked which they could neither make for themselves, nor obtain from abroad, and this was a genuine political community. 
بلاشبہ حقیقی پولیٹیکل کیمونٹی کے نہ ہونے سے نو آزادریاستوںنے کمزور ادارہ سازی کے ماحول میں سیاسی عمل شروع کیا جس کے نتیجے میں ان ریاستوں میں سیاسی راہنماو ¿ں کو Status Quoبدلنے کے لےے طاقت پر انحصار کرنا پڑا۔ 
عائشہ جلال نے 1958ءکے مارشل لاءکی وجوہات کا ذکر یوں کیا ہے کہ یہ اندرونی ، علاقائی اور بین الاقوامی اسباب کا باہمی عمل تھا کہ چالیس اور پچاس کی دہائی میں خصوصی طور پر امریکہ سے تعلقات استوار کےے گئے جن کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی حیثیت متاثر ہوئی۔ پاکستان کی ریاست ارتقائی حالت میں تھی لہٰذا توازن سول بیورو کریسی اور فوج کے حق میں ہو گیا۔۔۔۔غیر جمہوری اداروں کی بالا دستی ، اعلیٰ سول بیورو کریسی اور فوج کی متفقہ حکمت عملی کا نتیجہ تھی جس کے پیش ِ نظر سیاست دانوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھایا گیا۔ اور ان قوتوں نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت لندن اور واشنگٹن میں بین الاقوامی نظام کے مراکز سے اپنے ذاتی تعلقات کو استعمال کرکے پاکستان میں سیاسی نظام کو کمزور کیا آخری تجزےے کے طور پر عائشہ جلال کہتی ہیں کہ پاکستان میں پارلیمانی نظامِ حکومت کی ناکامی کی ذمہ داری سول بیوروکریٹس، فوجی افسروں، چیف جسٹس اور سیکولر و مذہبی سیاستدانوں سب پر عائد ہوتی ہے۔ عائشہ جلال کا تجزیہ بہت حد تک درست اور جامع ہے۔ اس کا خیال ہے کہ پاکستان کے جمہوری ملک نہ بن پانے اور مارشل لاءکے لےے فضا ہموار کرنے کے کام کا آغاز تو خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل اختیارات کا منبع و مرکز بن کرکر دیاتھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی قد آور شخصیت کی وجہ سے ان کی ذاتی اتھارٹی تقدس کی حد تک بلند و بالا تھی نیز یہ کہ انھیں بطو ر گورنر جنرل گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935اور انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ1947کے تحت وسیع اختیارات بھی حاصل تھے۔ اس ایکٹ کے سیکشن9کے تحت ان کے بعد کے گورنر جنرلوں کو بھی وسیع اختیارات حاصل رہے اسی کے تحت وہ محض ایک فرمان سے آئین میں ترمیم کرسکتے تھے۔ تا ہم اس ایکٹ کے سیکشن9کے تحت گورنرجنرل کو تفویض کےے جانے والے ان لا محدود اختیارات کی حتمی حد ساڑھے سات ماہ تک تھی یعنی31مارچ1948ءکے بعد اس کی تنسیخ ہو جانا تھی مگر اس مدت کے خاتمے سے پہلے ہی اس میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی اور پھر جناح کے بعد ان اختیارات کے استعمال نے ملک میں سیاسی تماشہ لگا دیا محمد علی جناح کا بطور گورنر جنرل کابینہ کا چناو ¿ اور کابینہ کی صدارت بھی کوئی احسن جمہوری روایت ثابت نہ ہوا۔ دوسرا یہ کہ ان کی طبیعت نا ساز رہتی تھی، چنانچہ ان کے انتظامی امور کا انحصار بیوروکریسی پررہا۔ ان کا گورنر جنرل کا منصب اور آئین ساز اسمبلی کی صدارت بیک وقت سنبھالنا ایک تندو تیز بحث ہے تا ہم منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے کی روایت کا آغاز بھی ان ہی کی ہدایت پر سرحد اور سندھ کے گورنر وں نے ڈاکٹر خانصاحب اور محمد ایوب کھوڑو کی وزارتیں22اگست1947ءاور26اپریل1948کو برطرف کرکے کیا۔ خالد بن سعید پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی کی جڑیں محمد علی جناح کی گورنر جنرل شپ میں دیکھتا ہے۔ 
