جمعرات، 23 جولائی، 2015

علوم ترجمہ


بابائے اردو مولوی عبدالحق نے کہا تھا کہ ”جب کسی قوم کی نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے اور وہ آگے قدم بڑھانے کی سعی کرتی ہے تو ادبیات کے میدان میں پہلی منزل ترجمہ ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ جب قوم میں جدت اور اپچ نہیں رہتی تو ظاہر ہے کہ اس کی تصانیف معمولی، ادھوری، کم مایہ اور ادنیٰ ہوں گی۔ اس وقت قوم کی بڑی خدمت یہی ہے کہ ترجمہ کے ذریعے دنیا کی اعلیٰ درجے کی تصانیف اپنی زبان میں لائی جائیں۔ یہی ترجمے خیالات میں تغیر اور معلومات میں اضافہ کریں گے، جمود کو توڑیں گے اور قوم میں ایک نئی حرکت پیدا کریں گے اور پھر یہی ترجمے تصنیف و تالیف کے جدید اسلوب اور آہنگ سجائیں گے۔ ایسے میں ترجمہ تصنیف سے زیادہ قابل قدر، زیادہ مفید اور زیادہ فیض رساں ہوتا ہے “۔ اسی تناظر میں یونیورسٹی آف گجرات کے شعبہ ¿ تصنیف و تالیف کی نئی پیش کش ”علوم ترجمہ“شائع ہوئی۔ یہ نامور ماہر لسانیات و ادب اور علوم ترجمہ سوزن بیسنٹ کی ابتدائی، مفید اور مقبول عام کتاب "Translation Studies" کا اردو ترجمہ ہے ۔ بیس سے زیادہ علمی کتب کی اس مصنفہ کی یہ کتاب پہلی بار 1980ءمیں شائع ہوئی تودنیا بھر میں اس کی پذیرائی ہوئی اور اس کی مانگ بڑھتی گئی۔ قارئین کی دلچسپی اور مانگ کی بنا پر اب تک اس کے کئی ایڈیشن طبع ہوئے اور یہ کتاب (دوبارہ) چھ بار شائع ہو چکی ہے ۔ یہ کتاب ”علوم ترجمہ“ کی ابتدائی اور بنیادی کتاب سمجھی جاتی ہے اور اس نے گذشتہ پینتیس برسوں میں علوم ترجمہ کے شعبہ ¿ کو بھرپور قوت متحرکہ اور مدرسانہ راہنمائی فراہم کی ہے ۔ یہ کتاب رومن ثقافت سے بیسویں صدی تک ترجمہ کے تناظر میں ہونے والے اہم مباحث کا جائزہ پیش کرتی ہے ۔ یہ ترجمہ کو قطعی لسانی عمل کی بجائے لسانی علامات و اشارات اور ثقافتی عمل کے طور پر دیکھتی ہے اور قارئین کو مترادف معانی کی بہت سی مشکلات سے بھی آشنا کرتی ہے ۔ اس کتاب کے مطالعے سے عیاں ہوتا ہے کہ یہ پڑھنے والوں کو ”علوم ترجمہ“ کی اہمیت ، وسعت، گہرائی، امتیاز اور ترجمہ کی گہری پیچیدگیوں اور مشکلات سے متعارف کرواتی ہے اور پس نو آبادیاتی نظام کا فہم دیتی ہے اور تاریخ میں ترجمے کے کردار اور ترجمے کے بدلتے اور ترقی کرتے نظریات و مباحث سے آگاہی فراہم کرتی ہے ۔ 

سوزن بیسنیٹ (Susan Bassnett) فن ترجمہ کی نظریہ ساز اور تقابلی ادب کی سکالر ہیں۔ انہوں نے ڈنمارک، پرتگال اور اٹلی سے تعلیم حاصل کی اور بچپن میں ہی مختلف زبانوں میں مہارت حاصل کی ۔ انہوں نے واروک یونیورسٹی (The University of Warwick) میں تقابلی ادب اور علوم ترجمہ میں پوسٹ گریجویٹ پروگرام شروع کیے۔ واروک یونیورسٹی میں وہ اس کے Centre for Translation and Comparative Cultural Studies سے وابستہ رہیں۔ وہ اس یونیورسٹی میں پرووائس چانسلر کے عہدے پر بھی تعینات رہیں۔ موصوفہ بیس سے زیادہ کتب کی مصنفہ ہیں ۔وہ دنیا بھر میں علوم ترجمہ اور تقابلی ادب کے حوالے سے لیکچر دیتی رہتی ہیں اور ورکشاپس منعقد کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ سوزن بیسنٹ Institute of Linguists, اور Royal Society of Literature اور The Academia Europia کی منتخب رکن ہیں۔ حالیہ سالوں میں وہ کئی بڑے ادبی انعامات جیسے کہ The Independent Foreign Prize, Time/Stephen Poetry in Translation اور The IMPAC Dublin Prizeکی جج رہیں ہیں۔ یونیورسٹی آف گجرات CeLTS کے تحقیقی مجلہ کے ایڈیٹوریل بورڈ کی ممبر بھی ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی صحافت ، ترجموں اور شاعری کی وجہ سے شہرت عام کی حامل لائق تحسین اور قابل قدر مصنفہ ہیں۔ 
ایسی عالمی شہرت اور مہارت کی حامل مصنفہ کی شہرہ آفاق کتاب ”علوم ترجمہ “کا ترجمہ کوئی عام قلمکار نہیں کر سکتا تھا۔ اسی لیے علم دوست، صاحب مطالعہ اور کثیر اللسانی مہارتوں کے حامل دانشور قلمکار جناب توحید احمد کو ہی اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے ہی سوزن بیسنٹ کی کتاب ”علوم ترجمہ“ کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور نیک نیتی ، خلوص، لگن اور مہارت سے خوبصورت اور قابل اعتماد ترجمہ کیا ہے ۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ جناب توحید احمد نے یہ ترجمہ مصنفہ سے ان کے تیسرے ایڈیشن کی اشاعت پر باقاعدہ اجازت لے کر کیا ہے ۔ 
