منگل، 30 جون، 2015

کب ظلمت حاضر سے جان چھوٹے گی


Photograph by: Zubair Amanat

پاکستان کے ”روغن دماغ“ مالیاتی جادوگروں نے نئے مالی سال کے لےے نیا میزانیہ پیش کر کے ایک بار پھر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔یہ بجٹ حکمرانوں کے سیاسی مقاصد کے حصول کا معاشی ذریعہ ہے۔ اس بجٹ کا غیر جانبدارانہ اور حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ روایتی مالیاتی فکر کا عکاس ہے۔ اس میں معاشی و سماجی تبدیلی یا انقلاب کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ حکمرانوں نے اپنے ہمنوا طبقے کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری خوب نبھائی ہے۔ امیرطبقے کے لےے بہت کچھ ہے۔ اس نظام معیشت نے حقیقت میں امیر کے امیر تر ہونے اور غریب کے غریب ترہوتے جانے کے عمل کو اور تیز کر دیا ہے۔ سادہ ترین اور مختصر الفاظ میں یہ بجٹ معاشی شعور اور سماجی ترقی کا ضامن ہونے کی بجائے مالیاتی ماہرین کی پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر مزید بوجھ ڈالنے کی پالیسی اور غریبوں اور متوسط طبقے کی رہی سہی ہمت چوس لینے کی ماہرانہ چالوں کا مجموعہ ہے۔ بجٹ پر سب سے خوبصورت تبصرہ میرے ایک دوست نے خوب کیا کہ ”مرے کو مارے اسحا ق ڈار“اسی تبصرے نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبو ر کیا۔ 

پسماندگی اور غربت کے بڑھنے میں سرمایہ دارانہ تکنیکی مہارتوں کو بڑا دخل ہے۔ اس لےے بہت سے دانشوروںاورماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے مالیاتی جادوگرسرمایہ، تکنیکی مہارت اور ترقیاتی نظریہ بھی درآمد کرکے ہی کام چلا رہے ہیںاور ان کے اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کا پاکستان کے زمینی حقائق اور عوامی ترقی سے کوئی تعلق نہیں۔ مالیات اور اکاﺅنٹس کے ماہرین جب ملک کے عوام کے مقدر کے مالک بن جائیں تو حکمرانی مضبوط ہو سکتی ہے لیکن ریاست تحلیل ہو جاتی ہے۔ ملک کا پہلا بجٹ مشکل ترین معاشی حالات میں ایک ماہر معاشیات نے بنایا تھا تو اس نے ریاست کو درپیش خطرات کا ہوا کھڑا کرنے کی بجائے اپنے وژن سے خسارہ کے بغیر بجٹ پیش کیا تھا ۔لیکن جب سے وطن عزیز کی معاشی باگ ڈورمالیاتی ماہرین کے ہاتھوں میں آئی ہے ملک کو فیکٹری اور سیاست کو کاروبار سمجھ کر بجٹ سازی کی جانے لگی ہے۔ عوام محض شے بن کر رہ گئے ہیں۔ بجٹ میںانکو ”شہری“ کی بجائے نفع نقصان کے ترازو میں تولا جانے لگا ہے۔ کسی جمہوری اورفلاحی ریاست میں حکومت شہریوں کو آسانیاں فراہم کرنے کے عزم سے میزانےے بناتی ہے جن کا مقصد بنیادی انسانی ضرورتوں کے حوالے سے بجٹ بنانا ہے کیونکہ محض تیز رفتار ترقی عام لوگوں کی خوشحالی کا سبب نہیں بن سکتی۔
