جمعرات، 28 مئی، 2015

بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے تیرے


سیاست کس ہنر مندی سے سچائی چھپاتی ہے 
جیسے سسکیوں کے زخم شہنائی چھپاتی ہے 


نئے بجٹ کی آمد آمد ہے ۔ سرکار ”عوامی خدمت“ کے منشور پر عمل پیرا ہونے کے لیے گذشتہ سال کی کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اور لگ بھگ پانچ سو ارب کا مزید بوجھ عوام پر ڈالنے کے لیے وزارت خزانہ کے ماہرین نئی نئی تراکیب تلاش کرنے میں شب و روز مصروف ہیں۔ بجٹ سادہ ترین مفہوم میں سال بھر کا حکومتی میزانیہ ہوتا ہے ۔ اس میں آئندہ سال کے لیے حکومت کی مالی ضروریات کا تعین ہوتا ہے اور یہ اخراجات کیسے پورے کیے جائیں گے اس کے لیے اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔ ریاست کا بنیادی وظیفہ اپنے شہریوں کی صحت، تعلیم، زندگی ، روزگار ، خوراک اور بنیادی ضرورتوں کا تحفظ ہے ۔ حکومت ریاست کے ان وظائف کی ترجمانی کے لیے بجٹ بناتی ہے تاکہ ان مقاصد کا حصول ممکن ہو۔ اس تناظر میں بجٹ ہر سال عوام کے لیے مزید آسانیوں، تحفظات اور حقوق کا ضامن ہونا چاہیے۔ لیکن وطن عزیز میں تو جیسے گنگا الٹ ہی بہتی ہے، ہر سال بجٹ کی آمد پر عوام پریشان اور پشیمان ہوتے ہیں اور بجٹ عوام کی خدمت و تحفظ اور خوشحالی کی ضمانت فراہم کرنے کی بجائے ان پر زیادہ سے زیادہ مالی بوجھ ڈالنے کی چالاکیوں کا نام بن کر رہ گیا۔ ایسی حکومت جو گذشتہ سال کے اہداف کے حصول میں ناکام رہتی ہے وہ اعداد و شمار کا جال بجھا کر عوام کو اگلے سال کے سراب کے دہانے پر لے جاتی ہے ۔ مالیاتی جادوگر ظلم کی نئی نئی اقسام کی دریافت سے فائدہ اٹھا کر کبھی بلا واسطہ اور کبھی بالواسطہ ٹیکس لگانے کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔ بجٹ کے ایام میں وزارت خزانہ کے ماہرین بے مثال کامیابیوں کے دعوے کرتے ہیں، اعداد و شمار کا گورکھ دھندا عروج پر ہوتا ہے دایاں دکھا کر بائیں ہاتھ سے وار کرنے کی مہارت سے پورا فائدہ اٹھایا جاتا ہے ایسا صاف دکھائی دیتا ہے کہ :
شعبدہ بازوں نے پہنا ہے خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے، بدنام خرد ہوتا ہے 
جس ترقی کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے ، اس کی حقیقی تصویر بہت بھیانک ہے ۔ اعداد و شمار کی مدد سے دکھائی جانے والی سماجی تبدیلیوں کی حقیقت بڑے پیمانے پر کی جانے والی وہ فریب کاری ہے جس کا پردہ اب چاک ہو رہا ہے ۔ یہ دیکھ کر بہت صدمہ ہوتا ہے کہ اعداد کے ہیر پھیر میں الجھی ترقی کے نتائج بہت کم مثبت نکلے ہیں۔ مثلاً معاشی ترقی روزگار کے نئے وسائل پیدا کرنے کا ذریعہ بننی چاہیے تھی لیکن مجموعی طور پر بے روزگاری میں اضافہ ہوا، حکمرانوں کی خوش بیانیاں اپنی جگہ مگر گذشتہ سالوں میں جی ڈی پی کے گروتھ ریٹ کے مقررہ ہدف حاصل نہیں کیے جا سکے ۔ پچھلے سال جی ڈی پی کے گروتھ ریٹ کا ہدف پانچ فیصد سے زیادہ رکھا گیا جو تا حال اڑھائی فیصد تک ہے۔ زراعت ، برآمدات کسی شعبے میں بھی امید کی شمع روشن نہ ہو سکی۔ حکمرانوں کی خوش بختی کہ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتیں بہت کم ہوئیں۔ عالمی سطح پر معاشی حوالے سے کوئی بھونچال نہیں آیا، پھر بھی نئے بجٹ میں عوام کے لیے کسی خوشخبری کی توقع نہیں۔ انور مسعود نے خوب کہا تھا کہ
بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے تیرے
انوکھے انوکھے خسارے تیرے 
گرانی کی سوغات حاصل میرا 
محاصل تیرے ، گوشوارے تیرے 
تجھے کچھ غریبوں کی پرواہ نہیں
وڈیرے ہیں پیارے، دُلارے تیرے 
جیکب لیو نے کہا تھا کہ The budget is not just a collection of numbers, but an expression of our values and aspirations. اسی تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ ہماری بجٹ سازی کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں معاشی ترقی اور فروغ کے بے معنی اعداد و شمار نے قومی ثقافتی تشخص کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس نے ملک میں جمہوری اور شخصی آزادیوں کی ضمانت فراہم کرنے کی بجائے انہیں پامال ہونے دیا اور یہ ترقی اپنے جوہر میں عوام دشمن ثابت ہوئی ہے۔ ایوب خاں کے سبز انقلاب میں اس نے بائیس گھرانے پیدا کیے جن کا ملکی دولت کے 80 فیصد وسائل پر قبضہ تھا۔ بس ترقی اتنی ہوئی ہے کہ اب یہ گھرانے بائیس سو یا تین ہزار ہو گئے ہوں گے۔
وہ ستم ڈھائے ، مرے شہر پہ زرداروں نے 
اپنے ہی دل سے نظر اوڑھ کے چادر گذری
ترقی کی تمام اصلاحات صرف امراءکی جھولی میں چلی جاتی ہیں اور عوام کی اکثریت اس سے محروم رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ ترقی زمینی وسائل کا بھی تیزی سے خاتمہ کر رہی ہے، اس نے ماحول کو بھی برباد کر کے رکھ دیا ۔ اپنے حقیقی کردار میں یہ ترقی مقامی اور قومی سطح پر عوام کے مفادات کی محافظ نہیں بن سکی ۔ محض سرمایے اور سرمایے دار پر انحصار کرنے والا معاشی ماڈل کامیاب ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کی جگہ عوام کی شرکت اور مرکزیت پر مبنی معاشی ماڈل نہیں اپنایا جائے گا خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا ۔ انصاف پر مبنی پاکستان کا خواب صرف اسی صورت پورا ہو سکتا ہے کہ وسائل تک رسائی کے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔
صحرا میں پھول اور گلستاں میں دھول ہے 
جو چیز ہے یہاں وہ خلاف اصول ہے 
ان اصولوں کو درست کرنے کے لیے عوام کو ہی بیدار ہونا ہو گا ۔ وطن عزیز میں وسائل کی کمی نہیں، وسائل کے غلط استعمال سے یہ ثمر آور نہیں ہو پاتے ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کا معاملہ ہو تو حکمران وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں حالانکہ انکے اللے تللوں پر عوام کا پیسہ بے دریغ بہایا جاتا ہے ۔ سیکورٹی، پروٹوکول اور دیگر معاملات پر حکمران طبقے پر اربوں روپے ضائع کر دیے جاتے ہیں محلوں میں رہنے والے بادشاہوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ عوام کے خادمین کے روپ ایسے نہیں ہوتے بلکہ حضرت عمر فاروق ؓ و خلافت راشدہ کی مثالیں تو ایمان کامل کے حامل طبقے کے لیے ہی ہو سکتی ہیں۔ تاہم ابھی حال ہی میں یوراگوئے کے سبکدوش ہونے والے صدر ہوزے موجیکا کی مثال ہی کافی ہے وہ پانچ سال تک صدر رہے اور انہوں نے 5 سالوں میں یورا گوئے کی معیشت کو بہتر اور مستحکم کیا ۔ مگر شاہی محلات میں سرکاری اخراجات پر محفلیں سجا کر نہیں۔ انہوں نے نہ ہی بڑی بڑی گاڑیوں میں بڑے بڑے قافلوں میں سفر کیا بلکہ صدارتی محل کی بجائے دارالحکومت کے نواح میں چھوٹے سے ایک منزلہ مکان میں رہائش پذیر تھے اور اپنی پرانی فوکسی میں سفر کرتے تھے۔ ہوزے کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ اپنے یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے کے لیے سرکاری ملازم کو استعمال نہیں کرتے تھے اور ہر ماہ اپنے گھر سے پیدل نکل کر قریبی بنک کی قطار میں کھڑے ہو کر باری آنے پر بل جمع کرواتے تھے۔ ہوزے موجیکا جیسے حکمران ہی معاشی استحکام کی منزل پر پہنچتے ہیں۔ یہاں حکمرانوں اور ان کے اہل خانہ پر سالانہ جتنے اخراجات آتے ہیں وہ غریبوں پر لگائے جائیں تو پھر ہی یہاں ترقی اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے ۔ حقیقت پسندانہ، منطقی اور خدمت کے جمہوری تصور پر مبنی بجٹ بنانا ہی وزارت خزانہ کی ذمہ داری ہے مگر طبقاتی سوچ کے علمبردار ، تاجروں کے محافظ اور امیروں کے نمائندہ حکمرانوں کی موجودگی میںپاک سر زمین سونا اگلتی رہے تب بھی عوام کی تقدیر نہیں بدل سکتی ۔ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، عوامی خدمت اور عوامی شراکت کے تصور پر مبنی نظام حکمرانی اور بجٹ دینا ہو گا ۔ قوم کی مایوسی انتہا پر ہے۔ یہ کامل تباہی کا راستہ ہے یا پھر اپنا حق چھین کر آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کا سنہری موقع عوام کو سیاسی و سماجی بیداری اور ملی جذبے کے تحت حالات پر سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ سوال نہیں ہماری قوم کا نوحہ ہے اور میںاسی پر بات ختم کرنا چاہتا ہوںکہ اب ہر کسی کو سوچنا ہے۔
ان دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے 
یہ حسین کھیت پھٹا پڑتا ہے جو بن جن کا 
کس لیے ان میں فقط بھوک اُگا کرتی ہے 


