جمعرات، 29 جنوری، 2015

علوم ترجمہ اور تحقیق

علوم ترجمہ اور تحقیق 



تاریخ شاہد ہے کہ علمی اداروں کے تحقیقی جریدوں کا باقاعدہ آغاز سترہویں صدی میں ہوا جب 5 جنوری 1665ءکو "des Scavans" نامی جریدے کا اجراء،ہوا پھر اس کے بعد اگلے سال سے رائل سوسائٹی آف لندن کے فلسفیانہ علمی مقالات کی روداد مطبوعہ صورت میں منظر عام پر آنے لگی۔ تب سے علم و تحقیق کے پھیلاﺅ اور فروغ میں تحقیقی مجلوں کی اہمیت نمایاں ہونے لگی۔ اٹھارویں صدی سے اکڈیمک جرنلز کسی موضوع پر علمی مقالات کا اہم مآخذو منبع اور دانش و تحقیق کی تشہیر اور فروغ کا موثر ترین ذریعہ سمجھے جاتے ہیں اسی لیے دنیا بھر میں جامعات کے معیار کی شناخت ان کے تحقیقی جریدے ہوتے ہیں۔ تحقیق یونیورسٹیوں کا بنیادی وظیفہ ہوتا ہے جامعات تحقیق کی ثقافت کی علمبردار ہوتی ہیں جہاں تحقیق تجسس کی رسمی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اساتذہ و محققین ذوق تجسس سے ہر وقت کسی مقصد کی ٹوہ میں مصروف عمل ہوتے ہیں ۔ Albert Szent Gyorgi نے کہا تھا کہ 
"Research is to see what every body else has seen, and to think what nobody else has thought"
یہ بات مجھے اس وقت خاص طور پر یاد آئی جب گذشتہ روز دانش گاہ گجرات کے مرکز السنہ و علوم ترجمہ (CeLTS) کے سربراہ پروفیسر غلام علی نے ”پاکستان جرنل آف لینگویجز اینڈ ٹرانسلیشن سٹڈیز“ کا نیا شمارہ برائے مطالعہ و تبصرہ پیش کیا اور سنٹر کی کارکردگی، مقاصد اور سکوپ پر خوب روشنی ڈالی۔ ان کی علمی گفتگو سے مجھے معلوم ہوا کہ Gregory Rabassa نے درست کہا تھا کہ 
Every act of Communication is an act of Translation
ترجمے کا شعبہ اقوام کی ترقی اور خوشحالی میں اہم ترین کردار کا حامل رہا ہے ۔ مسلمانوں کے شاندار ماضی کا بڑا حصہ تراجم کا مرہون منت ہے جس کے ذریعے یونانی حکمت اسلامی فکر کے ذریعے دنیا میں علوم کی ترقی کا سبب بنی۔ قوم سازی کے عمل اور کرہ ¿ ارض پر موجود اقوام عالم کے مابین ثقافتی مکالمے کے آغاز کے حوالے سے ترجمے کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ اسے ادارہ جاتی سرپرستی حاصل ہو۔ یونیورسٹی آف گجرات میں ڈیڑھ، دو سال قبل علوم ترجمہ کے فروغ کے لیے ”دارالسنہ و علوم ترجمہ“ کے نام سے ایک الگ مرکز قائم کرنے کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی۔ علوم ترجمہ دنیا میں ابھرتا ہوا شعبہ ¿ علم ہے ۔ اس کاتعلق ترجمے کے نظری، تشریحی اور اطلاقی مطالعے سے ہے ۔ پاکستان میں ترجمے کی قومی ، علاقائی اور عالمی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ آغاز سے ہی واضح تھا کہ اس مرکز کے پاس نمو اور ترقی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ تاہم انتہائی مختصر سے عرصے میں مضبوطی سے قدم جما لینا لائق تحسین ہے۔ اس مرکز نے قلیل مدت میں نہ صرف ”مترجم“ کے نام سے ایک میگزین جاری کیا بلکہ مرکز سے علوم ترجمہ کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تحقیقی مجلے کا قابل تعریف آغاز بھی کیا ۔ جامعہ گجرات سے ”پاکستان مجلہ برائے السنہ و علوم ترجمہ“ کا اجراءپوری قوم کے لیے باعث افتخار ہے ۔ اس مجلے کے دو شمارے منظر عام پر آچکے ہیں انہیں دیکھ کر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ معیاری تحقیقی مجلہ پاکستان میں عملی ترجمے اور شعبہ ¿ علوم ترجمہ میں تحقیق کے فروغ میں ثمر آور سبب ثابت ہو گا۔ ”پاکستان جرنل آف لینگویجز اینڈ ٹرانسلیشن سٹڈیز“ کے دوسرے شمارے کے آغاز میں ہی مدیر اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالقیوم شیخ الجامعہ گجرات نے اپنے پیغام میں واضح طور پر کہا ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی کا بنیادی کام تحقیقی سرگرمیوں کا فروغ ہے۔ اور ان کے بیان میں تحقیق و تعلیم کی نمو و ترقی کا عزم خوب جھلک رہا ہے ۔ اس تحقیقی مجلے کے دوسرے شمارے میں سات اہم مقالے شامل ہیں۔ پہلا مقالہ لیبیا کے ممتاز محقق Dr Yousaf Elarmil کا ہے۔ جس میں لیبیا میں عربی زبان کے صوتیاتی یا حلقی تبادل کا regressiveاورprogressive ساﺅنڈ سیگمنٹ کے تناظر میں سنجیدہ مطالعہ کیا گیا ہے ۔ دوسرے مقالہ میں ایرانی سکالرDr Fahimeh Nasseriنے فارسی سفر نامے اور ابتدائی دور جدید کے ادب کو عصری سیاسی پس منظر میں پیش کرنے کی عمدہ سعی کی ہے اور بتایا ہے کہ اس دور کے سفر ناموں اور ادب کے عہدوار مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ یورپی ممالک کو سلطنت عثمانیہ پر غلبہ پانے کے لیے ایران کی ضر ورت تھی اور اس ملک کے ساتھ تعلق سے انہیں تجارتی مفاد حاصل تھا تاہم انہوں نے ایران کو دبانے کے لیے اسے کم تر تصور کیا۔ تیسرا مقالہ سعودی عرب کے ماہر لسانیات Dr Mohmmad Al Zahravi کا ہے جس میں انہوں نے ماڈرن سٹینڈرڈ عربی کے منفی سابقوں، لاحقوں کی عمومی وضاحت کی ہے اور حجازی بول چال کی عربی کے منفی معنی کے حامل الفاظ کے مقابل اس صرفیاتی، صوتی یا شکلیاتی اثرات پر مرکوز مطالعہ ہے ۔ چوتھے مقالے میں یوکرائن کے Daria Moskvitina اور پاکستان کے ڈاکٹر قاسم بھگیو نے امریکی ڈرامہ نگار تھامس گاڈفرے کے المیہ ”پرنس آف پارتھیا “کے بطور ”امریکی ہیملٹ“ کے متون کا مطالعہ کیا ہے ۔ پانچویں مقالے میں پاکستانی متعلمین تلفظ کے حوالے سے لغوی استدلال کی تحریری اور زبانی کا ارشد محمود، ڈاکٹر محمد اقبال بٹ اور محمد عذیر نے تحقیقی مطالعہ کیا ہے ۔ تنزیلہ خاں اور معاونین نے پاکستان کی کثیر اللسان صورتحال میں دوسری زبانوں کی اجارہ داری کے مقابلے میں پنجابی زبان کی صورتحال کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ آخری مقالہ میں ڈاکٹر نگہت شکور نے انگریزی کی گلوبل ٹرانسلیشن کے ذریعے انٹرنیشنل لینگوافرانکا کے درجہ دیے جانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مقامی قومی زبانوں اور ثقافتوں کو غیر مستحکم کرنے میں ظاہری تضادات اور طریقوں کو بیان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ ترجمہ ہی عالمگیریت کا حقیقی انفرا سٹرکچر ہے اور یہی مقامی اور عالمی رابطے میں ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے ۔