جناب توحید احمد اکتوبر 1947ءمیں لاہور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے حیدر آباد ، سکھر ، بہاولپور، راولپنڈی اور لاہو رکے سکولوں سے تعلیم حاصل کی ۔ 1967ءکے بہترین طالبعلم کے طور پر ایف سی کالج سے تعلیم مکمل کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ¿ انگریزی میں داخلہ لیا اور انگریزی زبان و ادب میں پہلی پوزیشن کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ انہیں پنجابی اور اردو کے علاوہ فرانسیسی ، فارسی اور عر بی زبانوں پر بھی عبور حاصل ہے ۔ 1971ءمیں انہوں نے پاکستان کی فارن سروس میں شمولیت سے پہلے دو سال تک پاکستان ٹائمز، لاہور میں کام کیا ۔ بعد ازاں دنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں اپنی خدمات سر انجام دیں اور 2007 میں ریٹائر ہوئے ۔ انہوں نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے رکن کی حیثیت سے ایک عرصہ کام کیا ۔ انہوں نے پاکستانی اخبارات اور رسالوں میں انگریزی اور اردو زبان میں 200 سے زیادہ مضامین لکھے۔ جناب توحید احمد نے Alvin Toffler کی بہترین کتاب "The Third Wave" اور Erasmus کی کتاب "The Praise of Folly" کا اردو میں ترجمہ کیا ۔ 1995ءمیں انفارمیٹکس ریوولوشن کے حوالے سے ”اطلاعیات“ کے نام سے ان کے اردو مضامین کا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے ۔ موصوف کا ”علوم ترجمہ“ کے عنوان سے سوزن بیسنٹ کی کتاب کا شاندار اور جاندار ترجمہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ جناب توحید احمد کا تجربہ اور زبان شناسی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مترجم جس زبان تحریر کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کا سوچے، پہلے اس زبان کے تہذیبی رچاﺅ میں واقفیت حاصل کرے۔ ہمارے ممدوح مترجم کا یہ وصف سند یافتہ ہے ۔ ”علوم ترجمہ“ کا ورق ورق شاہد ہے کہ جناب توحید احمد کا ترجمہ ان کے نیاز و ناز کا حسین امتزاج ہے۔ وہ مصنفہ کا دل سے احترام کرتے ہیں او راس احترام کو معتبر بنانے کے لیے انہوں نے مکمل آزادی اور دیانتداری سے ترجمہ کیا ہے ۔ ان کا ترجمہ رواں، شفاف اور تواناءہے۔ والٹر بنجامن کا کہنا ہے کہ ”اصل ترجمہ شفاف ہوتا ہے“۔ جناب توحید احمد نے متن کو اپنی علمی توانائی سے اس طرح پیش کیا ہے کہ ترجمہ کی زبان کا متن اصل معلوم ہوتا ہے ۔ ایک فرانسیسی کہاوت ہے کہ Translation is like a woman, if it is beautiful it cannot be faithful and if it is faithful, it cannon be beautiful ۔ 
جناب توحید احمد کے اس شفاف ترجمے کا نمایاں وصف یہ ہے کہ یہ مذکورہ کہاوت کے برعکس بیک وقت خوبصورت اور قابل اعتبار ہے ۔ لیکن اسے ستم ظریفی کے علاوہ کیا کہیے کہ ترجمہ نام ہی سعی نا مشکور کا ہے ، جس میں بالعموم مترجم کو ترجمے کی شدید مشقت کے بعد بھی تحسین و قبولیت کم ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس لیے ترجمے کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ ترجمہ ایسی محنت ہے کہ جو کسی کے شکریے کی مستحق نہیں۔ اس سے مراد یہ بھی لی جاتی ہے کہ شکریے کا مستحق دراصل مصنف ہے ، مترجم کا کام صرف اس کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کا ہے اور یہ کوئی بڑا کام نہیں۔ عنایت اللہ دہلوی کہتے ہیں کہ ”مترجم شکریے کا مستحق نہ ہو، لیکن اگر دنیا میں مترجم نہ ہوتا ، تو روئے زمین پر علم کی جھیلیں اور دریا تو بہتیرے ہوتے، مگر ان کو ملا کر علم کا بحر ناپید کنار بنانے والا کوئی نہ ہوتا“۔ اسی تناظر میں میں دانش گاہ گجرات ، مرکز السنہ و علوم ترجمہ اور علوم ترجمہ کے طالبعلم اور اساتذہ جناب توحید احمد کے شکر گذار ہیں، جامعہ گجرات کے مرکز السنہ و علوم ترجمہ کی بنیاد رکھنے اور اسے پروان چڑھانے میں انہوں نے جو قابل قدر کردار ادا کیا ہے، میں اس کا عینی شاہد ہوں اور خوب جانتا ہوں کہ انہی کی راہنمائی اور فراخدلی سے جامعہ گجرات کا مرکز برائے السنہ و علوم ترجمہ، ترجمہ کی تدریس، تحقیق ، تدریب اور ترغیب کا واحد پاکستانی مرکز بنا ہے ۔ 