بدھ، 27 مئی، 2015

ابن مریم ہوا کرے کوئی



اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور میں شاہ ولی اللہؒ کا ” فیوض الحرمین “ میں یہ قول پڑھ رہا تھا کہ” میں ایسے دور میں ہوں جو جہالت ، تعصب ، خواہش نفس کی پیروی اور ہر شخص کا اپنی ناقص رائے پر اترانے کا دور ہے “ اِدھر بات ختم ہوئی اُدھر میرا دروازہ کھلا اور صدا گونجی ، بتائیے ناں پاکستان اور پاکستانیت کے وکیل صاحب ! یہاں تو جابروں کی خدائی اور جبر کا راج ہے، بدکار نفرتوں کی سیاہ نے تاریکیوں کے ہرکارے بلا رکھے ہیں، نگار جہاں کے سارے خواب زخم زخم ہیں، سلامتی کی ساری اُمیدیں نقش برآب ہیں،میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو میرا دوست حسب معمول تلخی حیات کا جام نوش کیے ہوئے آپے سے باہر ہو رہا تھا۔ میں جانتا ہوں اس کے آباءنے ظہورِ پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب میں اپنا کاروبار تیا گ دیا اور اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے قائد اعظم کے پاکستان میں آ گئے تھے۔ حُب الوطنی اسکی گُھٹی میں ہے، اس نے علم کے حصول میں ساری توانائیاں صرف کیں اور با عزت روزگار میرٹ پر حاصل کیا۔ وہ عمومی معنوں میں ایک اہم ادارے کی اہم انتظامی پوسٹ پر فائز ہے۔ فرض شناسی اور حُسن انتظام اس کی شہرت ہے تو دیانتداری اور رزقِ حلال اس کا نصب العین ۔ وہ گذشتہ چند سالوں سے سرکاری ادارے کی اکلوتی تنخواہ پر گذارہ کرتے کرتے ہلکان ہو گیا ہے ، مجھے علم ہے اس نے دیانتداری کے شوق میں اپنی اور اہل خانہ کی آرزوں، تمناﺅں اور خواہشوں کا ہمیشہ خون کیا ہے۔ وہ اپنے ارمانوں کے لاشے اپنے کندھے پر اُٹھاتا رہا اور فطرت سلیم کے باعث سب کو قناعت اور شکر کے لیکچر دیتا رہتا ہے۔ گذشتہ سالوں میں اس نے بچوں کی بیماری سے گھروں کے کرائے تک کے عذاب سہے مگر حوصلہ نہیں ہارا۔ آج میرا یہ محب وطن دوست میرے سامنے بے ہمتی، مایوسی اور نفرتوں کی کرچیوں میں بٹا پڑا تھا۔ اسکی گفتگو وطن عزیز میں لہو روتی صبحوں اور دھواں اُگلتی راتوں کا ماتم کر رہی تھی۔ میں نے اسے بٹھایا، پانی پلایا اور شاہ ولی اللہؒ کا مذکورہ قول سنایا تو وہ تو تلملا اُٹھا، جی شیخ صاحب ،میری رائے ناقص ہو سکتی ہے مگر قوم کو شاہ ولی اللہ ؒ کا کہا پورا سچ سنائیے، آدھا نہیں۔ حجة اللہ البالغہ میں شاہ صاحب نے اپنے عہد کا جوتجزیہ کیا ہے اس کی بازگشت میں آج دھرا نے آیا ہوں۔ شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں ”یہ ٹیکس ہی ملک کی بربادی اور عوام کی بدحالی کا بہت بڑا سبب ہیں کیونکہ جو لوگ حکومت کی بات مانتے ہیں اور فرمانبرداری (ٹیکس دے کر ) دکھاتے ہیں ، وہ تو تباہ حال ہو رہے ہیں اور جو سرکش ہیں اور نادہندگان ، ان کے حوصلے بڑھتے رہتے ہیں۔ “میں نے اپنے دوست سے عرض کیا، جناب یہ تو غیر ملکی آقاﺅں کے حوالے سے ہے، اس نے پلٹ کر مجھے لاجواب کر دیا کہ ہمارے حکمرانوں میں اپنوں والی کون سی بات دکھائی دیتی ہے۔ یار میں گذشتہ چند سالوں میں ایمانداری سے تنخواہ پر گذارہ کرتے کرتے دس لاکھ سے زیادہ کا مقروض ہو گیا ہوں۔ گریڈ 20کی نوکری میں گھر کا چولہا جلانا مشکل ہوا ہوتا ہے۔ دیگر گھریلو ذمہ داریوں کے لےے بندوبست کیسے کروں۔اپنی زندگی تو جبرِ مسلسل کی طرح کاٹ لی  ہے ،کیااپنے بچوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم سے بھی محروم رکھوں۔ ریاست جو صحت و تعلیم کی ضامن ہے وہ مالیاتی جادوگروں کی منصوبہ بندیوں کے بغیر عوامی انقلاب کے بغیر تحلیل ہو گئی ہے۔ ریاست میرے بچوں کو وقت کے مطابق صحت و تعلیم کی ضمانت نہیں دے رہی، سب کچھ نجی طور پر کرنا پڑتا ہے۔ حکمران اتنے کج فہم ہیں کہ خود تو ریاستی فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہی نہیں تعلیم و صحت کے نجی مافیا پر بھی ان کا کوئی کنٹرول نہیں۔ میں اب تو اپنے بچوں کی فیسیوں کی ادائیگی سے بھی قاصر ہوں، میرا ماضی تو خود غرض حکمران مافیا نے چھین لیا، میراحال میرے اضطراب کی نذر ہو گیا ہے،کیا اب اپنا مستقبل بھی خود تباہ کر لوں۔ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم بھی نہ دلواﺅں اور اگر اچھے سکولوں میں بھیجوں تو فیسیں کیا وزیر خزانہ ادا کریں گے؟ کچھ سوچا تھا کہ چلیں تنخواہیں اگر حالات کی مطابقت سے بڑھیں گی تو کچھ تکلیف میں کمی ہو گی مگر ایسا بھی نہیں۔ گذشتہ ایک ، ڈیڑھ عشرے کے سرکاری ملازمین کو ایڈہاک ریلیف کے نام پر ”زکوٰة“ دے کر ٹرخایا جا رہا ہے۔ ان اضافوں کو بنیادی تنخواہ میں شامل نہیں کیا جاتا، ہاﺅس رینٹ و دیگر الاﺅنسز وقت کے ساتھ بڑھنے کی بجائے جمود کا شکا ر کر دیے گئے۔ جب سے میاں نواز شریف کی حکومت ہے پے سکیلز کی تبدیلی یا نظر ثانی پر کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں مگر ان کی آراء و تجاویز پر کوئی عمل نہیں کر رہا ہے۔ سُنا ہے اس بار بھی مالیاتی جادوگروں نے سرکاری ملازمین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اُونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ شیخ صاحب یہاں تو ہمیں مرنے والی آسوں کا خون بہا تک نہیں ملتا، جن کو ملتا ہے ان کو بھی وقت پر نہیں ملتا ، محنت کا اجر مل بھی جائے تو ایسے ملتا ہے جیسے قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے اورجو اصل ثواب ہے وہ پس نوشت ہو جائے۔ یہاں عوام کے گھروں میں صبح کا سورج نہیں نکلتا، نکلے بھی تو دیرسے نکلتا ہے۔ 