رابرٹ میکنامارا نے ستمبر1972ءمیں کہا تھا کہ ”ترقی پذیرممالک کی حکومتوں کے سامنے سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ اپنی ترقیاتی پالیسیوںکو اس طرح از سر نومرتب کریں کہ ان ممالک کے مفلس ترین لوگوںکے افلاس کا خاتمہ ہو سکے۔ یہ مقصدترقی کی مجموعی رفتارکوکم کےے بغیربھی حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کے لےے ضروری ہے کہ ترقیاتی مقاصد کا تعین ہی بنیادی انسانی ضروریات کی اصطلاح میں کیا جائے یعنی یہ مقاصد ضروری انسانی غذا، مکان، صحت عامہ، خواندگی اور روزگار کی فراہمی پر مبنی ہوں۔ اس حکمت عملی کی وجہ سے خواہ معیشت کے چند ایسے شعبوں کی ترقی کی رفتار قدرے کم ہو جائے جن سے محض اُونچے طبقے کے لوگ ہی مستفید ہوتے ہیں۔ سماجی اورمعاشی حکمت عملی میں یہ انقلاب بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کے بارے میں فیصلہ کرنا ترقی پذیر ممالک کا اپنا کام ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اس تبدیلی کے لےے عالی ہمتی اور بلند حوصلے کی ضرورت ہوگی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب اس کے سوا اور کوئی دانشمندانہ راہِ عمل نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ سماجی انصاف کی پالیسیوں کو بروئے کار لایا جائے ۔ جب امراءکی تعداد محدود ہو اور غریب اتنی بڑی اکثریت میںہوں اور جب ان دونوں طبقوں کے درمیان تفاوت کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتا جا رہا ہو تو جلد یا بدیر وہ وقت آ جاتا ہے جب بادل ِنخواستہ اس بات کا فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے کہ ضروری اصلاحات کے راستے کو اپنایا جائے یا بغاوت کے خطرے کو مول لیا جائے یہی سبب ہے کہ وہ پالیسیاں جن کا خصوصی مقصد یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے چالیس فیصد مفلس ترین لوگوں کی محرومیوں کو کم کیا جائے ، صرف کسی اُصول کی پیداوار ہی نہیں بلکہ دانشمندی کا تقاضا ہے۔ سماجی انصاف، اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ وقت کی اہم سیاسی ضرورت بھی ہے © ©۔ © ©“رابرٹ میکنارا ماراکی بات اپنی جگہ، ہمارے جیسے ممالک کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ان پاس و سائل ، تکینک، مہارت، تنظیم ، ترقیاتی سوچ یا جدید اداروں کی کمی ہے یا یہ کہ ان کے عوامل میں ترقی کی کوئی خواہش موجود نہیں بلکہ اصل مسئلہ ہے عالمگیر سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے مقامی حواری ان ممالک کا بد ترین استحصال کر رہے ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے یہ مقامی حواری، ممالک، اداروں اور افراد، ہر صورت میں موجود ہیں۔ انہیں غربت اور غربیوں سے کوئی غرض نہیں، دانشمندی ان کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
غربت ان کی گفتگو اور اعداد وشمار میںمحض ”چسکے“ اور ”تڑکے“ کے طور پر نمایاں ہوتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ غربیت کی جانب جانے والا راستہ ان کی مالیاتی پالیسیوں میں عدم مساوات کی شاہراہ سے ہو کر گذرتا ہے۔انہیں بخوبی ادراک ہے کہ پیداوار کی کم شرح از خود غربت میں اضافے کا موجب نہیں بنتی بلکہ اصل عامل یا محرک آمدنی کی تقسیم ہے۔ہمارے ہاں غربت میں روز بروز اضافے کی وجہ بڑے پیمانے پر آمدنی کی تقسیم میں اور مجمو عی طورپر عدم مساوات ہے ۔ غربت میں اضافے کے کچھ حصوں کو سماجی پالیسی خاص طور پر ہاﺅسنگ ، تعلیم، ہیلتھ کیئر اور پبلک ہیلتھ سیکڑ میں ناکامی سے بھی منسوب کیا جا سکتاہے۔ جہاں کثیر آمدن والا گروپ ان سہولتوں کے حصول کے لےے مارکیٹ کے نرخ برداشت کر سکتا ہے، وہیں غریب کو ان تمام سہولتوںسے محروم ہونا پڑا کیونکہ وہ ان کے مارکیٹ نرخ برداشت نہیں کر سکتا۔ بلاشبہ غربت کے حوالے سے ہمارے حالات مسلسل خراب ہوتے رہے ہیں اس لےے کہ یہاں ترقی کے فوائد غریبوں تک نہیں پہنچے۔ یہاں امیر طبقے کی آمدن بڑھتی ہی گئی ہے جبکہ غریب غریب تر ہوتا گیا ہے۔ غریبوں کے لےے پبلک سروس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، مگر ہمارے ہاں ریاست اور حکومت مسلسل اپنی سماجی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی روش اپنائے ہوئے ہے۔ تعلیم، ہیلتھ کیئر اور صحت عامہ کے شعبوں میں سرکاری دلچسپی کم سے کم ہوتی گئی ہے۔ حالیہ بجٹ میں بھی حکمرانوں نے غریبوں سے سوتیلا سلوک جاری رکھا ہے۔ تجارت پیشہ سرمایہ دارانہ فکر کامظہر موجودہ بجٹ طبقات میںفاصلے بڑھانے کا سبب بنے گا۔ یہ بجٹ اپنے ظاہری اوصاف اور پوشیدہ کمالات کی وجہ سے کسی طرح بھی عوام دوست نہیں ہے اس میں عوام ، ملازمین اور غرباءکے گرد شکنجہ اورکس دیا گیا ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ اس ملک کے غریب عوام سرمایہ داروں اور تاجروں سے عوام دوستی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ حیرت ہے گذشتہ دو اڑھائی عشروں میں سب سے زیادہ بجٹ پیش کرنے والے وزیر خزانہ آج بھی معاشی تباہی، دیوالیہ پن، ناگفتہ بہ حالات کا پرانا راگ الاپ رہے ہیں۔ بجٹ سے ایک روز قبل گذشتہ بجٹ میں مقررہ تمام اہداف میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں، یہ انکی وزارت اور حکومت کی ناکامی کامنہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ اپنے ہی مقررکردہ اہداف حاصل نہیں کر سکے ، کیا اس کے بعد نئے سال کے لےے اہداف مقرر کرنے اور تمنائیں بانٹنے کا ”کاروبار“ سینہ تان کر کرنے کا جواز تھا؟ نئے سراب، نئے دکھ، نئے مسائل یہی تو اگلے سال کے خطاب کے محاسن ہوں گے۔
غریبوں کو ”عطار کے لونڈوں“ سے دوا مانگنے کی بجائے خود آگاہی کی ضرورت ہے۔ وقت پکار پکار کہ غریبوں کو کہہ رہا ہے کہ
ستم زدوں کی تگ و دو سے رات ٹوٹے گی
کلی حیات کی قتل گاہ سے پھوٹے گی
زمام آئے گی محنت کشوں کے ہاتھوں میں
تب ہی تو ظلمت حاضر سے جان چھوٹے گی
خا ک میں لتھڑے، اپنے خوابوں کے خون میں نہلائے ہوئے غریب پاکستانیوں کو خود اپنی حالت تبدیل کرنے اور خود اپنے انداز سے احساس ذلت کا شعور جگانے کا شعور پید اکرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی بھٹکتی ہوئی اُمیدوںکو آرزﺅںکا گمان دینے کی ضرورت ہے۔ خوشحال مستقبل کے لےے روشنی کی ضرورتوں کو دوام بخشنے کی ضرورت ہے۔ روزو شب کی وحشتوں کا باب طویل ہوتا جا رہا ہے، حالات بتا رہے ہیں کہ آگے دھند اور پیچھے ریت ہے۔ غریبوں کے جذبات اور شعور کی گرمی سے ہی یہ یخ بستہ رات پگھل سکتی ہے۔ خواہشیں ذہن کی گونگی جسارتیں ہوتی ہیں، یہ مانگنے سے پوری نہیں ہو تیں۔ ہمیں انہیں ہواﺅں کے بادباںپر ہمتوں کے لہو سے لکھنا ہے۔ بصورت دیگر اپنی آرزو ¿ں کے لاشے اپنے کندھوں پر اُٹھائے اپنی آنے والی نسلوں کا مقدر سیاہ کرتے جانا ہے۔ آخر میں ضرورت سے زیادہ سمجھدار مالیاتی ماہرین اورحکمرانوں کو بس اتنا یاد دلانا ہے کہ میکس ویبر نے خوب کہا تھا کہ ”سیاست میں صرف دو ہی بڑے گناہ ہیں، حقیقت پسندی کا فقدان اور فیصلوں کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرنے کا فقدان۔“ہماری سیاست و معیشت پر اس کے اثرات مرتب ہونا لازم ہے۔ 


تعلیم ، بجٹ اور میڈیا


قومی تعمیر نو میں یونیورسٹیاں اہم وسیلہ ہوتی ہیں۔ سیاسی ، معاشی اور تہذیبی استحکام کے لیے قوموں کو علوم و فنون کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یونیورسٹیاں اس ضرورت کو پورا کرنے کا قومی فریضہ سر انجام دیتی ہیں۔ حقیقی یونیورسٹیاں معاشرے میں علم و دانش، مباحثے اورمکالمے کو فروغ دیتی ہیں تاکہ لوگ اپنے مسائل سے آگاہی اور انہیں حل کرنے میں لکیر کے فقیر نہ رہیں۔ اس طرح یونیورسٹیاں سماجی خدمت کے مختلف وسیلوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سماجی ترقی کا سبب بنتی ہیں۔ ترقی کا پائیدار عمل مادی سطح پر اس وقت تک شروع نہیں ہو سکتا جب تک اس بستی کے لوگوں میں فکری تبدیلیاں رونما نہ ہوں۔ تاہم فکری راہنمائی کی ذمہ داری بہر حال یونیورسٹیوں کو ہی ادا کرنی ہے ۔ خوش قسمتی سے یونیورسٹی آف گجرات اپنے اس مثبت کردار سے بخوبی آشنا ہے اور اپنے وژنری قائد ڈاکٹر ضیاءالقیوم کی راہبری میں روایتی درس گاہ سے بڑھ کرقومی دانش گاہ کا فریضہ ادا کرنے کی ثمر آور سعی میں مصروف عمل ہے ۔ اس بات کا شدید احساس و نشاط گذشتہ دنوں علوم ترجمہ کے ممتاز دانشور استاد ڈاکٹر غلام علی کے ہمراہ یونیورسٹی آف گجرات کے مرکزی آڈیٹوریم میں ”تعلیم، بجٹ اور میڈیا“کے موضوع پر منعقدہ فکر انگیز اور پر مسرت سیمینار میں ہوا۔
صدر شعبہ ¿ ڈاکٹر زاہد یوسف کی ولولہ انگیز قیادت میں جامعہ گجرات کا سنٹر فار میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ناطے ایسی سنجیدہ فکری نشستوں کا اہتمام کرتا رہتا ہے جس میں دانشوروں، صحافیوں اور میڈیا کے زعماﺅں کو طالبعلموں کے روبرو بٹھا کر عصری مسائل پر نتیجہ خیز مکالمہ کیا جا سکے اور طالبعلموں کو ابلاغ عامہ کے ماہرین کو براہ راست سننے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا جا سکے ۔