پاکستان کے ابتدائی عشرے میں جمہوری نظام کی ناکامی کی ایک اوربڑی وجہ مسلم لیگ کا انحطاط بھی ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام کی ناکامی کے اسباب میں لیگ کی بدعنوانی، بحیثیت سیاسی ادارہ کمزوریاں اور جاگیرداروں کے مفادات سرفہرست ہیں دراصل مسلم لیگ ایک سیا سی جماعت سے زیادہ ایک سیاسی تحریک تھی اور اسکی قیادت کو آزادی اتفاق سے مل گئی۔ مسلم لیگ کا پاکستان کا حصول آزادی ہند کی جدو جہد کی ضمنی پیداوار تھا۔ مسلم لیگ نے توہمیشہ عوامی مزاحمت کی تحریکوں سے خود کو علیحٰدہ رکھا۔مسلم لیگ کی توانائی کا بڑا حصہ کانگرس کے دعوں کو جھٹلانے پر صرف ہوتا رہا ۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ وہ کردار ادا نہ کر سکی جو بھارتی سیاست میں کانگریس نے کیا ۔ لارنس زائرنگ نے پاکستان میں پہلے مارشل لاءکو مسلم لیگ کے زوال سے در آنے والی ادارتی کمزوریوں سے منسلک کیاہے مسلم لیگ اپنی عوامی حمایت کو مستحکم پارٹی ڈھانچہ کی اصطلاحات میں ادارہ بندی میں تبدیل کرنے کے قابل بھی نہ تھی یعنی وہ پاکستان کے اقتصادی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے عوامی تائید کا حامل منشور تیار کرنے اور ایسی تربیت دینے کا انتظام نہیں کر سکی جس سے حکومتی اقتدارکے ڈھانچہ میں نمائندہ سیاسی حکومتوں کی قومیت کا تحفظ ہو سکتا۔ مزید یہ کہ مسلم لیگ پر پست ذہنی سطح کے جاگیرداروں اور زمینداروں کے غلبہ نے اسے اس قابل نہیں رہنے دیا تھا کہ وہ نئے ملک میں ایسا سیاسی ڈھانچہ تشکیل دے جس میں عوامی امنگوں کو تسلیم کیا جا سکتا۔لیکن جمہوری ناکامی کا واحد سبب مسلم لیگ کا انحطاط ہی نہیںتھا کیونکہ جدوجہد آزادی کے فیصلہ کن مرحلہ میں عارضی طور پر قومی دھارے میں شامل ہونے کے بعد مرکز گریز قوتیں ایک بار پھر اپنے راستے پر چل نکلی تھیں ۔ مرکز میں اختیارات کے ارتکاز کے لیے جب آہنی ہاتھ استعمال کیا گیا تو مرکز گریز قوتوں کو دوبارہ اُبھرنے کا موقع ملا اس حوالے سے محقق یونس صمد نے اپنی کتاب"A Nation in Turmoil"میں تفصیلی بحث کی ہے ۔ 
پاکستان کے پہلے عشرے میں جمہوری سیاست کی ناکامی محض بدعنوانی ، انتشار اور سیاسی بدنظمی کا نتیجہ نہیں تھی۔ آئی اے رحمان کا خیال ہے کہ اس کے اسباب بیوروکریسی کی روایات اور سیاسی کلچر کی پیچیدگیوںمیں پائے جاتے ہیںجو پاکستان کو نو آبادیاتی دور کی میراث میں ملے تھے ۔ بالخصوص فوج اور بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ ۔ تقسیم ہند سے قبل بیوروکریسی اور فوج نوآبادیاتی طاقت کا موثر ترین ذریعہ تھے۔ان کا اہم ترین فریضہ مختلف مقامی طبقات کو محکوم بنانا اور اپنے نو آبادیاتی آقاو ¿ں کے آلہ کار کے طور پر قوم پرست جدوجہد کو کچلنا ہوتا تھا ۔آزادی کی جدوجہد کے دنوں میں وہ قوم پرست راہنماو ¿ں کی مخالف سمت میں ہوتے تھے مگر آزادی کے بعد وہی سیاسی راہنما جنہیں دبانا اور جن کی سرگرمیوں کو حکومتی حدود میں پابند رکھنا ان کا فرض ہوتا تھا وہ اب اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ چکے تھے اور انھیں بظاہر فوج اور بیوروکریسی پر اختیار حاصل ہوگیا تھا ۔ لہذا ان کے درمیان لحاظ اور افہام و تفہیم پر مبنی ایک نئے تعلق کو قائم کرنا عصری ضرورت بن چکا تھا ۔ ا س ضرورت کو پورا کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کو بہت طاقتور بیوروکریسی اور فوج ورثے میں ملی تھی جن کے مقابلے میں سیاسی جماعتوں کی حالت ابتر تھی۔ حمزہ علوی نے ایک فکر انگیز مضمون میں لکھا ہے کہ نو آبادیاتی تعمیر کی وجہ سے فوج ااور نوکر شاہی کے ادارے ضرورت سے زیادی ترقی کر گئے تھے۔ بہ نسبت زمیندار اور بوروژوائی حکمران طبقہ کے۔ چنانچہ فوج اور نوکر شاہی کا بالا دست طبقہ ریاست کے اندر دوسروں کی نسبت خود مختارانہ حیثیت کا مالک ہے بیوروکریسی نے سب سے زیادہ فائدہ محمد علی جناح کی قد آور شخصیت کا اٹھایا اور وزیراعظم سمیت سیاسی قیادت کو بالائے طاق رکھ کرگورنر جنرل محمد علی جناح سے رابطہ رکھا۔ جناح نے بھی غلام محمد وغیرہ کو وزارتوں میںعملی طور پر لاکر اپنی تعلقداری کی نوعیت کا اظہار کر دیا تھا۔ جناح کی ذات انتظامی اختیارات کا مرکز تھی مگر چونکہ وہ علیل تھے لہذا ان کے اختیارات کاانتظامی حوالے سے استعمال بیوروکریسی ہی کرتی تھی۔ قائد اعظم کے عہد میں ہی بیوروکریسی نے اقتدار اپنے شکنجے میںلے لیا اور پھر جناح کی وفات کے بعد یہ اور مضبوط ہوئی۔ سیکرٹری جنرل کے عہدے نے چوہدری محمد علی کے قد کاٹھ میں اضافہ کیا۔ لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد بیوروکریسی سیاسی قیادت سے آزاد حیثیت اختیار کرتے ہوئے مرکز تک چھا چکی تھی ۔ بعد ازاں بیورو کریٹ غلام محمد گورنر جنرل کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے تو بیورو کریسی اور مضبوط ہوئی ۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ بیوروکریسی نے اقتدار پر قبضہ کے لیے کونسا طریقہ اختیار کیا ۔ بظاہر کوئی انقلابی اقدام تو سامنے نہیں آیابلکہ یہ سب نوازئیدہ ریاست کو ممکنہ مشکلات سے نجات دلانے کے لیے بنیادی تبدیلیوںکے باعث ہوا ۔ بیوروکریسی نے یہ اختیا ر ایسا انہونا عہدہ تخلیق کر کے حاصل کیا جو گورنر جنرل کی معاونت کے لیے تخلیق کیا گیا۔ سیکرٹری جنرل کا عہدہ جناح کے حکم پر تخلیق ہوا ۔ کابینہ کی قرار داد کے ذریعے سیکرٹری جنرل کو تمام سیکرٹریوں اور فائلوں تک رسائی دے دی گئی پھر پلاننگ کمیٹی تشکیل دے دی گئی جو چوہدری محمد علی کی قیادت میں ایک متوازی کابینہ بن گئی۔ جب غلام محمد گورنر جنرل بنا تب اس نے سیکرٹری جنرل اور پلاننگ کمیٹی تحلیل کر دی کیونکہ بیوروکریسی اب خود ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر قابض ہو چکی تھی۔ اس بیوروکریٹ گورنر جنرل نے 4اکتوبر 1954ءکو اسمبلی تحلیل کر کے نظم و نسق خود سنبھال لیا ۔ حمزہ علوی کے خیال میں یہ پہلا موقع تھا کہ سیاسی قوتوں کو جبری طور پر اقتدار سے الگ کیا گیا ،یوں اسے پہلا انقلاب یعنی کو ڈیٹا (Coup deta)کہنا چاہیے۔ 
بیوروکریسی یہ کام اکیلے نہیں کر رہی تھی اس نے فوج کے ساتھ تعلقات استوارکر لیے تھے۔ جنرل ایوب خاں کو جو اہمیت کی منزلیں بہت تیزی سے طے کر رہے تھے فوج کے کمانڈر انچیف کے ساتھ وزارت ِ دفاع کا قلمدا ن بھی سونپ دیا گیا ۔اسی طرح ان کے دوست ا سکندر مرزا جو سیکرٹری دفاع تھے انھیں وزیر داخلہ بنا دیا گیا ،اس وزارت کو ”قابل ترین افرادکی وزارت “کہا گیا۔ یہ کابینہ فوج اور بیوروکریسی کی نمائندہ تھی، نہ کہ عوام کی ۔