میں اپنے دوست کی باتیں سن کر سحر زدہ ہو گیا، پورا سچ، ایک سرکاری ملازم کیسے بولے، کیسے لکھے ؟میں سوچ رہا تھا جب حقدار کو حق وقت پر نہ ملے تو معاشرے کیسے زندہ رہ سکتے ہیں،حکمرانوں کے پاس دکھاوے کی معیشت کے لیے میٹرو بسوں کے منصوبے ہیں ، مگر ان پر بیٹھنے والوں کی اہلیت اور معیارِ زندگی کے لیے خزانہ خالی ہے
ابن مریم ہوا کرے کوئی 
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی 
سنا ہے وزیر خزانہ اسحا ق ڈار صاحب جون کے پہلے ہفتے میں44کھرب روپے کا بجٹ پیش کریں گے، اس میں سرمایہ داروں، صنعتکاروں، جاگیرداروں کے لیے تو سب کچھ ہو گا کہ یہ ان کے کاروباری و طبقاتی ساتھی ہیں، ٹرخایا جائے گا تو صرف سرکاری ملازمین کو، ہر سال "ایپکا" سٹرکوں پر رسوا ہوتی ہے مگر کوئی سننے والا نہیں، کیا وزیر اعظم صاحب کے سینے میں دل نہیں یا اس پر مہر لگ چکی ہے کہ غریبوں اور ملازموں کی کوئی صدا ان تک نہیں پہنچ پاتی، حکمرانوں کی مسلسل بے حسی نے اس معاشرے کو ریوڑ میں بدل دیا ہے ، متوسط طبقہ ختم ہو گیا ہے، امیر بے حس اور غریب احساس انسانیت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ نہ کسی میں شعور مدنیت بچا ہے نہ احساس وطن رہا ہے۔ معاشرت سے عاری معیشت کی چکی میں پستے پاکستانی دنیا بھر میں تماشہ بن کر رہ گئے ہیں۔ منافع خور حکمرانوں نے ریاست اور حکومت کا فرق مٹا کر ملک کو فیکٹری اور سیاست کو تجارت بنا کر رکھ دیا ہے۔ تمام قربانیاں عوام دیں ، تمام دکھ عوام جھیلیں، تنخواہیں اور الاﺅنسز جب چاہیں اور جتنے چاہیں پارلیمنٹیرینزکے بڑھیں۔ کیا ریاست اور کیا حکومت ۔۔۔بازیچہ اطفال معراج ہنر ٹھہرے ہیں ۔ کہیں فساد خلق کی سازش ،تو کہیں فروغ فتویٰ کی یورش، خستہ خالی میں گذرتے شادماں خواب و خیال، رسمِ آوارہ خرامی سے چھلکتے ماہ و سال۔۔۔کیا اس ملک میں اب حال کی نوحہ گری میں مبتلا بیمار دل، بھٹکتی آرزﺅں کی کرچیاں، عمر کی ریگ ِرواں پر مٹتے قدموں کے نشاں، جان بلب اُمیدیں، رائیگانی کا ملال، خزاں ہی خزاں رہ گئی ہے ۔بُری حکمرانی نے میرے دوست جیسے محب وطنوں اور سچے مسلمانوں کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ زورآور کی خدائی اور نادار کا رُتبہ کم ہو گا تو پاکستانیت دم توڑے گی ہی ناں۔۔۔ یہاں اب سفاک شکاریوں کی طاقت اور معصوم ہرنوں کی بے بسی کا میدان سجا ہوا ہے۔ میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے گذارش کروں گا کہ جناب عالی! سرکاری ملازمین کے حالات بدلے بغیر کسی مثبت تبدیلی کے نعرے کو حقیقت میں نہیں بدلا جا سکتا۔ سرکاری ملازمین پچھلے کئی سالوں سے تنخواہوں کے معاملے میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی خاموش ہیں۔ براہِ کرم ان کے پے سکیلوں پر نظر ثانی کریں، ان کے معیارِ زندگی پر توجہ دیں، ان کی تنخواہوں کو عصری معیشت سے ہم آہنگ کریں لیکن میرے جیسے قلمکار کے لفظوں میں اتنی طاقت کہاں کے وزارتِ خزانہ اور حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچ سکیں۔ میں اپنی بات اپنے دوست کی سنائی ہوئی کسی درد مند دِل رکھنے والے شاعر کی نظم پر کرتا ہوں
خزاں گذیدہ ہے گلشن، کوئی بہار نہیں 
خوشی کا رنگ یہاں، کوئی پائیدار نہیں 
ہیں اتنے گھاﺅ کہ ان کا کوئی شمار نہیں 
ترازو کوئی نہیں اور باٹ کوئی نہیں 
وہ کون ہے جو یہاں، اس زمین کے سینے پر 
غموں کی فصل اُگاتا ہے، رنج بانٹتا ہے؟