دو سو سات صفحات پر مشتمل اس کتاب کا آغاز شیخ الجامعہ ڈاکٹر ضیاءالقیوم کے فکر انگیز حرف اول سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے بجا طور پر اکیسویں صدی کو ترجمے کی صدی بنتے دکھایا ہے۔ ترجمے کی کہانی میں مترجم نے اس کتاب کے ترجمے کی ضرورت اور اہمیت کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ پھر مصنفہ کا جامعہ دیباچہ و تمہید بھی شامل ہے۔ کتاب تین بنیادی ابواب پر مشتمل ہے جس میں چوبیس ذیلی عنوانات زیر بحث لائے گئے ہیں اور پھر اختتامیہ بھی ہے۔ آخر میں 34 صفحات پر مشتمل زیر بحث موضوعات سے متعلقہ 291 انگریزی کتب کی تفصیلی فہرست بھی شامل ہے جسے قارئین کی سہولت کے لیے پانچ ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ 
امید واثق ہے کہ علوم ترجمہ کی یہ کتاب زبان و خیال میں وسعت اور زرخیزی کا سبب بنے گی ۔ اس کتاب کی اشاعت میں یونیورسٹی آف گجرات کے مرکز برائے السنہ و علوم ترجمہ کے سربراہ اور مبلغ علوم ترجمہ ڈاکٹر غلام علی کی ترغیب و دلچسپی کلیدی اہمیت کی حامل ہے ۔ 
گجرات یونیورسٹی کے شعبہ ¿ تصنیف و تالیف کی یہ نئی کاوش، وژنری وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم کی شفقت ، علم دوستی اور علوم ترجمہ کی اہمیت کے ادراک کی بدولت ہی کتابی صورت میں منظر عام پر آسکی ۔یہ شعبہ ¿ اس سے قبل بھی درجن بھر کتب شائع کر کے ادبی و علمی حلقوں سے داد و تحسین وصول کر چکا ہے۔ جامعہ گجرات کی خوش قسمتی ہے کہ اسے روح عصر سے ہم آہنگ”ضیائے قیوم“ نصیب ہوئی۔ یہ فضل ربی حافظ حیات ؒ کی برکت کا ثمر ہے۔ یہی ”ضیاء“علوم و ادب کی روشنیوں سے دانش گاہ گجرات کو منور رکھے گی ۔ (انشاءاللہ)


منگل، 7 جولائی، 2015

لفظ جی اُٹھے تو، تو خوف سے مر جائے گا


”پاکستان ایک انوکھا ملک ہے۔ تضادات اور منافقت کا شاہکا ر۔ غیر ملکی حیران ہو جاتا ہے کہ یہ ملک کس دور میں سانس لے رہا ہے۔ بیسویں صدی میں یہ لوگ کیسے کیسے اوہام میں مبتلا ہیں۔ کس طرح کے طرزِ حیات کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ جو جہالت اور لا علمی سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، نہیں چاہتے کہ اس ملک سے جہالت ختم ہو، لیکن جہالت کے خلاف تقریریں کرتے ہیں، وہ اپنے ملک کے حالات کا شکوہ کرتے ملتے ہیں۔ جبکہ وہ خود یہ چاہتے ہیں کہ یہ انار کی برقرار رہے تاکہ استحصال جاری رہے۔ یہ لوگ فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں لیکن در پردہ وہ فوج کے ساتھ تعاون کر رہے ہوتے ہیں۔“
مذکورہ خیالات80کی دہائی میں پاکستان کے حوالے سے لکھی جانے والی غیر ملکیوں کی کتابوں میں سے مقبول کتاب "Breaking The Curfew:A Political Journey Through Pakistan"سے اخذ ہیں۔ یہ کتاب 1989میں شائع ہوئی جسے آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات اور معاشیات کی اعلیٰ تعلیمافتہ صحافی اور عالمی شہرت یافتہ برطانوی جریدے”اکانومسٹ“ کی نمائندہ ایما ڈنکن نے رقم کیا۔ 1986ءمیں ایما ڈنکن کو اکانومسٹ نے جنوبی ایشیاءمیں اپنی کارسپانڈنٹ مقرر کیا۔اپنی اس کتاب میں اس نے پاکستان میں گذارے آٹھ ماہ کے دوران شب و روز کے مشاہدے، تجربے، تجزیے کو اپنے منفرد انداز میں قلمبند کیا تھا۔ مصنفہ نے بڑی گہرائی سے ہماری سیاست و معاشرت کا جائزہ لیا، ہماری قومی حیات کے بے شمار گوشوں کو تحقیقی و تنقیدی نظرسے پرکھا اور مکمل دیانتداری اور سچائی سے ان حوالوں پر فکر انگیز تبصرہ بھی کیا تھا۔ مسعود اشعر نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ” ایما ڈنکن نے اپنے عورت اور سفید چمڑی کا ہونے کا پورا فائدہ اُٹھایا، وہ ہر جگہ گئی اور ہر اس شخص سے ملی جو ہماری قومی زندگی میں کوئی حیثیت اور اہمیت رکھتا ہے ۔ عورت ہونے اور سفید چمڑی کا ہونے کی وجہ سے ہر شخص اس کے سامنے ننگا ہو گیا۔ لفظی معنی میں نہیں، اصطلاحی معنی میں۔ ویسے بعض معززین نے لفظی معنی میں ایسا کرنے کی کوشش کی جس کا اس نے کتاب میں بھانڈہ پھوڑ دیا۔ ایما کو عورت ہونے کا ایک اور فائدہ بھی ہوا۔ انسانی شخصیت کو سمجھنے کے لےے عورت کے پاس ایک چھٹی حس بھی ہوتی ہے۔ ہمارے تمام اہم اور قابل ذکر لوگوں کی ذات، شخصیت اور مزاج کے بارے میں ایما نے چند جملوں میں جو تصویر کھینچ دی ہے وہ شاید مرد لکھنے والے پوری کتاب میں بھی نہ کھینچ سکتے۔ ایما نے ہمارے سیاسی و سماجی کرداروں کو ہماری تاریخ کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی بساط کے مطابق ہمیں سمجھانے کی جرا ¿ت بھی دکھائی۔ کتاب میں تاریخی تناظر اور مباحث میں مصنفہ نے کہیں کہیں ٹھوکر بھی کھائی۔ پاکستان کے قیام کی غایت غیر ملکی مصنفین اور محققین کو سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ یہ محض تاریخی عوامل کی پیداوارنہیں بلکہ تاریخ کا حاصل تھا۔ خیر جدوجہد پاکستان تو اپنی جگہ ہم نے گذشتہ چھ سات عشروں میں پاکستان کے ساتھ جو کیا ہے وہ بھی غیر ملکی قلمکاروں کو چکرا کے رکھ دیتا ہے۔ 
ایما ڈنکن نے اپنی کتاب میں ہمارے سماج کی منافقت، سیاسی خود غرضی اور معاشی لوٹ کھسوٹ اور انفرادی و قومی بے حسی کا جو منظر دکھایا ہے وہ آج سے پچیس سال قبل جتنا درد ناک تھا، آج بھی اس سے بڑھ کر کربناک دکھائی دیتا ہے۔ 
اک عمرسے زخموں کا لہو چاٹ رہے ہیں 
ہم لوگ محبت کی سزا کاٹ رہے ہیں 
آج بھی اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمارے لیڈ ر خود غرض، علماءمصلحت بین، دانشور خوشامدی، قلم کار ہرکارے، ادارے کھوکھلے، عوام راضی برضائے حاکم دکھائی دیتے ہیں اور سماج منافقت، ہوس، حسد، نفرت، جھوٹ ، دغا کے مجموعے کا نام سنائی دیتا ہے۔ ایما ڈنکن نے لکھا تھا کہ پاکستان کی سرزمین تضادات کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ پاکستان کی حکومت میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ایک رہنما نے مجھے بتایا کہ پاکستان ایک منافقت سے بھرا ملک ہے۔ یہاں دو قسم کی اقوام بستی ہیں۔ ایک وہ جن کی جڑیں اس سرزمین میں ہیں اور دوسری قوم وہ ہے جو نظریات اور آئیڈیلز میں بستی ہے۔ پاکستان کی بد قسمتی یہ رہی کہ ان دونوں میں شبہات اور فاصلہ بڑھتا چلا گیا ۔ پاکستان میں منافقت اور تضادات کا دوسرا سبب یہ رہا کہ یہاں طرزِ حکومت برطانوی رہا۔ قانون اور عدالتیں غرضیکہ سار ا ڈھانچہ انگریزوں نے تعمیر و قائم کیا تھا۔ آزادی کے بعد کی ضرورتوں کے تحت اس ڈھانچے میں جو بتدیلیاں رونما ہونی چاہئیں تھیں ان کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔ ایما نے مزید بتایا تھا کہ پاکستان میں رشوت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ معمولی رقم کی رشوت لے کر حکومت اور ملک کو بڑا نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس رشوت نے بزنس ، صنعت اور ہر شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔سرکاری ملازمین اپنی اصل آمدنی سے کہیں زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ ان کا رہن سہن اور طرز حیات ان کی اصل آمدنی سے میل نہیں کھاتا۔ ایک بینکر نے مجھے کہا ” یہ ایک مایوس کر دینے والا ملک ہے ۔“ ایک سیاستدان نے بتایا ” خود غرضی ہمارے ملک کی سب اچھائیوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔“ ایک ماہر معاشیات نے کہا” پاکستانی معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو اپنے جرائم کے بارے میں بے حس ہو چکا ہے۔ “یہاں ہر شخص راتوں رات دولت مند بننا چاہتا ہے۔ یہ وہ طرز فکر ہے جس نے پاکستانی معاشرے کو جکڑ رکھا ہے۔ لوگوں کے امیر بننے کی آرزو میں مبتلا یہ معاشرہ ایسے لوگوں کو جنم دیتا ہے جو ان کی اس آرزو کا استحصال کرکے انہیں لوٹ سکے۔ ۔۔پاکستان میں ایک طرف بے حد غربت ہے اور دوسری طرف ناقابل یقین امارت۔ ۔۔یہاں لوگوں میں کتاب کے لےے محبت نہیں رہی، مطالعہ کا شوق بہت کم ہے۔کتابوں کی بجائے لوگ غیر ملکی اشیاءکی خریداری اور نمائش سے اپنی دولت مندی کا اظہار کرتے ہیں۔ 