1947ءمیںتقسیم سے فوج کمزور ہوئی تھی نیزکمانڈر انچیف بھی برطانوی تھے لیکن 1951ءمیں ایوب خاں کے دوست ا سکندر مرزانے وزیر اعظم سے ایوب خان کوکمانڈر انچیف مقرر کروا لیا ۔ ایوب نہ تو سب سے سینئر تھے اور نہ ہی سب سے بہترین ۔ ایوب کی نامزدگی کے دنوں میں دوسینئر جرنیل اچانک ایک فضائی حادثے میں مارے گئے اس سے ایوب خاں صرف چار سالوں میں لیفیٹنٹ کرنل سے جنرل بن گئے۔ جنرل شیر علی کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت لیفیٹینٹ جنرل افتخار کمانڈر انچیف بنتے تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ ایوب خاں کے کمانڈر انچیف بننے سے ان کو ملنے والی ایکسٹینشن تک فوج اور بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ نمایاں رہا اور یہی پہلے مارشل لاءکی اہم وجہ بھی بنا۔ ایوب خاں کے کمانڈر بننے کے بعد راولپنڈی سازش کیس سامنے آیا ۔ ایک جنرل نے اپنی سوانح عمری میںلکھا ہے کہ ایوب خاں نے اس سازش کا پتہ اپنی پسند کے لوگوں کوآگے لا نے کے لیے کیا۔اس سے وہ ایسے لوگوں کو آگے لانے میں کامیاب ہوا ، جو اس کے وفا دار تھے۔ راولپنڈی سازش کیس نے ایوب کو موقع فراہم کیا کہ وہ بیورو کریٹک زعماء، سکندر مرزا اور غلام محمد کے ساتھ قریبی تعلقات پیدا کریں ۔ یہ تعلق نہ صرف دوستی میں تبدیل ہوا بلکہ پاکستانی سیاست کی سمت کے تعین میںبھی کردار ادا کرتا رہا۔ستمبر 1953ءکے اواخر میں ، بری فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خاں امریکی سول اور فوجی حکام سے ملاقات کے لیے امریکہ پہنچے۔ ان کے اس دورے سے پہلے امریکی بحری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے 23 ستمبر 1953 کو امریکہ کے جوائنٹ چیف آف سٹاف کے چیئر مین ایڈمرل ڈبلیو راڈ فورڈ کو ایوب خان کا ایک ”خاکہ“ روانہ کیا جس میں لکھا کہ ”6 فٹ 2 انچ سے زیادہ طویل القامت اور 210 پا ¶نڈزکے وزن کے توانا جنرل ایوب خاں پاکستان ملٹری سروسز کے سب سے با اثر افسر ہیں۔ فوج پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے اور وہ زیادہ اور کم ہر دو قسم کی اہمیت کے فیصلے خود ہی کرتے ہیں کیونکہ وہاں سٹاف افسروں کو بہت کم اختیارات تفویض کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ انہیں آفیسر کیڈر کا احترام حاصل ہے لیکن وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ درشتی اور سختی سے پیش آنے کا میلان رکھتے ہیں۔ ان کی شہرت یہ ہے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ کس شے کی جستجو کرنی چاہیے اور یہ کہ وہ نتائج پر زور دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنے اور اپنی افواج پر بڑا اعتماد ہے ۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ امریکہ نواز ہیں۔ جاہ و جلال کی بہت زیادہ ہوس اور سیاست کو اپنے فوجی کیریئر سے مخلوط کرنے کے میلان کو ان کی کمزوری سمجھا جاتا ہے ۔ 