بجٹ کی آمد کے بعد گلی محلوں سے پارلیمنٹ تک ہر جگہ اس پر مختلف حوالوں سے گفتگو جاری ہے مگر بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص فنڈز و کردار پر سنجیدہ مکالمہ نہ میڈیا میں سننے کو ملا، نہ اخبارات میں پڑھنے کو، اس کمی کا ازالہ اس نشست میں ہوا جہاں پر مغز گفتگو نے کئی سوالوں کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے سوالوں کو جنم دے کر حاضرین کو سوچنے کے لیے بہت کچھ دیا۔ سیمینار کا آغاز نقاش سعید کی تلاوت قرآن حکیم اور رضوانہ کوثر کے ہدیہ نعت سے ہوا تو فضا میں علمیت کے ساتھ ساتھ روحانیت اور سنجیدگی کا تاثر بھی بڑھ گیا ۔ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر زاہد یوسف نے کہا کہ ہمارے ہاں تعلیمی ترقی کی راہ میں بڑی بڑی فکری و عملی رکاوٹیں ہمیشہ کھڑی رہی ہیں۔ تعلیم کی حالت زار پر بہت بات ہو چکی مگر پھر بھی اس لیے کہ شاید کچھ ”توجہ دلاﺅ“ قسم کی فکری ، قلمی اور بیانہ کاوشیں کبھی رنگ لے ہی آئیںاور ہمیں سوچنے اور سوال کرنے پر مجبور کر دیں۔ اس لیے یہ فریضہ ادا کرنے کی سعی کی گئی ہے ۔ تعلیمی شعبے پر وہ قومیں زیادہ سے زیادہ خرچ کرتی ہیں جنہیں ترقی کی آرزو اور خوشحالی کی امنگ ہو ۔ مہمان مقرر جواں عزم اور روشن خیال اینکر پرسن (دنیا ٹی وی ) محمد اجمل جامی نے کہا کہ اکیسویں صدی میں تعلیمی شعور اور آگہی ناگذیر ہے۔ تعلیم ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی۔ ہمارے حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم تعلیم کو اپنی ترقی کا محو بنا لیں ۔ ہمارے ہاں تعلیمی بجٹ آج بھی دو فیصد کے گرد گھومتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کے ذریعے تعلیمی بجٹ کے حوالے سے عوامی شعور اجاگر کیا جائے اور تعلیم و ترقی کے تعلق کو مربوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے آگاہی پیدا کی جائے۔ ترقی کا شعور فکری تبدیلیوں کے ساتھ مشروط ہے۔ یونیورسٹی آف گجرات کی معنی خیز، پاکستانیت اور پاکستان کے تقاضوں سے ہم آہنگ جراتمندانہ کاوش ہے۔ سیمینار کے مہمان اعزازDGPR کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر نے کہا کہ آج کے میڈیا کی دنیا میں صداقت، معروضیت، غیر جانبداری اور سنجیدگی کم ہوئی ہے ۔ میڈیا کے تعلیم جیسے اہم موضوع پر کردار کے حوالے سے آج کے سیمینار کے انعقاد پر منتظمین مبارکباد اور خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ آج کے میڈیا کے مسائل و مفادات نے اس کے فرائض اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں پر غلبہ حاصل کر لیا ہے اور صحافت ذرا پیچھے رہ گئی ہے ۔ کوئی قوم اس وقت تک ترقی کا دعویٰ نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ علمی ترقی کے اعلیٰ مدارج کو نہ چھو لے۔ آزادی اظہار ترقی یافتہ قوموں کا شیوہ ہے اور فرد کا بنیادی حق ہے۔ تعلیم سماجی شعور کا نام ہے۔ پاکستان میں تعلیم و صحت کے لیے بجٹ کو خاطر خواہ طور پر بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سیمینار کے مہمان خصوصی سینئر تجزیہ کار اور CPNE کے صدر مجیب الرحمن شامی تھے۔ شامی صاحب کے نقطہ ¿ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کا شمار ان چند خو ش قسمت دانشور صحافیوں میں ہوتا ہے جن کو خدا نے لکھنے اور بولنے دونوں نعمتوں سے نوازا۔ وہ بولتے ہوئے بلا تکان دلائل در دلائل دیے جاتے ہیں۔ مہمان خصوصی مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ پاکستان میں تعلیمی ترقی کے لیے میڈیا کا کردار بے پایاں اہمیت کا حامل ہے کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس ملک کے بجٹ کا کتنا حصہ تعلیمی شعبہ ¿ پر خرچ کیا جا رہا ہے ۔ اکیسویں صدی میڈیا کی صدی ہے ۔ ذرائع اطلاعات و نشریات برق رفتار بن چکے ہیں۔ میڈیا کی بنیادی ذمہ داری پاکستان کی تاریخ و مسائل کا صحیح ادراک کرنا اور اطلاعات کو عوام تک دیانتداری سے پہنچانا ہے۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے مگر حکومتی ناکامیاں ہمارے وسائل کو تباہ کر رہی ہیں۔ پاکستانی بجٹ میں تعلیم پر خرچ کی مد میں آہستگی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے۔ حکومت کو جلد بجٹ پر چار فیصد تک خرچ کرنا ہو گا ۔ جامعات اور تعلیمی اداروں کو صنعتوں کے ساتھ جڑنے کی ضرورت ہے ۔ صوبوں کو تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔ پاکستان میں ہر قسم کے وسائل موجود ہیں مگر سرکار اپنا حصہ وصول کرنے میں ناکام ہے۔ حکمرانوں کو خرچ کی رقم کم کرنے کی بجائے آمدن بڑھانے والے اعمال پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ میڈیا عوامی مسائل کے حوالے سے گفتگو کرتا ہے اسے تعلیم اور اس کی ترقی سے وابستہ مسائل پر اور زیادہ بات کرنا ہو گی ۔ جامعہ گجرات جیسی متحرک ، فعال اور شاندار یونیورسٹیاں ہی حقیقی جامعات ہیں۔ صدر محفل شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم نے کہا کہ تعلیمی ترقی کا حصول معاشرہ کی انقلابی کوششوں کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ تمام دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کا انحصار علم و تعلیم کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے ۔ شومئی قسمت ہمارے ہاں مجموعی پیداوار کا بہت کم حصہ تعلیمی ترقی پر خرچ کیا جاتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں تعلیمی ترقی کے لیے وسائل کی فراہمی کے اپنے اپنے منشور پر بھی عمل نہیں کر رہی رہیں۔ تعلیم پر اخراجات کو خرچ نہیں سرمایہ کاری سمجھا جانا چاہیے۔ تعلیمی نظام کو مربوط و مضبوط اور توانا ءبنانے کے لیے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے اپنا کردار پوری ذمہ داری سے ادا کرے۔ جامعات کو بھی سرکار پر انحصار کے ساتھ اپنے اپنے وسائل کو بڑھانے کے لیے انڈسٹری اکڈیمیا لنکجز کو عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ جامعہ گجرات کے اینڈوومنٹ فنڈ کے بڑھانے کے لیے سول سوسائٹی، تاجر برادری ، مخیر حضرات اور اوورسیز پاکستانیوں کے تعاون کو وسعت دیں گے۔ میڈیا کے دانشوروں کا جامعہ گجرات آنا اور سنٹر فار میڈیا سٹڈیز کا وقت کے تقاضوں کے مطابق سنجیدہ موضوع پر علمی نشست کا اہتمام کرنا لائق تحسین ہے ۔
سیمینار میں ابلاغیات کے اساتذہ ڈاکٹر محمد ارشد، زاہد بلال، محترمہ ثوبیہ عابد، ڈاکٹر لبنیٰ ، رخسانہ ریاض، عمیر احمد ، منعم شہزاد سمیت ماہرین تعلیم، تعلیمی منتظمین ،اساتذہ، اور طالبعلموں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ان کے فکر انگیز سوالات نے سیمینار کو حقیقی جہتوں کا پابند رکھا۔