جمعہ، 22 مئی، 2015

اسلام اور سماج: جامعات کا کردار



اقوام کے سفرِ تاریخ میں ہر مرحلے پر کوئی نہ کوئی سوال ایسا ہوتا ہے جس سے محدود تناظر میں ہی سہی پوری معنویت اور اس کی سمتِ سفر وابستہ ہوتی ہے ۔ تاریخ دراصل ایسے ہی سوالوں کی دریافت ، ان کے درست جواب کی تلاش یا ان سے انحراف کرنے کی کوشش کا ایک مسلسل رزمیہ ہے۔ سوالوں کی انسانی کائنات میں یہ درمیدگی ہی دراصل انسانی معنویت کو زمانے کے دھارے میں یا مختلف مکانی تہذیبوں کے سانچے میں دریافت کرتے جانے یا اسے برقرار رکھنے کی صورت ہے ۔آج پوری امت کے سامنے یہ سوال کھڑا ہے کہ کیا سماج کی نصب العینی حرکت اور اس کے مقصود سے صرف ِنظر کر کے مظاہر کا مطالعہ اس کا کوئی فہم پیدا کر سکتا ہے ؟ ہمارے ہاں اسلام اور سماج کے مختلف پہلو ¶ں پر مناظرہ تو بہت ہو چکا، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سوال کے جواب کی تلاش کے لیے سنجیدہ مکالمے کا آغاز ہو سکے۔ مسلمانوں کے علمی تجربے اور اہل مغرب کے علمی کارناموں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ علم جس معاشرتی روایت میں جنم لیتا ہے وہ بالعموم اس کے دائرے سے باہر نہیں ہوتا، اس لیے لازم ہے کہ علوم کو اسلام کے سماجی تناظر میں بھی دیکھا جائے اور یہ تحقیق کی جائے کہ اس صورت میں ان کی موجودہ ہیئت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اسلام اور سماج کا علمی جائزہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان اس حد تک فطرتاً عمرانی الطبع ہے کہ بغیر سماج کے نہ تو وجود میں آسکتا ہے نہ باقی رہ سکتا ہے اور نہ ترقی کر سکتا ہے ۔ 
یونیورسٹیوں کا نصب العین موجودہ علم کی ترسیل، نئے علم کی تحقیق اور تجزیاتی و تخلیقی قوتوں کی آبیاری ہوتا ہے ۔ جامعات سماجی ترقی یا اس کے فقدان اور مجموعی طور پر معاشرے کی خواہشات ، مایوسیوں، تنازعات، طبقاتی ہیئت اور عمومی ذہنی ساخت کا پیمانہ ہوتی ہیں ۔ لیکن اسے بدقسمتی کے سوا کیا کہیے کہ ہماری یونیورسٹیوں میںیہ وظیفہ خال خال ہی انجام دیا جاتا ہے ۔ سائنسی تحقیق ہو یا فلسفیانہ، سماجی یا سیاسی مسائل ،ہمارے ہاں ان پر سنجیدہ مباحث کم یاب ہیں۔ ہماری دانش گاہیں حربی ثقافت و سماجی مسائل کی تربیت گاہوں میں بدل کر فکری بانجھ پن کا شکار ہیں۔ تاہم سنگلاخ صحراﺅں میں کہیں کہیں کوئی نخلستان بھی مل جاتا ہے جس کی ایک نمایاں مثال یونیورسٹی آف گجرات ہے ۔ اس کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر ضیاءالقیوم جیسے لوگوں کو خدا سلامت رکھے کہ ان کے ساتھ مل کر آدمی سوچتا ہے اور شکر کرتا ہے کہ کم از کم اسے اہل خیر سے ایک نسبت و نیاز تو حاصل ہے۔ ایسے ہی لوگ کسی نہ کسی درجے پر اسلامی سماج کی حقیقی روح کے مظاہر ہیں۔ ایسے پختہ فکر اور حسنِ عمل کے امتزاج کے حامل وائس چانسلر کا ”خطہ ¿یونان“ کی شہرت رکھنے والی سخنوروں کی بستی گجرات کے لیے ایک مثبت تہذیبی تجربہ ہے۔ انہوں نے علم و فکر اور تحقیق و دانش کے متوازن نظام تدریس و تعلیم سے جامعہ گجرات کو قومی امنگوں اور علمی آرزوں کی حامل دانش گاہ بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور اس سفر میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے ہوئے۔ دنیا بھر میں قدیم اور جدید جامعات اسی لیے فکر و علم کا مرکز رہی ہیں کہ ان میں آزادی فکر و اظہار کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، اسی آزاد فضا میں علم و آگہی کا چراغ روشن ہوتا ہے ۔ سب سے اہم قومی تقاضا اور عصری چیلنج یہی ہے کہ ہماری جامعات کو معاشرتی ترقی کے اداروں کے طور پر ابھرنا ہے ۔ اس بات کا شدید احساس جامعہ گجرات میں ”اسلام اور سماج: جامعات کا کردار“ کے موضوع پر منعقدہ علمی و فکری کانفرنس میں شرکت کر کے ہوا۔ رئیس الجامعہ کی راہنمائی اور فعال کردار کے حامل دانشور اساتذہ ڈاکٹر غلام علی، ڈاکٹر زاہد یوسف اور ڈاکٹر محمد نواز کی قیادت میں منعقدہ اس قومی کانفرنس میں حساس موضوع پر گفتگو کرنے والے سنجیدہ طبع دانشور وںکا اجتماع تھا۔ کلیدی خطبہ میں شریعہ ایپلٹ کورٹ کے جسٹس امریکہ و ملائیشیا سمیت دنیا بھر کے ممتاز عالمی اداروں میں تدریس و تحقیق کا وسیع تجربہ رکھنے والے اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئر مین ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ اسلامی معاشرہ کی تشکیل تفہیم و تعبیر میں علم نے ہمیشہ بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔علم ہی وہ کنجی ہے جو ہمارے لیے دینی و دنیاوی ترقی کے تمام قفل کھول سکتی ہے ۔مسلمانوں نے ترک علم کی راہوں پر چل کر جو نقصانات اٹھائے ہیں انہیں فراموش کر کے روح عصر سے ہم آہنگی کا طریقہ اپنایا جائے تو دور حاضر میں اسلام کے نظریہ ¿ علم کے حوالے سے جامعات کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے ۔ پچھلی دو صدیوں میں حفظ دین کی بہت کوششیں ہوئیں مگر دین کی اجتہادی روح کو کچل کر دین کی آفاقیت سے دوری ہی اختیار کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جامعات اپنے علمی کردار کے ذریعے پاکستان میں سماجی ترقی کے عمل کو تیز کرتے ہوئے ایک خوشحال اور پر امن قوم کی تشکیل میں مددگار ہو سکتی ہیں، ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد ضیاءالحق نے کہا کہ پاکستان تمام مسلم امہ کی امیدوں کا مرکز ہے طلباءو طالبات کی نوجوان نسل ہمارے مستقبل کی امین ہے جامعات اپنے سماجی کردار کو نبھاہتے ہوئے نئی نسل کی بہتر تعلیم و تربیت سے معاشرتی تبدیلی برپا کر سکتی ہیں۔ قومیں اس وقت تباہ ہو جاتی ہیں جب وہ مسائل سے پہلو تہی برتتی ہیں۔ پاکستان کا دستور اسلامی اور جمہوری ہے ۔مٹھی بھر انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اسلام کے نمائندہ بن کر اپنے طریقے سے اسکی تفہیم و تشریح کریں۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ و طالبعلموں نے معاشرہ کی تقدیر کو بدلنا ہے ہمیں دین و سیاست کو مدغم کرنے کی بجائے مختلف طبقات فکر کے مابین ایک صحت مند مکالمہ کو ترویج دینے کی ضرورت ہے اور جامعات یہ ذمہ داری بخوبی نبھا سکتی ہیں۔ ممتاز دانشور و کالم نگار خورشید ندیم نے کہا سماجی بدلاﺅ میں جامعات کی اثر پذیری آج ایک اہم سوال بن چکا ہے۔ جامعات اصلاً ارتقائے فکر کے ادارے ہیں یہی ادارے نوجوان نسل کی ذہنی و فکری آبیاری کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور علم کی تشکیل کر کے علم کا معیار مقرر کرتے ہیں۔ جب تک جامعات سماج میں اپنا کردار واضح کرنے کے قابل نہیں ہوتیں معاشرہ میں فکری قیادت کا بحران رہے گا ۔ علامہ رضاءالدین صدیقی کا کہنا تھا کہ اسلامی معاشرہ وحدت انسانیت کا درس دیتا ہے ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر رویوں میں تبدیلی لا نے کی ضرورت ہے ۔ مسلمان کا شیوہ ہے کہ وہ وقت سے پیچھے نہیں وقت سے آگے چلے ۔ مسلم معاشرہ کا مزاج کار ِ خیر کی تبلیغ ہے۔ علم ، عشق اور بصیرت سچے مسلمان کا طرہ ¿ امتیاز ہے ۔ ڈاکٹر سفیر اعوان نے کہا کہ جامعات کے کردار کو اجاگر کیے بغیر ہم سماجی ترقی کا خواب نہیں دیکھ سکتے ۔ انہوں نے ٹائن بی کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ معاشرتی ارتقاءو ترقی کا عمل ایک تخلیقی اقلیت کی بدولت جاری رہتا ہے ۔ پروفیسر احمد ندیم اسلامی معاشرہ کی تشکیلی بنیادوں پر جامع گفتگو کی اور کہا کہ جامعیت اور اعتدال اسلامی معاشرہ کے دو اہم عناصر ہیں، مسلم سماج میں وسعت نظر اور وسعت قلب پائی جاتی ہے مگر ہم صرف خشک ظاہریت کا شکار ہو کر مختلف مسائل کا شکار ہو گئے ہیں آج کا دور تلواروں کی جنگ کانہیں بیانیہ کی جنگ کاہے ۔پاکستانی سماج فہم کے بحران کا شکار ہو کر عدم اطمینانی کا لقمہ بنا ہوا ہے ۔ عقل مذہب سے متصادم نہیں بلکہ ایک جاری و ساری اصول ہے پاکستانی سماج میں مکالمہ کی ناگذیر ضرورت ہے ۔ کانفرنس کے چیئرپرسن ڈاکٹر ضیاءالقیوم نے منتظمین کو خراج تحسین پیش کیا کہ اہم موضوع پر کانفرنس منعقد کروائی اور کہا کہ جامعات کا اصل کام طلباءو طالبات کی سوچ، فکر اور شخصیت کی تعمیر ہے ۔ تحقیق و تجسس کے نئے تناظر میں جامعات میں اسلام اور سماج کے حوالہ سے بحث و مکالمہ کا آغاز پاکستانی سماج کو نئی رفعتوں سے آشنا کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ جدید تعلیم یافتہ افراد اور عام لوگوں میں جو تفاوت فکر پائی جاتی ہے اس کا واحد حل ان کے درمیان بامعنی مکالمہ ہے ۔ مغربی جامعات میں اسلام کے سماجی پہلوﺅں کا مطالعہ مخصوص تناظر میں ہو رہا ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری اپنی جامعات بھی نظری بحثوں تک محدو رہنے کی بجائے اسلامی فکر کے اطلاقی پہلووں پر بھی توجہ دیں، ہمیں مجتہدانہ بصیرت کی اشد ضرورت ہے ۔ لازم ہے کہ ہمارے معاشرے میں موجود مذہبی علوم کے ماہرین اور جامعات کے اساتذہ اور طلباءکے درمیان ابلاغ کو موثر بنایا جائے اور با معنی مکالمے کے عملِ مسلسل کو یقینی بناتے ہوئے اسلام اور سماج کے تعلق پر ایسے بیانیے تشکیل دیے جائیں جو ہمارے معاشروں میں موجودہ انتہا پسندی اور نفرت کا خاتمہ کرتے ہوئے م وثر اور بامعنی مکالمہ شروع کر سکیں۔ یونیورسٹی آف گجرات نے اس مکالمے کا آغاز کر کے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے تاہم یہ سلسلہ جاری رہے گا تب ہی ثمر آور ہو گا کہ

پت جھڑکی ہر ٹہنی لہو نشاں ہے 
اور انسانی معاشرہ جنگل نہیں کہ
خزاں کے بعد بہار کی آمد یقینی ہو 
انسانی اجتماع میں گل کا نصاب مقرر ہو 
جسے ادا کیے بغیر 
بہار کا امکان روشن نہیں ہوتا 