فوج اور بیوروکریسی کے اس گٹھ جوڑ کو امریکی اشیر باد بھی حاصل رہی۔ دراصل آزادی کے بعد کے دور میں قومی بورژوا کی عدم موجودگی میں غیر ملکی تجارتی اور سرمایہ دار طبقے سامراجی دورجیسا کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔ اس خطے میں امریکہ کی موجودگی اور مفادات نے بھی پاکستان میںآمرانہ قوتوں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار اکیا ۔پاکستان نے شروع میں ہی امریکہ سے تعلقات کی کوششیں کیں تاہم ابتدائی سالوں میں امریکہ نے آنکھیں نہ ملائیں ۔ مارچ 1951ءمیں ایرانی تیل کی صنعت کی ڈاکٹر مصدق کے ہاتھوں نیشنلائزیشن نے امریکہ کے تیور بدلے۔ 1952ءکے بعد پاکستان امریکہ کی سرپرستی میں آگیا۔ امریکہ کا معاشی مفاد فوجی سازو سامان کی فروخت سے وابستہ رہا۔ چنانچہ امریکی تعلقات کی وجہ سے پاکستان کا انحصار فوج پر بڑھا۔ امریکہ فوجی امداد نے پاکستان کو سیاسی حوالے سے بھی مضبوط کیا اورپاکستان کی دفاعی معاہدوں میں شرکت ممکن ہوئی۔ مور ¿خین کا اتفاق ہے کہ پاکستان میں ملٹری بیوروکریسی کو تقویت ملنے کی بڑی وجہ سرد جنگ کا ماحول تھا۔ امریکی سمجھتے تھے کہ ملٹری بیوروکریسی پاکستان میں ایک مضبوط مرکزی نظام قائم کر سکتی ہے۔ 3اکتوبر1953ءکو پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے امریکہ کا غیر رسمی دورہ کیا جو کابینہ کی رسمی منظوری کے بغیر تھا اس دورے میں امریکی زعماو ¿ں اور پاکستانی فوج کے تعلقات کا آغاز ہوا۔ امریکہ Containment Policyکے زیر اثر دفاعی حصار قائم کرنا ضروری سمجھتا تھا۔ اس کے لےے ترکی اور پاکستان کو دفاعی لائن کے طور پر استعمال کرنا اس کا مقصد تھا۔ اس مقصدکے لےے یہاں موجود مضبوط فوجی و نوکر شاہی گٹھ جوڑ کو مضبوط کر کے اس نےOligarachyقائم کرنا بہتر سمجھا تا کہ ساز باز میں آسانی رہے۔ امریکی مفاد کے لےے پاکستان میں جمہوری قوتوں اور اداروں کو کمزور بنایا گیا۔ پاکستان اور ترکی میں فوج اس کے لےے یہ سب کرنے کو تیار تھی۔ فوج اور امریکہ کے تعلقات اس نوعیت کے ہو گئے تھے کہ انہی دنوں بریگیڈیرغلام جیلانی کو امریکہ میں ملٹری اتاشی لگایا گیا تو امریکہ بھیجتے وقت کمانڈر انچیف جنرل ایوب نے انھیںبلا کر ہدایات دیں کہ تمھاری بنیادی ذمہ داری پنٹا گون کے ساتھ ملٹری ایڈ کے تعلقات استوار کرنا ہے تم ان امریکیوں سے براہ راست ڈیل کرنا اور پاکستانی سفیر کو اعتماد میں نہ لینا۔ شیریں طاہر خیلی کے مطابق جنرل ایوب خاں نے © ©”مناسب قیمت پر امریکہ سے ایسی ڈیل کی کوشش کی جس کے مطابق پاکستان مغر ب کے اتحادی کا کردار ادا کر سکے۔ امریکی تعاون حاصل کرنے کے لےے ایوب خاں اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے ایک امریکی اہلکار کو یہ تک کہہ دیا کہ 
"Our Army can be your Army if you want"اس بات کا حوالہDenis Kuksنے بھی دیا ہے ۔ مغربی پاکستان میں امریکی اشیر باد سے قائم ہونے والے نظام کی acceptenceموجود تھی کیونکہ یہاں کی مذہبی، جاگیردارانہ اور کمزور سیاسی قوتیں شراکت ِ اقتدار کے مزے لوٹنے کے لےے ہر قیمت چکانے کو تیار تھیں لیکن مشرقی پاکستان میں اس منصوبے کو مشکلات کا سامنا تھاچنانچہ جب یہی مشکلات آئینی بحران کے ساتھ ظاہر ہوئیں تو مشرقی و مغربی کا بحران شدت اختیار کر گیا جو بعد ازاں1971ءمیں منطقی انجام کو پہنچا۔ اس پس منظر میں1958ءکا مارشل لا ءامریکہ، مغربی پاکستان کے کمزور سیاستدانوں ،بیورو کریسی اور فوج کے مفادات کا ترجمان تھا جبکہ پاکستان کے عوام اور مشرقی پاکستان اس کےVictimتھے۔