ایما ڈنکن کی یہ کتاب میں نے 1989ءمیںقائد اعظم یونیورسٹی میں زمانہ طالب علمی میں پڑھی تھی اور پاکستانیت کے جذبات سے لبریز ہو کر کچھ نکات کو نشان زدہ کر لیا تھا کہ یہ سب میرے پاکستان کے متعلق جھوٹ ہے۔ آج ملک میں ایک بار پھر ادلتی بدلتی صداﺅں ، سیاسی و سماجی واقعات کی رنگا رنگی کے ایام میں یہ کتاب نظر آئی تو دیرینہ جذبات تازہ ہو گئے اور اس جدید تعلیم یافتہ ، مغربی صحافی اور غیرملکی لکھاری کی کہانی کو رد کرنے کے لےے قلم اٹھا لیا۔ میں نے نشان زدہ لائنوں کو دوبارہ پڑھا ان میں سے اکثر کا ذکر شروع میں کر چکا ہوں اور پوری دیانتداری سے کہہ رہا ہوں ایسا لگا جیسے ہمارے ہاں تاریخ کی حرکت تھم کر رہ گئی ہے اور ہم جامد سماج اور فکر ی جمود کے حامل جہنمیوں کی سی زندگی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ گذشتہ تین عشروں میں منافقت اور تضادات میں اضافہ ہو اہے ۔ ایما ڈنکن جس نتیجے پر پہنچی تھی ہم بھی دبے لفظوں میں اس کا رونا روتے رہتے ہیں۔ ا س کی کتاب پڑھ کر ماننا پڑتا ہے کہ ہم ریا کار ہیں، منافق ہیں ، ہماری ساری زندگی اپنے اپنے گرد جھوٹ، منافقت اور ہوس و بے ایمانی کا جالا بُننے اور تاننے میں گذر جاتی ہے۔ ہم نے نتیجہ اخذ کر رکھا ہے اور قلمی شہادتیں ایما نے پچیس سال قبل دے دی تھیں۔ مگر ہم ہیں کہ ہمارا ضمیر تا حال خوابیدہ ہے۔ ہم ترقی کرنے اورخوشحالی دیکھنے کا ارمان لےے ہوئے ہیں۔ کیا دنیا میں کسی منافق قوم ، بکھرتے سماج، تحلیل ہوتی ریاست اور خودغرض حکمرانوں کی قیادت میں ترقی کا کوئی زینہ طے ہو سکا ہے۔ ایما نے ہمیں آئینہ دکھا یا تھا۔ ہم تو اتنے بے حس ہیں کہ ہمیں آج تک خود احتسابی کا خیال نہیں آیا۔ میں نے لرزتے ہاتھوں سے لکھنا روک دیا ہے۔ ایما مجھے کہہ رہی ہے 
میں نے کاغذ پر سجائے ہیں جو تابوت نہ کھول 
لفظ جی اٹھے تو ، تو خوف سے مر جائے گا 


جمعرات، 2 جولائی، 2015

جیسا کرنا ویسا بھرنا

ارسطو نے کہا تھا ”ہماری خوشیوں اور مسرتوں کا انحصار ہماری اپنی ذات پر ہوتا ہے ۔“میں نے دوستوں کے نوحے کو مختصر کرنے کے لےے عرض کیا تو اچانک سناٹا چھا گیا۔ افطار کے مزے نیکیوں کے درس سے دوبالا کرنے کے لےے سنجیدہ فکر ماہر تعلیم چوہدری ثمین ثقافت نے تھنکرز فورم کڑیانوالہ کے اعزاز میں مکالمے کی محفل اور افطار ڈنر کا اہتمام کر رکھا تھا۔ چوہدری ثمین سیلم الطبع ماہر تعلیم اور سوشل ورکر ہیں اور گاہے بگاہے سماجی موضوعات پر بیٹھکوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ آج بھی موضوع رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مصنوعی مہنگائی کا طوفان تھا۔ مسلمانوں کے ملک میں نیکیوں کے موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی ہر کوئی دوسرے کی جیب کاٹ لینے کو اپنا فرض اوّلین سمجھتا ہے۔ معاشیات کے استاد پروفیسر تنویر احمد نوید نے اسے طلب و رسد کے دیرینہ فلسفے کے تناظر میں پرکھا تو سب نے ہاں میں ہاں ملانے سے گریز کیا۔ 

تھنکرز فورم کے راہنما اور ممتاز بینکار عاطف رزاق بٹ نے کہا کہ ہر کوئی مہنگائی میں حصہ ڈال رہا ہے۔ ہر کسی نے رمضان کی رحمتوں کو زحمتوں میں بدلنے کی ٹھان لی ہے۔ میں نے عرض کیا صرف دوسرے ہی ہمارے دشمن نہیں ہیںاور وہ ہی ہمیں نقصان نہیں پہنچاتے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے دشمن ہیں اور اپنا گڑھا خود کھودنے کے ماہر ہیں۔ 
سماجی برائیوں کا ایک تناظر یہ بھی ہے کہ انسان سمیت دنیا کی کوئی چیز بھی جیسا عمل کرتی ہے ، ویسا ہی اس کا ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم اپنے اردگرد بخوبی کر سکتے ہیں۔ ہم جو کچھ دیتے ہیںوہی پاتے ہیں، جیسا کرتے ہیں، ویسا ہی بھرتے ہیں۔ آپ زندگی کو جو کچھ دیں گے، زندگی وہی کچھ آپ کو لوٹائے گی۔ جب ہم سماج میں دوسروں کی برائیاں دیکھیں تواپنے گربیان میں بھی ضرور جھانکیں کہ کہیں دانستہ یا نادانستہ اس میں میرا کوئی عمل تو شامل نہیں کیونکہ آپ کے دینے کا عمل جوابی طور پر وہی کچھ وصول کرتا ہے جو کچھ آپ نے دیا ہوتا ہے۔ اس عمل میں کوئی کوتاہی نہیں ہو تی بلکہ مکمل مساوات ہوتی ہے اور یہی کائنات کا مسلمہ ریاضیاتی اور طبعیاتی اُصول ہے جس کی تردید ممکن نہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا قول ہے کہ ”زندگی کے ساتھ آپ جیساسلوک کروگے، یہ بھی آپ کےساتھ ویسا ہی سلوک کرے گی اور یہ برتاﺅ اسی پیمانے کے مطابق ہو گا جو آپ کے پاس ہے۔