جمعہ، 15 مئی، 2015

قومی وحدت میں میڈیا کا کردار



اکثر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی قومی وحدت کے بحران کا شکار رہا ہے ۔ قدیم سماج اور جدید ریاست کے امتزاج کا حامل پاکستان ایک مرکب ملک اور ثقافتی تنوع کی حامل انتظامی وحدت ہے۔ اس قسم کی ریاستوں میں تعصبات کی موجودگی تعجب انگیز نہیں مگر ہمارے ہاں لمحہ فکریہ یہ ہے کہ یہاں تعصب نہ صرف حکومتوں اور عوامی اداروں میں دکھائی دیتا ہے بلکہ یہاں کے دانشوروں ، قلمکاروں، ماہرین عمرانیات و سماجیات اور میڈیا کو بھی اس میں فعال دلچسپی ہے ۔ قومی اکائی بہت سی متنوع انفرادیتوں کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ تاریخ عالم میں بہت کم ہوا ہے کہ کوئی قوم ایک مذہب کی پیرو ہو ، ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہو ، ایک ہی زبان ،ایک ہی لہجے میں بولتی ہو۔ لسانی و ثقافتی رنگا رنگی قومی وحدت کی طاقت ہوتی ہے ۔ قومی وحدت کا حقیقی مفہوم یہ نہیں کہ ہماری زبان ، ہماری نسل، ہمارا لباس ایک ہو بلکہ یہ ہے کہ ہمارا نصب العین، ہمارا منتہائے مقصود اور قومی سطح پر ہماری نفسیاتی فضا ایک ہو ۔ آزادی کے فوراً بعد ہمیں اس تنوع کا حقیقت پسندانہ تجزیہ ادراک کر لینا چاہیے تھا تاکہ تعمیر نو یا قومی ارتقاءکا آغاز ہو سکے مگر ایسا نہ ہوا ، ہمارے ارباب اختیار نے مذہب پر مبالغہ انگیز حد تک اصرار کر کے قومی وحدت مسلط کرنے کی بار ہا ناکام کوشش کی ۔ ایسی ہی غیر منطقی پالیسیوں کی وجہ سے آج تک ہم اپنے اپنے خول میں بیٹھے ایک دوسرے سے ہی چوکنے رہنے پر ساری توانائیاں صرف کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے درمیان بے اعتمادی بلکہ بد اعتمادی کی فضا قائم ہے اور قومی وحدت کا تصور المناک حد تک مجروح ہوا ہے ۔ قومی وحدت کی فضا یوں تو متعدد عناصر سے قائم ہوتی ہے مگر اس حوالے سے آج معاشرے کا سب سے م ¶ثر عنصر ہمارامیڈیا ہے۔ اس لیے کہ صحافی سب کچھ ہونے کے ساتھ تہذیبی کارکن بھی ہوتا ہے اور تہذیب ذہنی کیفیات کی شائستگی کا نام ہے اور ذمہ دار میڈیا حکمت عملیوں کی تکنیکی وضاحت اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے ہی کام نہیں لیتا ، وہ دلوں کی بولی بھی بولتا ہے ۔ لوگ توقع کرتے ہیں کہ آزاد، ذمہ دار اور متحرک میڈیا قومی وحدت کے تصور کو مسلمہ حقیقت میں بدل سکتا ہے ۔آزاد میڈیا نے بے شمار تضادات کے باوجود امریکہ کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ تعلیم و تبلیغ کے دوسرے ذرائع میں اتنی وسعت نہیں جتنی وسعت صحافت کی ہمہ گیری نے میڈیا کو دے دی ہے ۔ میڈیا کو بجا طور پر جمہوری اقدار کا محافظ، قانون کی سر بلندی کا حصار اور قومی ضمیر کا آئینہ دار گردانا جاتا ہے ۔ اب تو میڈیا نے خود کو ریاست کے چوتھے ستون کے طور پر بھی منوا لیا ہے۔ مقننہ قانون بناتی ہے، عدلیہ اس کی تشریح کرتی ہے، انتظامیہ اسے نافذ کرتی ہے اور میڈیا اس سارے عمل کے لیے رائے عامہ ہموار کرتا ہے ۔اسی اہمیت کے پیش نظر یونیورسٹی آف گجرات کے سنٹر فار میڈیا سٹڈیز نے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ سیمینار بعنوان” قومی وحدت میں میڈیا کا کردار:ذمہ داریاں اور مشکلات“کا خصوصی اہتمام کیا۔ اور اس میں مہمان مقرر کے طور پر قلم و قرطاس اور فکر و خیال کی طاقت کو معاشرتی تطہیر اور قومی وحدت کے لیے وقف کرنے والے، صحافت میں پاکستانی طرز احساس کے نمائندہ، دھیمے لہجے میں تلخ سچائی بیان کرنے میں کمال رکھنے والے سینئر صحافی سجاد میر کو مدعو کیا ۔ سیمینار کی صدارت قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار سے روشن ضمیر کے حامل سچے اور سُچے پاکستانی، شیخ الجامعہ دانش گاہ گجرات پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم نے کی۔ شعبہ ¿ ابلاغ عامہ کے سربراہ ڈاکٹر زاہد یوسف نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ قومی وحدت قوموں کے نصب العین کا نام ہے اور ابلاغیات کے دور حاضر میں کئی میدانوں میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے کیونکہ میڈیا عوامی رائے کو بنانے یا بگاڑنے کا کام سر انجام دے رہا ہے ۔ میڈیا مشکلات کے باوجود اپنا کردار ادا کر رہا ہے تاہم میڈیا کے ذمہ دارانہ کردار کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ سینئر صحافی سجاد میر کا کہنا تھا کہ صحافت ایک ذمہ دارانہ پیشہ ہے ، سچا صحافی معاشرہ میں اعلیٰ شعور و اقدار کو فروغ دے کر قومی وحدت کے پُر وقار جذبہ کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔ پاکستان کے قیام میں صحافیوں کی فکر و سعی نمایاں تھی۔ سر سید احمد خاں سے مولانا محمد علی جوہر تک صحافیوں نے پاکستانی طرز فکر کو فروغ دیا ، استحکام پاکستان کے لیے صحافیوں کو قومی ذمہ داریوں سے ہم آہنگ کردار ادا کرنا ہو گا ۔ میڈیا کا بنیادی فریضہ سماجی بیداری اور معاشرتی آگاہی پیدا کرنا اور قومی وحدت کے شعور کو بڑھاوا دینا ہے ۔عصر حاضر میں میڈیا سماج سازی سے قومی یکجہتی تک کے بہت سے کارنامے سر انجام دے رہا ہے۔ آزاد میڈیا وہ ہوتا ہے جو سچ کو بنیاد بنائے۔ میڈیا کی آزادی کے معنی میڈیا کی ذمہ داری کے ہیں۔ آج کل ابلاغی نظریہ جس طرح بنتا ہے یا خبر اور رپورٹ معرض وجود میں آتی ہے ، اس کے پس منظر میں جو قوتیں اور محرکات کار فرما ہوتے ہیں اور اس میں جو تکنیکی جبر مسلط ہوتا ہے اس نے میڈیا کے سارے مزاج کو بدل دیا ہے اور سچ ناپید ہو گیا ہے آج کمرشل ازم نے بزنس نیوز کو نیوز بزنس میںبدل دیا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال لوگوں کی سر زمین ہے لیکن بد قسمتی سے ہم عالمی شکنجوں میں جکڑی قوم بن چکے ہیں اور ہماری صحافت میں غیر ملکی کارپوریٹ سیکٹر کی کارفرمائیاں نمایاں ہیں۔ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ہندوستانی کارپوریٹ سیکٹر کی لڑائی کا میدان بنا ہوا ہے چنانچہ قومی وحدت میں ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کر پا رہا۔ اس شعبہ ¿ کی مشکلات اور ذمہ داریاں بھی بہت ہیں۔ ہمارے ہاں رد عمل کی کار گذاریوں نے جذباتیت اور انتہا پسندی کو بڑھایا جس نے قومی وحدت کو کمزور کیا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر غلام علی ، ڈاکٹر ارشد علی، پروفیسر زاہد بلال، پروفیسر ثوبیہ عابد، ڈاکٹر لبنیٰ، ڈاکٹر محمد نواز، محمد عمیر اور ریڈیو صحافت سے وابستہ منعم شہزاد نے بھی فکر انگیز گفتگو کی اور کہا کہ پاکستانی میڈیا ارتقائی مراحل میں ہے اس لیے کئی ابہامات کا شکار ہے ۔ ڈویلپمنٹ جرنلزم سے لیس ہو کر میڈیا قوم اور عوام کی بہتر خدمت کر سکتا ہے ۔ صحافت عوامی شعور کی بیداری میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ قلم و نظر کے حامل ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ معاشرتی بہتری اور قومی وحدت کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔ مکالمے کے داعی اور دانشور استاد، پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم وائس چانسلر یونیورسٹی آف گجرات نے صدارتی کلمات میں کہا کہ صحافت دراصل آزادی ¿ اظہار کا نام ہے ۔ آزاد مگر ذمہ دار میڈیا میں ہی سچ کی روایت کو پروان چڑھا کر پاکستان میں قومی یکجہتی کی بنیادوں کو مضبوط کیا جاسکتا ہے ۔ ایک سچا صحافی معاشرہ و قوم کے لیے دیدہ ¿ بینا کی حیثیت رکھتا ہے۔ میڈیا معاشرہ اور عوام کی سوچ کا آئینہ دار ہی نہیں ہوتا، اس کی راہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دیتا ہے۔ آج میڈیا معاشرتی سوچ کے دائروں کو متعین کرتا ہے چنانچہ کھرے اور سچے صحافیوں کی ذمہ داریاں بڑھ چکی ہیں۔ صاحب عمل اور پختہ عزم صحافی ہمارے لیے رول ماڈل ہیں۔ 1965ءکی جنگ کے ایام میں پاکستانی میڈیا کا کردار قومی تقاضوں سے ہم آہنگ تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی آزاد میڈیا نے قوم کو آگاہی کی نئی جہتوں سے متعارف کروایا۔ اکتوبر 2005ءمیں آنے والے زلزلے کے وقت بھی پاکستانی میڈیا نے قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں قابل تحسین کردار ادا کیا ۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے سما ج اور میڈیا کے درمیان کمرشل ازم نے ڈیرے لگا لیے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ کمرشل ازم نے میڈیا کے قلم و بیان کی رعنائی ، زیبائی اور خوبصورتی کو متاثر کیا ہے ۔ صحافی کے لیے لازم ہے کہ وہ کلمہ ¿ حق کا علمبردار ہو۔ بریکنگ نیوز نے قومی وحدت سمیت بہت سے تصورات کو بریک کیا ہے ۔ میڈیا کو ذاتی ، گروہی، علاقائی مفادات سے بالا تر ہو کر پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانی اور قومی تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ جامعہ گجرات کے شعبہ ابلاغ عامہ کے ڈاکٹر زاہد یوسف نے درد مند پاکستانی ہونی کے ناطے جس سنجیدہ مکالمے کا آغاز کیا ہے اسے جاری رہنا چاہیے۔ سجاد میر جیسے تجربہ کار صحافیوں سے مستقبل کے صحافیوں کی گفتگو اور مکالمہ مثبت اور ثمر آور نتائج کا حامل ہو گا ۔ ڈاکٹر ضیاءالقیوم نے کمال سنجیدگی سے فکر انگیز بات کہی کہ سماجی ذمہ داری کے نظریہ صحافت نے میڈیا کے کاندھوں پر بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے ۔ صحافت کو فلاح عامہ کا ضامن اور قومی امنگوں کا ترجمان ہونا چاہیے۔ جب تک صحافت سماج کے ساتھ نہیں ہو گی قومی وحدت سمیت بہتری کے امکانات کم رہیں گے ۔ 
یونیورسٹی آف گجرات اس وقت پاکستانیت کی حامل قومی دانش گاہ کا کردار جس وژن، درد مندی اور حب الوطنی سے ادا کر رہی ہے وہ قومی سطح پر مثالی اور خراج تحسین کا مستحق ہے۔ جواں عزم، دور اندیش اور وژنری قائد کے طور پر ڈاکٹر ضیاءالقیوم نے یونیورسٹی آف گجرات کو پاکستان کے روشن مستقبل کی ضامن دانش گاہ بنانے کے لیے جو متحرک، نتیجہ خیز اور دانشمندانہ علمی و تحقیقی فضاءقائم کی ہے وہی عصری قومی ضرورت اور روح عصر سے ہم آہنگ ہے ۔ حقیقت پسندانہ روشن خیال اور مستقبل شناس تعلیم و تدریس ہی قومی وحدت کی حقیقی ضامن ہے ۔ اسی کے ذریعے سچ اور سچائی پر مبنی صحافت و سیاست کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور یہی قومی وحدت کی منزل کا پائیدار راستہ ہے ۔ 