ہمارے ملکی و قومی حالات کا تقاضا ہے کہ ہم تعلیم کو اپنی سب سے بڑی ترجیح بنا لیں۔ پوری قوم یک نکاتی ایجنڈا بنا لے کہ ہمیں پورے اخلاص سے انفرادی ، اجتماعی اور قومی وسائل کا بڑا حصہ صرف اور صرف تعلیم کے لیے وقف کرنا چاہیے۔ ہماری خوشحالی، ترقی اور سلامتی کی سب راہیں صرف تعلیم اور تعلیم ہی کھول سکتی ہے ۔ تعلیم سے بڑا پیداواری سیکٹر اور کوئی نہیں، اس کا ادراک ماہرین معاشیات کو بھی بخوبی ہے مگر ہمارے سرکاری و کاروباری مالیاتی ماہرین اس بارے میں تذبذب کا شکار ہیںجس کا اظہار ان کے اعداد و شمار کے سالانہ گورکھ دھندے سے ہر سال عیاں ہوتا ہے ۔ اپنے شہریوں کی تعلیم و صحت کا تحفظ و ترقی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں ہے ۔ بجٹ ریاست کے شہریوں کی ایسے ہی حوالوں سے خدمت کے لیے سالانہ میزانیے کا نام ہے جو حکمرانوں کے سیاسی منشور اور نصب العین کی تصویر پیش کرتا ہے ، اس تناظر میں صورتحال کسی طرح بھی قابل تحسین نہیں ہے۔ تعلیم کے لیے وقف بجٹ حکمرانوں کے انقلا بی نعروں قومی تقاضوں اور عوامی امنگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔ گذشتہ کئی سالوں سے سیاسی قائدین نے تعلیمی بجٹ کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کیا ۔گذشتہ انتخابات میں کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے تعلیمی بجٹ چار فیصد کرنے کا اعلان کیا تھا مگر تیسرا مسلسل بجٹ ہے حکمران جماعتیں اپنے ہی منشور کے مطابق عمل پیرا نہ ہو سکیں اور نہ ہی اپوزیشن نے اسے مخالفت برائے مخالفت کے پراپیگنڈے سے زیادہ اہمیت دی۔ اس صورتحال میں میڈیا کی بڑی ذمہ داری تعلیم کے بجٹ پر قومی جذبات کی عکاسی کرنا تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کسی سماج یا ملک میں میڈیا جس آزادی ، ذمہ داری اور ایمانداری سے معلومات پہنچاتا ہے ویسا ہی ذمہ دار ذہن و کردار پروان چڑھتا ہے۔ قوم کے مزاج اور کردار کا اعلیٰ ترین اظہار میڈیا ہی کے ذریعے ہوتا ہے ۔ تاہم حالیہ بجٹ میں تعلیم کے لیے وقف وسائل اور قومی ضرورتوں میں جو تفاوت ہے میڈیا اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ کسی نے بھی کوئی تحقیقی رپورٹ نہ دکھائی نہ شائع کی۔ اس احساس کا علمی تجزیہ کرنے اور تعلیم اور بجٹ کے حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کے لیے میڈیا کو جگانے کے لیے یونیورسٹی آف گجرات کا یہ سیمینار قوم کے جذبات کا آئینہ دار تھا۔ ایسے مکالمے ، مباحثے کی ذمہ داری کا فریضہ ایک دانش گاہ ادا کر رہی ہو تو یہ بھی قوم کے لیے نوید مسرت سے کم نہیں کہ اب جامعہ گجرات سے ”ضیائے قیوم“ کے انوار سے نئی روشنی پھیلنے لگی ہے ۔ مکالمے و مباحثے کی یہی فضا ہمارے زندہ ہونے کا اعلان بھی ہے اور آنے والے دنوں میں قوم کی علمی اور عملی راہنمائی کے لیے یونیورسٹی آف گجرات کے اگواکار ہونے کے دعوے کی تصدیق بھی ۔