“جی ہاں ہر عمل کا نہ صرف ردعمل ہوتا ہے بلکہ عملاً وہ بالکل مساوی اور ویسا ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک گوالا کسی بیکری والے کو روزانہ ایک کلومکھن دیا کرتا تھا۔ بیکری والے کو ایک دن شک ہوا کہ مکھن ایک کلو سے کم ہوتا ہے اور یہ گوالا پورا تول کر نہیں دیتا۔ لہٰذا اس نے ایک روز مکھن کو ترازو میں تول کر دیکھا تو واقعی ایک کلو سے کافی کم تھا۔ بیکری والے نے گوالے کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا کہ یہ گوالا اتنے عرصے سے مجھے روازنہ ایک کلو مکھن فروخت کرتا تھا لیکن وہ پورا نہیں ہوتا، اس میں اتنا وزن کم ہوتا ہے۔ لہٰذا مجھے انصاف فراہم کیا جائے اور میرے نقصان کا ازالہ کروایا جائے جو اس نے اتنے عرصے میں مجھے پہنچایا ہے۔ عدالت نے گوالے کو طلب کر لیا اور تفتیش کی اور پوچھا کہ وہ ایسا کیوںکرتا ہے؟گوالے نے عدالت کو بتایا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں، میرے پاس ناپ تول کے لےے ترازو تو موجود ہے لیکن اصلی باٹ موجود نہیں جن سے میں وزن کر سکوں۔ اس مسئلے کا حل میں نے اس طرح نکالا کہ میں اس بیکری والے سے روازنہ ایک کلو ڈبل روٹی لے جاتا ہوں، میرے پاس اور تو کوئی پیمانہ نہیں ہوتا، لہٰذا میں اس ڈبل روٹی کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ کر مکھن کا وزن کر لیتا ہوں۔ جناب عالی!اگر مکھن کا وزن کم ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ یہ وزن تو خود اس بیکری والے نے کیا ہوتا ہے گوالے کا یہ جواب سن کر بیکری والے کا رنگ فق ہو گیا اور اسے جج کے فیصلے کے بغیر ہی ا نصاف مل گیا۔ “
یہ کائنات کے آفاقی اُصول عمل اور ردِ عمل کی واضع مثال ہے۔ ڈاکٹر شمشاد احمد شاہین نے فوراً لقمہ دیا۔ یہ بالکل سچ ہے کرنی کا پھل ہے ۔ ہم ہر لمحہ مثبت سوچ رہے ہوتے ہیں یا منفی۔ ہم اپنے دل و دماغ سے مثبت یا منفی احساسات خارج کر رہے ہوتے ہیں ہماری زندگی میں لاحق ہونے والے تمام عوامل کا انحصار ہمارے انہی خیالات و اعمال پر ہوتا ہے۔ ہم جس قسم کی سوچ یا عمل رکھتے ہیں ہمیں زندگی میں اسی قسم کے سلوک یا برتاﺅ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے عرض کیا بلاشبہ ہماری زندگی میں آنے والے تمام لوگ، تمام واقعات اور حادثات جن سے ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ عبارت ہے۔ وہ ہمارے خیال و اعمال کی ہی عکاسی کر رہا ہوتا ہے۔ ہم خود کم تولتے ہیں اور دوسروں سے پورے ناپ کی اُمید رکھتے ہیں جو کہ غیر فطری ہے ہماری زندگیوں میں ہونے والے واقعات کے خود بخود ہی رونما نہیں ہوتے بلکہ ہماری سوچوں اور اعمالات کے عین مطابق اور موافق ہوتے ہیں۔ ہمیں دوسروں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ خود کا احتساب کرنا زیادہ ضروری ہے۔ ہم کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طرح سماجی برائیوں میں حصہ دار ہوتے ہیں اور جب ان کا ردعمل وصول پاتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں ۔ یہ دھوکہ، یہ دکھ ، یہ غم خود ہم نے اپنے آپ کو دیا ہوتا ہے۔ ہم خود قصور وار ہوتے ہیں اور ملزم کسی کو گردانتے ہیں۔ 
افطار کی محفلوں میں بیٹھ کر سب سے بڑا موقع یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا حساب کریں، اپنے گربیان میں جھانکیں اور یہ دیکھیں کہ مجھ سے کسی کو کوئی تکلیف یا دکھ تو نہیں پہنچ رہا۔ ہمیں سچائی کو رہبر بنانا ہے حضرت عیسیٰ ؑ نے خوب کہا تھا کہ جب آپ سچائی کو اپنا لیں گے تو یہ آپ کو تمام مصائب سے نجات دلا دے گی۔ افطار کی گھڑیاں آن پہنچی تھیں مگر تمام احباب حسب روایت یہی کہنے لگے آخر اس کا حل کیا ہے۔ اللہ اکبر کے تشکر و اقرار سے قضا گونج اُٹھی تومیں نے مختصراً عرض کیا کہ فلاح و صلوةعرض کیا کہ فلاح وصلوة کی اس پکار پر کان دھر یںاور خود کو بدلنے کی سعی کریں۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ ”ہم دنیا میں جس نوع کی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں، دراصل ہمیں وہ تبدیلی سب سے پہلے اپنے اندر لانے کی ضرورت ہے۔ “

درددِل کے واسطے....


حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم سے پوچھا، اے اللہ کے رسول، کون سا کام افضل ہے۔ آپ نے فرمایا، اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں کوشش کرنا۔ حضرت ابو ذرؓ کہتے ہیں، میں نے پوچھا کون سا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ نے فرمایا جو اپنے آقا کے نزدیک سب سے عمدہ اور دام میں سب سے اونچا ہو۔ ابو ذرؓ کہتے ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول اگر میں کوئی بھی بھلا کام نہ کر سکوں؟ آپ نے فرمایا، لوگوں کو تم سے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ یہی تمہاری طرف سے تمہارے حق میں صدقہ قرار پائے گا“۔ 
بلا شبہ اسلام فلاح انسانیت کا ضامن ایک روحانی اور دنیاوی انقلاب تھا جس کی روح دوسروں کے لیے سلامتی، امن اور محبت کا ضامن ہونا ہے ۔ اسے ستم ظریفی کے علاوہ کیا کہیے کہ ہمارے ”عالموں“ نے اسے بند پانی کا تالاب بنا کر رکھ دیا ہے۔ اسلام عملی طور پر رحمت اللعالمین کی تحریک رحمة للعالمینی کا ہی نام ہے تاہم آج اس دین رحمت کے پیروکاروں کا رحمت و محبت سے تعلق کمزور ہو گیا ہے اور اس کمزوری نے محض عبادات کو ہی اسلام قرار دے رکھا ہے ۔ عبادات کی روح اور حقیقت و افادیت سے کوئی انکار نہیں، مگر یہ تسلیم و رضا جس بندگی کی تربیت کے لیے نظم کے طور پر فرض ہوئے وہ بندگی کہیں غائب ہو کر رہ گئی ہے، اور معاملات اور حسن معاملات جو دین کا غالب حصہ ہیں وہ ہماری تعلیمات اور عبادات کا حصہ نہیں رہیں۔ ہمارا دین اگر اسلام کے پانچ ستونوں نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور کلمے تک محدود سمجھا جائے تویہ دین کی آفاقیت نہیں ہو گی کیونکہ دین اسلام کی بنیاد فلاح انسانیت پر رکھی گئی ہے۔ عبادات میں خشوع و خضوع سے زیادہ فقہ کے قواعد و ضوابط کارنگ غالب آ گیا ہے اور ہماری عبادات ظاہر داری کا ایک کھوکھلا مظاہرہ بن کر رہ گئی ہیں۔ کوئی مسلمانوں کو یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ کیایہ ستون محض ہوا میں کھڑے ہیںیا ان کی بھی کوئی بنیادیں ہیں۔ پھر ستون تو کسی عمارت کے نیچے بنائے جاتے ہیں۔ آخر وہ عمارت کیا ہے، جس کے یہ ستون ہیں؟ ہمارے ہاں نہ تو علم اور روح کا ذکر ہوتاہے جن کا کام ان ستونوں کی بنیادوں کا ہے اور نہ ہی ان ستونوں کے اُوپر استوار ہونے والی اسلام کی اس عمارت کا نقشہ کھینچا جاتا ہے جو ایمان، محبت، خیر، صداقت اور امن کے ایوانوں پر مشتمل ہے۔ دین کے پانچوں ستون وہ احکامات ہیںجن پرصدق دِل سے عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ گستاخی معاف ! اسلام کے ان ستونوں پر معاملات کی ایک عمارت بھی ہے اور یہ ستون اس عمارت کے کھنڈرات نہیں ہیں۔ 
آج مسلمانوں کی حالت زار پر نظر ڈالیں تو یہ پانچوں ستون الگ الگ دائروں کی شکل میں نمایاں ہیں جن کا آپس میں کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا ہے اور نہ معاملات زندگی سے ۔اس طرح اسلام جیسا مکمل ضابطہ حیات جسے انسان اور انسانیت کو درپیش تمام معاملات حیات میں بہترین عملی راہنمائی مہیا کرنی تھی ، وہ اپنے پیروکاروں کو اس کی مثال نہیں بنا سکا۔ مسلمانوں کو عبادات کے ستونوں سے معاملات زندگی میں روشنی نہ ملی تو مسلمان صرف نام کا مسلمان بن کر رہ گئے اور آہستہ آہستہ ان عبادات سے بھی غافل اور بے پروا ہوتے چلے گئے ہیں۔ سادہ ترین مفہوم میں مسلمان کسی بھی معاشرے میں باعث رحمت انسان کا نام ہے۔ مسلمانوں کا رب رحمن و رحیم ہے، ان کا نبی رحمت للعالمین ہے اور اس کا قرآن تمام تر رحمت کا پیغام ہے۔ حدیث پاک ہے”لا یرحم اللہ من لا یرحم الناس“ یعنی جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتے۔ اچھے مسلمان کی نشانی ہی یہ بتائی گئی ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔ عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ اُنہوں نے کہا، نبی کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے کہا اے اللہ کے رسول سب سے اچھا آدمی کون ہے؟ رسول اللہ نے جواب دیا، جو انسانوں کو نفع پہنچانے میں سب سے آگے ہو“۔ 