بدھ، 6 مئی، 2015

سائنس پر مسلمانوں کے اثرات

سائنس پر مسلمانوں کے اثرات
 اور احیائے نو کی ضرورت


تہذیب ایک سلسلہ زنجیر ہے جس کے سرے باہم مربوط ہیں اور ماضی بعید سے لے کر آج تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر تہذیب نے پہلی تہذیبوں سے استفادہ کیا ہے ۔ پرانی تہذیب سے اخذ کرنے کے بعد اس سلسلے سے اپنا تعلق قائم کیا ۔ چینی ، مصری، یونانی، رومی، اسلامی ، مغربی سبھی تہذیبوں پر اس امر کا اطلاق ہوتا ہے ۔یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یونانیوں نے سائنس کی ابتداءکی اور مغرب نے اس کو کمال تک پہنچایا۔ لیکن ان دونوں کڑیوں کے درمیان رابطہ کا کام مسلمانوں نے سر انجام دیا ۔ آج بھی مسلمانوں کو ترجمہ و تدوین کی اشد ضرورت ہے تاکہ سائنسی فکر کا احیاءہو سکے ۔یونیورسٹی آف گجرات کے مرکز برائے السنہ و علوم ترجمہ کے سربراہ ڈاکٹر غلام علی نے میرے گذشتہ روز کے کالم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا اور اس میں تراجم کی اہمیت پر خوب روشنی ڈالی تو شعبہ ¿ ابلاغ عامہ کے صدر ڈاکٹر زاہد یوسف نے بھی چائے کی پیالی نیچے رکھی اور بولے سائنس کسی خاص تمدن یا قوم کی میراث نہیں پھر بھی اہل یورپ کے مسلم سائنس دانوں نے سائنسی علوم و فنون میں جو قابل تحسین خدمات انجام دی ہیں اس کا اعتراف کھلے دل سے نہیں کیا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں علمی و سائنسی ترقی میں مسلمانوں کے کردار پر کھل کر بات کرنی چاہیے تاکہ ہمارے نوجوان اعتماد اور یقین کے ساتھ سائنسی علوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے اہل ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ سائنس و تحقیق کے شعبوں میں مسلمانوں کی شراکت کے بغیر مغرب آج کی کامرانیاں حاصل نہ کر پاتا ۔ اہل یورپ ایک عرصہ تک مسلمانوں و عربوں کے اکتشافات کو اپنی جانب منسوب کر کے دا د و تحسین حاصل کرتے رہے تاہم دور جدید کے یورپی محققین و سائنسدانوں نے ہی سائنسی پردہ چاک کیا اور مسلمانوں کے سائنسی علوم میں مثبت کردار کو سراہا ہے ۔سوویت یونین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کی اکتوبر 1976 کی رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ سوویت سائنسدانوں کو الفارابی کی کتاب Additional Knowledge میں ایسی Equation ملی ہے جس کے ذریعے لگ بھگ ایک ہزار سال قبل اسی عظیم سائنسدان نے سورج کی بے قاعدہ حرکت کو ثابت کیا ہے۔ فارابی نے اس کتاب میں چاند کی حرکات اور سیاروں کی حرکات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور یہ اس نے اس وقت دریافت کیا جب ابھی دور بین ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ جرمنی کی ممتاز سکالر ڈاکٹر سگرڈ ہنک نے اپنی کتاب ” دی سن آف اسلام“ میں مسلمانوں کی خدمات کا کھلا اعتراف کیا ہے ۔ محمد طفیل ہاشمی نے اپنی کتاب ”مسلمانوں کے سائنسی کارنامے“ میں بھی ان حوالوں پر روشنی ڈالی ہے ۔ الفونسو سادس کے 1085ءمیں قبضے کے بعد طیطلہ اسلامی و عربی ثقافت کا مسیحی اسپین اور یورپ میں تعارف کا ذریعہ بن گیا۔ انگریز ریاضی دان ایڈلارڈ آف باتھ اور پطرس الفونسی دو ایسے عالم تھے جنہوں نے بارہویں صدی کے نصف اول میں ہیئت و ریاضی پر شائع شدہ عربی کتابوں کو لاطینی زبان میں منتقل کیا ۔ طیطلہ کے اسقف رایموندو نے عربی سائنس کو یورپ میں متعارف کروانے کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جو تیرہویں صدی تک قائم رہا۔ اس ادارہ میں یہودی علماءنے اسلامی ریاضیات، فلکیات، طب ، کیمیا، طبعیات، فلسفہ و منطق پر لکھی گئی بہت سی کتابوں کے عبرانی، اسپانوی اور لاطینی زبانوں میں ترجمے کیے۔ بعد ازاں الفونسو العاشر نے مرسیہ میں ایک سائنسی ادارہ قائم کیا اور اس میں ابو بکر محمد بن احمد الرقوطی کو شعبہ ¿ ریاضی کا سربراہ بنایا گیا ۔ بارہویں صدی کے بعد اسلامی جامعات کی طرز پر یورپ میں تعلیمی درسگاہیں کھولی گئیں۔ ان اداروں کا نصاب قدیم اسلامی مصنفین کی کتابوں پر مشتمل تھا۔ اس دور میں کئی ماہرین سرقہ نے مسلمانوں کی کتابوں کے تراجم کو اپنی کتاب کے طور پر شائع کیا ۔ 
یورپ کو اسلامی طب سے آشنا کرنے والا پہلا طبیب قسطنطین افریقی ہے۔ اس نے سترہ سال تک عربی کتب کا لاطینی میں ترجمہ کیا ۔ ان ترجموں کو اس کی طبع زاد کتابوں کے طور پر شائع کیا جاتا رہا۔ ممتاز محقق Meyerhof لکھتا ہے کہ ”قسطنطین ایک بے حیا سارق تھا۔ اس نے عربی سے لاطینی میں ایک سے زائد ترجمے کیے اور ان کا خود اپنی تصنیف ہونا بیان کیا ۔“پھیپھڑوں میں گردش خون کی دریافت ولیم ہارفی سے منسوب ہے۔ حالانکہ اس سے چار سو سال پہلے دمشق کا عظیم طبیب علی بن ابی الخرم ابن النفیس اس حوالے سے تحقیق پیش کر چکا تھا۔ Dr Sigrid Hunke کے مطابق قطب نما کی ایجادFlavio Gioja کے نام ہے۔ حالانکہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ عرب گیارہویں صدی عیسویں میں اپنے بحری اسفار میں قطب نما استعمال کرتے تھے۔ مغرب میں بارود کی ایجاد راجر بیکن کی سمجھی جاتی ہے ۔ درحقیقت اس کی ایجادکا مآخذ سلیبان اور بریفالٹ کے مطابق عربی کتاب ”النیران المحرقہ للاعدائ“ تھی۔ جس میں بارود سازی کا نسخہ تحریر تھا۔ 