پاکستان میں پہلے عشرے کی جمہوریت کی ناکامی کا بڑا سبب ریاستی ساخت بھی تھی۔ اس ریاست کا قیام وارتقاءاور سماج جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے لےے زیادہ زرخیز نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی سیاسی قیادت باہر سے تھی۔ یو پی /سی پی کی قیادت بھی مقامی لوگوں ، ان کے کلچر ، روایات اور ضرورت سے آشنانہ تھی چنانچہ وہ سیاسی و سماجی مسائل پر قابو پانے کی بجائے غلطی پر غلطی کرتی چلی گئی۔ جب قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کے بعد حالاتSon of the soilکو سنبھالناپڑے تو انکی نا تجربہ کاری آڑے آئی۔ 
یہی وہ مسائل تھے جس کے باعث ابتدائی عشرے کا پاکستان خالد بن سعید کے الفاظ میں ہابس کی ریاست کا منظر پیش کر رہا تھا۔ خالد بن سعید لکھتا ہے کہ © ©”پاکستان 1951ءسے 1958ءتک کے درمیانی عرصے کے دوران ہابس کی ریاست کے جیسا تھا جو کہ فطرت کی ہو بہو عکاسی کرتی نظر آتی ہے جہاں پرہر سیاسی یا صوبائی گروہ دوسرے گروہوں سے دست و گریباں ہوتا ہے۔اس عرصے میں یہاں تسلسل کے ساتھ اقتدار کے لےے رسہ کشی جا ری رہی ۔پاکستان کو اس ازارِ ضرر رساں سے نجات چاہےے تھی اور مارشل لا ء ہی اس ملک کو تباہی کے دہانے سے واپس لا سکتا تھا جس کے نفاذ سے امن و امان اور عوامی بھلائی کو تلوار کی نوک پر ممکن بنایا گیا۔ © ©“
مذکورہ بالا حالات نے نہ صرف 1958ءکے مارشل لاءکے منصوبے کی تکمیل کو ممکن بنایا بلکہ آنے والے مارشل لاو ¿ں کو بھی بنیاد فراہم کی۔ پاکستان میں ہمیشہ کے لےے حاکمیت غیر جمہوری کا کردار معرضِ وجود میں آ گیا۔ یہ وجوہات نہ صرف پہلے مارشل لاءکا سبب بنیں بلکہ آج بھی کسی نہ کسی طرح ریاست میں نمایاں نظر آتی ہیں ان اسباب کی موجودگی میں مور ¿خین کے لیے تحقیق کا موضوع یہ نہیں کہ پاکستان میں مارشل لاءکب کب لگا بلکہ ان کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ جب جب مارشل لاءنہیں لگا تو اس کی وجوہات کیا تھیں ۔
رئیس امروہی مرحوم نے پاکستان میں پہلے مارشل لاءکا قطعہ تاریخ کچھ یوں کہا تھا کہ 
دیار پاک میں ہے کار فرما بحمد اللہ پاکستان کی فوج 
نظر آتا ہے ملت کا ستارہ بالآخر مائل صد عظمت و اوج
وہاں ہیں امن ساحل کے نظارے جہاں سیل بلا ہے موج در موج
گرفت پنجہ ¿ افواج کا سال 
نہیں جز ’پنجہ‘ فوج ظفر موج
 (۸۷۳۱)

اکتوبر 1958 کے مارشل لاءکے نفاذ کے بعد سرکاری ریڈیو و اخبارات مسلسل فوج کی مدح سرائی میں مصروف تھے اور قوم کو تصویر کا من پسند رخ دکھانے میں مصروف عمل تھے لیکن برہنہ آمریت کے اس دور میں ایک نحیف و نزار آواز جو قانون کی حکمرانی اور آزادی اظہار کے حق میں بلند ہوئی وہ مغربی پاکستان کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایم آر کیانی کی تھی۔ ان کی ایک تقریر جو 11 دسمبر 1958 کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے تھی انہوں نے کہا کہ مارشل لاءکا نفاذ سب سے بڑی آفت ہے جو کسی قوم پر نازل ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بد نصیبی تنہا نہیں آتی اس کے ساتھ فوجی دستے بھی ہوتے ہیں لیکن اس بار تو پوری فوج اس کے ساتھ ہے ۔