آج امت مسلمہ کو جس تعلیم اور عمل کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ان کو یہی باور کرانا ہے کہ ان کا دین عبادات کے ستونوں پر سماج کی بہتری کی عمارت تعمیر کرتا ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے دن سب سے بڑا انعام اس کو ملے گا جس نے مسلمانوں اور عام انسانوں کی خوشی کے لےے کام کیا۔ زاہد خشک سے زیادہ مقام انسانوں سے محبت کرنے والوں کا ہے۔ سچا مسلمان اپنے سماج کا خیر خواہ ہوتا ہے وہ معاشرے کی بہتری کے لےے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتا۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اللہ تک پہنچنے کا راستہ اس کے انسانوں کے قلوب سے ہو کر جاتا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی ؒ کا قول ہے کہ” جب میں عرش خداوندی کے نزدیک پہنچا اور دریافت کیا کہ اللہ کہا ں ہے ؟ جواب ملا کہ اللہ میاں کو اہل زمین کے شکستہ قلوب میں تلاش کرو۔ “ آج ہم اردگرد مجبورو مقہور اور حقدار و ضرورتمند لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے سے زیادہ عمرہ پر جانے اور آنے کی خبروں پر خرچ کر دینے کو عبادت سمجھتے ہیں۔ اپنے گلی ، محلے اور شہر کے بے آسرا ، حاجت مندوں کی حاجت روا ئی کرنا کعبہ میں کھڑے ہو کر سیلفی بنانے سے کم لذت نہیں دیتا مگر اس کے احساس کے لےے جس ذوق جمال کی ضرورت ہے وہ آج کے مسلمان کا شیوہ کہاں۔۔۔۔ حضرت سری سقطی ؒ کا قول ہے حسن خلق یہ ہے کہ مخلوق خدا کو آزار نہ پہنچاﺅ اور لوگوں کی دی ہوئی تکالیف کو برداشت کرو۔ 
آج مسلمانوں کے لےے راہِ خیر یہی ہے کہ وہ باعث خیر بن جائیں۔ایک متحرک ، زندہ اور اجتہادی سماج کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں، حسن ِ عمل خلق عظیم ہے۔ حسن اخلاق ، دوسرے کے کام آنا اور معاشرتی معاملات میں حقوق العباد کا پورا کرنا بھی مسلمان کا خاصہ ہے۔ سماجی تعمیر و تطہیر میں صالح کردار مسلمان ہی حقیقی معنوں میں روح ایمانی کا حامل مسلمان ہے۔ انسانوں کو سکون و راحت پہنچانا، دوسروں کے کام آنا اور آسانیاں بانٹنا اگر باعث ثواب ہے تو دوسروں کی راہ میں روڑے اٹکانا، ان کے لےے مشکلات پید اکرنا، انہیں تکلیف پہنچانا عذاب ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ نے فرمایا”قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اسے دیا جائے گا جس نے دنیا میں انسانوں کو سب سے زیادہ عذاب دیا ہو۔ “
عزیز الدین نسفی ؒ کتاب الانسان الکامل میں نصیحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ریاضت و عبادات نام و نمود کے لےے نہیں کرنی چاہےے۔درویش کو چاہےے کہ بقدر ضرورت عبادت کرے اور خدا شناسی کے بعد طہارت نفس حاصل کرے اور دوسروں کے لےے آزارجاں نہ بنے بلکہ راحت رساں بنے کہ انسان کی نجات اسی میں ہے۔ انسانوں کو راحت پہنچانا سب سے بڑی عبادت ہے ۔
اسلام حقیقت میں تمام ترانسانیت پسندی ،انسان دوستی اور حسن خلق ہے۔ جب انسان اخلاق وکردار میں کمال حاصل کر لیتا ہے تو خلیفہ ¿ خدا بن جاتا ہے۔ آج اسلام کے حرکی تصور اور سماجی روح کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی آفاقیت مسلمانوں سے زمین پر فساد کرنے والوں کی شناخت سے بچنے اور امن، انسانیت اور محبت کا پیغام عام کرنے کا تقاضا کر رہی ہے۔ کاش ہم مسلمان دین کے پانچ بنیادی ستونوں پر حسن اخلاق اور معاشرتی فلاح کی جو عمارت کھڑی ہے اس پر طرف بھی توجہ دیں۔