مسلمانوں کی سائنسی خدمات نے یورپ پر بہت اثرات مرتب کیے تھے ابو بکر محمد بن زکریا کی کتاب ”الجدری والحصبہ“ کے تراجم نے بہت فوائد پہنچائے اس کتاب سے پہلے پہل چیچک اور خسرہ کے بارے میں واضح معلومات ملتی ہیں۔ مغربی طب پر رازی کی کتاب ”الحاوی“ کے قابل ذکر اثرات کا تذکرہ مغربی قلمکاروں نے بھی بہت کیا ہے ۔ اسپین کے جراح ابو القاسم زھراوی کی کتاب ”التصریف لمن عجز عن التالیف فی قسم الجراحتہ“ یورپی دانشگاہوں میں مسلسل پڑھائی جاتی رہی۔ ماکس مائیروسوف نے عبدالملک بن زہر کی کتاب الیتسیر کے بارے میں لکھا ہے کہ ”یہ کتاب مسلمانوں میں اتنی مقبول نہیں ہوئی جتنی کہ یورپ میں مقبول ہوئی۔ ویانا اور فرینکفرٹ میں طبی نصاب ابن سینا کی ’القانون‘ اور امام رازی کی ’المنصوری‘ کی نویں کتاب پر مبنی تھا۔ ابن بیطار کی کتاب ”المفردات“ کے لاطینی زبان میں نسخے اٹھارویں صدی تک شائع ہوتے رہے۔ مسلم ہیئت دان ماشاءاللہ کی کتاب سابع و عشرین ازمنہ وسطیٰ کی مقبول کتابوں میں تھی۔ مسلم ماہر فلکیات ابو اسحاق ابراہیم بن یحییٰ زرقالی کی تحقیقات سے یورپین ماہرین نے خوب استفادہ کیا۔ اسی طرح زمین کے مرکز کائنات ہونے کے بطلیموسی نظریہ کو رد کرنے کا کریڈٹ سہولویںصدی میں کوپر نیکس کو حاصل ہوا۔ اس رد کی بنیاد بھی مسلمان سائنسدانوں نے ہی فراہم کی تھی۔ ابن ماجہ کی تصنیف”کتاب الحدائق“ میں بطلیموسی نظریہ پر سخت تنقید کی گئی ہے ۔ 
سائنسی علوم میں علم ریاضی بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ مسلمان ریاضی دانوں نے ہندی ارقام کی روشنی میں اعداد کے دو سلسلے بنائے تھے۔ گیارہویں صدی تک اہل یورپ صفر کے استعمال سے آشنا نہیں تھے۔ بارہویں صدی میں محمد بن موسی الخوارزمی کی” کتاب الحساب“ کا لاطینی میں ترجمہ ہوا تو اہل یورپ صفر سے آگاہ ہوئے۔ لیونارڈو فیبوچی نے خوارزمی کی کتاب الجبر و المقابلہ کا ترجمہ کر کے نظام اعشاریہ کو سارے یورپ میں قبولیت عام بخشی۔ اسی طرح جغرافیہ میں مسلمانوں کے کرویت ارض کے تصور کا بڑا چرچا رہا یہی وہ جغرافیائی نظریہ ہے جس کی بنیاد پر امریکہ کی دریافت ممکن ہو سکی۔ یورپ کو جغرافیہ کا علم شریف ادریسی کی کتاب ”نزھتہ المشتاق فی اختراق آلافاق“ کے لاطینی ترجمے سے ہوا۔ پروفیسر طفیل ہاشمی کے مطابق دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تلخیص کا مرتب ، مصنف کے نام سے بھی واقف نہ تھا ۔
میں بول رہا تھا کہ اچانک میری طویل گفتگو کو روکتے ہوئے ڈاکٹر زاہد یوسف نے سوال اٹھایا کہ سائنس کے میدانوں میں مسلمانوں کی ایسی سنہری خدمات ہیں تو پھر ہم نے کوئی نیوٹن، آئن سٹائن پیدا کیوں نہیں کیا .... ؟ میں نے گذارش کی بلا شبہ یہ امر باعث تشویش ہے کہ مسلمانوں کی علمی روایت مستحکم کیوں نہ ہو سکی ۔ مگر جہاں تک سائنس پر مسلمانوں کے اثرات کا تعلق ہے تو بریفالٹ نے زاہد یوسف صاحب کے سوال کا جواب بہت پہلے دیا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ”عربوں کے علم ہیئت نے کوئی کوپر نیکس اور نیوٹن پیدا نہیں کیا ۔ لیکن انہوں نے جو کچھ کیا، اس کے بغیر کوپرنیکس اور نیوٹن پیدا ہو ہی نہیں سکتے تھے“ ۔ بلا شبہ انسانی تہذیب کے ارتقاءمیں مسلمان سائنسدانوں نے بہت مثبت اور متحرک کردار ادا کیا ہے۔ یونانی تہذیب اناطولیہ کی تہذیب پر غالب آئی، یونانی تہذیب نے اس کو ترقی دی۔ بعد ازاں رومیوں نے یونانی تہذیب کو اپنایا۔ اسی طرح اسلامی تہذیب نے یونانی اور رومی تہذیبوںکو موت سے محفوظ رکھا اور انہیں نئی اور اعلیٰ تہذیب تک لائی ہے ۔ اب تہذیبی و علمی ارتقاءمیں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ہمیں ایک علمی نشاة ثانیہ کی ضرورت ہے۔ تخلیق و تحقیق کے عمل کے کمزور ہو جانے کے باعث ہمیں بے اعتماد ہو کر نہیں رہ جانا بلکہ تراجم کے ذریعے حرارت نو حاصل کرنی ہے عصری علوم سے آگاہی، سائنس و ٹیکنالوجی کی اسلامی فکر او رمسلم تحقیق کے چراغ کو روشن کرنا ہے اور انسانیت کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے ۔ میں نے ڈاکٹر غلام علی کے ملی جذبے کو سراہتے ہوئے عرض کیا کہ علم ترجمہ کی اہمیت ان قوموں کو زیادہ محسوس ہوتی ہے جو دنیا سے قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں ۔ ڈاکٹر غلام علی مرکز السنہ و علوم ترجمہ جامعہ گجرات کو اس عصری چیلنج سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ خدا کرے وہ جو نوید فکر دے رہے ہیں وہ ہمارے روشن مستقبل کی ضامن ہو ۔ ہم سب کا فرض ہے کہ نئی نسلوں کو اپنی علمی و سائنسی میراث سے آگاہ کریں۔ 