 مختصر یہ کہ مجلہ اپنے مواد کے حوالے سے عالمی معیار کا تحقیقی مجلہ ہے جس پر مجلس ادارت اور شعبہ علوم ترجمہ مبارکباد اور تحسین کے حقدار ہیں۔ جامعہ گجرات کے مرکز السنہ و علوم ترجمہ کے اس تحقیقی مجلہ نے شروع میں ہی مختلف ممالک کے محققین، ماہرین لسانیات اور لکھنے والوں کی توجہ حاصل کر لی ہے ۔ یہ مجلہ مقالوں کی اشاعت میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے وضع کردہ معیار اور ہدایات کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ یہ مجلہ اپنی Transdiscipilinary حیثیت کی وجہ سے لسانیات، ادب ، تقابلی ادب، مشین لرننگ اور علوم ترجمہ کے شعبوں میں ہونے والی جدید تحقیق کے موضوعات کو موضوع بحث بنا رہا ہے ۔ یہ بات نہ صرف مجلہ کے لیے بلکہ جامعہ گجرات کے لیے باعث فخر ہے ۔ کینیڈا کے Dr. Luis Von Flotow، یوکے پروفیسر Dr Susan Bassnett امریکہ کے Dr Gaytri C. Spivak جیسے عالمی شہرت کے حامل ماہرین لسانیات، مفکر اور نظریہ کار اس مجلے کی ریویو کمیٹی میں شامل ہیں۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اس مجلہ کے دوسرے شمارے میں ہی دنیا بھر کے مختلف ممالک کے مقالہ نگاروں کی تحقیقات شامل ہیں۔ یہ مجلہ اپنی بین العلوم شناخت کی وجہ سے زبان و ادب اور ثقافت کے میدانوں کی کی جانے والی تحقیق میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ پاکستان جیسے کثیر اللسانی ملک میں جہاں کم و بیش چھ بڑی اور 59 چھوٹی زبانیں بولی جاتی ہیں مگر جہاں انگریزی سرکاری زبان اور اردو قومی زبان کے طور پر سرکاری و نجی سطحوں پر بولی ، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں لیکن تاحال ہم قومی اور عالمگیریت کی حامل زبان کا کردار قومی دھارے میں متعین نہیں کر سکے ۔ قومی زبانوں میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ادب و تحریر کی کمی قومی لسانی پالیسی کی راہ میں حائل اہم رکاوٹ ہے ۔ اسی صورتحال میں یونیورسٹی آف گجرات کا شعبہ ¿ علوم ترجمہ جامعہ اور اس میں ہونے والی تحقیقی سرگرمیوں کے ذریعے مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے درمیان مفید مکالمے کا مرکز بن کر قومی زبانوں اور علم کی ترسیل کا قومی مرکز بن سکتا ہے ۔ مرکز برائے السنہ و علوم ترجمہ دانش گاہ گجرات ترجمہ کاروں کو ترجمہ سے متعلق فلسفیانہ و فکری پس منظر سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر ترجمہ کی عملی مہارت میں بھی اضافہ کر رہا ہے ۔ سپریم کورٹ کی صوبائی لاءسیکرٹریوں کو جاری کردہ قوانین و قواعد و ضوابط کے اردو ترجمے کی ہدایات کی روشنی میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں، آئین قانون اور عدالتی فیصلوں کے قومی زبان میں ترجمے کے لیے یونیورسٹی آف گجرات کے علوم ترجمہ کے مرکز سے اشتراک کر کے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ایسے مراکز ہی پیشہ وارانہ اخلاقیات اور مہارتوں کے حامل مترجم فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر حکومتیں اور جامعہ گجرات مل کر قومی قوانین کے اردو ترجمے کا فریضہ انجام دے دیں تو پاکستان کے آئین میں قومی زبان کا جو مسئلہ ہے وہ بھی حل ہو سکتا ہے ۔ 

اتوار، 18 جنوری، 2015

دانش گاہ گجرات میں نئے عہد کا آغاز



مشہور فلمسازEliseo Subiela'a کی کلاسےک اطالوی فلم "No Mires Para Abajo" یعنی ’حقارت سے مت دیکھو‘ کا اختتام Eloy کے ان تاثرات پر ہوتا ہے کہ ’سب سے اہم بات یہ تھی کہ میرے باپ نے میرا ہاتھ پکڑا او رکہا، اپنی ساری زندگی تم خدا حافظ کہتے رہو گے۔ اسے یوں نہ لینا کہ تم محبت کرنا چھوڑ دو‘۔ اکتوبر 2014کے وسط میں جب جامعہ گجرات کے ہر دلعزیز وائس چانسلر ڈاکٹر محمد نظام الدین کے اعزاز میں منعقدہ الوداعی تقریب ختم ہوئی تو اس کے بعد میں چوہدری اختر وڑائچ، فیصل اقبال، حسن رضا، علی حماد جعفری و دیگر دوست انہیں رخصت کرنے گھر تک گئے تو ہمیں ڈاکٹر نظام الدین نے کچھ ایسی ہی نصیحت کی تھی کہ خدا حافظ اپنی جگہ یونیورسٹی آف گجرات سے محبت جاری رہنی چاہیے۔ خدا حافظ اور خوش آمدید دونوں ناگذیر انسانی خاصے ہیں۔ تاہم جو ناگذیریت پر سوال نہیں اٹھاتے، وہ آغوش کائنات میں تسکین پاتے ہیں۔ خدا حافظ اور خوش آمدید کے بغیر یہ دنیا بھلا کوئی دنیا ہے ۔ اس کے بغیر تو یہ Saramago کی 'Death of Interval' میں متذکرہ دنیا کی طرح ہو گی جو لافانی ہوتے ہوئے بھی تباہی کے دہانے پر موجود ہے ۔ جی ہاں فقط ہیرا کلیٹس کے متقابل”مستقل تغیر پذیری“ کے فلسفے کے بغیر زینو کے ناخوشگوار، غیر ہموار، بدبودار فلسفے کی طرح.... میں گذشتہ ایک ماہ سے خیالات کی ایسی ہی مبہم کشمکش میں مبتلا ہوں۔ کئی دنوں سے فیصل اور حسن رضا اصرار کر رہے ہیں کہ شیخ صاحب ، جامعہ گجرات میں آنے والی نئی روشنی کا تحریری خیر مقدم کریں۔ 
2004ءمیں یونیورسٹی آف گجرات کا قیام عمل میں آیا تو قدرت اس پر مہربان تھی اس نے ابتداءہی سے ڈاکٹر امتیاز احمد چیمہ جیسے ماہر تعلیم کو اس کی قیادت سونپ کر اسے امتیاز بخشاپھر اس جامعہ کو ایک ایسے نظام کی ضرورت محسوس ہوئی جو اس امتیاز کو وجہ ¿ افتخار بنا دے۔ اس کے لیے 2006 ءمیں ڈاکٹر محمد نظام الدین فضل ربی بن کر آئے۔ 2014ءمیں ستارہ ¿ امتیاز کے حقدار ٹھہرنے والے نظام کی تفہیم کے وقت اس جامعہ کی زمام کار ڈاکٹر محمد فہیم ملک کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ تفہیم جب تفریق میں بدلنے لگی تو قدرت اس یونیورسٹی پر ایک بار پھر مہربان ٹھہری اور نا امیدی کو امید میں بدلنے کے لیے ضیائے قیوم سے نوازا۔ 
یونیورسٹی آف گجرات کا مین کیمپس مغلیہ عہد کے جس صوفی دانشور حافظ حیات ؑکے نام سے منسوب ہے اس کی روحانی برکت ہی ہے کہ قدرت اس ادارے پر مہربان ہے۔ میرا لگ بھگ ایک عشرے کا تجربہ ہے کہ یہ یونیورسٹی درو دیوار اور اساتذہ و طلبہ کے اجسام کا ہی مجموعہ نہیں ہے ،اس کے جسم میں صوفیانہ علم و دانش کی روح بھی متحرک ہے اور جب جب مشکل پیش آتی ہے روحانی قوتیںاس ادارے کی ترقی کے لیے دیدہ و نادیدہ معاونت کا اہتمام کرتی ہیں اس جامعہ کی حالیہ قیادت کے چناﺅ میں بھی یہ حقیقت پنہاں نظر آتی ہے ۔ ڈاکٹر نظام الدین جیسی حلیم الطبع، وژنری شخصیت کے جانے کے بعد ادارے کے استحکام اور ترقی کے لیے ایسی پائیدار روشنی کی ضرورت تھی ۔ جو مرکز اختصاص فضیلت کی جانب سفر کی راہ کو صالح فکر و عمل سے منور کردے۔ ایسی ہی امید ، تمنا، آرزو اور ارمانوں کا گلدستہ لیے 18 دسمبر 2014 کی صبح ہم نے جواں عزم، خوش فکر اور خوش شکل ڈاکٹر ضیاءالقیوم کا بطور رئیس الجامعہ گجرات استقبال کیا ۔ پہلی ملاقات میں ان کی شخصیت و خیالات متاثر کن لگے۔ نفیس الطبع، خوش لباس ڈاکٹر ضیاءالقیوم کی گفتگو، تہذیب و شائستگی کی اقدار کی مہک لیے ہوئے تھی۔ ان کے الفاظ تصنوع، بناوٹ اور نمائش کی بجائے فکر و تدبر، عزم و حوصلہ اور کچھ کرنے کی لگن کے عکاس تھے ۔ بلا شبہ وہ عالی ظرف شخصیت کے حامل ، دانش گاہ گجرات کی علمی و ادبی اور تدریسی و تحقیقی روایات کے قابل قدر وارث دکھائی دے رہے تھے۔ سخنوروں کی بستی، بہادروں، محب وطنوں اور وفاﺅں کے امین مہمان نواز شہر گجرات میں آمد پر ہم دوستوں نے دل ہی دل میں انہیں خوش آمدید کہا۔ انہیں دیکھا، ان سے ملے تو جامعہ گجرات کے نئے وائس چانسلر کی حیثیت سے ڈاکٹر ضیاءالقیوم کی تعیناتی مثبت تبدیلی کی نئی فضاﺅںکے لیے ڈھارس بندھانے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارے ادارے میں امید کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ 
ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی مشہور نظم East Coker کا آغاز کچھ اس طرح سے کیا ہے کہ "In my beginning is my end"۔ ”یعنی میرے آغاز میں میرا اختتام ہے ۔ اسی طرح کی اور بھی مشہور کہاوتیں ہیں مثلاً ہر آغاز مشکل ہوتا ہے اور "Well begun is half done" ۔ جامعہ گجرات کے نئے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاءالقیوم کی پہلی باقاعدہ سینئر سٹاف میٹنگ میں ان کے فکر انگیز خطاب نے یہ ظاہر کیا کہ وہ باریک بیں سکالر، وژنری منتظم، تجربہ کار استاد، اور دل و دماغ کے امتزاج کی حامل بصیرت اور بصارت رکھنے والے سربراہ ¿ ادارہ اور سنجیدہ فکر ، پاکباز، مزاح کی حس رکھنے والے انسان ہیں۔ ان میں ایسا سب کچھ دکھائی دیتا ہے جو کسی بھی دانش گاہ کے سربراہ میں ہونا چاہیے۔ ایک ماہ کے عرصہ میں انہوں نے دھیمے انداز اور سلجھے مزاج سے جس طرح پھونک پھونک کر وسائل و مسائل کا ادراک حاصل کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ میں یونیورسٹی آف گجرات کی انتظامیہ، اساتذہ اور طالبعلموں کی جانب سے یونیورسٹی آف گجرات کی باگ ڈور سنبھالنے پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے انہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہم سب نئی امنگوں اور توقعات کے ساتھ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میں یونیورسٹی آف گجرات اور سول سوسائٹی کی جانب سے انہیں بھرپور تعاون کا یقین دلاتا ہوں تاکہ وہ گجرات یونیورسٹی کو عالمی معیار کی یونیورسٹی بنانے کا فریضہ احسن طریقے سے سر انجام دے سکیں اور اس ادارے کو استحکام بخش کر قومی تقاضوں سے ہم آہنگ اعلیٰ تعلیم کا مرکز بنا سکیں۔ اس موقع پر یہ بات دہرانے میں بھی کوئی عار نہیں کہ اس جامعہ نے تحقیقی، تخلیقی اور جدت طرازی میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ایک عشرے سے کم عرصے میں یہ جامعہ ملک کی ممتاز جامعات کی صف میں شامل ہو چکی ہے ۔ 20 ہزار سے زیادہ طالبعلموں کی حامل درس گاہ کے زیر انتظام 38 تعلیمی شعبے کام کر رہے ہیں۔ اس کا اپنا شاندار بنیادی ڈھانچہ ، چار رکن کالج، مختلف شہروں میں چار ذیلی کیمپس او رایک سو کے لگ بھگ ملحقہ کالجز ہیں۔ 43 کمپیوٹر لیبز، 57 سائنس لیبارٹریز اور بڑی مرکزی لائبریری بھی نمایاں ہیں۔ اس جامعہ نے کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے ضمن میں ثقافتی ، تہذیبی، مذہبی ، فنی اور ادبی میدانوں میں سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر مکالمے اور اجتہادی فکر کو خوب فروغ دیا ہے ۔ ایک سو کے قریب عالمی اور قومی کانفرنسوں، ورکشاپس، سیمینارز اور سمپوزیم کی میزبانی کی۔ تعلیم و ترقی کے اس قابل فخر حاصل کے باوجود مجھے رابرٹ براﺅننگ کی نظم "Rabbi Bin Ezra" کی آفاقی سطور یاد آرہی ہیں کہ "Grow old along with me! The best is yet to be" جی ہاں جو بہتر ہے وہ ابھی آنا ہے ۔ جامعہ گجرات اللہ کے فضل و کرم سے ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں ایک بہترین لائحہ عمل مرتب کر کے ،علمی مواد کو دستاویزی شکل دے کر ،نظم و ضبط کے قوانین کی نوک پلک سنوار کے نئی منزلوں کی طرف آگے بڑھ سکتی ہے ۔ پیشہ وارانہ ترقی او رنشوونما کے لیے مقابلے بازی کا رجحان پیدا کر کے عظمتوں کو اور زیادہ یقینی بنا سکتے ہیں۔ بلاشبہ بہترین طرز عمل، اخلاقی تربیت اور پیشہ وارانہ اخلاقیات کے فروغ سے ہم اپنی سر بلندی کا ہدف اور زیادہ شاندار طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں ۔ انڈسٹری اور اکڈیمیا لنکجز کو ثمر آور بنا کر قومی معیشت و معاشرت میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ جامعہ گجرات کی انتظامیہ نے بنیادی ڈھانچہ قائم کیا اور متحرک علمی و تحقیقی عظمت کو فروغ دینے کا مقصد طالبعلموں کی علمی و فکری مہارت و تربیت سے حاصل کیا ۔ اس نصب العین کا فریضہ اب ایک درد مند دل رکھنے والے محب وطن استاد اور باصلاحیت منتظم کو سونپ دیا گیا ہے ۔ ٹی ایس ایلیٹ کی فلسفیانہ نظم "Brunt Norton" کی سطور میری بات کی تشریح کے لیے ضروری ہیں کہ ”حال اور ماضی دونوں ہی مستقبل میں موجود ہیں اور مستقبل ماضی میں پنہاں ہیں ۔ 
اس تناظر میں ڈاکٹر ضیاءالقیوم صاحب نے ایک بڑے میدان میں پاﺅں رکھے ہیں جو ان کے لیے بڑا چیلنج ہے تاہم ایک متحرک شخصیت کے مالک جانشین کے طور پر ان کی صلاحیتیں ایسی ہیں کہ وہ مشکلات کا حل تلاش کر سکیں گے۔ ان کی راہنمائی میں ہمارا ادارہ مستحکم سے مستحکم ہوتا جائے گا ۔ مجھے یقین ہے کہ خلوص نیت اور فضل ربی کے حامل ڈاکٹر ضیاءالقیوم کی قیادت میں یونیورسٹی آف گجرات کی علمی روایات مزید مضبوط ہوتی جائیں گی اور نئی اقدار پرانی اقدار سے جڑی رہیں گی اور ارتقاءتسلسل کا حامل ہو گا ۔ ہم سب پر امید ہیںکہ نئے وائس چانسلر صاحب کی دیانت ، صداقت ، میرٹ اور انصاف کے واضح تصور پر مبنی قیادت سے نئی راہوں او رمنزلوں کی تسخیر ہو گی اور پیشہ وارانہ عظمتوں کا حصول ممکن ہو سکے گا ۔ جامعہ کے قابل اعتماد سربراہ یقیناً یونیورسٹی کی ترقی اور سربلندی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے حقیقت پسندانہ عملیت کا راستہ اپنائیں گے ۔ قوی امید ہے کہ ڈاکٹر ضیاءالقیوم صاحب کی ملنسار بردباری انکی ہمدردانہ فطرت، مسائل کو حل کرنے والے مزاج اور ترقی کے تصور پر مبنی فکر و عمل سے یونیورسٹی میں کام کرنے والوں کے درمیان پر جوش تعلق جنم لے گا اور کام کرنے اور کارکردگی دکھانے والا ماحول پیدا ہو گا یعنی ایک ایسا ماحول جس میں ہر کوئی اس مادر علمی کی بلندی اور عظمت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔ اس ادارہ نے ابھی طویل مسافت طے کرنی ہے اور یہ سفر ضیائے قیوم کی موجودگی میں آساں سے آساں تر ہو جائے گا۔ میں ڈاکٹر ضیاءالقیوم کا خطہ یونان کی شہرت رکھنے والے شہر گجرات میں خیر مقدم کرتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ کا رلائل نے اپنی تحریر 'Past and Present' میں کہا ہے کہ :۔ 
رحمت ہوئی اس شخص پر جسے اپنا کام مل گیا 
اسے چاہیے کہ وہ پھر کسی اور نعمت کا تقاضا نہ کرے 
ایک انگریز شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ :۔ 
Work apace, apace, apace
Honest labour bears a lovely face