منگل، 5 مئی، 2015

مسلمان ....جاہل ،انتہا پسند یا علم دوست؟

مسلمان ....جاہل ،انتہا پسند یا علم دوست؟

Image Courtsey: MuslimHeritage.com (Ali Hasan Amro), page 89

مسلمان جاہل، بنیاد پرست اور دہشت گرد ہی کیوں ہوتے ہیں؟ یورپ اور امریکہ نے سائنس ،طب اور ٹیکنالوجی میں انسانوں کی حقیقی خدمت کی ہے ،مسلمان تو بس قتل کرتے ہیں، خون بہاتے ہیں، دھماکے کرتے ہیں.... یہی سچ ہے ناں بابا....؟ میرا بیٹا عبدالمعید سکول سے واپسی کے بعد مجھ پر سوال پر سوال داغے جا رہا تھا۔ میں نے بار ہا بتانے کی کوشش کی کہ نہیں بیٹا، مسلمان جاہل نہیں طلب علم سے مالا مال ہوتا ہے ، وہ بنیاد پرست نہیں صالح کردار اور روشن خیال کا حامل ہوتا ہے ۔ مسلمان پیغمبر رحمت کی تحریک رحمة للعالمینی کا علمبردار ہوتا ہے دہشت گرد نہیں۔ یورپ آج جس سائنس او رٹیکنالوجی پر نازاں ہے اس کی اساس اسلامی تعلیمات اور مسلمان دانشوروں کے علم و فکر نے ہی رکھی تھی ۔ عبدالمعید جو میری باتوں کا ہلکی طنزیہ مسکراہٹ سے انکار کر رہا تھا اچانک بول اٹھا نہیں ،بابا:”خطبے “کی ضرورت نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلمان تو ایک سوئی تک بنا نہیں سکے۔ آج میڈیکل سائنس میں جو حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے اس نے مغرب کی انسانیت دوستی کو ہماری روح کا قراربنا دیا ہے ۔ میں نے اپنے بیٹے کے دلائل کو رد کرنے کی بجائے اسے بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کی ابتداءمیں مسلمانوں کا کردار بھی کم نہیں رہا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مراکز صحت اور خیراتی ہسپتال سب سے پہلے عالم اسلام میں قائم کیے گئے۔ یہ ہسپتال بڑے وسیع و عریض تھے اور آج کے موجودہ ہسپتالوں کو بنیاد انہوں نے ہی فراہم کی ہے۔ منصوری ہسپتال جو قاہرہ میں تھا اس کا سالانہ خرچ دس لاکھ درہم تھا۔ نوری ہسپتال جو دمشق میں تھا اسے نورالدین الزنگی نے اس رقم سے قائم کیا تھا جو اس نے تاوان کے طور پر فرانس کے بادشاہ سے حاصل کی تھی۔ نویں صدی عیسوی میں جب مغربی ممالک میں ایک بھی ڈاکٹر نہ تھا اس وقت صرف بغداد میں 869 ڈاکٹر علاج معالجہ کرتے تھے۔ رازی اور ابن سینا کے مجسمے آج بھی پیرس اکیڈمی آف میڈیسن کی زینت بڑھا رہے ہیں ۔ پہلا ڈاکٹر جس نے ”دوران خون“ دریافت کیا وہ ابن النفیس تھا جس نے 1210ءمیں یہ دریافت کیا تھا۔ تیرھویں صدی میں دریافت ہونے والی دوران خون کے نظام سے مغرب والے 1924 ءمیں ایک اور مسلمان ڈاکٹر کے ذریعے ہی واقف ہوئے ورنہ یورپ والے تو صرف GALENکے نظام تک ہی محدود تھے۔ پہلا ڈاکٹر جس نے یہ دریافت کیا کہ پیدائش بچہ دانی کی حرکت سے وجود میں آتی ہے نہ کے بچے کی اپنی حرکات سے ، وہ ڈاکٹر علی ابن عباس تھا جو تیرھویں صدی میں ہو گزرا ہے ۔ پھوڑے اور گردن توڑ بخار کی تشخیص کے لیے ہم ابن سینا کے مرہون منت ہیں جو اس وقت سے آج تک ذرا نہیں بدلی۔ میں نے بیٹے کو مزید بتایا کہ ”الطبری“ وہ پہلا ڈاکٹر تھا جس نے طفیلی کیڑے کو شناخت کیا جس سے کھجلی اور جلد کی بیماری پیدا ہوتی ہے اس نے اس کا علاج بھی دریافت کیا۔ اندلس کا ابن زہر(Ibne Jassar) جو مغربی دنیا میں اوین زور کے نام سے جانا جاتا ہے ایک مسلمان سائنسدان تھا جس نے سب سے پہلے خشک اور تر ذات الجنب (Pleurisy) کی تشخیص کی، اس نے اس امر کا پتہ بھی لگایا کہ اس مرض کے مریض کو خون آور اور مصنوعی غذا فراہم کی جا سکتی ہے اور یہی پہلا شخص تھا جس نے سب سے پہلے پیٹ کے سرطان کی تشخیص کی ۔ مغرب کے شہنشاہMaxihilian نے جب یہ فرمان جاری کیا تھا کہ چیچک ایک خدائی عتاب اور سزا ہے اور جو اس بات پر یقین نہیں کرے گا اس پر کفر کا جرم عائد ہو گا اور سزا کے طور پر اس کے پاﺅں ٹھونک دیئے جائیں گے۔ ابن رشد اس سے دو صدیاں پہلے بتا چکا تھا کہ چیچک ایک چھوت کی بیماری ہے اور جسم سے اس کے زہر کو دور کیا جاسکتا ہے ۔ 
چیچک سے تحفظ کی دریافت مغرب میں اٹھارویں صدی میں ہوئی جبکہ مسلمان تیرھویں صدی میں یہ بات جان گئے تھے اور ایک مخصوص قسم کا مادہ (ویکسین) کے طور پر کلائی اور کہنی کے درمیان خراش ڈال کر لگایا کرتے تھے۔ اہل مغرب سولہویں صدی تک جذامیوں کو موت کے کیمپوں میں بھیج دیا کرتے تھے۔ ابن جسار نے جذام کی وجہ اور علاج پر نویں صدی میں کتاب لکھی تھی اور جذام کے مریضوں کا علاج خصوصی ہسپتالوں میں ہوتا تھا۔ مغرب والے تو طاعون کو عذاب سمجھتے تھے ابن حطیب نے غرناطہ میں چودہویں صدی میں تجربے و تحقیق ، طبی معائنے اور علامات کی بنیاد پر اس بات کا اظہار کر دیا تھا کہ یہ بیماری جسمانی رابطے سے پھیلتی ہے۔ عبدالمعید محو حیرت تھا اسے اس طرح دیکھ کر عبدالمقیت اور ننھی ارین فاطمہ بھی میرے ساتھ ساتھ تاریخ میں غوطہ زن ہو گئے۔ سناٹا طاری تھا میں نے جدید سکول کے طالبعلموں کو مزید بتایا کہ ابو القاسم نویں صدی میں اس سے واقف تھا کہ آپریشن کے وقت شریانوں کو کس طرح باندھا جاتا ہے اور وہ ٹانکے استعمال کرتے تھے جو آج بھی Fur Stich کہلاتے ہیں ۔ اسی طرح دو سوئیوں کے ٹانکے بھی استعمال کرتے تھے جو مغرب میں عربوں کے ذریعے چھ صدیوں بعد پہنچے۔ میں نے بتایا کہ مغرب نے سُن کرنے کی دوا اور بے ہوشی کی دوا 1844ءمیں دریافت کی تھی جبکہ نویں صدی عیسویں میں مسلمان ڈاکٹر خشک افیم میں ڈوبے ہوئے اسفنج استعمال کرتے تھے جنہیں موقع پر نم آلود کیا جاتا تھا اور مریض کی ناک پر رکھ دیا جاتا تھا۔ یہ تو طب کی باتیں ہیں۔ میرے بچے کھلی آنکھوں سے مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے مگر میں انہیں مزید حیران کرنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا آج مغرب ہمیں جدید راکٹ ٹیکنالوجی سے مرعوب کیے جا رہا ہے اس کا آغاز بھی مسلمانوں نے کیا ۔ بارود کے ذریعے دھکیل کر نشانہ لگانے کا خیال سب سے پہلے چین میں پیدا ہوا ۔ 1332ءمیں پین کنگ کی لڑائی کے موقع پر منگولوں کے خلاف چینیوں کوکچھ ایسے تیروں کا سامناکرنا پڑا جو کسی دھماکہ خیز مادے کے ذریعے دھکیل کر پھینکے جاتے تھے اور وہ مادہ شورے سے تیار کیا گیا تھا ۔ منگول خان کبلائی نے ان ہتھیاروں کا استعمال چینیوں کی مزاحمت روکنے کے لیے کیا اور یہ سب کس کی مدد سے کیا ۔ ؟یہ بات ہمیں مسلمان مورخ راشد الدین کی تحریروں سے پتہ چلتی ہے کہ کبلائی خان کی درخواست پر ایک مسلمان انجینئر دمشق بال بک سے وہاں بھیجاگیا اور اس کے بیٹوں ابوبکر، ابراہیم محمد اور دیگر نے مل کر سات بڑی مشینیں بنائیں اور چینی شہر کامحاصرہ کیا ۔ مصری کمانڈر فخر الدین نے فرانسیسی فوج کے خلاف بھی دھماکہ خیز مادوں کا استعمال کیا تھا ۔ یورپ میں اندلس کے عربوں نے سب سے پہلے توپ کا استعمال کیا ۔ علم فلکیات، علم کیمیا، علم طب و دیگر سائنسی علوم میں بھی مسلمانوں کے کارہائے نمایاں قابل فخر ہیں ۔
میں بڑے دھڑلے سے باتیں کیے جارہا تھا کہ اچانک عبدالمعید نے ایک بار پھر مجھے لاجواب کر دیا۔ اس نے کہا بابا، اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو پھرمیرے نصاب میں کیوں نہیں، میرے اساتذہ کیوں نہیں بتاتے، ہماری تاریخ کے اوراق میں ان باتوں کا ذکر کیوں نہیں؟ میرے پاس ان باتوں کا جواب نہیں تھا، ہمارے نصاب بنانے والے، ہمارے اساتذہ اور محکمہ تعلیم تاریخ کے یہ حقائق نئی نسل کو کیوں بتانا نہیں چاہتے ہیں ۔ یہ میرے بیٹے کا نہیں، آج کے ہر پڑھے لکھے نوجوان کا سوال ہے ....؟ جس کا جواب ہمیں بحیثیت قوم اور بحیثیت مسلمان دینا ہے ۔ تہذیبیں مٹتی رہتی ہیں ، تمدن دم توڑتے رہتے ہیں، لیکن ان کی ترقی پرور اور حیات افروز روایات ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ ہمیں نئی نسل کو اسلام کی روشن خیالی، علم دوستی، تحقیق کے ذوق اور انسانیت دوست اخلاقیات سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ ہمیں دہشت گرد کی بجائے علم دوست سمجھیں ۔ ہم جہلا کے وارث نہیں، علم و دانش کے علمبردار مسلمانوں کے وارث ہیں، ہمیں اپنی نسلوں کو اپنی تاریخ سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ مستقبل میں ”صراط مستقیم“ پر چل سکیں۔